خیمۂ خواب۔۔۔۔ اسعد بدایونی

الف عین

لائبریرین
گھر دیکھتے نہ گھر کے دروبام دیکھتے
بس تیرا خواب ہی سحر و شام دیکھتے
لوحِ خیال پر تری تصویر کھینچتے
دل کے ورق پہ لکھ کے ترا نام دیکھتے
یہ شاخچے یہ پھول یہ لکھتے ہوئے چمن
حیرت سے تتلیوں کو تہہ دام دیکھتے
سورج کے ڈوبنے کا عجب دیدنی تھا رنگ
دریا کی تمکنت کو سرشام دیکھتے !
جھوٹی خبر محاذ سے لاتے کوئی تو ہم
مچتا ہے کیسے شہر میں کہرام دیکھتے
وہ ابتدائے کارِ جنوں ہی میں مرگئے
جن کو یہ فکر تھی مرا انجام دیکھتے
بہتر تھا چند لوگ نہ کرتے جو شاعری
اچھا بھلا سا اور کوئی کام دیکھتے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
یہی نہیں کہ مرا گھر بدلتا جاتا ہے
مزاجِ شہر بھی یکسر بدلتا جاتا ہے
رتیں قدیم تواتر سے آتی جاتی ہیں
درخت پتوں کے زیور سے بدلتا جاتا ہے
افق پہ کیوں نہیں رکتی کوئی کرن پل بھر
یہ کون تیزی سے منظر بدلتا جاتا ہے
غبارِ وقت میں سب رنگ گھلتے جاتے ہیں
زمانہ کتنے ہی تیور بدلتا جاتا ہے
چھڑی ہوئی ہے ازل سے دل و نگاہ میں جنگ
محاذ ایک ہے لشکر بدلتا جاتا ہے
یہ کس کا ہاتھ ہے جو بے چراغ راتوں میں
فصیلِ شہر کے پتھر بدلتا جاتا ہے
پرند پیڑ سے پرواز کرتے جاتے ہیں
کہ بستیوں کا مقدّر بدلتا جاتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
یہی نہیں کہ مرا گھر بدلتا جاتا ہے
مزاجِ شہر بھی یکسر بدلتا جاتا ہے
رتیں قدیم تواتر سے آتی جاتی ہیں
درخت پتوں کے زیور سے بدلتا جاتا ہے
افق پہ کیوں نہیں رکتی کوئی کرن پل بھر
یہ کون تیزی سے منظر بدلتا جاتا ہے
غبارِ وقت میں سب رنگ گھلتے جاتے ہیں
زمانہ کتنے ہی تیور بدلتا جاتا ہے
چھڑی ہوئی ہے ازل سے دل و نگاہ میں جنگ
محاذ ایک ہے لشکر بدلتا جاتا ہے
یہ کس کا ہاتھ ہے جو بے چراغ راتوں میں
فصیلِ شہر کے پتھر بدلتا جاتا ہے
پرند پیڑ سے پرواز کرتے جاتے ہیں
کہ بستیوں کا مقدّر بدلتا جاتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
بدی کے نور سے روشن سماعتیں ساری
خمیدہ سر ہیں ازل سے صداقتیں ساری
سپاہِ مکر و ریا ساحلوں پہ خیمہ زن!!
غریقِ دجلۂ خوں ہیں شجاعتیں ساری
دھواں دھواں ہیں صحیفوں کے ماننے والے
گماں گزیدہ ہوئی ہیں عبارتیں ساری
بیاں ہوں شعر میں اب واقعات جاں کیسے
مثالِ حرفِ غلط ہیں علامتیں ساری
سفر تمام ٹھہرنے کا اک وسیلہ ہیں !
بجز گماں نہیں ، کچھ مسافتیں ساری
نہ اب وہ نجد نہ مجنوں نہ کوئی لیلیٰ ہے
تہہ غبارِ زمانہ میں وحشتیں ساری
یہ سحر کیا ہے کہ بدمست بادلوں کے بغیر
ٹپک رہی ہیں گھنی دھوپ میں چھتیں ساری
دیارِ درد میں دریا دلی کی ضرورت ہے
وگرنہ ہم نہ اٹھاتے یہ زحمتیں ساری
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ذرا سے دل میں بسائی ہے میں نے حیرت کیا
مگر یہ سوچتا ہوں ، بن سکے گی جنّت کیا
وصال وہجر سے آگے بھی منزلیں ہیں بہت
مرے سفر کو کسی انتہا سے نسبت کیا
مرے یہ خواب سلامت رہیں تو اچھا ہے
حقیقتوں سے ملاقات کی ضرورت کیا
رگوں میں دوڑرہی ہے ترے وصال کی آگ
مگر یہ آگ جو ٹھنڈی ہوئی تو لذّت کیا
مرے رفیق مجھے تجربوں کی ہمّت دے
جو منفرد نہ ہو سب سے تو میری چاہت کیا
مرے وجود کی تکمیل ہوگئی تجھ سے
بتا کہ میں بھی کبھی تھا تری ضرورت کیا
یہ طاقِ ہجر ، یہ بجھتا ہوا چراغِ وصال
اگر فریبِ نظر ہیں تو ہے حقیقت کیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
پرندے ،پھول ،تتلیاں

