خیمۂ خواب۔۔۔۔ اسعد بدایونی

الف عین

لائبریرین
مہر و مہتاب صفت ناقہ سوار اچّھے تھے
قافلے ان کے بصد گرد و غبار اچھے تھے
ہاں کبھی خواب میں دیکھا تھا مری آنکھوں نے
اک گھر جس کے سبھی نقش و نگار اچھے تھے
شام ہوتی تھی تو اک حشر بپا ہوتا تھا
اِن جزیروں سے وہ پرشور دیار اچھے تھے
جب قریب آئے تو الجھن کا سبب بھی نکلے
جتنے چہرے تھے پسِ گرد و غبار اچھے تھے
اب تو جیسے کسی آشوب کا بستی ہے شکار
لوگ پہلے کے سبھی کوہ وقار اچھے تھے
بس تری شکل سے خالی تھے دریچے سارے
ویسے پردیس کے منظر مرے یار اچھے تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
میں وحشت خوردہ آہو تھا دنیا نے مجھے زنجیر کیا
مری کھال کو اپنے کمروں کی آرائش سے تعبیر کیا
تھی چہروں کی پہچان مجھے اس جرم پہ ظالم لوگوں نے
مرے سر کو نیزے پر رکّھا ، مرے دل میں ترازو تیر کیا
ہر دھوپ کو تیرے روپ کی چھب، ہر رنگ کو تیرا رنگِ لب
ہر جھیل سمندر دریا کو تری آنکھوں سے تعبیر کیا
میں سیدھا سچّا بندہ تھا مرا کام دکھوں کا دھندا تھا
اک روز اچانک موسم نے مجھ زندہ کو تصویر کیا
میں ایسا دانا کب کا تھا، میں ایسا بندہ کس کا تھا
کچھ خواب دیے اس مالک نے اور ان کو مری تقدیر کیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
مرے شجر ، تجھے موسم نیا بناتے رہیں
گلابِ صبر تری ٹہنیوں پہ آتے رہیں
جو دوستوں کی کمانوں کو تیر دیتا ہے
ہمیں یہ ظرف بھی بخشے کہ زخم کھاتے رہیں
بس اک چراغ ہے اپنی متاعِ بیش بہا
سو شام آتی رہے ہم اسے جلاتے رہیں
سحر کے رنگ دریچوں کو سیر کرتے جائیں
ہوا کے جھونکے کھلے آنگنوں میں آتے رہیں
کبھی کبھی کوئی سورج طلوع ہوتا رہے
ردائے ابر میں تارے بھی منہ چھپاتے رہیں
فصیلِ شہرِ انا رفتہ رفتہ گرتی جائے
یہ زلزلے مری جاں میں ہمیشہ آتے رہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
تجھ سے ہیں منسوب اجڑنے کے سب شکوے گلے
تیرے سبب ہی وادیِٔ جاں میں کیا کیا پھول کھلے
پھر کوئی حسرت آنسو کی کشتی میں بیٹھ گئی
پھر آنکھوں کے دریا جاگے پھر پتوار ہلے
جو پیراہن چاک ہوئے تھے تیرے ہجر میں سب
وصل کی رُت کیا آئی جاناں اپنے آپ سلے
جس پیکر کا لمس میسّر ہونا تھا دشوار
مجھ کو خوشی ہے ان ہونٹوں پر میرے لفظ کھلے
شاید تجھ سے ملنے کے دن آپہنچے نزدیک
پتّوں سے آوازیں نکلیں اور اشجار ہلے
ہم کو اپنی بے رنگی پر ٹوٹ کے آیا پیار
اپنے اپنے رنگ سمیٹے سارے لوگ ملے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اب ان آنکھوں سے ہر سو رقصِ وحشت دیکھتا ہوں میں
گھنی آبادیاں تاراج و غارت دیکھتا ہوں میں
بدن کے بحر میں کیا کیا بلائیں ہیں خدا جانے
کہ اپنی روح میں پیہم اذیّت دیکھتا ہوں میں
لبادوں میں لپٹ کر سوگئیں ساری تمنائیں
بہت سنسان اب راہِ مسافت دیکھتا ہوں میں
ہوا کرتی ہیں دونوں کی ملاقاتیں کنارے پر
وہ اک دریا ہے جس میں اپنی صورت دیکھتا ہوں میں
پڑی ہے اب کے یہ افتاد کیسی میری آنکھوں پر
