درد کی نیلی رگیں - فرزانہ نیناں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
دوستو، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فرزانہ نیناں کی کتاب “درد کی نیلی رگیں“ کو میں برقیا رہا ہوں۔ کافی کام ہو چکا ہے اور تھوڑا سا باقی بچ گیا ہے۔ اس دھاگے پر آپ ان کے کلام سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں لیکن تبصرہ کے لئے اس دھاگے کو استعمال کیجئے گا۔ بہت شکریہ
بےبی ہاتھی
 

قیصرانی

لائبریرین
حمد

یارب نفس نفس میں ہے پنہاں ترا پیام
دنیا کا ذرہ ذرہ کرے ورد تیر ا نام
تیرےہی نور سےہیں فروزاں مہ و نجوم
روشن ہے آفتاب ہے د رخشاں مہ ِ تمام
سیراب سب ہوئےترےزمزم کےفیض سے
لوٹا نہیں ہے در سے ترےکوئی تشنہ کام
مل جائےمجھ کو ایک ہی سجدہ نصیب سے
گھر میں ترےجہاں ہے براہیم کا مقام
کر لےقبول ساری دعائیں جو دل میں ہیں
نیناں یہاں سےجائےگی ہرگز نہ تشنہ کام
 

قیصرانی

لائبریرین
نعت

دل مرےساتھ اب مدینےچل
چل گناہوں کےداغ دھونےچل
رات دن ہم جو کرتےرہتےہیں
اُن خطاؤں پہ آج رونے چل
آپ کے روضہء مقدس کا
کر طواف اور کونےکونےچل
آبِ زمزم کےپاک قطروں سے
اپنےاعمال کو بھی دھونےچل
خاکِ طیبہ بڑی مبارک ہے
اُس میں اپنی دعائیں بونےچل
بھرلے نیناں میں نور کےموتی
ان کو پلکوں میں پھر پرونے چل
 

قیصرانی

لائبریرین
درد کی نیلی رگیں یادوں میں

درد کی نیلی رگیں یادوں میں جلنےکے سبب
ساری چیخیں روک لیتی ہیں سنبھلنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں تو شور کرتی ہیں بہت
پیکرِ نازک میں اس دل کے مچلنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں برفاب بستر میں پڑی
ٹوٹ جاتی ہیں ترےخوابوں میں چلنےکےسبب
درد کی نیلی رگیں عمروں کےنیلے پھیر کو
زرد کرتی جاتی ہیں صحرا میں پلنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں ہاتھوں میں دوشیزاؤں کی
چوڑیاں تک توڑدیتی ہیں بکھرنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں ٹھنڈی ہوا سے اشک ریز
سر خ ہوتی رہتی ہیں آ نسو نگلنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں نیناں سمندر بن گئیں
ہجر کی راتوں کاپہلا چاند ڈھلنےکے سبب
 

قیصرانی

لائبریرین
مثال ِ برگ

مثال ِ برگ میں خود کو اڑانا چاہتی ہوں
ہوائے تند پہ مسکن بنانا چاہتی ہوں
وہ جن کی آنکھوں میں ہوتا ہے زندگی کا وبال
اسی قبیلے سے خود کو ملانا چاہتی ہوں
جہاں کےبند ہیں صدیوں سےمجھ پہ دروازے
میں ایک بار اسی گھر میں جانا چاہتی ہوں
ستم شعار کی چوکھٹ پہ عدل کی زنجیر
برائے داد رسی کیوں ہلانا چاہتی ہوں
نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت
گھڑی کو توڑ کےسب بھول جانا چاہتی ہوں
مسافتوں کو ملے منزل ِ طلب نیناں
وفا کی راہ میں اپنا ٹھکانہ چاہتی ہو ں
 