چہار سو محاذ سر دجنگ کے کھلے ہوئے
منافقت کی تیز روندی میں سب صداقتیں
مثالِ خارو خس رواں
سکون، عافیت ، مسرتیں ، بس اک گماں
چہار سوزوالِ حرف وصوت کا سماں
مقدروں کورورہی ہیں بستیاں
سبھی کے روز وشب گزررہے ہیں ایسے منظروں کے درمیاں
مگر کبھی کبھی میں دیکھتا ہوں
چہچہاتے خوش نوا پرندے ، پھول تتلیاں
اور ہنستے مسکراتے بچے ، جن کی آنکھو ں میں ہیں خواب کے جہاں
میں جانتا ہوں ان کے خواب
اک دن مری طرح سے ہوں گے رائیگاں
مگر میں چاہتا ہوں کچھ دنوں یہ خواب دیکھتے رہیں
پھر اس کے بعد عمر بھر کا عذاب دیکھتے رہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
زیاں رتوں کی ایک نظم


میں شاعری میں اعترافِ ذات چاہتا تو تھا ، مگر
مرے چہار سو جو لوگ ہیں
سماعتوں کو ان کی حرفِ نرم سے لگا و ہے
اور میری داستاں کے سارے لفظ تلخ ہیں
زیاں رتو ں میں دکھ دیار سے جو میں نے جمع کیں
خواہشو ں کی مردہ تتلیوں کے پر ہی میرے پاس ہیں
مجھے بھی زعم تھا کبھی
کہ میں جہاں کو اپنے زاویے سے دیکھنے کا اہل ہوں
اور میرے سوچنے کا اپنا ایک ڈھنگ ہے
مگر کھلا کہ یہ جہان اہلِ دل پہ تنگ ہے
بس اک فریب ہے ، جو روشنی جور نگ ہے
مرازمانہ سرکشی کا عہد ہی نہیں
مزاج میرے نیک دوستوں کا سرد جنگ ہے
اور مجھ سا بے قرار آدمی
ہوا کے رخ پہ اک کٹی پتنگ ہے
سو، اب میں اہلِ شہر کی پسند کے حروف جمع کررہا ہوں
شاعری کے واسطے
کیونکہ صرف داد ہی نہیں
میں روٹیاں بھی چاہتا ہوں زندگی کے واسطے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اجنبی منظروں کے درمیاں

سارباں
اب کے تو نے یہ کس دشت میں
ناقۂ ناتواں لاکے ٹھہرادیا
چہار جانب جہاں ایک اسرار ہے
یہ کیسی خموشی ہے۔جس میں
کوئی بولتا لگ رہا ہے
یہ کیسی ہوائیں ہیں
ان میں عجب باس ہے
یہ کیسے مناظر ہیں
جن کو مری آنکھ سے واسطہ کوئی
پہلے نہ تھا
یہ ندّی: کہ جیسے کوئی اژدھا سا پڑا ہوا
یہ اشجار: گویا کہ بدمست ہاتھی کھڑے ہیں
مکڑیوں ، بچھوؤں کی طرح لگتے ہیں
فرش پر جتنے پتّے پڑے ہیں
یہاں میرا خیمہ نہ استادہ کر
پشتِ ناقہ سے اسباب مت کھولنا
یہ زمیں مقتل دوستاں لگ رہی ہے
یہ ہریالی مجھ کو خزاں لگ رہی ہے
سجدۂخاک کا موسم
شاخ کو چھوڑ چلا برگِ خزاں آمادہ
جانے کس خاک کو جاتا ہے ، ہوا کے رتھ پر
سب کو مٹی کے بلاوے پہ چلے جانا ہے
جتنی مخلوق ہے اس عالمِ آب وگل میں
خاکدانوں کی ضیافت کے لیے زندہ ہے
کون سی روشنی تابندہ ہے
سب چراغوں کی لگامیں ہیں
ہواکے ہاتھوں
خاک ہی سب سے بڑامنبع ہے
خاک ہی خاک ہے ہر جسم کے شریانوں میں
خاک ہی ذہن میں ہے خاک ہی ہے کانوں میں
دل، ذہن ، آنکھ سبھی خاک کے ہیں
سجدۂ خاک کا موسم آیا
یعنی ادراک کا موسم آیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم


بڑا عجیب وقت ہے
کہ ہجر بھی نہیں ، وصال بھی نہیں
سگانِ قریہ روتے روتے چپ گیے
مگر
طویل رات کو زوال بھی نہیں
پرند، گھونسلوں میں گریہ کررہے ہیں
اور
ہوا میں اعتدال بھی نہیں
کشتیوں سے بادبان کب کے ہوچکے جدا
سمندروں میں اشتعال بھی نہیں
پانیوں میں زندگی اتاردیں؟
نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں !!
ابھی زمین اتنی پائمال بھی نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
دعا


بے حسی اوڑھے ہوئے شہر کے لوگو ں پہ ہو
خورشیدِ برفلک تاب کا قہر
تاکہ یہ برف
جو ذہنوں پہ دریچوں پہ مکانوں پہ جمی ہے
پگھلے
بادِ صرصر کا کرم ہوتھوڑا
تاکہ یہ صاف بدن صاف لباس
مرتبہ خاک کا پہچان سکیں
اور ہوا برسیہ کی یورش
جس سے اس بستی کے خوش رنگ مکاں
کچّے رنگوں کے لبادے سے نکل کر ، اپنی
اصل صورت میں ہویدا ہوجائیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
گلہ

طائروں کے ذرا سے پروں میں
اڑانوں کے کیا حوصلے بھر دیے ہیں
سمندر کو موجیں ، ندی کو بہاؤ
ہواؤں کوتیور دیے ہیں
درختوں کو پتوں کے زیوردیے ہیں
غرض سب کو خالق نے
اپنی عطا سے نوازا ہے
لیکن
ہمیں دیکھنے والی آنکھیں
تڑپتے ہوئے دل کی دولت
سوچ کے بوجھ سے ٹوٹتے سردیے ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
حیرتوں کے سلسلے

ایک ناؤ ایک بھنور کی طرف ہے رواں دواں
تیزی سے بنتے ٹوٹتے جاتے ہیں دائرے
اک زہر سارگوں میں اترتا ہے رائیگاں
آنکھوں کی پتلیوں میں ہیں عالم بسے ہوئے
کانوں میں گونجتی ہیں ہواؤں کی سیٹیاں
یہ اقتباس جیسے داستاں کے ہیں
منظر وہی تمام پرانے جہاں کے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بدن دریدہ خواہشیں
رگوں کی آگ
آبشار کی تلاش میں
یہاں وہاں ، رواں دواں
بدن دریدہ خواہشوں کا ایک سیل
جو فصیلِ جسم وجاں تک آگیا ہے
اس پہ بند باندھنا محال ہے
کسی نشیب کی خبر ملے تو اس کا رخ
ادھر کو موڑنے کی کوشش کروں
وگر نہ
یہ بلندیوں کو چاٹ جائے گا
مجھے زوال کی تہیں دکھائے گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
روداد


اور پھر یوں ہوا
ایک شجر نے بلندی کے سب راز
اپنی جڑوں میں اتارے
چار سو بے نیازی سے دیکھا
تیز آندھی کے منہ پر
سپر پھینک دی
اور پھر
اپنی مٹی کو سجدہ کیا
تیز آندھی
سپر کی کڑی چوٹ سے
تلملائی ۔مگر
اس نے اپنی کلہہ
اس بہادر زمین زاد لمبے شجر کے لیے
سر سے ہاتھوں میں لی
اس کے لاشے کو تعظیم دی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک اداس دعا

