دشت میں پھر کسی مجنوں کی پزیرائی ہوئی ------------ اختر عبدالرزاق

مغزل

محفلین
غزل

دشت میں پھر کسی مجنوں کی پزیرائی ہوئی
ہم نے صحراؤں میں دیکھی ہے بہار آئی ہوئی

زندگی تھی ہی نہیں پاس تو کیا لے جاتی
موت بھی گزری مرے پاس سے گھبرائی ہوئی

جو زمیں پاؤں سے ٹکرائی وہ گردش میں رہی
جو ہوا گزری مرے سر سے وہ سودائی ہوئی

کوئی گن ہے نہ کوئی حسن و کشش ہے مجھ میں
اور سمجھتا ہوں کہ دنیا مری شیدائی ہوئی

دیکھ پایا نہ میں اس چہرے کے پیچھے چہرہ
کیسا بینا ہوں، بھلا یہ کوئی بینائی ہوئی

راکھ ہوجاﺅں گا یا اس میں بنوں گا کندن
میں نے اک آگ جو سینے میں ہے دہکائی ہوئی

زندگی نے جو دیا کس کو دکھاتا اختر
پھول مرجھائے ہوئے، چاندنی گہنائی ہوئی

اختر عبدالرزاق
 

ش زاد

محفلین
غزل

دشت میں پھر کسی مجنوں کی پزیرائی ہوئی
ہم نے صحراؤں میں دیکھی ہے بہار آئی ہوئی

زندگی تھی ہی نہیں پاس تو کیا لے جاتی
موت بھی گزری مرے پاس سے گھبرائی ہوئی

جو زمیں پاؤں سے ٹکرائی وہ گردش میں رہی
جو ہوا گزری مرے سر سے وہ سودائی ہوئی

کوئی گن ہے نہ کوئی حسن و کشش ہے مجھ میں
اور سمجھتا ہوں کہ دنیا مری شیدائی ہوئی

دیکھ پایا نہ میں اس چہرے کے پیچھے چہرہ
کیسا بینا ہوں، بھلا یہ کوئی بینائی ہوئی

راکھ ہوجاﺅں گا یا اس میں بنوں گا کندن
میں نے اک آگ جو سینے میں ہے دہکائی ہوئی

زندگی نے جو دیا کس کو دکھاتا اختر
پھول مرجھائے ہوئے، چاندنی گہنائی ہوئی

اختر عبدالرزاق

حضور کیا عمدہ غزل ہے ہر شعر لاجواب ہے بہت شکریہ مغل جی
 
Top