خیمۂ خواب۔۔۔۔ اسعد بدایونی

الف عین

لائبریرین
میں جھوٹا حرف گواہی کا ، میں کاذب لفظ کہانی کا
کیوں اب تک رشتہ باقی ہے ، مری آنکھوں سے حیرانی کا
میں ابرِ وصال میں بھیگ چکا ، میں ہجر کی آگ میں راکھ ہوا
دل دریا اب بھی جوش میں ہے عالم ہے وہی طغیانی کا
میں تنہائی کے ساحل پر ، مصروفِ نظارہ ہوں کب سے
اک اپنا حُسن نرالا ہے یاں ہر موجِ امکانی کا
مرے شہر دکھوں کی لہر میں ہیں ، مرے لوگ زیاں کے بحر میں ہیں
کوئی اسم عطا کر خوشیوں کا کوئی رستہ دے آسانی کا
اے دشت کے مالک مُجھ کو بھی ، تو دست عطا سے ارزاں کر
کچھ جھونکے سرد ہواؤں کے ، اک چشمہ میٹھے پانی کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
دھوپ گہر جنگلوں میں خیمہ زن ہوتی ہوئی
رفتہ رفتہ دور خوابوں کی تھکن ہوتی ہوئی
ہر طرف آغاز سرما کے پرندے بے شمارر
جن کی آوازوں سے جھیلوں کو چبھن ہوتی ہوئی
دل سرائے میں بہت سے رنگ شرماتے ہوئے
آسمانوں پر ہویدا اک کرن ہوتی ہوئی
سبزۂ نورستہ دیواروں پہ اٹھلاتا ہوا!
اک پرانی سی حویلی خوش بدن ہوتی ہوئی
اک خزاں آمادگی چاروں طرف اشجار میں
اک بستی غرقِ صد رنج ومحن ہوتی ہوئی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
روشنی میں کس قدر دیوار و در اچھے لگے
شہر کے سارے مکاں سارے کھنڈر اچھے لگے
پہلے پہلے میں بھی تھا امن واماں کا معترف
اور پھر ایسا ہوا نیزوں پہ سر اچھے لگے
جب تلک آزاد تھے ہر اک مسافت تھی وبال
جب پڑی زنجیر پیروں میں سفر اچھے لگے
دائرہ در دائرہ پانی کا رقصِ جاوداں
آنکھ کی پتلی کو دریا کے بھنور اچھے لگے
کیسے کیسے مرحلے سر تیری خاطر سے کئے
کیسے کیسے لوگ تیرے نام پر اچھے لگے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
آسماں کے سر پہ بادل کی ردا کب آئے گی
کھیتیوں کو یاد بارش کی دعا کب آئے گی
اک منظر خیمۂ مژگاں سے کب ہوگا طلوع
ایک ساعت سارے لمحوں سے جدا کب آئے گی
دیدۂ بیدار کو نینوں سے کرنے ہم کنار
رات ، کالی رات اے میرے خدا کب آئے گی
سات رنگوں کی کماں ہوگی افق پر کب نمود
مژدۂ خوش منظری لے کر ہوا کب آئے گی
رفتگاں کے نقشِ پا آخر کہاں تک جائیں گے
یہ سفر کب ختم ہوگا انتہا کب آئے گی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
چند امکاں تھے نگاہوں میں کدھر رخصت ہوئے
ساتھ ہی جن کے ، مرے عیب وہنر رخصت ہوئے
حادثہ وہ تھا کہ آنکھوں سے بصارت چھن گئی
سانحہ یہ ہے کہ پیروں سے سفر رخصت ہوئے
آسمانوں سے پرندے لوٹنے کا وقت ہے
اس سمے پیڑوں سے یہ طائر کدھر رخصت ہوئے
سیدھے سادے پانیوں کا اب سفر درپیش ہے
معجزہ یارو کہ دریا سے بھنور رخصت ہوئے
چاہتے تھے دیکھنا کوہِ ندا کے پیچ و خم
روکنا چاہا ہمیں سب نے مگر رخصت ہوئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ہر حقیقت پہ سرابوں کا گماں ہونے کو ہے
رفتہ رفتہ روشنی ساری دھواں ہونے کو ہے
میں بھی لوحِ وقت سے اک روز مٹ جانے کو ہوں
تیری مٹی بھی کسی دن رائیگاں ہونے کو ہے
پیش خیمہ ہے یہ سنّاٹا کسی طوفان کا !
