خیال خوانی

زبیر حسین

محفلین

"سگریٹ کا کش لگا کر میں نے دھواں ہوا میں‌چھوڑاتو اس دھویں سے کسی کی تصویر بننے لگے ،میں رسونتی کے دماغ میں‌موجود تھا،میرا وہاں رہنا ضروری تھا کیوں کہ مجھے اس بات کا اندازہ لگانا تھاکہ رسونتی کو سپر ماسٹر کی آدمی کہاں پہنچاتےہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے پاکستان میں‌سعید صاحب سے بھی باخبر رہنا تھا چنانچہ میں‌نے سعید صاحب کے دماغ میں‌‌چھلانگ لگا دی،وہ شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے اور وہاں فی الحال بالکل امن تھا،مرجانہ کے حالات سے بھی باخبر رہنا تھا اب میری سوچوں کی پرواز اس سمت تھی ،میں‌جونہی مرجانہ کے دماغ میں‌پہنچا اس نے میری سوچ کی لہروں‌ کی محسوس کرلیا اور مسکرانے لگی۔تھوڑی دیر اس سے گپ شپ ہوئی اسے رسونتی کے حالات سے آگاہ کیا،اور اس کی نظر سے اپنے لاڈلے کو دیکھا ،پارس سو رہا تھا میرا دل مچلنے لگا میرے بس میں‌ہوتا تو ابھی اسے اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیتا لیکن میں‌‌ اپنے بچے سے بہت دور تھا،یہ جاننے کے لیے کہ میرے پاکستان جانے کی تیاری کہاں تک پہنچی ،میں‌نے ماسٹر ڈیسوزا کے دماغ میں‌ جھانکا ،وہ پاسپورٹ اور تمام ضروری کاغذات تیار کروا چکا تھا اور اس وقت نیند کی گہرائیوں میں تھا۔سگریٹ کا آخری کش لگاتے ہوئے میں نے سونیا کے دماغ میں جھانکنےکی کوشش کی لیکن میری سوچ کی لہریں واپس پلٹ آئیں‌ اس نے اپنے دماغ کے دروازے بند کرلیے۔میں اس سے بعد میں‌‌بھی رابطہ کر سکتا تھا فی الحال میری رسونتی کے ساتھ رہنا بہت ضروری تھا۔اور اس کو وہاں سے نکالنے کی لیے منصوبہ بندی بھی کرنی تھی۔۔۔میں بہت تھک چکا تھا ٹیلی پیتھی کی مسلسل پرواز کرتے کرتے میرا سر بھی دکھنے لگ گیا چنانچہ میں نے اپنے دماغ کو ہدایت دی کہ دو گھنٹے تک گہری نیند میں رہوں اس دوران اگرکمرےمیں‌کوئی غیر معمولی بات ہو تومیری آنکھ کھل جائے۔۔۔میں‌‌نیند کی گہری وادیوں میں‌ اترتا گیا"

السلام علیکم!!
جن دوستوں نے اردو کا سب سے طویل ناول "دیوتا " پڑھا ہے وہ اوپر والی عبارت سے کچھ کچھ واقف ہوں گے،مجھے بھی دیوتا پڑھے ہوئے بہت عرص بیت گیا ہے لیکن دیوتا کی دماغ میں‌نقش کر جانے کی وجہ "ٹیلی پیتھی یا خیال خوانی" کے اس طرح کے کرشمے ابھی بھی ذہن میں‌‌محفوظ ہیں۔میری اس پوسٹ کا مقصد اس علم کے کے بارے میں آگاہی ہے۔میں نے بازار سے کافی کتابیں خریدی اور ان کا مطالعہ کیا لیکن ابھی تک میں عملی مشقیں کرنے سے قاصرہی رہا۔وجہ مناسب راہنمائی کانہ ملنا اور ٹیلی پیتھی سے مکمل آگاہی نہ ہونا ہے
جو دوست ٹیلی پیتھی سے متعلق معلومات رکھتے ہیں ان کو اس موضوع پر گفتگو‌کرنے کی دعوت دینے کے لیے میں‌ نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔
میرے ذہن اٹھنے والے سوالات:
کیا خیال خوانی کا ماہر اس طرح آسانی سے جب چاہے کسی کے دماغ میں چھلانگ لگا سکتا ہے؟ جس طرح درج بالا عبارت میں فرہاد صاحب مختلف افراد کے دماغوں میں‌چھلانگیں لگا رہے ہیں ،یا یہ صرف افسانوی بات ہے؟

کیا خیال خوانی سے دوسرے کے دماغ میں رہ کر اس کے ارد گرد کے ماحول سے واقفیت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔جس طرح درج بالا عبارت میں فرہاد صاحب مرجانہ کے دماغ میں رہتے ہوئے اپنے بچے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہیے ہیں،یا حقیقت میں ایسا کچھ نہیں؟

کیا خیال خوانی کرتے وقت سوچ کی لہروں‌کو محسوس کیا جا سکتا ہے،جیسا کہ درج بالا عبارت میں‌ فرہاد کی سوچوں کو مرجانہ نے محسوس کر لیا اور مسکرانے لگی؟

