خیال شوق کہاں زیرِ پا گزرتا ہے ------ شاہدحمید

مغزل

محفلین
غزل

خیال شوق کہاں زیرِ پا گزرتا ہے
ہَوا و ابر سے مِلتا ہُوا گزرتا ہے

ہزار حادثے ہوتے ہےں ایک لمحے میں
کبھی گزرتا ہے تو سانحہ گزرتا ہے

گزرتے جاتے ہےں اب سانحے بھی پے دَر پے
کِسے خیال گزرتا ہے کیا گزرتا ہے

چراغ و اشک برابر ہےں روشنی کے لئے
ےہ کس کا عکس سرِ آئینہ گزرتا ہے

اگر نصیب سے مِل جائے تو ےہ رنگ وصال
مثالِ شب کو بدلتا ہُوا گزرتا ہے

ےہ روزو شب جو گزرتے ہےں سو گزرتے ہےں
کِسے خبر ہے کہ عالم پہ کیا گزرتا ہے

ابھی تودُھند میں لپٹی ہوئی ہے ےہ دُنیا
ابھی نگاہ سے منظر نِیا گزرتا ہے

سفر گزار ہےں روئے ازل سے روئے ابد
ےہ ہم گزرتے ہےں کہ واقعہ گزرتا ہے

اُداس میں بھی ہوں شاہدحمید اُس کے لئے
جِسے ملال مِری عمر کا گزرتا ہے

شاہد حمید
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ شاہ جی ، عمران شناور اور وارث صاحب، بندہ پروری ہے حضور
 
Top