پھر اسی جانب سمندر مہرباں ہونے کو ہے
ساحلوں سے پھر جدا ہونے کی ساعت آگئی
بادباں کھلنے کو ہیں کشتی رواں ہونے کو ہے
شام کے طائر قطار اندر قطار آنے لگے
تیرگی میں پھر ہر اک منظر نہاں ہونے کو ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
پھر بجز دشت کہاں جاکے رہیں چاہنے والے تیرے
عرصۂ شہر میں عنقا ہیں زمانے سے حوالے تیرے
تونے کوتاہی نہ کی خاک اڑانے میں ہماری تو کیا
ہم نے بھی باغ میں کلیوں میں بہت رنگ اچھالے تیرے
یہ الگ بات کہ ہے اس میں زیاں ان کا سراسر لیکن
نقدِ جاں نیزوں پہ رکّھے ہوئے پھرتے ہیں جیالے تیرے
خاک زا سارے مناظر ، مرا بوسیدہ لبادہ جیسے
سبز خطّے نظر آتے ہیں مجھے شال دوشالے تیرے
عکس مت جان کہ ہونے پہ بھی اصرار مجھے ہے جاناں
میں وہی شخص ہوں جس نے کبھی احکام نہ ٹالے تیرے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
سب کے پیروں میں وہی رزق کا چکّر کیوں ہے
گریہ اس عہد کے لوگوں کا مقدر کیوں ہے
یہ جو منظر ہیں بڑے کیوں ہیں مری آنکھوں سے
یہ جو دنیا ہے مرے دل کے برابر کیوں ہے
آسمانوں پہ بہت دیر سے ٹھہری ہے شفق
سوچتا ہوں کہ ابھی تک یہی منظر کیوں ہے
میں بظاہر تو اجالوں میں بسر کرتا ہوں
اک پراسرار سیاہی مرے اندر کیوں ہے
کشتیاں ڈوب چکیں سرپھرے غرقاب ہوئے
مشتعل اب بھی اسی طرح سمندر کیوں ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
طے کرسکا مسافتِ دنیا نہ تو نہ میں
لیکن کسی نواح میں ٹھہرا نہ تو نہ میں
کیا سوچ کر سفر پہ روانہ ہوئے ہیں ہم
لوگوں سے راستوں سے شناسا نہ تو نہ میں
شامیں سجائیں ہم نے سدا انتظار کی
دامِ فریب صبح میں آیا نہ تو نہ میں
اپنی رفاقتوں میں کوئی کھوٹ تو نہیں
اب تک ہوا ہے شہر میں رسوا نہ تو نہ میں
کوہِ انا کی برف تھے دونوں جمے رہے
جذبوں کی تیز دھوپ سے پگھلا نہ تو نہ میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
خدا اگر مجھے خوابوں سے ماورا رکھتا
تو اپنا نام میں زیرِ فلک خدا رکھتا
دیارِ درد میں دریا دلی رواں کرتا
حصارِ گرد میں آسودگی روا رکھتا
کبھی قدم نہ پڑے میرے ان زمینوں پر
جہاں میں ایک نئے شہر کی بنا رکھتا
گرا جو قطرۂ آخر تو یہ خیال آیا
لہو کچھ آنکھ میں کل کے لیے بچا رکھتا
مری نجات اسی میں تھی اب ہوا معلوم
نہ رکھتا قرب کسی سے نہ فاصلہ رکھتا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ان کے پتوار، ملّاح، اور بادباں یاد رکھ
ساحلوں پر جلائی ہوئی کشتیاں یاد رکھ
سبز و شاداب سارے مناظر فقط خواب میں
دشتِ جاں ، تجھ میں پلتے ہیں برگ خزاں یاد رکھ
اپنے پیروں کے نیچے زمیں کے گماں میں نہ رہ
تیرے سر پر مسلّط ہیں سات آسماں یاد رکھ
تبصروں کی کسی پر ضرورت نہیں ، کچھ نہ کہہ
دوستوں کی خوشامد، متاع گراں یاد رکھ
تیری شہرت میں ان کا بھی کچھ ہاتھ ہے غور کر
دشمنوں سے بھی سرزد ہوئیں نیکیاں یاد رکھ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
عجب دن تھے کہ ان آنکھوں میں کوئی خواب رہتا تھا
کبھی حاصل ہمیں خس و خانہ و برفاب رہتا تھا
ابھرنا ڈوبنا اب کشتیوں کا ہم کہاں دیکھیں
وہ دریا کیا ہوا جس میں سدا گرداب رہتا تھا
وہ سورج سوگیا ہے برف زاروں میں کہیں جاکر
دھڑکتا رات دن جس سے دِل بیتاب رہتا تھاا
جسے پڑھتے تو یاد آتا تھا تیرا پھول سا چہرہ
ہماری سب کتابوں میں اک ایسا باب رہتا تھا
سہانے موسموں میں اس کی طغیانی قیامت تھی
جو دریا گرمیوں کی دھوپ میں پایاب رہتا تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
بجلیاں چمکیں بدن میں ،دشتِ جاں روشن ہوا
پھر کسی آہٹ سے اک سونا مکاں روشن ہوا
بارِش گریہ رکی ، بادل چھٹے ، سورج ہنسا!
