خیمۂ خواب۔۔۔۔ اسعد بدایونی

الف عین

لائبریرین
کیا زمانہ تھا کہ سب عرصۂ جاں میرا تھا
خیمۂ خواب سرِ جوئے رواں میرا تھا
منظرِ ہجر سے آگے بھی کئی منظر تھے
میں نہ سمجھا تو سراسر یہ زیاں میرا تھا
جس سے روشن ہوئی بستی وہ چمک کس کی
دور تک دشت میں پھیلا جو دھواں میرا تھا
ہر سیہ رات میں روشن تھا مری جاں کا چراغ
ہر چمکتے ہوئے ذرّے میں نشاں میرا تھا
برگِ آوارہ صفت دوش ہوا پر تھے یقیں
یار تھا کوئی تو دنیا میں گماں میرا تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
گھر کی کسک وجود میں گھر کر گئی تمام
منسوخ میرے اگلے سفر کرگئی تمام
ارض وسماء فقط مری مٹھی میں آگئے
افواہ دوستوں پہ اثر کرگئی تمام
اس رہگذر میں ایک کرن میرے ساتھ تھی
پھر یوں ہوا کہ وہ بھی سفر کرگئی تمام
ہم سب گناہ گار قبیلے کے لوگ ہیں
پامال ہم کو موجِ سحر کرگئی تمام
موجِ ہوا بھی تیغ ہلاکت سے کم نہ تھی!
اشجارِ خواب زیر و زبر کرگئی تمام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
پیارے پیارے موسم آئے رنگوں کے فواروں جیسے
پتے تیری آنکھوں جیسے پھول تیرے رخساروں جیسے
پل دو پل میں پھٹ جائیں گے اور ٹکڑوں میں بٹ جائیں گے
تیرے میرے سپنے کیا ہیں بچوں کے غباروں جیسے
رات مجھے اک خواب آیا تھا میں دشمن فوجوں میں گھرا ہوں
آنکھ کھلی تو سوچا میں نے سب چہرے تھے یاروں جیسے
دنیا ایک سمندر جس میں ہم دونوں کا ربط ہے اتنا !
جسم ترا کشتی کی صورت ہاتھ مرے پتواروں جیسے
وہ ہے اچھی صورت والا پیاری موزوں قامت والا
باتیں اس کی بادل جیسی ، لفظ اس کے بوچھاروں جیسے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
گھر سے نکلا تھا میں تو زیاں راہ پر اک سفر اپنی تقدیر کرتا ہوا
میری مٹی کا جادو مقابل مرے ، میرے قدموں کو زنجیر کرتا ہوا
دشتِ حالات میں وقت کے لشکری اپنی اپنی کمانیں سنبھالے ہوئے
میرے اسپِ صبا کی پزیرائیاں ظالموں کا ہر اک تیر کرتا ہوا
اے زمین سخن میں تیری خاک میں مل کے اک روز پھر خاک ہوجاونگا
اپنے دکھ کے مرقعے بناتا ہوا اپنی خوشیوں کو تصویر کرتا ہوا
ایک شب جاگتی آنکھوں گزرا تھا میں ایک شہرِ طلسمات کی راہ سے
منظروں کی کتابیں الٹتا ہوا کچھ ہواؤں پہ تحریر کرتا ہوا !
نرم ہونٹوں کا بوسہ عجب چیز تھا مجھ سے پتھر میں جادو جگا کر گیا !
میری سانسوں میں خوشبو سی بھرتا ہوا میرے جذبوں کی تطہیر کرتا ہوا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اک ادھورے خواب کی خاطر چھوڑدیا گھر بار
یاتو ہم پاگل ہیں یارو یا پھر ہم ہشیار
جنگل جنگل گھوم رہا ہے موسم کا قزّاق
میری طرح حیران کھڑے ہیں سب کے سب اشجار
جیسے شاخ اور پھول کا رشتہ جیسے سخت چٹان
اتنا نازک اتنا مشکل جذبوں کا اظہار
سارے نشّے آتی جاتی لہروں کی مانند
لمس کی لذت آخر آخر جسموں میں بیدار
آنکھوں کی سرحد سے آگے ایک طلسمی شہر
لوگ جہاں سب پھولوں جیسے گھر سارے گلزار
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھے بھی وحشتِ صحرا پکار میں بھی ہوں
ترے وصال کا امیدوار میں بھی ہوں
پرند کیوں مری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں
کہ اک درخت ہوں اور سایہ دار میں بھی ہوں
مجھے بھی حکم ملے جان سے گزرنے کا
میں انتظار میں ہوں ، شہسوار میں بھی ہوں
بہت سے نیزے یہاں خود مری تلاش میں ہیں
یہ دشت جس میں برائے شکار میں بھی ہوں !