کیا سوچ کی لہروں کو محسوس کرتے ہی انہیں دماغ سے پرے دھکیلا جا سکتا ہے،جیسا کہ سونیا نے فرہاد کے ساتھ کیا؟

کیا اپنے دماغ کو اتنا پابند بنایا جا سکتا ہے کہ اسے ہدایات دے کر سلایا جائے اور وہ ہدایات کی روشنی میں‌ ہی دوبارہ نیند سے باہر آئے؟


اس طرح کے اور بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات درکار ہیں
حقیقت کیا ہے،یہ جاننے کے لیے میں‌‌نے یہ تھرڈ شروع کیا ہے
اہل علم سے درخواست ہے کہ علم کی ندی کا منہ اس طرف موڑ دیں۔

والسلام
زبیر حسین
 

مغزل

محفلین
زبیر حسین صاحب
محفل میں خوش آمدید، ماشااللہ اچھے سوالات اٹھائے
ہیں۔۔۔ مقدور بھر علم کے تحت جلد ہی جوابی مراسلہ
سمیت حاضر ہو جاؤں گا،
باقی دیگر احباب بھی یقیناً رائے دیں گے۔
والسلام
 

فاروقی

معطل

"سگریٹ کا کش لگا کر میں نے دھواں ہوا میں‌چھوڑاتو اس دھویں سے کسی کی تصویر بننے لگے ،میں رسونتی کے دماغ میں‌موجود تھا،میرا وہاں رہنا ضروری تھا کیوں کہ مجھے اس بات کا اندازہ لگانا تھاکہ رسونتی کو سپر ماسٹر کی آدمی کہاں پہنچاتےہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے پاکستان میں‌سعید صاحب سے بھی باخبر رہنا تھا چنانچہ میں‌نے سعید صاحب کے دماغ میں‌‌چھلانگ لگا دی،وہ شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے اور وہاں فی الحال بالکل امن تھا،مرجانہ کے حالات سے بھی باخبر رہنا تھا اب میری سوچوں کی پرواز اس سمت تھی ،میں‌جونہی مرجانہ کے دماغ میں‌پہنچا اس نے میری سوچ کی لہروں‌ کی محسوس کرلیا اور مسکرانے لگی۔تھوڑی دیر اس سے گپ شپ ہوئی اسے رسونتی کے حالات سے آگاہ کیا،اور اس کی نظر سے اپنے لاڈلے کو دیکھا ،پارس سو رہا تھا میرا دل مچلنے لگا میرے بس میں‌ہوتا تو ابھی اسے اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیتا لیکن میں‌‌ اپنے بچے سے بہت دور تھا،یہ جاننے کے لیے کہ میرے پاکستان جانے کی تیاری کہاں تک پہنچی ،میں‌نے ماسٹر ڈیسوزا کے دماغ میں‌ جھانکا ،وہ پاسپورٹ اور تمام ضروری کاغذات تیار کروا چکا تھا اور اس وقت نیند کی گہرائیوں میں تھا۔سگریٹ کا آخری کش لگاتے ہوئے میں نے سونیا کے دماغ میں جھانکنےکی کوشش کی لیکن میری سوچ کی لہریں واپس پلٹ آئیں‌ اس نے اپنے دماغ کے دروازے بند کرلیے۔میں اس سے بعد میں‌‌بھی رابطہ کر سکتا تھا فی الحال میری رسونتی کے ساتھ رہنا بہت ضروری تھا۔اور اس کو وہاں سے نکالنے کی لیے منصوبہ بندی بھی کرنی تھی۔۔۔میں بہت تھک چکا تھا ٹیلی پیتھی کی مسلسل پرواز کرتے کرتے میرا سر بھی دکھنے لگ گیا چنانچہ میں نے اپنے دماغ کو ہدایت دی کہ دو گھنٹے تک گہری نیند میں رہوں اس دوران اگرکمرےمیں‌کوئی غیر معمولی بات ہو تومیری آنکھ کھل جائے۔۔۔میں‌‌نیند کی گہری وادیوں میں‌ اترتا گیا"

السلام علیکم!!

جن دوستوں نے اردو کا سب سے طویل ناول "دیوتا " پڑھا ہے وہ اوپر والی عبارت سے کچھ کچھ واقف ہوں گے،مجھے بھی دیوتا پڑھے ہوئے بہت عرص بیت گیا ہے لیکن دیوتا کی دماغ میں‌نقش کر جانے کی وجہ "ٹیلی پیتھی یا خیال خوانی" کے اس طرح کے کرشمے ابھی بھی ذہن میں‌‌محفوظ ہیں۔میری اس پوسٹ کا مقصد اس علم کے کے بارے میں آگاہی ہے۔میں نے بازار سے کافی کتابیں خریدی اور ان کا مطالعہ کیا لیکن ابھی تک میں عملی مشقیں کرنے سے قاصرہی رہا۔وجہ مناسب راہنمائی کانہ ملنا اور ٹیلی پیتھی سے مکمل آگاہی نہ ہونا ہے
جو دوست ٹیلی پیتھی سے متعلق معلومات رکھتے ہیں ان کو اس موضوع پر گفتگو‌کرنے کی دعوت دینے کے لیے میں‌ نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔
میرے ذہن اٹھنے والے سوالات:
کیا خیال خوانی کا ماہر اس طرح آسانی سے جب چاہے کسی کے دماغ میں چھلانگ لگا سکتا ہے؟ جس طرح درج بالا عبارت میں فرہاد صاحب مختلف افراد کے دماغوں میں‌چھلانگیں لگا رہے ہیں ،یا یہ صرف افسانوی بات ہے؟

