خوشی (فرح) کا ذکر قرآن مجید میں

ام اویس

محفلین
خوشی کا مفہوم بیان کرنے کے لیے عربی زبان میں بہت سے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک الفرح ہے۔
فرح سے مراد وہ جذبہ ہے جو انسانی ذہن کامیابی کی صورت میں محسوس کرتا ہے۔
انسانی ذہن پسندیدہ باتوں سے بھی خوش ہوتا ہے اور بعض اوقات ناپسندیدہ امور بھی اس کی خوشی کا سبب بن سکتے ہیں ، خواہ وہ عارضی ہی ہو۔
لفظ فرح میں بھی خوشی اور ناخوشی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کام کسی کے لیے سبب خوشی ہو اور کسی کے لیے وجہ غم
یوں تو قرآن مجید میں لفظ الفرح (خوشی ) اپنے مشتقات کے ساتھ اکیس مقامات پر ہے لیکن اچھے معنوں میں خوشی کے اظہار کے لیے صرف دو جگہ پر ہے۔

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
اردو:
کہدو کہ یہ کتاب اللہ کے فضل اور اسکی مہربانی سے نازل ہوئی ہے تو چاہیے کہ لوگ اس سے خوش ہوں یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
تفسیر مکی:
خوشی، اس کیفیت کا نام ہے جو کسی مطلوب چیز کے حصول پر انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اللہ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے، اس پر اہل ایمان کو خوش ہونا چاہیے یعنی ان کے دلوں میں فرحت اور اطمینان کی کفییت ہونی چاہیے۔
یونس:58

فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ
اردو:
چند ہی سال میں۔ پہلے بھی اور بعد میں بھی اللہ ہی کا حکم ہے اور اس روز مومن خوش ہو جائیں گے۔
الروم:4
 

اکمل زیدی

محفلین
محترمہ ایک بات تو بتائیں اگر آپ کے علم میں ہو تو میرے علم میں بھی اضافے کا باعث بنے گی وہ یہ کے سورہ رحمٰن میں زیادہ تر نعمتوں کا ذکر ہے اور اس میں جہنم کا بھی ذکر ہے تو سنا ہے کے وہ ذکر بھی نعمتوں کے ذکر میں آئے گا اس کی وضاحت یہ کی گئی کہ اکثر انسان نیکیوں کی طرف راغب جہنم کے خوف سے بھی ہوتا ہے تو یہاں جہنم کا ذکر اس نعمیت کی زمرے میں کہہ سکتے ہیں۔۔۔
عمران بھائی قبلہ آپ بھی تھوڑا روشنی ڈالیں ۔۔
 

سید عمران

محفلین
محترمہ ایک بات تو بتائیں اگر آپ کے علم میں ہو تو میرے علم میں بھی اضافے کا باعث بنے گی وہ یہ کے سورہ رحمٰن میں زیادہ تر نعمتوں کا ذکر ہے اور اس میں جہنم کا بھی ذکر ہے تو سنا ہے کے وہ ذکر بھی نعمتوں کے ذکر میں آئے گا اس کی وضاحت یہ کی گئی کہ اکثر انسان نیکیوں کی طرف راغب جہنم کے خوف سے بھی ہوتا ہے تو یہاں جہنم کا ذکر اس نعمیت کی زمرے میں کہہ سکتے ہیں۔۔۔
عمران بھائی قبلہ آپ بھی تھوڑا روشنی ڈالیں ۔۔
جب جہنم کا عینی مشاہدہ ہوجائے گا تب احساس ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اس خطرہ سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔ اس سے بچنے کے طریقے اور راستے بھی بتادئیے تھے۔ تب آگاہی کی اس عظیم الشان نعمت کی قدر ہوگی۔ تب ان راستوں کی نعمتوں کی قدر ہوگی جن پر چلنے والے چلتے چلتے جنت میں اتر رہے ہیں اور بھٹکنے والے جہنم میں گر رہے ہیں۔ (فی امان اللہ)
 