دھوپ اتری زینہ زینہ آسمان روشن ہوا
جگنوؤں کے غول جب پامال کر ڈالے گئے
لوحِ دل پر ایک حرفِ جاوداں روشن ہوا
کھل اٹھے چہرے سبھی کے میرے عیبوں کا چراغ
ایک دن جب دوستوں کے درمیان روشن ہوا
اس کو پانے کا یقیں اک روز آخر بجھ گیا
اس کو کھونے کا مرے اندر گمان روشن ہوا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھ کو حیرانی ہوئی یہ رکھ رکھاؤ دیکھ کر
آندھیوں کی سمت پیڑوں کا جھکاو دیکھ کر
اس قدر سفاک ہیں دریا کی تلواریں کہ بس
دل لرزتا ہے زمینوں کا کٹاو دیکھ کر
قصّہ خوانی کا جنوں اب تک لہو میں زندہ ہے
داستانیں یاد آتی ہیں الاو دیکھ کر !
ساحلوں تک واپسی کے راستے مسدود تھے
اور بھنور کی آنکھ بھی روتی تھی ناو دیکھ کر
آسمانوں سے نویدِ آخری آنے کو ہے !!
ہم بھی اس کے منتظر ہیں تم بھی جاو دیکھ کر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
چند منصوبے مکمل ہوگیے
بوجھ سے شانے مگر شل ہوگیے
وہ بھی کیسے رونے والے لوگ تھے
سر سے پاوں تک جو بادل ہوگیے
دھیرے دھیرے رونقیں جاتی رہیں
رفتہ رفتہ لوگ اوجھل ہوگیے
آسمانوں تک دُعا جاتی نہیں
سارے دروازے مقفل ہوگیے
ایسے منظر تھے کہ آنکھیں جل بجھیں
ایسی بارش تھی کہ جل تھل ہوگیے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
کب تک آخر نیزوں پر سر رکھے جائیں
قتل گہوں میں دوسرے منظر رکھے جائیں
اک دریا سے میری پیاس بجھے گی کیسے !
میرے لیے دوچار سمندر رکھے جائیں
جس بستی میں رن پڑنا ہے رات گئے واں
نیند کے دشمن سارے لشکر رکھے جائیں
خوشبو کیوں آزاد ہوئی ہے میں کیا جانوں
یہ سارے الزام ہوا پر رکھے جائیں
مصلحتوں کے طاقوں میں گنجائش کب ہے
سب ہنگامے گھر سے باہر رکھے جائیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
کوئی سبیل نہیں خود سے گفتگو کے سوا !
رفیق کون اس آشوب میں لہو کے سوا
یہ کہہ کے روز بلاتی ہے میری خاک مجھے
رکھا ہی کیا ہے زمانے میں رنگ وبو کے سوا
مری صدا کا نہیں ہے کوئی جواب تو پھر
میں کس کی نذرکروں نقدِ جاں عدو کے سوا
سماعتوں پہ مگر اعتبار مت کرنا!
یہ دشت اور بھی کچھ بولتا ہے ہو کے سوا
زیاں رتوں سے اگر بچ رہا تو سوچوں گا !
کچھ اور کیوں نہ کیا تیری آرزو کے سوا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک منظر بے زیاں آنکھوں کے بس میں کیوں نہیں
لمحۂ آیندہ میری دسترس میں کیوں نہیں !!
میں خلا کی وسعتوں میں ایک بے مایہ پرند
میرا مسکن باغ سے بہتر قفس میں کیوں نہیں
ایک سفر پھیلا ہوا آنکھوں سے سانسوں کی طرف
سلسلہ جس کا مگر تارِ نفس میں کیوں نہیں
ہر طرف بے رنگ آوازوں کی فوجیں خیمہ زن
ایک بھی آہٹ ہماری دسترس میں کیوں نہیں
کیوں مرے پیروں کو رغبت آبلہ پائی سے ہے
لطف ہستی گلشن بے خارو خس میں کیوں نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
دل ایک ہی رات کا دیا ہے
بازی میں جسے لگادیا ہے
ہر بار لکھا سفر کا قصّہ
ہر بار مگر مٹادیا ہے
بجھنے جو لگا یقیں کا شعلہ
تب ہم نے گماں جلادیا ہے
تھک ہار کے دشتِ مصلحت میں
اب خیمۂ جاں لگادیا ہے
اس بار ہماری تشنگی نے
صحراؤں کا دل ہلادیا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
چمک رہا ہے مرا سر بھی میں بھی دنیا بھی
اک آئینہ ہے سمندر بھی میں بھی دنیا بھی
کھلا کہ ایک ہی رشتے میں منسلک ہیں تمام
یہ میرا سر بھی یہ پتھر بھی میں بھی دنیا بھی
کسی گناہ کی پاداش میں ہیں سب زندہ
مرے شجر مرے منظر بھی میں بھی دنیا بھی
اتررہے ہیں سبھی اک نشیب کی جانب
بلندیوں سے یہ پتھر بھی میں بھی دنیا بھی
خبر کسی کو کسی کی نہیں یہاں لیکن
ہوا کی زد پہ گل تر بھی میں بھی دنیا بھی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top