کیا خیال خوانی سے دوسرے کے دماغ میں رہ کر اس کے ارد گرد کے ماحول سے واقفیت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔جس طرح درج بالا عبارت میں فرہاد صاحب مرجانہ کے دماغ میں رہتے ہوئے اپنے بچے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہیے ہیں،یا حقیقت میں ایسا کچھ نہیں؟

کیا خیال خوانی کرتے وقت سوچ کی لہروں‌کو محسوس کیا جا سکتا ہے،جیسا کہ درج بالا عبارت میں‌ فرہاد کی سوچوں کو مرجانہ نے محسوس کر لیا اور مسکرانے لگی؟

کیا سوچ کی لہروں کو محسوس کرتے ہی انہیں دماغ سے پرے دھکیلا جا سکتا ہے،جیسا کہ سونیا نے فرہاد کے ساتھ کیا؟

کیا اپنے دماغ کو اتنا پابند بنایا جا سکتا ہے کہ اسے ہدایات دے کر سلایا جائے اور وہ ہدایات کی روشنی میں‌ ہی دوبارہ نیند سے باہر آئے؟


اس طرح کے اور بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات درکار ہیں
حقیقت کیا ہے،یہ جاننے کے لیے میں‌‌نے یہ تھرڈ شروع کیا ہے
اہل علم سے درخواست ہے کہ علم کی ندی کا منہ اس طرف موڑ دیں۔

والسلام
زبیر حسین



آپ نے اچھے سوالات کیے ہیں .........کبھی مجھے بھی اس کو سیکھنے کا شوق چرایا تھا.............لیکن وقت ہی بر باد کیا یہ علم بڑی توجہ اور مستقل مزاجی مانگتا ہے.........اور ٹائم بھی.....


جہاں تک ٹیلی پیتھی علم کی بات ہے کہ یہ سچ ہے یا نہیں ...........میرے خیال سے یہ علم ہے. . .اور اسے سیکھا جا سکتا ہے.......ہمارے اسلامی بزرگان دین سے ایسے بہت سے واقعات ہیں . . . جن میں ٹیلی پیتھی کا علم سامنے آتا ہے.......ایک واقعہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی اسی علم کے بارے میں آ جاتا ہے..............جب انہوں نے جمعہ کے خطبہ پر اچانک فرمایا اے ساریہ پہاڑ کی پناہ لو....................تو حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ جو ہزاروں میل دور جنگ پر تھے انہوں حضرت عمر کا یہ پیغام سنا. . . اور اپنے لشکر کو پہاڑ کے پیچھے لے گئے اور دشمن کے حملے سے بچ گئے........اور بھی بز ر گان دین کے ایسے درجنوں واقعات ہیں ....جو اس علم کو ثابت کرتے ہیں.......


جو کوئی ایسا علم رکھتا ہے...........وہ جب چاہے کسی کے خیالات معلوم کر سکتا ہے اور اسے پیغام بھی دے سکتا ہے.....

عام انسان ایسی لہروں کو محسوس نہیں کر سکتا .........لیکن بزرگان دین ........اولیا اللہ جن کے دل آئینے کی طرح اللہ کے ذکر سےشفاف ہوتے ہیں. . . وہ ایسی کسی بھی موجودگی کو معلوم کر لیتے ہیں...................اور جو کچھ کہانی میں لکھا ہے اس میں ...........بہت ساری افسانوی باتیں کہانی کو مرچ مسالہ لگانے کی غرض سے گھڑی گئی ہیں..........

جیسا کے میں نے عرض کیا ہے اس علم کو سیکھنے کے لیے بڑی محنت و مشقت کی ضرورت ہے ...جو ہر کوئی نہیں کر سکتا .....اگر یہ ایسا آسان اور سہل ہوتا تو آج ہر شخص اسے سیکھ چکا ہوتا...........اور بہت سی پریشانیوں سے چھٹکارا پا لیتا.............بازار مین جو کتابیں ملتی ہیں ......وہ معلومات کے لیے تو ٹھیک ہیں ...........لیکن اگر کوئی کہے کہ ان کتابوں کے ذریع اس علم کو سیکھا جا سکتا ہے تو وہ بڑی غلطی پر ہے..........................کسی چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی سیکھنے کے لیے استاد کی ضرورت ہوتی ہے.................تو کیا اس علم کے لیے کتاب کافی ہو گی..............؟

نیز کہانیاں قصے پڑھ کر جذبات مین آ کر کوئی ایسا علم سیکھنے سے رہا....................یہ چند دن کا ابال ہوتا ہے.............جو آہستہ آہستہ وقت گزرنے پر ختم ہو جاتا ہے...........اور پھر انسان کبھی یاد آنے پر کہ یہ علم سیکھنے کے لیے میں نے بھی کو شش کی تھی ......خود پہ ہنستا ہے ......کہ .میں بھی کتنا پاگل تھا.........چاند گاڑی کے بغیر چاند پہ پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا....



