دشتِ صدا - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
کیسی ہے رہگزار وہ دیکھیں گے جا کے اب اسے
بیت گئے برس بہت، دیکھا تھا ہم نے جب اسے

جاگے کا خوان ہجر سے آئے گا لوٹ کر یہیں
دیکھیں گے خوف و شوق سے روزنِ در سے سب اسے

صحرا نہیں ہے شہر ہے، اور بھی لوگ ہیں یہاں
چاروں طرف مکان ہیں، اتنا ہے ہوش کب اسے

کہنے کو بات کچھ نہیں، جانا ہے اسکو تجھ کو بھی
کیوں رو کھڑا ہے راہ میں روک کے بے سبب اسے

باغوں میں جا اے کوش نواً آئی بسنت کی ہوا
زرد ہُوا ہے بن عجب، جادو چڑھا رجب اسے

اک اک ورق ہے آبِ زر تیری غزل کا منیرؔ
جب یہ کتاب ہو چکے جا کے دکھانا تب اسے
 

الف عین

لائبریرین
اُگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ

گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ہِلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ

بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ

مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ

چمک زر کی اسے آخر مکانِ خاک میں لائی
بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہپے اور سفر آہستہ آہستہ
 

الف عین

لائبریرین
سارے منظر ایک جیسے، ساری باتیں ایک سی
سارے دن ہیں ایک سے اور ساری راتیں ایک سی

بے نتیجہ، بے ژمر، جنگ و جدل سود و زیاں
ساری جیتیں ایک سی اور ساری ماتیں ایک سی

سب ملاقاتوں کا مقصد کاروبارِ زر گری
سب کی دہشت ایک جیسی، سب کی گھاتیں ایک سی

اب کسی میں اگلے وقتوں کی وفا باقی نہیں
سب قبیلے ایک سے ہیںساری ذاتیں ایک سی

ہوں اگر زیرِ زمیں تو فائدہ ہونے کا کیا
سنگ و گوہر ایک ہیں پھر ساری دھاتیں ایک سی

ایک ہی رخ کی اسیری خواب ہے شہروں کا اب
ان کے ماتم ایک سے، ان کی براتیں ایک سی

اے منیرؔ آزاد ہو اس سحرِ یک رنگی سے دور
ہو گئے سب رنگ یکساں، سب نباتیں ایک سی
 

الف عین

لائبریرین
شام کے مسکن میں ویراں مے کدے کا در کھلا
باب گزری صحبتوں کا خواب کے اندر کھلا

کچھ نہ تھا جز خوابِ وحشت وہ وفا اس عہد کی
راز اتنی دیر کا اس عمر میں آ کر کھلا

بن میں سرگوشی ہوئی آثارِ ابر و باد سے
بندِ غم سے جیسے اک اشجار کا لشکر کھلا

جگمگا اُٹھّا اندھیرے میں مری آہٹ سے وہ
یہ عجب اُس بُت کا میری آنکھ پر جوہر کھلا

سبزۂ نو رستہ کی خوشبو تھی ساحل پر منیرؔ
بادلوں کا رنگ چھتری کی طرح سر پر کھلا
 

الف عین

لائبریرین
ابھی مجھے اک دشتِ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک مسافت ختم ہوئی ہے، ایک سفر ابھی کرنا ہے

گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے

ڈر جانا ہے دشت و جبل کو تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے

یہ تو ابھی آغاز ہے جیسے اس پنہائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے، رنگ نے اور نکھرنا ہے

جیسے زر کی پیلاہٹ میں موجِ خون اترتی ہے
زہرِ زر کے تند نشے نے دیدہ و دل میں اترنا ہے
 

الف عین

لائبریرین
غیروں سے مل کے ہی سہی، بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا

جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر
یہ شہرِ خوف خود سے جگر چاک تو ہوا

یہ تو ہوا کہ آدمی پہنچا ہے ماہ تک
کچھ بھی ہوا، وہ واقفِ افلاک تو ہوا

اس کشمکش میں ہم بھی تھکے تو ہیں اے منیرؔ
شہرِ خدا ستم سے مگر پاک تو ہوا
 

الف عین

لائبریرین
امتحاں ہم نے دئے اس دارِ فانی میں بہت
رنج کھینچے ہم نے اپنی لامکانی میں بہت