سیما علی

لائبریرین
جب جہنم کا عینی مشاہدہ ہوجائے گا تب احساس ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اس خطرہ سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔ اس سے بچنے کے طریقے اور راستے بھی بتادئیے تھے۔ تب آگاہی کی اس عظیم الشان نعمت کی قدر ہوگی۔ تب ان راستوں کی نعمتوں کی قدر ہوگی جن پر چلنے والے چلتے چلتے جنت میں اتر رہے ہیں اور بھٹکنے والے جہنم میں گر رہے ہیں۔ (فی امان اللہ)
بے شک بے شک یہی آگاہی پروردگار کی بہترین نعمت ہے ۔ہر دم دعا ہے کہ مالک ہم کو اس نعمت سے نواز دے ۔۔اور ہر سانس کے ساتھ جہنم سے خوفزدہ رہیں اور اُس سے بچنے میں کوشاں رہیں۔۔۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اے کاش ہمیں مہلت میں مہلت کی قدر ہو جائے اور اس مہلت کا حق ادا کرنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کریں اور دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری کوتاہیوں کو درگزر فرمائیں۔ اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمارا انجام اپنے پیارے لوگوں کے ساتھ فرمائے۔ آمین
 

سیما علی

لائبریرین
اے کاش ہمیں مہلت میں مہلت کی قدر ہو جائے اور اس مہلت کا حق ادا کرنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کریں اور دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری کوتاہیوں کو درگزر فرمائیں۔ اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمارا انجام اپنے پیارے لوگوں کے ساتھ فرمائے۔ آمین
آمین الہی آمین
 

سید عمران

محفلین
اے کاش ہمیں مہلت میں مہلت کی قدر ہو جائے اور اس مہلت کا حق ادا کرنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کریں اور دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری کوتاہیوں کو درگزر فرمائیں۔ اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمارا انجام اپنے پیارے لوگوں کے ساتھ فرمائے۔ آمین
وتوفنا مع الأبرار ۔۔۔
آمین!!!
 

عرفان سعید

محفلین
محترمہ ایک بات تو بتائیں اگر آپ کے علم میں ہو تو میرے علم میں بھی اضافے کا باعث بنے گی وہ یہ کے سورہ رحمٰن میں زیادہ تر نعمتوں کا ذکر ہے اور اس میں جہنم کا بھی ذکر ہے تو سنا ہے کے وہ ذکر بھی نعمتوں کے ذکر میں آئے گا اس کی وضاحت یہ کی گئی کہ اکثر انسان نیکیوں کی طرف راغب جہنم کے خوف سے بھی ہوتا ہے تو یہاں جہنم کا ذکر اس نعمیت کی زمرے میں کہہ سکتے ہیں۔۔۔
عمران بھائی قبلہ آپ بھی تھوڑا روشنی ڈالیں ۔۔
غالبا آپ کا سوال سورہ الرحمن میں جہنم کے ذکر کے بعد مسلسل وارد ہونے والی آیت
فبای آلآء ربکما تکذبن
کے ترجمے
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
کے تناظر میں ہے؟
 

اکمل زیدی

محفلین
جب جہنم کا عینی مشاہدہ ہوجائے گا تب احساس ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اس خطرہ سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔ اس سے بچنے کے طریقے اور راستے بھی بتادئیے تھے۔ تب آگاہی کی اس عظیم الشان نعمت کی قدر ہوگی۔ تب ان راستوں کی نعمتوں کی قدر ہوگی جن پر چلنے والے چلتے چلتے جنت میں اتر رہے ہیں اور بھٹکنے والے جہنم میں گر رہے ہیں۔ (فی امان اللہ)
بہت خوب سر جی ۔۔۔ آپ سے اسی جامع جواب کی امید تھی ۔ ۔۔ ۔ لیکن یہ احساس مشاہدے سے پہلے خدا کرا دے تو یہ احسان ہے اس کا ۔ ۔ ۔۔
 

سید عمران

محفلین
یہ احساس مشاہدے سے پہلے خدا کرا دے تو یہ احسان ہے اس کا ۔ ۔ ۔۔
قرآن و حدیث اسی مشاہدہ کا احساس پیدا کرنے کی تکرار سے بھرے ہوئے ہیں۔۔۔
مگر انسان اکڑ دکھاتا ہے، خدا و رسول کی بات نہیں مانتا ہے تو سراسر قصور اسی کا ہوا۔۔۔
یاد نہیں مشرکین مکہ مل بیٹھ کر حضور کی ذات میں جان بوجھ کر برائیاں تلاش کرتے تھے۔۔۔
لیکن تھک ہار کر وہ بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے کہ آپ تمام برائیوں، تمام نقائص سے پاک ہیں۔۔۔
پھر وہ اپنی طرف سے آپ سے جھوٹی برائیاں منسوب کرتے تھے۔۔۔
یہ ضد خدا اور رسول کی مسلط کردہ نہیں ان کی اپنی پیدا کردہ تھی۔۔۔
یہی حال تمام نا ماننے والوں کا ہے کہ صاف صاف نشانیوں کو عقل سے سمجھنے اور تسلیم کرنے کے باوجود اندر ہی اندر دل سے رد کرتے رہتے ہیں!!!
 