نقطہِِِِ:::::یہ میرے خیالات ہیں .........اسلامی نقطہ نظر سے ان کی کوئی اہمیت ثابت نہین ............لحاظہ ا اگر یہ اسلام سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو مجھے انہیں خیر آباد کہنے پر خوشی ہو گی
 
ٹیلی پیتھی کا علم ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ اس علم کی کئی سائینسی توجیہات دی جا سکتی ہیں ۔ ٹیلی پیتھی کے متعلق مختصر ترین تعریف تو یہ ہے کہ دو یا دو سے زیادہ افراد مواصلات کے ایسے مروجہ طریقوں سے ہٹ کر جن میں کسی بھی قسم کے قابل پکڑ وسائل استعمال ہوتے ہوں اگر باہم رابطے کے لئے صرف اپنی ذہنی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہیں تو اسے ٹیلی پیتھی کہا جاتا ہے ۔ ٹیلی پیتھی دو الفاظ سے مل کر بنتی ہے جسکا لفظی مطلب فاصلے سے متاثر کرنا ہے ۔ اسطرح ٹیلی پیتھی کے مختلف استعمالات سامنے آتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔

1۔ خیالات کا براہ راست تبادلہ ایک (ارسال کنندہ) کے دماغ سے دوسرے (وصول کنندہ ) کے دماغ میں
2۔زبانی یا تحریری یا اشاروں کی زبان استعمال کیئے بغیر ایک اور درجے سے آپسی گفتگو
3۔جسمانی ۔ جذباتی یا سوچ کی توانائی کا یا ان کا امتزاج ایک سے دوسرے کو بنا کسی بھی قسم کا جسمانی رابطہ ہوئے منتقل کرنا
4۔حواس خمسہ کے استعمال کے بغیر رابطے کا ایک طریقہ
5۔ کچھ جاندار خطرے کے متعلق خبردار کرنے کو بھی اسے استعمال کرتے ہین اس طرح یہ ایک طرح سے وجود کی بنیاد بھی بنتا ہے ۔




مزید باتیں بعد میں ابھی مجھے 10 بجے گھر سے نکلنا ہے اور صبح کے 6 بج رہے ہیں اور میں ابھی تک نہیں سویا سو کچھ دیر آرام بھی ضروری ہے
 

زبیر حسین

محفلین
زبیر حسین صاحب
محفل میں خوش آمدید، ماشااللہ اچھے سوالات اٹھائے
ہیں۔۔۔ مقدور بھر علم کے تحت جلد ہی جوابی مراسلہ
سمیت حاضر ہو جاؤں گا،
باقی دیگر احباب بھی یقیناً رائے دیں گے۔
والسلام

م۔م۔مغل صاحب
مشکور ہوں آپ کا اور آپ کی اس موضوع پہ تفصیلی پوسٹ کا شدت سے منتظر بھی
انتظار کو زیادہ طویل نہ کر دیجئے گا
ویسے یہ بات الگ ہے کہ انتظارکا بھی اپنا مزہ ہے ،جیسے منگنی ہو جانے کے بعد شادی کے انتظار کا
اور شادی کے بعد اس کی ہم قافیہ بربادی خود ہی جلوہ گر ہو جاتی ہے۔پھر ایسی صورت حال بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ ہمارے ایک پجنابی شاعر پنجابی میں کچھ اس طرح اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں
کدی تے میکے جا نی بیگم
آوے سکھ دا ساہ نی بیگم
 

زبیر حسین

محفلین
آپ نے اچھے سوالات کیے ہیں .........کبھی مجھے بھی اس کو سیکھنے کا شوق چرایا تھا.............لیکن وقت ہی بر باد کیا یہ علم بڑی توجہ اور مستقل مزاجی مانگتا ہے.........اور ٹائم بھی.....
[/color]
فاروقی صاحب!
جی آپ نے بجافرما یا کہ ٹیلی پیتھی کا حصول توجہ اور مستقل مزاجی کے بغیر ناممکن ہے۔لیکن توجہ اور مستقل مزاجی تو ہر کام کو کامیابی کے لیے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے درکار ہوتی ہے۔ہاں آپ کے بقول بڑی توجہ کہیں‌سے ڈھونڈنا پڑے گی (مذاق)
آپ بررگان دین کی مثال دی لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ اس علم کی دین میں‌کیا حیثیت ہے۔کیا دین دار بندہ ہی اس کو سیکھ سکتا ہے؟
 