ہوا چلے تو لرزتی ہے میری لوکتنی!!
میں اک چراغ ہوں اور بے قرار میں بھی ہوں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ترا وصال ہے بہتر کہ تیرا کھوجانا
نہ جاگنا ہی میسّر مجھے نہ سوجانا
یہ سب فریب ہے میں کیا ہوں میری چاہت کیا
جو ہوسکے تو مری طرح تو بھی ہوجانا
ہنسی میں زخم چھپانے کا فن بھی زندہ ہے
اسی خیال سے سیکھا نہ میں نے روجانا
اداس شہر میں زندہ دلی کی قیمت کیا
بجا ہے میری ہنسی کا غبار ہوجانا
حسین تجھ سے زیادہ بھی ہیں زمانے میں
برا ہے آنکھ کا پابندِ رنگ ہوجانا !
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک تسلسل ایک تواتر ایک نفی اثبات کے بعد
صبح وہی سورج پھر ہوگا لمبی کالی رات کے بعد
باہر کا احوال نہ پوچھو جان کے ہم بھی پچھتائے
دنیا کے بارے میں سوچو لیکن اپنی ذات کے بعد
ہر رستے پر دیکھ رہا ہوں چلتے پھرتے پھول بہت
شاید کوئی قحط پڑے گا فصلوں کی بہتات کے بعد
سبزہ و گل سب جاگ پڑیں گے گہری نیندیں ٹوٹیں گی
سارے منظر زندہ ہوں گے ایک گھنی برسات کے بعد
ہم سے اپنی ذات کا خاکہ کب لفظوں میں قید ہوا
کہنا باقی رہ جاتا ہے کیا کیا کچھ ابیات کے بعد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
کہتے ہیں لوگ شہر تو یہ بھی خدا کا ہے
منظر یہاں تمام مگر کربلا کا ہے
آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر
تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے
اب ہم وصالِ یار سے بیزار ہیں بہت
دل کا جھکاو ہجر کی جانب بلا کا ہے
یہ کیا کہا کہ اہلِ جنوں اب نہیں رہے
اسعدؔ جو تیرے شہر میں بندہ خدا کا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ہر ایک الزام کے لیے نام صرف بے مہر آسماں کا
زمینِ سفّاک سے بھی جوڑو ، کبھی تو رشتہ کسی زیاں کا
نہ اب کے بادِبہار نے وحشیوں میں کوئی جنوں جگایا
ملول کرتا ہوا نہ آیا، کہیں سے جھونکا کوئی خزاں کا
تمام سچی کہانیوں میں سیاہ کاذب حروف شامل
یقین کے سارے طاقچوں میں چراغ جلتا ہوا گماں کا
نظر میں خوابوں کا شہر جس سے بدن میں خوشبو کی لہر جس سے
وہ عکس اک چہرہ حسیں کا وہ لمس ایک دستِ مہرباں کا
میں آسمانوں کی وسعتوں سے زمیں پہ گرتا ہوا پرندہ
میں ایک ٹکڑا فضول سا ہوں کسی کہانی کے درمیاں کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
کوئی شخص کب سے بسا ہوا مرے شہرِ جاں میں عجیب ہے
جو خزاں کی راہ میں یار ہے جو گلاب رُت میں رقیب ہے
میں چراغ بن کے جلوں تو کیا سرِ شاخِ سبز کھلوں تو کیا
یہ ہوا جو میرے جلو میں ہے یہ زیاں جو میرا نصیب ہے
نہ کوئی کرن مری راہ میں نہ وہ چاند چہرہ نگاہ میں
مرادشت کتنا طویل ہے مری رات کتنی مہیب ہے
وہ قریب تھا تو نظر میں تھا کئی آسمانوں کا فاصلہ
وہ جو مجھ سے دور چلا گیا تو کھلا کہ کتنا قریب ہے
مری شاعری مری داستاں ہے بنائے رنجشِ دوستاں
مرا فن نہیں مرا چارہ گر مرے واسطے یہ صلیب ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
میں اپنے منظر سے کٹ گیا تو کہاں مری شاعری رہے گی
چراغ کی لو ہوا کے ہاتھوں سے عمر بھر کھیلتی رہے گی
مرے شجر کو بتا دیا ہے اداس موسم کے محرموں نے
دکھوں کے گل عارضی نہیں ہیں زیاں کی ڈالی ہری رہے گی
بھنور یونہی سطح جستجو کے طواف میں منہمک رہیں گے
رواں اسی طرح ساحلوں کے فراق میں یہ ندی رہے گی
یہی ازل اور ابد کا قصّہ یہی ہے اہلِ جنوں کا حصّہ!