ہر اک تصویر میں کوئی نہایت دیکھتا ہوں میں
پرندوں کی اڑانوں سے عرض مجھ کو نہیں کوئی
مگر حسرت سے ان کو وقتِ رخصت دیکھتا ہوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اک رات ادھورے خوابوں کا انجام ہوئی
اک صبح عجب تعبیروں کا پیغام ہوئی
اک گھنے سفر کا چکّر سب کے پیروں میں
اک حسرت ساری آنکھوں میں ناکام ہوئی
ہم ایک مسلسل ہجر میں ساری عمر رہے
اور وصل کی رت بس ایک خیالِ خام ہوئی
یہ بنجر خطّہ صرف ہمارا ورثہ تھا
اس دل کی زمیں کب اور کسی کے نام ہوئی
پھر بستی پر کیا قہر اترنے والا ہے
کیوں رونے کی لوگوں میں عادت عام ہوئی
جس کو بھی عطا مالک نے کیا سو خوب کیا
کچھ ریگِ رواں ہم پیاسوں کو انعام ہوئی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
کوئی فسانہ فتح و ظفر کا ، کوئی کہانی خوف و خطر کی
دیواریں کہتی رہتی ہیں اکثر مجھ سے میرے گھر کی
اب کے جاں کی خیر نہیں ہے یا تو ہم ، یا شہر نہیں ہے
فوج فصیلوں تک آپہنچی کون لگائے بازی سر کی
کب بارش کی بوچھاروں سے چھت پر گھنگھرو سے بولیں گے
دیواروں پر کب ارزانی ہوگی سبزۂ خوش منظر کی
میں نے خواب میں دریا دیکھا ، جس کے کنارے سونے کے تھے
دریا کا پانی شیشہ تھا، شیشے میں کشتی پتھر کی
صبح سے شام ہوئی جاتی ہے ، عمر تمام ہوئی جاتی ہے
میں گیلی مٹّی پر بیٹھا گنتا ہوں لہریں ساگر کی
دنیا سے سمجھوتہ کرنا سب کی مجبوری ہے لیکن
میں اکثر سنتا رہتا ہوں آوازیں اپنے اندر کی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
وہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں جو کوئی بات فضول نہیں کرتے
یہ سارے قصّے جھوٹے ہیں ہم ان کو قبول نہیں کرتے
تمہیں علم نہیں ہے یقین کرو، میں قریب سے جانتا ہوں انکو
کچھ سوداگر ایسے بھی ہیں ، جو قرض وصول نہیں کرتے
میں پتھر لے کر بیٹھا ہوں اور اس بستی کے دانا اب
کیوں کارِ شیشہ گری کرکے مجھ کو مشغول نہیں کرتے
کسی رن میں ساتھ حسینؑ کا دیں کسی نہر سے پانی لے آئیں
اس شہر کے سارے نوحہ گر کوئی ایسی بھول نہیں کرتے
مرے نام کے حرف چمکتے ہیں لیکن یہ چمک ہے شعلوں کی
میں ایک ایسی سچّائی ہوں جسے لوگ قبول نہیں کرتے
مجھے بھول کے نادم مت ہونا اے اگلی نسلوں کے بچّو!
ہاں اپنے بزرگوں کا ماتم کبھی تازہ پھول نہیں کرتے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
واقعہ سخت ہے اے یار مگر ہونا ہے
اب کے دریا کا دیاروں سے گزر ہونا ہے
اب بھی نیزوں کی تشکیل میں ہے کتنی دیر
جن پہ اک روز یقینا مرا سر ہونا ہے
میرے بعد آئیں گے جو مجھ سے نہ اچھے ہونگے
نسل در نسل یونہی شہر میں شر ہونا ہے
اپنے بازو ہی علم کرنا ہیں ہر مقتل میں
اپنا سینہ ہی بہرحال سپر ہونا ہے
کشتیاں مجھ سے ہی تیار کرے گی دنیا
کیا برا جو مری قسمت میں شجر ہونا ہے
بستیو !تم کو خرابوں میں بدلنا ہوگا
جنگلو تم کو ابھی راہگذر ہونا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