قیصرانی

لائبریرین
درد کی نیلی رگیں تہہ سے

درد کی نیلی رگیں تہہ سے اُبھر آتی ہیں
یاد کے زخم میں چنگاریاں در آتی ہیں
روز پرچھائیاں یادوں کی، پرندے بن کر
گھر کے پچھواڑے کے پیپل پہ اتر آتی ہیں
صورتیں بنتی ہیں چاہت کی یہ کس مٹی سی
بارہا مٹ کے بھی یہ با ردگر آتی ہیں
اودے اودےسےصفورےکی گھنی شاخوں سے
یاد کی سر مئی کرنیں سی گز ر آتی ہیں
روز کھڑکی سے قریب آم کے اس پیڑ کے پاس
طوطیاں چونچ میں لےلےکے سحر آ تی ہیں
اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں
گٹھڑیاں باندھ کے اس دل کےنگر آتی ہیں
جتنا بھی چاہوں تری راہ سے بچ کر نکلوں
تہمتیں اتنی زیادہ مرے سَر آتی ہیں
اتنی سی بات پہ اچھی نہیں شوریدہ سری
شام کو چڑیاں تو سب اپنے ہی گھر آتی ہیں
شرم سےالجھےدوپٹےکی جو کھولوں گر ہیں
دل کی نیناں رگیں سب کھلتی نظر آتی ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
روز دیکھا ہے
روز دیکھا ہے شفق سے وہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہےکہ تم میرے ہو ، میرے ہو نا
میں تو اک کانچ سے دریا میں بہی جاتی ہوں
کھنکھناتے ہوئے ہمراز مجھے سن لو نا
میں نے کانوں میں پہن لی ہے تمہاری آواز
اب مرے واسطے بیکار ہیں چاندی سونا
میری تنہائیاں چپکے سے سجا دو آکر
اک غزل تم بھی مرے نام کبھی لکھونا
روح میں گیت اترجاتے ہیں خوشبو کی طرح
گنگناتی سی کو ئی شام مجھے بھیجو نا
چاندنی اوس کےقطروں میں سمٹ جائیگی
روشنی اس کے سویرے میں کہیں ڈھونڈو نا!
پھر سے آنکھوں میں وہی رنگ سجا لے نیناں
کب سےخوابوں کو یہاں بھول گئی تھی بونا
 

قیصرانی

لائبریرین
ترےخیال سے

ترےخیال سےآنکھیں ملانے والی ہوں
سجے سروپ کا جادو جگانے والی ہوں
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
کسی کے لمس کی گرمی چرانے والی ہوں
اُسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا
رہٹ سے،چاہَ ، کا پانی پلانے والی ہوں
ذرا سی دیر میں برسے گا رنگ بادل سے
میں اب گھٹا کا پراندہ ہلانے والی ہوں
جہاں پہ آم کی گٹھلی دبی تھی بھوبھل میں
وہیں پہ اپنے دکھوں کو تپانے والی ہوں
اس اَلگنی پہ اکیلے لرزتے قطرے کو
اٹھا کے نیناں میں سرمہ بنانے والی ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
آدھی رات کے سپنے

آدھی رات کے سپنے شاید جھوٹے تھے
یا پھر پہلی بار ستارے ٹوٹے تھے
جس دن گھر سےبھاگ کےشہر میں پہنچی تھی
بھاگ بھری کےبھاگ اُسی دن پھوٹے تھے
مذہب کی بنیاد پہ کیا تقسیم ہوئی
ہمسایوں نے ہمسائے ہی لوٹے تھے
شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے جب چائے کے برتن چھوٹے تھے
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اُس ریشم کی شال پہ یاد کے بوٹے تھے
 

قیصرانی

لائبریرین
مرے خیال کے برعکس

مرے خیال کے برعکس وہ بھی کیسا ہے
میں چھاؤں چھاؤں سی لڑکی وہ دھوپ جیسا ہے
ہزار شور میں رہنے کے باوجو د اس کا
وہ بات کرنے کا انداز ایک لے سا ہے
جو تتلیوں کے پروں سے بنایا تھا چہرہ
کبھی نہ دیکھ سکی اس کا رنگ کیسا ہے
تمہیں گلاب کےکھلنے کی کیا صدا آتی
تمہارے گرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے
تپش سے جلنے لگی ہیں یہ بوندیں بارش کی
کہ اجلی دھوپ کا موسم بھی اک سزا سا ہے
میں اپنےدل کی گواہی کو کیسے جھٹلاؤں
جو کہہ رہا ہے مرا دل وہ بالکل ایسا ہے
یونہی نہیں تمہیں نیناں نے روشنی لکھا
تمہارےساتھ کٹھن راستہ بھی طے سا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
ترےجنگل کی صندل

ترےجنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنے سے مکمل ہوگئی ہوں
ذرا پیاسے لبوں کی اے اداسی
مجھے تو دیکھ چھاگل ہوگئی ہوں
بدن نے اوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
دھنسی جاتی ہے مجھ میں زندگانی
میں اک چشمہ تھی دلدل ہوگئی ہوں
کسی کے عکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینے سے اوجھل ہوگئی ہوں
رکھا ہے چاند اونچائی پہ اتنا
تمنائوں سے پاگل ہوگئی ہوں
کرشمہ اک تعلق کا ہے نیناں
کہ میں صحرا سے جل تھل ہوگئی ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
آسماں کےرنگوں میں

آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا
دھیان میں ہے پھر چہرہ ایک ماہتابی سا
منظروں نےکرنوں کا پیرہن جو پہنا ہے
میں نےاس کا رکھا ہے نام آفتابی سا
تم عجیب قا تل ہو روح قتل کرتے ہو
داغتے ہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا
کوئی کہہ رہا تھا مو ت ٹوٹنے سے آئے گی
گل نے تو بکھر کے باغ کردیا گلا بی سا
پھر ہوا چلی شاید بھولے بسرے خوابوں کی
دل میں اٹھ رہا ہے کچھ شوق اضطرابی سا
تلخیوں نے پھر شاید اک سوال دوہرایا
گھل رہا ہے ہو نٹوں میں ذائقہ جو ابی سا
حرف پیار کے سارے آگئے تھے آنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا
بوند بوند ہوتی ہے رنگ و نور کی برکھا
جب بھی موسم آیا ہے نیناں میں شرابی سا
 

قیصرانی

لائبریرین
جب بھی خوشبو سا

جب بھی خوشبو سا مرےدل نےبکھرنا چاہا
رنگ پھولوں نےمرے خون میں بھرنا چاہا
راہ میں سوچ کی دیوار اٹھاد ی اس نے
الجھنوں سےجو کبھی میں نےگزرنا چاہا
میری تقدیر سےوہ باب اثر بند ملا
جب دعاؤں کے پرندوں نے اترنا چاہا
چل دیا ساتھ ہی میرے تری یادوں کا ہجوم
راہ سے زیست کی تنہا جو گزرنا چاہا
جال پھیلادیئے کیا کیا مرے اندیشوں نے
جب بھی لمحات کی موجوں میں اترنا چاہا
بھیڑ پنگھٹ پہ چلی ساتھ مرے خوابوں کی
پیاسےنیناں کو وہاں جا کے جو بھرنا چاہا
 

قیصرانی

لائبریرین
کوئی بھی

کوئی بھی نہ د یوار پر سے پکارے
مگر ذہن یادوں کے اپلے اتارے
میں پلکیں بچھاتی رہوں گی ہوا پر
مجھے ہیں محبت کے آداب پیارے
قبیلے کے خنجر بھی لٹکے ہوئے ہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہارے
پلٹ کر صدا کوئی آتی نہیں جب
مر ا دل کسی کو کہاں تک پکارے
بنایا ہے تنکوں سے اک آشیانہ
کھڑی ہوں ابھی تک اسی کےسہارے
بہت ذائقوں کو سمیٹے ہوئے تھے
یہ جذبوں کے جھرنے نہ میٹھے نہ کھارے
مسلسل مرے ساتھ چلتی رہی ہے
ہوا دھیرے دھیرے سمندر کنارے
لگاتار روتی ہے لہروں کی پائل
سدا جھیل میں ہیں شکاری شکارے
کسک میں ہے نیناں بلا خیز سوزش
دہکتے ہیں سینے کے اندر شرارے
 

قیصرانی

لائبریرین
مرےقریب ہی

بدن پہ میں نےمگر برف ڈال رکھی ہے
سنائی دی وہی آواز سبز پتوں سے
کسی کی یاد ہوا نے سنبھال رکھی ہے
بھٹک بھٹک گئی سسی تھلوں کے ٹیلے پر
یہ گوٹھ پیار کی گو دیکھ بھا ل رکھی ہے
ہمارے دل پہ محبت کا وار اچانک تھا
رکھی ہی رہ گئی جس جا پہ ڈھال رکھی ہے
رہیں گے نام وہ پیڑوں پہ نقش صدیوں تک
چڑھا کے جن پہ بہاروں نے چھال رکھی ہے
کلائیوں میں کھنک کر رگوں کو کاٹا ہے
کہ چوڑیوں نے ستم کی بھی چال رکھی ہے
تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نے پال رکھی ہے
میں تکتی رہتی ہوں اس سایہ دار برگد کو
گھنیری زلف کی اس میں مثال رکھی ہے
رہ ِ یقیں پہ قدم اٹھ نہیں سکا نیناں
گماں نےپاؤں میں زنجیر ڈال رکھی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
ہے ذرا سا سفر