وہ نہیں اس سا تو ہے خوابِ بہارِ جاوداں
اصل کی خوشبو اڑی ہے اس کے ثانی میں بہت

رات کے دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت

کوئلیں کوکیں بہت دیوارِ گلشن کی طرف
چاند دمکا حوض کے شفّاف پانی میں بہت

اس کو یادیں تھیں کیا اور کس جگہپ پر رہ گئیں
تیز ہے دریائے دل اپنی روانی میں بہت

آج اس محفل میں تجھ کو بولتے دیکھا منیرؔ
تو کہ جو مشہور تھا یوں بے زبانی میں بہت
 

الف عین

لائبریرین
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی

زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی

اس سے ملنا وہ خوابَ ہستی میں
خواب معدوم، حسرتیں باقی

بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے
رہ گئیں ان کی رنگتیں باقی

جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی

وہ تو آ کے منیر جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی
 

الف عین

لائبریرین
بارشوں میں اس سے جا کے ملنے کی حسرت کہاں
کوکنے دو کوئلوں کو اب مجھے فرصت کہاں
جی تو کہتا ہے کہ اس کو ساتھ ہی رکھّیں مگر
اپنے پاس اس حسنِ عیش انگیز کی قیمت کہاں
تلخ اس کو کر دیا اربابِ قریہ نے بہت
ورنہ اک شاعر کے دل میں اس قدر نفرت کہاں
روک سکتے تھے اسے ہم ابتدا کے دور میں
اب ہمیں دیوانگیِ شہر پر قدرت کہاں
دیکھتا ہوں ہر طرف شاید دھائی دے کبھی
پر فراخِ دشت میں آدم کی وہ سورت کہاں
ایک منزل یہ بھی تھی خوابوں کی ورنہ اے منیرؔ
میں کہاں اور اس دیار ِ غیرکی غربت کہاں
 

الف عین

لائبریرین
ڈرے ہوؤں کو مگر اعتبار کس کا تھا
تمام عمر ہمیں انتظار کس کا تھا

اُڑا غبار ہوا سے تو راہ خالی تھی
وہ کون شخص تھا، اس میں غبار کس کا تھا

لیے پھرا جو مجھے در بدر زمانے میں
خیال تجھ کو دلِ بے قرا رکس کا تھا

روش سے ہٹ کے بنے اک مکانِ نو کے قریب
وہ خوں تھا کس کا، وہ پھولوں کا ہار کس کا تھا

یہ جبرِ مرگِ مسلسل ہی زندگی ہے منیرؔ
جہاں میں اس پہ کبھی اختیار کس کا تھا
 

الف عین

لائبریرین
کیسی کیسی بے ثمر یادوں کے ہالوں میں رہے
ہم بھی اتنی زندگی کیسے وبالوں میں رہے

اک نظر بندی کا عالم تھا نگر کی زندگی
قید میں رہتے تھے جب تک شہر والوں میں رہے

ہم اگر ہوتے تو ملتے تجھ سے بھی جانِ جہاں
خواب تھے ناپید دنیا کے ملالوں میں رہے

وہ چمکنا برق کا دشت و در و دیوار پر
سارے منظر ایک پل س کے اجالوں میں رہے
کیا تھیں وہ باتیں جو کہنا چاہتے تھے وقتِ مرگ
آخری دم یار اپنے کن خیالوں میں رہے

دور تک مسکن تھے بن ان کی صداؤں کے منیرؔ
دیر تک ان دیویوں کے غم شوالوں میں رہے
 

الف عین

لائبریرین
کوئی حد نہیں ہے کمال کی
کوئی حد نہیں ہے جمال کی

وہی قرب و دور کی منزلیں
وہی شام خواب و خیال کی

نہ مجھی ہی اس کا پتہ کوئی
نہ اسے خبر مرے حل کی

یہ جواب میری صدا کا ہے
کہ صدا ہے اس کے سوال کی


وہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی

یہ نمازِ عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی

ہے منیرؔ صبحِ سفر نئی
گئی بات شب کے ملال کی
 

الف عین

لائبریرین
کتابِ عمر کا اک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا، اک عذاب ختم ہوا