باشندہ میں دشتِ زیاں کا سورج میرا ہم سایہ تھا
کس نے مجھ کو پیار کیا تھا کس نے آنچل لہرایا تھا
کتنے چراغ بجھے جاتے تھے ، کتنے دریچے تھرّاتے تھے
شام پڑے جب کوئی جھونکا وادیٔ جاں میں در آیا تھا
خلقِ خدا حیران کھڑی تھی کیسی عجب افتاد پڑی تھی
وجد میں آکر جب موسم نے رقص اچانک دکھلایا تھا
جن سے دیپک جل اٹّھے تھے ، جس سے راتیں جاگ پڑی تھیں
وہ تانیں کس نے چھیڑی تھیں وہ نغمہ کس نے گایا تھا
ایک گھنا گہرا جنگل تھا جس میں دو آنکھیں روشن تھیں
ہر رستہ مسدود پڑا تھا ہر جانب کُہرا چھایا تھا
وہ چھتنار کے گن گاتا تھا ساتھ تھا جلتا سورج جس کے
اس نے دھوپ قصیدے لکّھے جس کی قسمت میں سایہ تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا
ہم سے اے حُسن ادا کب ترا حق ہو پایا
آنکھ بھر تجھ کو بزرگوں کے نہ ڈر سے دیکھا
اپنی باہوں کی طرح مجھ کو لگیں سب شاخیں
چاند الجھا ہوا جس رات شجر سے دیکھا
ہم کسی جنگ میں شامل نہ ہوئے بس ہم نے
ہر تماشے کو فقط راہگذر سے دیکھا
ہر چمکتے ہوئے منظر سے رہے ہم ناراض
سارے چہروں کو سدا دیدہ تر سے دیکھا
پھول سے بچّوں کے شانوں پہ تھے بھاری بستے
ہم نے اسکول کو دشمن کی نظر سے دیکھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
اتنے چہروں میں کوئی شکل تو پیاری نکلے
دیکھ کر جس کو دعا جاں سے ہماری نکلے
ریگ مقتل کو سجایا تیرے دیوانوں نے
وار سارے تری تلوار کے کاری نکلے
ہم تو اس ساعتِ سفاک کو روتے ہیں میاں
جب افق یار نہ رنگوں کی سواری نکلے
میں بھی دنیا کی طرح بچ کے گزرنا چاہوں
کوئی پتھر جو مری راہ کا بھاری نکلے
پھر کسی جنگ کے امکان نہ تازہ ہوجائیں
پھر غنیموں سے عزیزوں کی نہ یاری نکلے
مجھ کو دنیا میں کوئی اپنے برابر نہ ملا
جتنے منصب تھے سبھی پنچ ہزاری نکلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
کچھ سائے ماضی و حال کے ہیں کچھ منظر استقبال کے ہیں
کچھ راتیں ہجر پہ آمادہ کچھ لمحے شوقِ وصال کے ہیں
اس شہرِ زیاں سے باہر کے منظر ہوں مبارک یاروں کو
ہم خوگر دھوپ کی شدت کے ہم عادی گردِ ملال کے ہیں
اک نہر رواں ہے جذبوں کی ،ہم جس کے کنارے بیٹھے ہیں
اسباب ہے کچھ اندیشوں کا کچھ خیمے خواب و خیال کے ہیں
ہر قریے میں بس ایک دعا، ہر بستی میں بس ایک صدا
سب قصّے رزق کے ہیں سب جھگڑے مال و منال کے ہیں
یہ چکّر نہ جانے کب ٹوٹے یہ ڈور نہ جانے کب چھوٹے
ہم مجرم ہیں کچھ سانسوں کے، ہم قیدی ماہ و سال کے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
یقین سے نکلے تو جیسے گماں کی زد میں ہیں
یہ کیا تضاد ہے ہم کس زیاں کی زد میں ہیں
بہت طویل ہیں گویا رتوں کی زنجیریں
نئے شگوفے سبھی رفتگاں کی زد میں ہیں
انھیں نصیب ہو اب ماورا کوئی ساعت
ازل سے پیڑ بہار و خزاں کی زد میں ہیں
وہی سفر ہے سمندر بھی کشتیاں بھی وہی
ہوائیں اب کے مگر بادباں کی زد میں ہیں
سنو چراغ بجھادو تمام خیمے کے !
