محمود احمد غزنوی
محفلین
دریا
ایک مدھم سُروں کا نغمہ تھا۔ ۔ ۔ ۔میں محبّت کا ایک چشمہ تھا۔ ۔۔۔۔ ۔
دل کی گہرائیوں سے نکلا تھا۔ ۔ ۔۔ ۔
کئی ان دیکھی منزلوں کی طرف۔ ۔ ۔ ۔
میرا رُخ تھا، میں ایک جھرنا تھا۔ ۔ ۔ ۔
یونہی گرتا تھا اور ابھرتا تھا۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔
اک سہانا سفر میں کرتا تھا۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
چند ایسے ہی دن گذارے تھے۔۔۔۔
یونہی بے سمت میرے دھارے تھے
چلتے چلتے کچھ ایسی بات ہوئی۔ ۔ ۔ ۔
اک جگہ تم سے ملاقات ہوئی۔ ۔۔ ۔
زندگی پر پڑا ترا سایہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وادیءِ عشق میں چلا آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دن ڈھلا ایک نئی شام ہوئی۔ ۔ ۔ ۔
میری ہر لہر تیرے نام ہوئی۔ ۔ ۔ ۔
یونہی بے سمت میرے دھارے تھے
چلتے چلتے کچھ ایسی بات ہوئی۔ ۔ ۔ ۔
اک جگہ تم سے ملاقات ہوئی۔ ۔۔ ۔
زندگی پر پڑا ترا سایہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وادیءِ عشق میں چلا آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دن ڈھلا ایک نئی شام ہوئی۔ ۔ ۔ ۔
میری ہر لہر تیرے نام ہوئی۔ ۔ ۔ ۔
اب میں اک مست بہتا دریا تھا۔ ۔ ۔
تیرے بازو مرے کنارے تھے۔ ۔ ۔ ۔
میرے رستے ترے سہارے تھے۔ ۔ ۔ ۔
تیری آنکھیں ، مرے ستارے تھے۔ ۔ ۔
آسمانوں کا چاند چہرہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سنگ میرے جو سفر کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے چاہا کہ وقت تھم جائے۔ ۔۔۔
میری ہر لہر یہیں جم جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
لیکن اے دوست میں تو دریا تھا۔ ۔ ۔ ۔
چاروناچار مجھ کو بہنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
تجھ سے اک دن کنارہ کرنا تھا۔ ۔ ۔ ۔
میری ہر لہر یہیں جم جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
لیکن اے دوست میں تو دریا تھا۔ ۔ ۔ ۔
چاروناچار مجھ کو بہنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
تجھ سے اک دن کنارہ کرنا تھا۔ ۔ ۔ ۔
ناگہاں رات ڈھلی دن نکلا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تُو کسی اور راہ پہ چل نکلا۔ ۔ ۔ ۔۔۔
میں بھی صحراؤں میں نکل آیا۔ ۔ ۔
اپنے رستے بدل بدل آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کون کہتا ہے اب میں صحرا ہوں؟
اے مرے دوست میں تو دریا ہوں
اپنے دامن میں وسعتوں کو لئے۔ ۔
پیار کی بستیاں بساتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یونہی چپ چاپ سر جھکائے ہوئے۔ ۔
اپنی منزل کو رواں رہتا ہوں۔ ۔ ۔
اپنے مرکز کی طرف بہتا ہوں۔ ۔ ۔
جس میں اک روز مجھ کو گرنا ہے۔ ۔ ۔
اے مرے دوست میں تو دریا ہوں
اپنے دامن میں وسعتوں کو لئے۔ ۔
پیار کی بستیاں بساتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یونہی چپ چاپ سر جھکائے ہوئے۔ ۔
اپنی منزل کو رواں رہتا ہوں۔ ۔ ۔
اپنے مرکز کی طرف بہتا ہوں۔ ۔ ۔
جس میں اک روز مجھ کو گرنا ہے۔ ۔ ۔