ہے ذرا سا سفر ، گزارا کر
چند لمحے فقط گوارا کر
دھوپ میں نظم بادلوں پر لکھ
کوئی پرچھائیں استعارا کر
چھوئی موئی کی ایک پتی ہوں
دور ہی سے میرا نظارہ کر
آسمانوں سے روشنی جیسا
مجھ پہ الہام اک ستارا کر
پہلے دیکھا تھا جس محبت سے
اک نظر پھر وہی دوبارہ کر
کھو نہ جائے غبار میں نیناں
مجھ کو اے زندگی پکارا کر
 

قیصرانی

لائبریرین
شام کی گنگناہٹوں میں گم

شام کی گنگناہٹوں میں گم
ہوں عجب سنسناہٹوں میں گم
دل کسی درد سے بھر آیا ہے
تھا تری مسکراہٹوں میں گم
بیتے لمحوں کا بوجھ ڈھو ڈھو کر
ہوگئی ہوں تھکاوٹوں میں گم
تیرا لہجہ تو روح کھینچتا ہے
جسم و جاں ہیں رکاوٹوں میں گم
آنکھ لائی تھی قرض بینائی
اب یہ ہے جگمگاہٹوں میں گم
چاندنی کھل کے رو نہیں سکتی
رات، دن کی لگاوٹوں میں گم
چہرے تو روشنی سے بنتے ہیں
آئینے ہیں بناوٹوں میں گم
میری پازیب رقص میں زخمی
بزم ہے جھنجھناہٹوں میں گم
آہ و نا لہ کی تیز یورش میں
جسم ہے تھر تھراہٹوں میں گم
ہوں ابھی تیرے دل کےجنگل میں
گل رُتوں کی تراوٹوں میں گم
ہونٹ تک بات لاکے نیناں میں
کیوں ہوئی ہچکچاہٹوں میں گم
 

قیصرانی

لائبریرین
منزل کو رہگذر میں

منزل کو رہگذر میں کبھی رکھ دیا کرو
اپنی طلب سفر میں کبھی رکھ دیا کرو
جن پر وصال ِ یار کا طاری رہے نشہ
وہ حوصلے نہ ڈر میں کبھی رکھ دیا کرو
تاروں بھرے فلک سی اڑانیں گری ہوئی
بےجاں شکستہ پر میں کبھی رکھ دیا کرو
ممکن ہے اس کو بھی کبھی لے آئے چاند رات
کچھ پھول سونے گھر میں کبھی رکھ دیا کرو
حالات میں پسی ہوئی مجبوریوں کو تم
احباب کی نظر میں کبھی رکھ دیا کرو
پیاسوں کےواسطے یہی نیناں بھرے بھرے
جلتےجھلستے تھر میں کبھی رکھ دیا کرو
 

قیصرانی

لائبریرین
ہر سوال اب مرا شِکستہ ہے

ہر سوال اب مرا شِکستہ ہے
وہ جواباَ زبان بستہ ہے
روح مضبوط کیسے رکھوں میں
جسم میرا ازل سے خستہ ہے
زندگی کے ہزار رستے ہیں
میرے قدموں کا ایک رستہ ہے
سبق آگے کا میں پڑھوں کیسے
پاس میرے تو پہلا بستہ ہے
ہے بلند آدمی ذہانت سے
ذہنیت پست ہو تو پستہ ہے
اس کا تیار ہو گیا تختہ
چھین کر تخت جو نشستہ ہے
دردِ دل کا سبق کیا تھا حفظ
یاد نیناں وہ جستہ جستہ ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
دھوپ گر نہ صحرا کی، راز ،کہہ، گئی ہوتی

دھوپ گر نہ صحرا کے راز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتے دریا کے ساتھ بہہ گئی ہوتی
اس طرح نہ پانی کے پاؤں تیز تیز اٹھتے
غرق ہونے کی افواہ تہہ میں رہ گئی ہوتی
چاند ٹوٹ جائے گا کانچ کے سمندر میں
کاش میں بھی پونم کی شب میں گہہ گئی ہوتی
دل سے کھیلنے والا کیوں پڑوس سےجاتا
چار دن سلوک اس کا اور سہہ گئی ہوتی
کوئی چہرہ نیناں میں روشنی جلا دیتا
بات یہ ہماری تا مہر و مہ گئی ہوتی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top