رہے گا دریا کا شور دل میں زبان پر تشنگی رہے گی
ملن کے پل تو گریز پا ہیں وصال کی رت ہے آنی جانی
سو ہجر کو ہی عزیز رکھو یہ دوستی دائمی رہے گی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک منظر افق زاد لمحوں کا بے دست وپا میری آنکھوں میں ہے
جس پہ چلنے کی پیروں کو جرأت نہیں راستہ میری آنکھوں میں ہے
مجھ سے پوچھو گزشتہ زمانوں میں جو کچھ مسافر پہ گزرا ہے
ہر سفر کی صعوبت کا یک بیکراں سلسلہ میری آنکھوں میں ہے
میں نے بجھتی ہوئی شام کے ساتھ جلتے ہوئے دیپ دیکھے بہت
کس لئے عالمِ آب و گل کا عجب رابطہ میری آنکھوں میں ہے
واقعی گرم لمحوں سے ناآشنا تادمِ مرگِ انبوہ میں
دوستو دیکھ لو آج تک ساعتِ یخ زدہ میری آنکھوں میں ہے
ایک خورشید وہ جو ترے آسمانوں میں اپنی چمک پر مگن
ایک سورج کہ ہر شام نوحہ کناں ڈوبتا میری آنکھوں میں ہے
کس لیے میرا رشتہ ہے قبروں سے قائم ابھی تک بصد حوصلہ
سوچتا ہوں کہ کیوں رفتگاں کا ہر اک نقشِ پا میری آنکھوں میں ہے
مبتلا ہوں مسلسل سفر کی گھنی کیفیت میں کراں تا کراں !!
دشتِ حیرت کہ اب تک جنوں رنگ و خواب آشنا میری آنکھوں میں ہے
تم کو توفیق ہو تو نگاہیں ملاؤ یقینا نظر آئے گا کچھ نہ کچھ !
زنگ خوردہ سہی دشمنو، پھر بھی اک آئینہ میری آنکھوں میں ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
راستہ کوئی سفر کوئی مسافت کوئی
پھر خرابی کی عطا ہو مجھے صورت کوئی
سارے دریا ہیں یہاں موج میں اپنی اپنی
میرے صحرا کو نہیں ان سے شکایت کوئی
جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی
میں نے دنیا کو سدا دل کے برابر سمجھا
کام آئی نہ بزرگوں کی نصیحت کوئی
سرمئی شام کے ہمراہ پرندوں کی قطار
دیکھنے والوں کی آنکھوں کو بشارت کوئی
بجھتی آنکھوں کو کسی نور کے دریا کی تلاش
ٹوٹتی سانس کو زنجیر ، ضرورت کوئی
تو نے ہر نخل میں کچھ ذوقِ نمو رکھا ہے
اے خدا میرے پنپنے کی علامت کوئی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
بند تھے میرے چشم و لب اور میں سوچتا رہا
شہر تھا غرق موجِ شب اور میں سوچتا رہا
صبح فراق یار سے شامِ وصالِ یار تک
بیچ کی منزلیں عجب اور میں سوچتا رہا
میرے سوا کسے ہوا اپنے زیاں کا حوصلہ
گنگ تھے حرف و صوت سب اور میں سوچتا رہا
موج سخن کہ مجھ تلک آکے سدا پلٹ گئی
سیکڑوں شاعری کے ڈھب اور میں سوچتا رہا
کسی نے دیا ہے کیا مجھے جس کا حساب رکھ سکوں
لطف و عنایت و غضب اور میں سوچتا رہا
میرے سخن کا ولولہ میرے سفر کا سلسلہ
خام ہیں یہ خیال سب اور میں سوچتا رہا
رات عجیب حال میں غرق تھا اس سوال میں
کس کی رہی مجھے طلب اور میں سوچتا رہا
پھول کھلا تھا کس طرح ، زخم سلا تھا کس طرح
کون تھا چارہ سازِ شب اور میں سوچتا رہا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
سہانی دھوپ نیلے آسماں سے کچھ نہیں ہونا
کہ اب پیدا ہمارے خاکداں سے کچھ نہیں ہونا
مراصحرا وہ صحرا ہے سمندر جس کو ناکافی
کسی ندّی کسی جوئے رواں سے کچھ نہیں ہونا
دریچے بند ہیں مخلوق خوابِ جاوداں میں ہے
اب ان گلیوں میں آوازِ سگاں سے کچھ نہیں ہونا
ہمیشہ دھوپ کو ان راستوں میں ساتھ رہنا ہے
