دشتِ صدا - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
کس انوکھے دشت میں ہو اے غزالانِ ختن
یاد آتا ہے تمھیں بھی اب کبھی اپنا وطن

خوں رلاتی ہے مجھے اک اجنبی چہرے کی یاد
رات دن رہتا ہے آنکھوں میں وہی لعلِ یمن

عطر میں ڈوبی ہوئی ہے کوئے جاناں کی ہوا
آہ اس کا پیرہن اور اس کا صندل سا بدن

رات اب ڈھلنے لگی ہے بستیاں خاموش ہیں
تو مجے سونے نہیں دیتی مرے جی کی جلن

یہ بھبھوکا لال مکھ ہے اس پری وش کا منیرؔ
یا شعاعِ ماہ سے روشن گلابوں کا چمن
 

الف عین

لائبریرین
دیتی نہیں اماں جو زمیں، آسماں تو ہے
کہنے کو اپنے دل سے کوئی داستاں تو ہے

یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے

اک چیل اک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے

آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیرؔ
پردہ سا کوئی میرے ترے درمیاں تو ہے
 

الف عین

لائبریرین
وہ اک خیال جو اس شوخ کی نگاہ میں تھا
اسی کا عکس مرے دل کی سرد آہ میں تھا

اسی طرح وہ پرانی بہار باقی تھی
عجیب حسن سا اس حزنٕ بارگاہ میں تھا

شفق کا رنگ جھلکتا تھا لال شیشوں میں
تمام اجڑا مکاں شام کی پناہ میں تھا

میں اس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں
مزہ تو سارا اسی رسم کے نباہ میں تھا

سوادِ شہر پہ ہی رک گیا تھا میں تو منیر
اور ایک دشتِ بلا میرے گھر کی راہ میں تھا
 

الف عین

لائبریرین
ابر میں برق کے گلزار دکھاتے اس کو
کاش اس رات کبھی جا کے جگاتے اس کو

شہ نشینوں پہ ہوا پھرتی ہے کھوئی کھوئی
اب کہیں ہیں وہ مکیں یہ تو بتاتے اس کو!!

وہ جو پاس آ کے یوں ہی چُپ سا کھڑا رہتا تھا
اس کی تو خو تھی یہی، تم ہی بلاتے اس کو

غم گساری کی طلب تھی یہ محبّت تو نہ تھی
درد جب دل میں اٹھا تھا تو چھپاتے اس کو

فائدہ کیا ہے اگر اب وہ ملے بھی تو منیرؔ
عمر تو بیت گئی راہ پہ لاتے اس کو
 

الف عین

لائبریرین
یہ بے صدا سنگ و در اکیلے
اجاڑ سنسان گھر اکیلے

چلے جو پی کے تو مستیوں میں
گئے کہاں بے خبر اکیلے

مہیب بن تھا چہار جانب
کٹا تھا سارا سفر اکیلے

ہوا سی رنگوں میں چل رہی ہے
کھڑے ہیں وہ بام پر اکیلے

ہے شام کی زرد دھوپ سر پر
ہوں جیسے دن میں نگر اکیلے

منیرؔ گھر سے نکل کے ہم بھی
پھرے بہت در بدر اکیلے
 

الف عین

لائبریرین
اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے، جنگل دہل گیا

سوہا ہوا تھا شہر کسی سانپ کی طرح
میں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیا

خواہش کی گرمیاں تھیں عجب ان کے جسم میں
خوباں کی صحبتوں میں مرا خون جل گیا

تھی شام زہر رنگ میں دوبی ہوئی کھڑی
پھر ایک ذرا سی دیر میں منظر بدل گیا

مدّت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
 

الف عین

لائبریرین
صحن کو چمکا گئی، بیلوں کو گیلا کر گئی
رات بارش کی فلک کو اور نیلا کر گئی