اکمل زیدی

محفلین
قرآن و حدیث اسی مشاہدہ کا احساس پیدا کرنے کی تکرار سے بھرے ہوئے ہیں۔۔۔
مگر انسان اکڑ دکھاتا ہے، خدا و رسول کی بات نہیں مانتا ہے تو سراسر قصور اسی کا ہوا۔۔۔
یاد نہیں مشرکین مکہ مل بیٹھ کر حضور کی ذات میں جان بوجھ کر برائیاں تلاش کرتے تھے۔۔۔
لیکن تھک ہار کر وہ بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے کہ آپ تمام برائیوں، تمام نقائص سے پاک ہیں۔۔۔
پھر وہ اپنی طرف سے آپ سے جھوٹی برائیاں منسوب کرتے تھے۔۔۔
یہ ضد خدا اور رسول کی مسلط کردہ نہیں ان کی اپنی پیدا کردہ تھی۔۔۔
یہی حال تمام نا ماننے والوں کا ہے کہ صاف صاف نشانیوں کو عقل سے سمجھنے اور تسلیم کرنے کے باوجود اندر ہی اندر دل سے رد کرتے رہتے ہیں!!!
حق ہے ۔۔۔جزاک اللہ ۔۔
 

عرفان سعید

محفلین
یہ تمام اشکال آیت میں وارد ہونے والے لفظ“آلاء“ کے مفہوم کو محض “نعمتوں“ کے مفہوم تک محدود کر دینے سے واقع ہوتا ہے۔
وہ تمام مقامات جہاں یہ آیت وارد ہوئی ہے وہاں اکثر مقامات پر یہ ترجمہ بالکل بر محل ہے، اگرچہ ہر مقام پر نعمتوں کا مفہوم لیکر دور دراز کی تاویل کی جا سکتی ہے۔ لیکن سورہ کا وہ حصہ کہ جس میں روزِ قیامت اور جزا کا تذکرہ ہے، وہاں “آلاء“ کا ترجمہ “نعمتیں“ اجنبی اور آیات کے مضمون سے بے ربط اور بے محل محسوس ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان آیات میں تو نعمت کا مفہوم لینے کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔
يُعۡرَفُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ بِسِيۡمٰهُمۡ فَيُؤۡخَذُ بِالنَّوَاصِىۡ وَ الۡاَقۡدَامِۚ‏ ﴿55:41﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:42﴾ هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِىۡ يُكَذِّبُ بِهَا الۡمُجۡرِمُوۡنَۘ‏ ﴿55:43﴾ يَطُوۡفُوۡنَ بَيۡنَهَا وَبَيۡنَ حَمِيۡمٍ اٰنٍۚ‏ ﴿55:44﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
یہاں عذاب کا مضمون چل رہا ہے اور قرآن کے عام اسلوب میں ہمیشہ نعمت کے مقابلے میں غضب (سورۃ الفاتحہ) یا عذاب کا تذکرہ لایا جاتا ہے۔ اگرچہ بیشتر مترجمین اور مفسرین نے یہاں نعمت کے مفہوم کے ساتھ تاویل کی ہے جس کی نوعیت دور ازکار جیسی تاویل کی ہی ہے۔
میرے مطالعے کی حد تک، “آلاء“ کے مفہوم کی الجھن کو سب سے بہترین طریقے سے حمید الدین فراہی نے اپنی کتاب مفردات القرآن (صفحہ 17 تا 19) میں سلجھایا ہے۔ یہ کتاب عربی میں ہے اس لیے عام لوگوں کی اس تک رسائی نہیں، لیکن حمید الدین فراہی کے شاگردِ رشید امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر تدبر القرآن (جلد 8 صفحہ 120اور 121) میں اس نقطۂ نظر کی وضاحت کر دی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
“آلاء“ کا مفہوم نعمتوں کے علاوہ قدرت (کمالاتِ قدرت یا عجائبِ قدرت)، شان، نشانی، کرشمہ، کارنامہ، اعجوبہ اور اوصافِ حمیدہ اور کمالات و فصائل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کی تائید دورِ جاہلیت کے کلام کے نظائر سے ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اسی رائے کا لحاظ رکھتے ہوئے سید مودودی نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں “آلاء“ کا ترجمہ ہر آیت کے مضمون کی مناسبت سے کیا ہے، جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
 
Top