دسمبر کے مہینے کا وہ شاید آخری دن تھا از نوید ہاشمی

نیرنگ خیال

لائبریرین
دسمبر کے مہینے کا وہ شاید آخری دن تھا
گذشتہ سال میں نے
محبت لفظ لکھا تھا
کسی کاغذ کے ٹکڑے پر
اچانک یاد آیا ہے
گذشتہ سال میں مجھ کو
کسی سے بات کرنی تھی
اسے کہنا تھا جانِ جاں
مجھے تم سے محبت ہے
مگر میں کہہ نہیں پایا
وہ کاغذ آج تک لپٹا پڑا ہے دُھول میں لیکن
کسی کو دے نہیں پایا
دسمبر پھر کے آیا ہے
دسمبر پھر کے جائے گا
دوبارہ چاہ کر بھی میں
محبت کر نہیں پایا
 
تمام مکرمی و محترمی اربابِ علم و دانش کو میرا محبتوں بھرا سلام قبول ہو...

شاید شاعر بزدل نہ ہو...
کیا پتہ مخدوم کسی الگ سوچ میں کچھ کہہ گیا ہو.

اب اِس شاعر کو کیا کہنا چاہیے...:disdain: ؟؟؟

تو نے غم خواہ مخواہ اس کا اٹھایا ہوا ہے
دل یہ ناداں تو کسی اور پہ آیا ہوا ہے

اس زمانے کو دکھانے کے لیے چہرے پر
ہم نے اک چہرۂ شاداب چڑھایا ہوا ہے

رات بھر چاند ستاروں سے سجاتے ہیں اسے
ہم نے جس گھر کو تصور میں بسایا ہوا ہے

ایک چہرہ جسے ہم نے بھی نہیں دیکھا کبھی
اپنی آنکھوں میں زمانے سے چھپایا ہوا ہے

سہل لگتا ہے تجھے کیا سفر شعر و سخن
عمر بھر دھوپ میں جھلسے ہیں تو سایہ ہوا ہے

ورد کرتے تھے کبھی جس کا شب و روز سلیمؔ
جانے کیا نام تھا اب دل نے بھلایا ہوا ہے
 

عدنان عمر

محفلین
نیا سال

آخری ہیں چند لمحے اِس دسمبر کے یہاں
اور مَیں تنہا تمہاری یاد سے لِپٹا ہُوا
ہر طرف کمرے میں بکھری ہے تمہاری بازگشت
اور اِک انجان خدشے سے یہ دل ڈرتا ہُوا
سوچتا ہوں جس طرح تم بِن گزارا ہے یہ سال
کیا برس اگلا بھی گزرے گا یونہی جلتا ہُوا
۔۔۔۔۔
فیصل فارانی
 
Top