دھوپ ہے اور زرد پھولوں کے شجر ہر راہ پر
اک ضیائے زہر سب سڑکوں کو پیلا کر گئی

کچھ تو اس کے اپنے دل کا درد بھی شامل ہی تھا
کچھ نشے کی لہر بھی اس کو سریلا کر گئی

بیٹھ کر میں لکھ گیا ہوں زخمِ دل کا ماجرا
خون کی اک بوند کاغذ کو رنگیلا کر گئی
 

الف عین

لائبریرین
اس شہرِ سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اُڑا دینا چاہیے

ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے

حد سے گزر گئی ہے یہاں رسمِ قاہری
اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہیے

اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے

گُم ہو چلے ہو تم تو بہت خود میں اے منیرؔ
دنیا کو کچھ تو اپنا اتا پتا دینا چاہیے
 

الف عین

لائبریرین
دل خوف میں ہے عالمِ فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
ہے بابِ شہر ِمردہ گزرگاہِ بادِ شام
میں چُہ ہوں اس جگہ کی گرانی کو دیکھ کر
ہِل سی رہی ہے حدِّ سفر فرطِ شوق سے
دھندلا رہے ہیں حرف معانی کو دیکھ کر
آزردہ ہے مکان میں خاکِ زمین بھی
چیزوں میں شوقِ نقلِ مکانی کو دیکھ کر
ہے آنکھ سرخ اس لبِ لعلیں کے عکس سے
دل خوں ہے اس کی شعلہ بیانی کو دیکھ کر

پردہ اٹھا تو جیسے یقیں بھی اُٹھا منیرؔ
گھبرا اٹھا ہوں سامنے ثانی کو دیکھ کر
 

الف عین

لائبریرین
تند نشٓہ خمار سا نکلا
آسماں بھی غبار سا نکلا

کیا ندھیری میں روشنی سی رہی
رنگِ لب کا شرار سا نکلا

تلخیِ غم نکل گئی دل سے
جسم سے اک بخار سا نکلا

دیکھ کر حسنِ دشت حیراں ہوں
یہ تو منظر دیار سا نکلا

میں ہوں بیمارِ وصلِ گل سے منیرؔ
شوقِ دل مرگ زار سا نکلا
 

الف عین

لائبریرین
اس شہر کے یہیں کہیں ہونے کا رنگ ہے
اس خاک میں کہیں کہیں سونے کا رنگ ہے

پائیں چمن ہے خورد رو درختتوں کا جھنڈ سا
محرابِ در پہ اس کے نہ ہونے کا رنگ ہے

طوفانِ ابر و بادِ بلا ساحلوں پہ ہے
دریا کی خامشی میں ڈبونے کا رنگ ہے

اس عہد سے وفا کا صلہ مرگِ رائیگاں
اس کی فضا میں ہر گھڑی کھونے کا رنگ ہے

سرخی ہے جو گلاب سی آنکھوں میں اے منیرؔ
خارِ بہار دل میں چبھونے کا رنگ ہے
 

الف عین

لائبریرین
شبِ وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا
کمالِ فتح میں یہ ڈر کا باب کیوں آیا

دلوں میں اب کے برس اتنے وہم کیوں جاگے
بلادِ صبر میں اک اضطراب کیوں آیا

ہے آب گل پہ عجب اس بہارِ گزراں میں
چمن میں اب کے گلِ بے حساب کیوں آیا

اگر وہی تھا تو رخ پردہ بے رخی کیا تھی
ذرا سے ہجر میں یہ انقلاب کیوں آیا

بس ایک ہوٗ کا تماشہ تمام سمتوں میں
مری صدا کے سفر میں سراب کیوں آیا

میں خوش نہیں ہوں بہت دور اس سے ہونے پر
جو میں نہیں تھا تو اس پر شباب کیوں آیا

اُڑا ہے شعلۂ برف ابر کی فصیلوں پر
یہ اس بلا کے مقابل سحاب کیوں آیا

یقین کس لیے اس پر سے اٹھ گیا ہے منیرؔ
تمھارے سر پہ یہ شک کا عذاب کیوں آیا
 

الف عین

لائبریرین
قرارِ ہجر میں اس کے شراب میں نہ ملا
وہ رنگ اس گلِ رعنا کا خواب میں نہ ملا