مرے عزیز شبِ امتحاں کی زد میں ہیں
جو ہم پہ عرصۂ خوش منظری میں بیت گئیں
کہانیاں ہیں ، مگر کب بیان کی زد میں ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ساحل کی گیلی مٹی پر نقشِ کف پا کوئی نہیں ہے
ہم سے پہلے اس ساگر میں شاید اترا کوئی نہیں ہے
راتوں کے گہرے سنّاٹے اب شاموں سے چھاجاتے ہیں
بستی میں ہو کا عالم ہے باتیں کرتا کوئی نہیں ہے
شہ راہوں کے دونوں جانب اب بھی تناور پیڑ کھڑے ہیں
لیکن ان کے سائے میں اب چلنے والا کوئی نہیں ہے
سارے موسم اپنے اپنے پس منظر میں خوب ہیں لیکن
تجھ بن مجھ کو گرمی جاڑا اچّھا لگتا کوئی نہیں ہے
اترے ہو تو تیرتے جاؤ جب تک جسم میں جاں باقی ہے
دکھ ساگر بے انت سدا کا اس کا کنارا کوئی نہیں ہے
میں نے کب دنیا دیکھی ہے مجھ کو کب پڑھنا آتا ہے
شاعر تو لاکھوں ہیں لیکن میرے جیسا کوئی نہیں ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
زیاں ہمیں بھی جگر داریوں سے کیا نہ ہوا
مگر یہ دل کہ ذرا بھی گریز پا نہ ہوا
زمیں پہ گرگئے اوراقِ گل سے قطرے سب
ہوا کا ہاتھ اچانک جو مشفقانہ ہوا
جو میری جاں میں کسی آبجو کی صورت تھا
مجھے گماں کبھی اس سراب کا نہ ہوا
کہاں کا پیڑ کہاں کے ثمر کہاں سایہ
طلسم خاک سے دانہ اگر رہا نہ ہوا
کنارِ آبِ رواں خیمہ تشنگی کا تھا
میں اس تضاد سے تاعمر آشنا نہ ہوا
وہ اتفاق سے اک روز مل گیا تھا کہیں
پھر اس کے بعد ان آنکھوں میں ڈوبنا نہ ہوا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
پھر آنکھ کو بس اک ہی چہرہ ، اور ایک ہی نام نظر آیا
اس عشق کے بعد بہت دن تک ہر غم آرام نظر آیا
دم اپنا نکلنے والا ہے ، یہ سورج ڈھلنے والا ہے
لودن کی مسافت ختم ہوئی لو دشتِ شام نظر آیا
سب خلق گھروں میں سوتی تھی، جب آوازوں نے دستک دی
سب شہر اداسی میں گم تھا ، جب ماہِ تمام نظر آیا
کیوں میری سب تصویروں میں اسے رنگ اداس دکھائی دئیے
کیوں میری ساری باتوں میں اس کو ابہام نظر آیا
ہم شہر میں تھے اک مدّت سے کل ہم کو اچانک شام ڈھلے
اک پیاری شکل دکھائی دی اک روشن بام نظر آیا
ہم شعر نہ کہتے بہتر تھا ہم عشق نہ کرتے اچّھا تھا
کیوں اپنے لیے دنیا میں ہمیں بس ایک ہی کام نظر آیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
وہ کیسے پھول لوگ تھے جو دھول ہوگئے
زمین تیرے دام تو وصول ہوگئے
تھے ابتدا میں فلسفے تمام اختراع
قدامتوں کو چھو کے سب اصول ہوگئے
کسی کی بارگاہ میں داخلہ تو ملا
دُعا کی طرح ایک دن قبول ہوگئے
ہمیں بھی لوگ درمیاں سے سن کے اٹھ گئے
کہ ہم بھی ایک داستاں کا طول ہوگئے
وگرنہ سارے لفظ خاک دھول تھے فقط
ترے لبوں تک آگئے تو پھول ہوگئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
آنکھوں نے بہت دن سے قیامت نہیں دیکھی
مدّت ہوئی اچھی کوئی صورت نہیں دیکھی
چہروں کی طرح کس لئے مرجھائے ہوئے ہیں
پھولوں نے تو ہم جیسی مصیبت نہیں دیکھی
وہ شہر سے گزرا تھا فقط یاد ہے اتنا
پھر کوئی بھی دستار سلامت نہیں دیکھی
لوٹے جو مسافت سے تو میں اس سے یہ پوچھوں
بستی تو کوئی راہ میں غارت نہیں دیکھی
گرتے ہوئے پتوں کی صدائیں مرے دل سے
کہتی ہیں کہ تو نے کوئی ہجرت نہیں دیکھی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
دل شاخوں پہ کھل اٹھیں گے پھول، مرادوں والے
جس دن ہم سے آن ملیں گے ساجن وعدوں والے
منظر منظر ڈھونڈرہے ہیں ایک پھول سا چہرہ
جس سے کچھ دن وابستہ ہیں اچّھی یادوں والے
دل پہ یہ کیسی چادر ہے ایک گھنیرے دکھ کی
جیسے شہر پہ گہرے بادل ساون بھادوں والے
گلشن کے سب پتّے گویا سبز علم کی صورت
ننھے ننھے پھول، سپاہی سرخ لبادوں والے
چل کر ان سے پوچھیں کیا ہے عشق پہ ان کی رائے
بستی میں کچھ لوگ تو ہوں گے نیک ارادوں والے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top