مغزل

محفلین
زندگی صاحب آداب ۔
اس ضمن میں خواجہ شمس الدین عظیمی کی کئی ایک تصانیف کتابی شکل میںدستیاب ہیں۔
یہاں ان کا جواب دینا (بوجوہ بجلی کی آنکھ مچولی اور دفتری مجبوری ) خاصا وقت طلب ہے۔
رہا روحیّت کا سوال ، اگر تو آپ نے روحیّت لکھا ہے تو یہ روح سے ہی مشتق ہے وگرنہ اسے ہندی
نام ‘‘ روحیت ‘‘ خیال کیا جاسکتا ہے۔۔
اور یہ بات کہ اسے سیکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔۔ تو سادہ سی بات ہے علم تو کوئی بھی سیکھا ہی جاتا
واضح رہے سیکھا ہے لفظ پڑھا نہیں۔ بہر کیف ٹیلی پیٹھی اور اس کے مظاہر پر دیگر دوستوں کی رائے
سے بھی مجھے اتفاق ہے ۔۔ ارتکازِ فکر سے لیکر شمع بینی اور شمع بینی سے لہری معمولات اور پھر خیال
خوانی کے تمام تر مراحل بہت مشکل ہیں۔ فرھاد علی تیمور کا دیوتا فکشن کے نام پر ایک گمراہ تحریر
ہے ۔۔ اس کا حقیقت سے اتنا ہی تعلق ہے کہ جتنا مریخ سے ہمارا۔
بہر کیف دیکھیئے میں دیگر معلومات (کتابوں کے نام اور پتے) بھی حاصل کرتا ہوں۔اور جلد یا بہ دیر حاضر
ہوتا ہوں ۔۔ تاوقتیکہ کہ والسلام ومع الکرام
 

فاروقی

معطل
زندگی صاحب آداب ۔
اس ضمن میں خواجہ شمس الدین عظیمی کی کئی ایک تصانیف کتابی شکل میںدستیاب ہیں۔
یہاں ان کا جواب دینا (بوجوہ بجلی کی آنکھ مچولی اور دفتری مجبوری ) خاصا وقت طلب ہے۔

خواجہ شمس الدین عظیمی کی کتاب ٹیلی پیتھی میں نے بھی پڑھی ہے...........اس میں عام بازاری کتابوں سے کافی ہٹ کر لکھا گیا ہے..........اور میرے خیال سے بازاری کتابوں میں جو کہ دستیاب ہیں............ان میں یہی کتا ب سب سے اچھی اور معلوماتی ہے...............میں نے اسی سلسلے میں خواجہ صاحب سے بات کی تھی لیکن اس وقت میری عمر ان کے مطابق ٹیلی پیتھی سیکھنے کی نہین تھی.........کیونکہ وہ کم از کم 18 سال عمر تجویز کرتے ہیں..........یہ آج سے 6/7 سال پہلے کی بات ہے............ہاں انہوں نے مجھے مراقبہ وغیرہ کی تلقین کی تھی ...جو میں نے کچھ عرصے کیا پھر غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے ..........یہ سلسلہ ختم ہوگیا.................اس کے بعد کبھی اتنا ٹائم نہیں ملا کہ دوبارہ یہ سب شروع کر سکتا........

میں ان شعبوں میں کافی ہاتھ پیر مار چکا ہوں.............ٹیلی پیتھی........ہپناٹزم.............مراقبہ..........عملیات.........نقشیات(یعنی تعویز وغیرہ“““.............اور حاضرات میں ................علم جعفر .............اور علم رمل میں بھی.............کافی خرچہ ہوا میرا ان تمام علوم پر لیکن سبھی لوٹنے والے بیٹھے ہوئے ہیں.......کسی ایک نے بھی صحیح راہنمائی نہیں کی..........راہنمائی تو تب کرتے جب خود کچھ ہاتھ میں ہوتا...........

ہاں ....ان میں روحانی ڈائجسٹ والے........عظیمی صاحب .........واقعی ٹھیک راہنمائی کرتے ہیں...........اور اس وقت تو فیس وغیرہ کا بھی کوئی چکر نہیں تھا ...اب کا مجھے پتا نہیں............

ویسے میں نے انٹر نیٹ پر کسی سائیٹ پر .ٹیل پیتھی کے بارے میں ......لیکچر دیکھیے ہیں.............تلاش کرتا ہوں اگر مل گئے تو لنک دے دوں گا.................اس میں بھی کافی معلومات اس علم پر موجود ہیں...........
وسلام
........
 

محسن حجازی

محفلین
اگر ٹیلی پیتھی واقعی ایک حقیقت ہوتی۔۔۔ تو پھر خفیہ ایجنسیاں اس کے لیے بھی اسکواڈ تشکیل دیتیں، ملازمتیں بھی ہوتیں کہ صاحب ٹیلی پیتھی کا پانچ سالہ تجربہ رکھنے والے رابطہ کریں۔ خواتین کے دماغ میں گھس کر خیال رسانی کرنے والے کو ترجیح دی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس استدلال کے لیے دلیل یہ ہے کہ حضرت انسان نے کوئی بھی ایسی چیز جس کا رتی بھر بھی فائدہ ہو، تصرف میں لائے بنا نہیں چھوڑی۔ آپ اس فضا کو ہی لے لیجئے، پتہ چلا کہ برقی مقناطیسی لہریں گزر سکتی ہیں تو ساری فضا (ہوا نہیں فضا) اس وقت رنگارنگ معلومات لیے ہوئے ہے جانے کتنے ہی ٹی وی سٹیشن، وائرلیس اور پتہ نہیں کیا کیا۔۔۔