عجب کشش تھی نظر پر سرابِ صحرا میں
گہر مگر وہ نظر کا اس آب میں نہ ملا

بس ایک ہجرتِ دائم، گھروں زمینوں میں
نشانِ مرکزِ دل اضطراب میں نہ ملا

سفر میں دھوپ کا منظر تھا اور، سائے کا اور
ملا جو مہر میں مجھ کو، سحاب میں نہ ملا

ہوا نی پیدا وہ شعلہ جو علم سے اٹھتا
یہ شہر مردہ صحیفوں کے باب میں نہ ملا

مکاں بنا نہ یہاں اس دیارِ شر میں منیرؔ
یہ قصرِ شوق نگر کے عذاب میں نہ ملا
 

الف عین

لائبریرین
ہری ٹہنیوں کے نگر پر گئے
ہوا کے پرندے شجر پر گئے
اک آسیبِ زر ان مکانوں میں ہے
مکیں اس جگہ کے سفر پر گئے
بہت دھند ہے اور وہ نقشِ قدم
خدا جانے کس رہگزر پر گئے
کہ جیسے ابھی تھا یہاں پر کوئی
گماں کیسے خوابِ سحر پر گئے
کئی رنگ پیدا ہوئے برق سے
کئی عکس دیوار و در پر گئے
وہی حسنِ دیوانہ گر ہر طرف
سبھی رخ اسی کے اثر پر گئے
منیرؔ آج اتنی اداسی ہے کیوں
یہ کیا سائے سے، بحر و بر پر گئے
 

الف عین

لائبریرین
چمن میں رنگِ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا

میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا

گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایۂ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا

خمارِ مے میں وہ چہری کچھ اور لگ رہا تھا
دمِ سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
 

الف عین

لائبریرین
شعاعِ مہر منور شبوں سے پیدا ہو
متاعِ خوابِ مسرّت غموں سے پیدا ہو
مری نظر سے جو گم ہو گیا وہ ظاہر ہو
صراطِ شہرِ صفا الجھنوں سے پیدا ہو
گلِ مراد! سرِ دشتِ نامرادی کھِل!
رخِ نگارِ وفا محملوں سے پیدا ہو
گماں نہیں مجھے جس سمت سے،وہاں سے آ
جو میں نے دیکھی نہیں، ان جگہوں سے پیدا ہو
ہویدا ہو دمِ زندہ ہجومِ مردہ سے
اے اصل شوق غلط خواہشوں سے پیدا ہو
مثالِ گوسِ قزح بارشوں کے بعد نکل
جمالِ رنگ کھلے منظروں سے پیدا ہو
فروغِ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیرؔ
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو
 

الف عین

لائبریرین
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتّوں کا ذکر جو رستے میں مر گئیں

کر یاد ان دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں

صر صر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ
کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں

کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں

تنہا اُجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیرؔ
وہ زرفشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں
 

الف عین

لائبریرین
بس ایک ماہِ جنوں خیز کی ضیا کے سوا
نگر میں کچھ نہیں باقی رہا ہوا کے سوا

ہے ایک اور بھی صورت کہیں مری ہی طرح
اک اور شہر بھی ہے قریۂ صدا کے سوا

اک اور سمت بھی ہے اس سے جا کے ملنے کی
نشان اور بھی ہیں اک نشانِ پا کے سوا

مکان، زر، لبِ گویا، حدِ سپہر ق زمیں
دکھائی دیتا ہے سب کچھ یہاں خدا کے سوا

مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کی منیرؔ
عذاب مجھ پہ نہیں حرفِ مدّعا کے سوا
 
Top