سفر ایسا ہے جس میں سائباں سے کچھ نہیں ہونا
جو ہونا ہے وہ اپنے پاؤں کی لغزش سے ہونا ہے
جھٹک دو ذہن احساسِ زیاں سے کچھ نہیں ہونا
چراغوں کی لوؤں میں ایک تصویروں کا جنگل ہے
بجھادو ان کو، یادِ رفتگاں سے کچھ نہیں ہونا
عجب اک شور صحنِ جاں میں ہے پتوں کے گرنے کا
کہ اب افسوس باہر کی خزاں سے کچھ نہیں ہونا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ہوا چراغ کی لو کو ڈراتی رہتی ہے
خزاں کے زخم ہر اک شاخ کھاتی رہتی ہے
خموشیوں میں بھی گویائی کے خزانے ہیں
ہر اک سکوت سے آواز آتی رہتی ہے
ورق کی طرح الٹتے ہیں پے بہ پے منظر
زمین کوئی کہانی سناتی رہتی ہے
فقط سحر ہی رجز خوانیاں نہیں کرتی
سیاہ رات بھی کچھ گنگناتی رہتی ہے
جو بے سپر ہیں وہ اشجار گرتے رہتے ہیں
ندی نحیف کناروں کو کھاتی رہتی ہے
بجھی ہے آنکھ تو منظر بھی بجھ گئے ہونگے
دلوں کے ساتھ ہی دنیا بھی جاتی رہتی ہے
تلاش میں کوئی شہزادہ اب نہیں جاتا!!
کہانیوں کی پری تو بلاتی رہتی ہے
جو العطش کی صداؤں پہ کان دھرتا ہے
سناں، اسی کے لہو میں نہاتی رہتی ہے
کبھی سکون نہیں قریۂ تمنّا میں
بلا کوئی نہ کوئی سر اٹھاتی رہتی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اب احساسِ زیاں ہونے لگا ہے
دلِ زندہ دھواں ہونے لگا ہے
پہاڑوں پر نکل آیا ہے سورج
کوئی چشمہ رواں ہونے لگا ہے
کسی جانب مسلسل دیکھنے سے
اداسی کا گماں ہونے لگا ہے
عدو خیموں میں خوابیدہ پڑے ہیں
محاذوں پر دھواں ہونے لگا ہے
در و دیوار بدلے جارہے ہیں
پرانا گھر جواں ہونے لگا ہے
مری تنہائی کے سادہ افق پر
ستارہ ضوفشاں ہونے لگا ہے
دسمبر آگیا اب اور نیلا
ہمارا آسماں ہونے لگا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
کہانیوں کے پھول شاخ شاخ پر کھلے رہیں
شجر شجر عظیم داستاں کے سلسلے رہیں
کوئی خبر کہ راستہ بہار کا بدل گیا
کوئی دعا کہ وحشیوں کے چاک سب سلے رہیں
کوئی تو اس سفر میں میری حیرتوں کا ساتھ دے
یہ کیا کہ عمر بھر مجھے ہر ایک سے گلے رہیں
کوئی چراغ جس سے ظلمتوں کی جاں فگار ہو
کوئی سبیل جس سے راستوں کے دل ہلے رہیں
زمین پہ پھول صورتوں کو اے خدا دوام دے
دھنک کے رنگ آسماں پہ بس یونہی کھلے رہیں
کبھی کبھی رگِ گلو میں خنجروں کی کاٹ ہو
کبھی کبھی وصال رت میں ہجر کے گلے رہیں
یہ کاروبارِ دہر کتنا پر سکوں دکھائی دے
زمین پہ چار سو اگر جنوں کے سلسلے رہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
شام سے خوں مری آنکھوں میں اتر آئے گا
آئے گا وہ تو بہ ہنگام سحر آئے گا
راستے گرد سے اٹ جائیں گے رفتہ رفتہ
رفتہ رفتہ جو مسافر ہے وہ گھر آئے گا
اس مسافت میں ضرور آئے گی اک درد کی راہ
درد کی راہ میں درماں کا شجر آئے گا
وہ تو جھونکا ہے اسے راہ سے نسبت کوئی
کوئی دیوار نہ روکے گی جدھر آئے گا
ان دنوں جاں سے گزرجانے کی فرصت کس کو
کس کو درپیش محبت کا سفر آئے گا
شاہراہوں پہ ہجومِ قدوقامت ہے کیا
کیا کوئی چاند سا چہرہ بھی نظر آئے گا
اس کے ہونٹوں سے برسنے لگے فریاد کے پھول
پھول کہتے ہیں وہ شیشے میں اتر آئے گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top