خیر یہ میری ذاتی رائے ہے جس کی درستگی لازم نہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
میں سمجھتا ہوں کہ ٹیلی پیتھی اتنا کامیاب اور مکمل علم نہیں جیسے فرہاد تیمور علی اپنی کہانی میں لکھتے ہیں، میری معلومات کے مطابق یہ علم ہے تو سہی پر اسے سیکھنا اشکِ بلبل لانے کے مترادف ہے یہ بہت زیادہ مستقل مزاجی اور قوتِ ارادی مانگتا ہے جو کہ ہر انسان میں نہیں، ہاں کچھ لوگوں کو اللہ کی طرف سے تحفتن بھی عطا ہوتا ہے ( جیسے اولیا اللہ اور صحابہ کرام ) ہر انسان کے اندر کچھ قوتیں موجود ہیں جنھیں وہ کچھ مشقوں اور مشقتوں کے بعد بروئے کار لاسکتا ہے، کسی انسان میں زیادہ اور کسی میں کم، ایک عام سی شکل کے بندے میں بہت زیادہ کشش ہوتی ہیکہ حالانکہ وہ گورا بھی نہیں ہوتا، جبکہ ایک آدمی جو خوبصورت اور گورا تو بہت زیادہ ہوتا ہے مگر اس میں کوئی خاص کشش نہیں ہوتی اور وہ کسی کو اپنی طرف مائل نہیں کر سکتا، انسانی سوچ سمندر کی لہروں جیسے ہے اگر انہیں صحیح سمت میں دھکیلا جائے تو بہت کام کر سکتی ہیں اور اگر درست سمت میں نہ ہوں تو تباہی اور بربادی کا مرتکب ہو تی ہیں۔ مگر ٹیلی پیتھی ایسا علم نہیں جیسا فرہاد علی تیمور نے اسے اپنی کہانی دیوتا میں بتایا ہے۔ یہ تو کسی کے چہرے سے اسکے خیالات پڑھنے جیسا ایک علم ہے۔
ایک تجربہ جو کہ میں بارہا کر چکا ہوں اور آپ بھی کر سکتےہیں، آپ کے سر میں درد بالکل نہ ہو اور آپ سوچیں کہ آپکے سر میں شدید درد ہے، اور ہر ملنے والے کو کہیں، یار میرے سر میں شدید درد ہے، تو تھوڑی ہی دیر بعد آپ کے سر میں درد شروع ہو جائے گا، کسی کو جلدی اور کسی کو دیر سے لیکن ہو ضرور جائے گا، کیونکہ یہ عمل بھی سوچنے والے کی قوتِ سوچ کی استعداد پر منحصر ہے، اسی طرح اگر آپ صبح اٹھ کر یہ سوچیں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں اور ہر ملنے والے کو کہیں کہ یار میری طبیعت آج کچھ ٹھیک نہیں تو کچھ دیر بعد آپکو واقعی اپنی طبیعت ناساز لگنے لگے گی، آپ یہ تجربہ کر سکتے ہیں۔
ٹیلی پیتھی میرے نزدیک صرف اتنا علم ہیکہ آپ کسی بندے کے خدوخال اسکی چال ڈھال سے اسکے کردار کا اندازہ لگا سکتے ہیں، اور اسکے چہرے سے اسکے خیا لات پڑھ سکتے ہیں۔
میں محسن حجازی صاحب کے تجزیئے سے متفق ہوں کہ اگر ٹیلی پیٹھی ایسا علم ہوتا جیسا فرہاد علی تیمور صاحب دیوتا میں بتاتے ہیں تو کیا ہی کہنے تھے، امریکہ کی سی آئی اے، اور ایف بی آئی جو کہ ترقی یہافتہ ترین سیکرٹ سروسز ہیں ٹیلی پیتھی جانے والے اسکواڈ بناتیں نائن الیون کا واقعہ کیسے رونما ہوتا وہ تو مبینہ اسامہ بن لادن کے ذہن میں داخل ہو کر تمام راز جان لیتے اور پھر اسے گرفتار بھی کر لیتے، جاپانی اور چینی لوگے اور تبت میں رہنے والے بھکشو تو اس علم کے ماہر ہوتے اور امریکہ جاپان پر کیسے ایٹم بم گراتا کیا وہ صدرِ امریکہ کے دماغ میں گھس کر پہلے ہی یہ فیصلہ نہ جان لیتے، انڈیا کے ہندو بھگت اور جوتشی سخت ترین محنت جسے وہ عبادت سمجھتے ہیں کرت ہیں تو وہ یہ علم بھی تو سیکھ سکتے تھے اور پھر حکومتِ انڈیا نکے ذریعے مسلمانوں اور پاکستان کو ختم کردیتی، بدنامِ زمانہ اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنی کو اپنے اہلکاروں کو سخت ٹریننگ کروانے کی کیا ضرورت تھی وہ انھیں اس علم سے روشناس کرواتی اور دس بیس لوگ صرف رکھتی جو کہ اپنے ملک میں اپنے ہیڈ کوارٹر میں ہی بیٹھ کر دوسرے ملکوں کے سربراہاں ( خاص کر پاکستان ) کے دماغ میں انکی آواز یا تصویر ( جو کہ عام میسر ہوتی ہیں ) کے ذریعے انکے دماغوں میں گھس کر کھلبلی مچا سکتے تھے اور اپنی مرضی کے مطابق کام کروا سکتے تھے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ڈھونڈنے تو پھر انھیں ضرورت ہی نہیں رہتی یہ جاسوسی کے نت نئے آلات اور ان پر اتنا خرچہ کیو کیا جاتا، اگر شمس الدین عظیمی صاحب ٹیلی پیتھی اور خیال خوانی کے اتنے ماہر ہیں تو میں ان سے اپیل کرتا ہوں خدارا پاکستان کی مدد کریں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں سے تعاون کریں، ان ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تفتیش کی تو ضرورت ہی نہیں،محترمہ بینظیر کی شہادت کے وقت وہاں موجود بندوں کے دماغ میں ( تصویروں اور آواز کے ذریعے گھس ) کر قاتلوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
میرے بھائی یہ ایسا علم نہیں اگر ایسا ہی طاقت ور علم ہوتا تو دنیا تہس نہس ہو جاتی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو واقع ایک دوست نے مثال کے طور پر پیش کیا ہے تو وہ کچھ اور طاقت ہے جو کہ اللہ جسے چاہے عطا فرمائے یا پھر ان لاگوں کو عطا فرماتا ہے جو اسکے بر گزیدہ بندے ہوتے ہیں۔
عامل، کامل، جنوں والی سرکار، جناتی بابا اور یہ جگہ جگہ ملنے والے نجومی اور پیر سب ڈھنگوسلا ہیں کچھ لوگ سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے کے لیئے بنتے ہیں اور کچھ ذہنی طور پر خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں، انکی باتیں بھی جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتیں، ایسے ہوتی ہیں جیسے کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ کاش وہ بندہ اسوقت آجاتا یا یوں ہو جاتا اور وہ بندہ آجاتا ہے یا وہ کام ہوجاتا ہے، اب ذرا سوچیئے کہ کیا ہم عامل یا کامل ہوگئے، نہیں بالکل نہیں، اسی طرح جب ایسے لوگوں کی کوئی بات یا پیشنگوئی اتفاقن درست ثابت ہو جاتی ہے تو پھر لوگ نعوذ باللہ انھیں پوجنے لگتے ہیں۔
ہم کیسے مسلمان ہیں کہ قرآن جو کہ ہدایت کی کتاب ہے اسے ہم نے تعویز گنڈوں کی کتاب سمجھ لیا ہے، جو آیتیں انسان کو درست راستہ اور ٹھیک سمت دکھانے کے لیئے احکامات کے طور پر اتاری گئیں ان پر ہم عمل کرنے اور سوچنے سمجھنے کے بجائے تعویزوں کے لیئے استعمال کرنے لگے ہیں، اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ آمین۔
 

