دشتِ صدا - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
خیال یکتا میں خواب اتنے
سوال تنہا جواب اتنے

کبھی نہ خوبی کا دھیان آیا
ہوئے جہاں میں خراب اتنے

حساب دینا پڑا ہمیں بھی
کہ ہم جو تھے بے حساب اتنے

بس اک نظر میں ہزار باتیں
پھر اس سے آگے حجاب اتنے

مہک اٹھے رنگ سرخ جیسے
کھلے چمن میں گلاب اتنے

منیرؔ آئے کہاں سے دل میں
نئے نئے اضطراب اتنے
 

الف عین

لائبریرین
ہجر شب میں اک قرار غائبانہ چاہیے
غیب میں اک صورت ماہِ شبانہ چاہیے
سن رہے ہیں جس کے چرچے شہر کی خلقت سے ہم
جا کے اک دن اس حسین کو دیکھ آنا چاہیے
اس طرح آغاز شاید اک حیات نو کا ہو
پچھلی ساری زندگی کو بھول جانا چاہیے
وہ جہاں ہی دوسرا ہے وہ بتِ دیر آشنا
اس جہاں میں اس سے ملنے کو زمانہ چاہیے
کھینچتی رہتی ہے دائم اس کو باہر کی ہوا
اس کو تو گھر سے نکلنے کا بہانہ چاہیے
بستیاں نا متفق ہیں میری باتوں سے منیر
ان میں مجھ کو ایک حرف محرمانہ چاہیے
 

الف عین

لائبریرین
ہے میرے گرد کثرتِ شہر جفا پرست
تنہا ہوں اس لیے ہوں میں اتنا انا پرست

صحنِ بہار گل میں کفِ گل فروش ہے
شامِ وصالِ یار میں دستِ حنا پرست

تھا ابتدائے شوق میں آرامِ جاں بہت
پر ہم تھے اپنی دھن میں بہت انتہا پرست

بامِ بلند یار پہ خاموشیاں سی ہیں
اس وقت وہ کہاں ہے وہ یارِ ہوا پرست

گمراہیوں کا شکوہ نہ کر اب تو اے منیر
تو ہی تھا سب سے بڑھ کے یہاں رہنما پرست
 

الف عین

لائبریرین
دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف
یاد پیچھے کھینچتی ہے آس آگے کی طرف

چھوڑ کر نکلے تھے جس کو دشت غربت کی طرف
دیکھنا شام و سحر اب گھر کے سائے کی طرف

ہے ابھی آغاز دن کا اس دیار قید میں
ہے ابھی سے دھیان سارا شب کے پہرے کی طرف

صبح کی روشن کرن گھر کے دریچے پر پڑی
ایک رخ چمکا ہوا میں اس کے شیشے کی طرف

دوریوں سے پر کشش ہیں منزلیں دونوں منیرؔ
میں رواں ہوں خواب میں ناپید قریے کی طرف
 

الف عین

لائبریرین
ہے اس گل رنگ کا دیدار ہونا
کہ جیسے خواب سے بیدار ہونا

بتاتی ہے مہک دست حنا کی
کسی در کا پس دیوار ہونا

اسے رکھتا ہے صحراؤں میں حیراں
دل شاعر کا پر اسرار ہونا

کمالِ شوق کا حاصل یہی ہے
ہمارا شہر سے بیزار ہونا

فراق آغاز ہے ان ساعتوں کا
ہے آخر جن کا وصلِ یار ہونا

یہی ہونا تھا آخر دشت غم کو
ہمارے ہاتھ سے گلزار ہونا

محبت کا سبب ہے بے نیازی
کشش اس کی ہے بس دشوار ہونا

منیرؔ اچھا نہیں لگتا یہ تیرا
کسی کے ہجر میں بیمار ہونا
 

الف عین

لائبریرین
کتے دن اس بت کو اپنا غم سنانے میں لگے
سال کتنے اس دنوں کے آنے جانے میں لگے

راستے ہی راستے تھے آخر منزل تلک
رنج کتنے اک خوشی کا خواب آنے میں لگے

یاد آئی صبح کوئی ابتدائے عمر کی
وہ گلِ تازہ کی صورت مسکرانے میں لگے

ہے بسنت آنے کو اڑتی پھر رہی ہیں باغ میں
تتلیوں کو رنگ کیسے اس زمانے میں لگے

کس محبت سے ہوا تعمیر مدت میں منیرؔ
چند لمحے جو نگر کی خاک اڑانے میں لگے
 

الف عین

لائبریرین
اپنی ہی تیغِ ادا سے آپ گھائل ہوگیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہوگیا

وہ ہوا تھی شام ہی سے رستے خالی ہوگئے
وہ گھٹا برسی کے سارا شہر جل تھل ہوگیا

میں اکیلا اور سفر کی شام رنگوں میں‌ڈھلی
پھر یہ منظر میری آنکھوں سے بھی اوجھل ہوگیا

اب کہاں ہوگا وہ اور ہوگا بھی تو ویسا کہاں
سوچ کر یہ بات جی کچھ اور بوجھل ہوگیا

حُسن کی دہشت عجب تھی وصل کی شب میں منیر ؔ
ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہوگیا
 

الف عین

لائبریرین
میری ساری زندگی کو بےثمر اُس نے کیا
عُمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا

میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزورتر اُس نے کیا

راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے دربدر اُس نے کیا

شہر میں وہ معتبر میری گواہی میں ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اُس نے کیا

شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اُس نے منیرؔ
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اُس نے کیا
 
Top