میں نے ایک من موہنی صورت
دل میں بسائی
صورت، جس پر گہری اداسی کے سائے ہیں
وہ سائے کتنے اچھے ہیں ، وہ سائے کتنے پیارے ہیں
یعنی اس کی ساری دلکشی، سار ا جادو
صرف اس سایوں سے روشن ہے
سوچتا ہوں میں
کیا یہ اداسی ، جو مجھ کو اچھی لگتی ہے
اس لڑکی کی مجبوری ہے
یا اس کے چہرے کی بناوٹ کا حصّہ ہے
یا پھر ایک الگ قصّہ ہے
جو کچھ بھی ہو
میری تو بس ایک دعا ہے
یہ سائے اس کے چہرے پر
اور بھی گہرے ہوتے جائیں
میری شاموں سے بھی گہر ے
میری سانسوں سے بھی گہر ے
جو مجھ کو اچھے لگتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم


جب لمس کے سورج بجھ جائیں
جب راتیں بوجھل ہوجائیں
جب لوگ گھروں میں سوجائیں
جب برف رگوں میں جم جائے
جب قہر بدن پر ٹوٹ پڑے
جب لمس کے سورج بجھ جائیں
جب ساعتِ آخر آپہنچے !!
تو کس کو پکاریں کس سے کہیں
کیالذّت تھی ان راتوں میں
کیا نشّہ گھر کی باتوں میں
کیا رگ رگ میں لہراتا تھا
کیا تتلی جیسے منظر تھے
سانسوں میں سات سمندر تھے
اب حد نظر تک صحرا ہے
اک قافلہ جس میں ٹھہرا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
مشورہ

جن دنوں بادِ صرصر کے جھونکوں سے
تتلی کے پر ٹوٹ جائیں
فقط اپنے بازو کی جانب نگاہیں رکھو
جن دنوں آسمانوں پہ سورج کا گولا غضب ناک ہو
صر ف اپنے ہی سر کے لیے
سائے کی التجائیں کرو
جن دنوں راتیں سفاک ہوں
شام سے گھر پہنچنے کی جلدی کرو
اور جب سارے موسم سبھی سلسلے
حسبِ معمول ہوں
سب جہانوں کے غم اپنے چہرے پہ لکھ کر
زمانے کا ماتم کرو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اعتراف
صرف ہوا کے ہاتھ مرے دروازے پر دستک دیتے ہیں
صرف ہوا کے ہاتھ مرے کمرے کا پردہ چھوتے ہیں
مرے کانوں میں سرگوشی
صرف ہوا کرتی ہے
مرے بالوں کو سہلاتی ، مجھے سلاتی ہے
مری آنکھیں ، نیند کے بوجھ سے بھرتی جاتی ہے
مجھے رقص جنوں سکھلاتی میری وحشت اور بڑھاتی ہے
مجھ پر اس نے شفقت کے سارے دروازے کھول دیے ہیں
میں نے ہوا کے ہاتھ پہ بیعت کرلی ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ہوا کی مسافت

ہوا چل رہی ہے
دریچوں کے پردے ہلاتی ہوئی
گیت گاتی ہوئی گنگناتی ہوئی
خوشبو ئے یار ہمراہ لاتی ہوئی
ہوا چل رہی ہے
بیاباں میں سوئے بگولے جگاتی ہوئی
سبز وشاداب جنگل کے کہنہ درختوں کو
تاراج کرتی ہوئی ،خاک اڑاتی ہوئی
طاقچوں میں رکھے ننھے ننھے چراغوں کو
آنکھیں دکھاتی ہوئی
روشنی کو ڈراتی ہوئی
زمانے کے سود وزیاں سے اسے کوئی مطلب نہیں
ہوا چل رہی ہے فقط اپنے انداز سے
ہوا کی مسافت عجب ہے
کہ جس کا سرا ہاتھ آتا نہیں
کہاں جاکے دم لے گی
کوئی بتا تا نہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴿٭٭٭٭٭﴾۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اجازت شدہ
ان پیج کمپوزنگ: شارپ کمپیوٹرس، چادر گھاٹ، حیدر آباد
ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
A presentation of http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com and http://kutub.250free.com
 
Top