محسن حجازی

محفلین
بالکل!
لیکن راجا بھائی اکر ٹیلی پیتھی کا علم ہوتا بھی تب بھی محترمہ کے قتل کی تحقیقات نہ کروائی جاتیں کیوں کہ شبہ سا ہے کہ بھیدی کوئی گھر ہی کا تھا۔ اب اسی کو دیکھ لیجئے کہ اتنے اہم سانحہ کے بعد پوسٹ مارٹم کو آصف زرداری صاحب نے منع فرما دیا۔ ادھر جائے وقوعہ نگران پنجاب حکومت نے دھو دھلا کر صاف کر دی۔
موضوع سے ہٹنے کے لیے معذرت، آپ اصحاب گفتگو جاری رکھیے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
حجازی صاحب میں نے تو صرف ایک مثال دی تھی، بس اللہ سے دعا ہیکہ وہ محترمہ کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور قاتلوں کو نیست و نابود کرے، قاتل قتل کر کے صرف ایک قتل ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اس شخص کی خواہشوں اس سے وابستہ لوگوں کی توقعات کو بھی قتل کر دیتا ہے، ایک سلسلے کو منقطع کر دیتا ہے، سو میرے نزدیک ایک قتل کئی قتلوں کے برابر ہے، اللہ ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ سارا فتور 'دیوتا' کا اور اسکے مصنف کا پھیلایا ہوا ہے، 'کمرشل ازم' نے نوجوانوں کو کیسے کیسے خواب دے دیے۔

جب کبھی میں میں اسے پڑھا کرتا تھا تو سوچتا تھا کہ ٹیلی پیتھی سیکھ کر کیا کیا کرونگا، ہائے ہائے مار ڈالا، کیا کیا یاد آ گیا، اُف۔ :)

'نوجوانوں' سے استدعا ہے کہ 'دیوتا' بے شک پڑھتے رہیں اور ذہن میں 'مزے مزے' کے منصوبے بھی بناتے رہیں لیکن اس کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں، اس میں کچھ نہیں ہے۔ اصلی ٹیلی پیتھی شادی کے بعد شروع ہوتی ہے جب آپ دفتر میں بھی 'کچھ' سوچیں تو گھر میں بیوی کو اسکی خبر ہو جاتی ہے۔ ;)
 
یہ سارا فتور 'دیوتا' کا اور اسکے مصنف کا پھیلایا ہوا ہے، 'کمرشل ازم' نے نوجوانوں کو کیسے کیسے خواب دے دیے۔