ہویہ نجات سفر میں فریبِ صحرا سے
سراب ختم ہوا، اضطراب ختم ہوا

برس کے کھل گیا بادل ہوائے شب کی طرح
فلک پہ برق کا وہ پیچ و تاب ختم ہوا

فراغِ کوہ و بیاباں ہے اور شامِ سکوں
صعوبتِ غمِ دنیا کا خواب ختم ہوا

جوابدہ نہ رہا میں کسی کے آگے منیرؔ
وہ اک سوال اور اس کا جواب ختم ہوا
 

الف عین

لائبریرین
اسیرِ خواہشِ قیدِ مقام تو ہے کہ میں
نظامِ شمس و قمر کا غلام تو ہے کہ میں

ہے کون دونوں میں ظاہر، ہے کون پردے میں
چھپا ہوا ہے جو نظروں سے دام تو ہے کہ میں

نمائشِ مہِ کامل پہ کس کا سایہ ہے
یہ اس کے چار طرف ابرِ شام تو ہے کہ میں

اُڑا ہے رنگِ در و بام باد و باراں سے
نگر کی اس گھنی چُپ میں مدام تو ہے کہ میں

مکان دور سے آتی ہے اک صدا سی منیرؔ
بھلا دیا جسے سب نے وہ نام تو ہے کہ میں
 

الف عین

لائبریرین
افق کو افق سے ملا دینے والے
یہ رستے ہیں کتنے تھکا دینے والے

یہ دن ہیں نئے اپنی خاصیّتوں میں
کئی نام دل سے بھلا دینے والے

بتا دینا عمریں اسے کھوجنے میں
جو مل جائے اس کو گنوا دینے والے

پھر اپنے کئے پر پشیمان رہنا
یہ ہم ہی ہیں خود کو سزا دینے والے
 

الف عین

لائبریرین
سفر میں ہیں مسلسل ہم کہیں آباد بھی ہوں گے
ہوئے ناشاد جو اتنے تو ہم دل شاد بھی ہوں گے

زمانے کو برا کہتے نہیں ہم ہی زمانہ ہیں
کہ ہم جو صید لگتے ہیں ہمیں صیاد بھی ہوں گے

بھلا بیٹھے ہیں وہ ہر بات اس گزرے زمانے کی
مگر قصے کچھ اس موسم کے ان کو یاد بھی ہوں گے

ہر اک شئے ضد سے قائم ہے جہانِ خوابِ ہستی میں
جہاں پر دشت ہے آثارِ ابرو باد بھی ہوں گے

منیرؔ افکار تیرے جو یہاں برباد پھرتے ہیں
کسی آتے سمے کے شہر کی بنیاد بھی ہوں گے
 

الف عین

لائبریرین
کسی خوشی کے سراغ جیسا
وہ رخ ہے ہستی کے باغ جیسا

بہت سے پردوں میں نور جیسے
حجابِ شب میں چراغ جیسا

خیال جاتے ہوئے دنوں کا
ہے گم حقیقت کے داغ جیسا

اثر ہے اس کی نظر کا مجھ پر
شرابِ گل کے ایاغ جیسا

منیرؔ تنگی میں خواب آیا
کھلی زمیں کے فراغ جیسا
 

الف عین

لائبریرین
کھل گئے ہیں بہار کے رستے
ایک دل کش دیار کے رستے

ہم بھی پہنچے کسی حقیقت تک
اک مسلسل خمار کے رستے

منزل عشق کی حدوں پر ہیں
دائمی انتظار کے رستے

اس کے ہونے سے یہ سفر بھی ہے
سارے رستے ہیں یار کے رستے

جانے کس شہر کو منیر گئے
اپنی بستی کے پار کے رستے
 

الف عین

لائبریرین
لمحہ لمحہ دم بہ دم
بس فنا ہونے کا غم

ہے خوشی بھی اس جگہ
اے مری خوئے الم

کیا وہاں ہے بھی کوئی
اے رہِ ملک عدم

رونق اصنام سے
خم ہوئے غم کے علم

یہ حقیقت ہے منیر
خواب میں رہتے ہیں ہم
 

الف عین

لائبریرین
خلش ہجرِ دائمی نہ گئی
تیرے رخ سے یہ بے رخی نہ گئی

پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی

سر سے سودا گیا محبت کا
دل سے پر اس کی بے کلی نہ گئی

اور سب کی حکائتیں کہہ دیں
بات اپنی کبھی کہی نہ گئی

ہم بھی گھر سے منیر تب نکلے
بات اپنوں کی جب سہی نہ گئی
 
Top