جب کبھی میں میں اسے پڑھا کرتا تھا تو سوچتا تھا کہ ٹیلی پیتھی سیکھ کر کیا کیا کرونگا، ہائے ہائے مار ڈالا، کیا کیا یاد آ گیا، اُف۔

'نوجوانوں' سے استدعا ہے کہ 'دیوتا' بے شک پڑھتے رہیں اور ذہن میں 'مزے مزے' کے منصوبے بھی بناتے رہیں لیکن اس کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں، اس میں کچھ نہیں ہے۔ اصلی ٹیلی پیتھی شادی کے بعد شروع ہوتی ہے جب آپ دفتر میں بھی 'کچھ' سوچیں تو گھر میں بیوی کو اسکی خبر ہو جاتی ہے۔


دیوتا نے بہت فتور پھیلایا ہے مگر اس میں اس علم کا کوئی قصور نہیں ہے یہ ایک فکشن لکھنے والے کی کارستانی ہے جو ایک عمومی صلاحیت کو ایک دیومالائی قسم کی طاقت میں تبدیل کر کے دکھا دیتا ہے ۔ لہذا زندگی فکشن نہیں ہے اور نہ ہی فکشن زندگی ہے ۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں انہیں الگ الگ ہی رکھیں تو بہتر ہے ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
یہ سارا فتور 'دیوتا' کا اور اسکے مصنف کا پھیلایا ہوا ہے، 'کمرشل ازم' نے نوجوانوں کو کیسے کیسے خواب دے دیے۔

جب کبھی میں میں اسے پڑھا کرتا تھا تو سوچتا تھا کہ ٹیلی پیتھی سیکھ کر کیا کیا کرونگا، ہائے ہائے مار ڈالا، کیا کیا یاد آ گیا، اُف۔ :)

'نوجوانوں' سے استدعا ہے کہ 'دیوتا' بے شک پڑھتے رہیں اور ذہن میں 'مزے مزے' کے منصوبے بھی بناتے رہیں لیکن اس کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں، اس میں کچھ نہیں ہے۔ اصلی ٹیلی پیتھی شادی کے بعد شروع ہوتی ہے جب آپ دفتر میں بھی 'کچھ' سوچیں تو گھر میں بیوی کو اسکی خبر ہو جاتی ہے۔ ;)
ہائے ہائے وارث صاحب ہم نے بھی دیوتا کے سحر میں بڑے منصوبے بنائے تھے، اور شادی کے بعد والی بات کیا سچی بات کی ہے، واقعی بیویاں ٹیلی پیتھی کی ماہر ہوتی ہیں اور ہپناٹزم تو جیسے ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے کیسے ہپناٹائز کر کے شوہر سے اپنی بات منوا لیتی ہیں،،،،،، توبہ توبہ یہ میں کیا کہہ گیا کہیں ہماری ملکہ صاحبہ نہ پڑھ لیں اور ڈر ہیکہ وہ ٹیلی پیتھی کی ماہرہ کہیں ہمارے دماغ کو ہی نہ پڑھ لیں،،،، بھاگگگگگگگو
 

جہانزیب

محفلین
دیوتا تو ایک دیومالائی طرز کا افسانہ ہے، میں بہت شوق سے پڑھتا رہا ہوں ۔ میرے ذاتی خیال میں جیسے جاپانی اینمیٹڈ کارٹون نے دنیا پر سحر کیا ہوا ہے، اردو میں اگر ایسی کوئی کوشش کرے اور کہانی دیوتا کی ہو تو زبردست ہٹ ہو گا ۔
اور اگر ٹیلی پیتھی اتنا ہی مستند علم ہوتا، تو دنیا کی کسی نہ کسی یونیورسٹی میں ضرور پڑھایا جاتا ۔
 
دیوتا تو ایک دیومالائی طرز کا افسانہ ہے، میں بہت شوق سے پڑھتا رہا ہوں ۔ میرے ذاتی خیال میں جیسے جاپانی اینمیٹڈ کارٹون نے دنیا پر سحر کیا ہوا ہے، اردو میں اگر ایسی کوئی کوشش کرے اور کہانی دیوتا کی ہو تو زبردست ہٹ ہو گا ۔
اور اگر ٹیلی پیتھی اتنا ہی مستند علم ہوتا، تو دنیا کی کسی نہ کسی یونیورسٹی میں ضرور پڑھایا جاتا ۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ کے کیون وارویک کے متعلق اگر کچھ معلومات اٹھی کر سکیں تو بہتر ہوگا ۔ یہ حضرت آپ سے نہ صرف مختلف رائے رکھتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں ہونے والی سائینسی ریسرچ اور ٹیلی پیتھی کی ایک شاخ جسے ٹیکلی پیتھی کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے بڑے ریسرچرز میں ہیں ۔ اور ان کے مطابق آلات کی مدد سے ہونے والی ٹیلی پیتھی یا ٹیکلی پیتھی آنے والے کل میں انسانیت کے لئے التزامی نوعیت رکھتی ہوگی ۔ یہ حضرت صرف نام سے ہی نہیں بلکہ سائبرنیٹکس کی فیلڈ میں جانے پہچانے عنلی کارکن ہیں
 
Top