دوسری طرف ایک غزل تھی۔ آج تقریباً 50 سال بعد بھی اس کے دو شعر من و عن یاد ہیں:
گلشن گلشن دام بہت ہیں
اب یہ منظر عام بہت ہیں
مے خانے آباد ہیں دل کے
ٹوٹے پھوٹے جام بہت ہیں
۔۔۔ شاعر کا نام مت پوچھئے گا۔ تب اتنا شعور ہی نہیں تھا کہ شاعر کا نام کتنا اہم ہوتا ہے۔

کوئی دوست یہ بتائیں گے؟ کہ یہ شعر ہیں کس کے؟ انداز تو عبدالحمید عدم کا سا ہے۔

جناب الف عین
 
ایک مزیدار واقعہ ہمیں بھی یاد ہے جو ہماری پہلی نوکری کے زمانے کا ہے۔ اس وقت ہم کراچی میں ٹرینی انجینئر کے طور پر کام کررہے تھے۔ ہمارے ایک ساتھی ٹرینی انجینئر کو کسی کام سے اندرونِ سندھ کے ایک ہسپتال بھیجا گیا۔ رخصت کرتے ہوئے ہمارے باس نے انہیں ایک بل کی رقم کا کراسڈچیک بھی وصول کرکے ساتھ لانے کے لیے کہا۔ ہمارے بھولے دوست نے حامی بھرلی۔​
کام ختم کرکے جب وہ وہاں سے واپس چلنے لگے تو انھوں نے رقم کے چیک کا مطالہ کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہمیں رقم کا کراسڈ چیک چاہیے۔​
اب چیک تیار کرتے وقت مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ کسی کو کراسڈ چیک بنانا نہیں آتا تھا۔ مآلِ کار چیک بنایا گیا اور اس پر ایک بہت بڑا کراس لگا کر ہمارے انجینئر کو دے دیا گیا جو خوشی خوشی اس چیک کو لے کر دفتر پہنچے۔​

اب للہ مت پوچھیئے کہ دفتر میں ان کے ساتھ کیا ہوا۔​
 

عمرمختارعاجز

لائبریرین
واقعات تو بہت سے ہیں۔لیکن میں دو واقعات سنانا چاہوں گا ۔
میری ایک خالہ فیصل آباد رہتی ہیں۔انہوں نے اپنے بیٹے کو ٹماٹر لینے بھیجا اور ساتھ کہا کہ دھنیا ضرور لے کے آنا ۔میرا وہ کزن کافی دیر بعد واپس تو خالی ہاتھ تھا۔خالہ نے پوچھا کہ ٹماٹر نہیں لاے ۔کہنے لگا آپ نے خود کہا تھا کہ دھنیا ضرور لانا تو دھنیا نہیں ملا ۔اس لیے میں ٹماٹر بھی نہیں لایا ۔
اس طرح کا ایک اور واقعہ میری شیخوپورہ والی خالہ کے ساتھ بھی پیش آیا انہوں نے اپنے بیٹے کو 500 کا نوٹ دے کر کہا کہ جاو گاجریں لے آو حلوہ بنانا ہے وہ کافی دیر بعد واپس آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔دروازہ کھولا تو سامنے عجیب منطر تھا اس نے گدھا ریڑھی پر بوری لادی ہویی تھی میری خالہ دیکھ کر بہت ہنسی اور محلے میں بانٹ کر گاجریں ختم کیں۔
 
ایک مزے دار واقعہ ہمیں بھی یاد ہے جو ہماری پہلی نوکری کے زمانے کا ہے۔ اس وقت ہم کراچی میں ٹرینی انجینئر کے طور پر کام کررہے تھے۔ ہمارے ایک ساتھی ٹرینی انجینئر کو کسی کام سے اندرونِ سندھ کے ایک ہسپتال بھیجا گیا۔ رخصت کرتے ہوئے ہمارے باس نے انھیں ایک بل کی رقم کا کراسڈچیک بھی وصول کرکے ساتھ لانے کے لیے کہا۔ ہمارے بھولے دوست نے ہامی بھرلی۔​
کام ختم کرکے جب وہ وہاں سے واپس چلنے لگے تو انھوں نے رقم کے چیک کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہمیں رقم کا کراسڈ چیک چاہیے۔​
اب چیک تیار کرتے وقت مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ کسی کو کراسڈ چیک بنانا نہیں آتا تھا۔ مآلِ کار چیک بنایا گیا اور اس پر ایک بہت بڑا کراس لگا کر ہمارے انجینئر کو دے دیا گیا جو خوشی خوشی اس چیک کو لے کر دفتر پہنچے۔​

اب للہ مت پوچھیے کہ دفتر میں ان کے ساتھ کیا ہوا۔​

ہاہاہاہا۔۔۔ زبردست۔
 
آج فیس بک پر جناب محمد وارث نے ملا نورالدین ظہوری کا یہ شعر پوسٹ کیا
بَگو حدیثِ وفا، از تو باوَرست، بَگو
شَوَم فدائے دروغے کہ راست مانندست​

اور اِس فقیر سے فی البدیہہ ترجمہ سرزد ہو گیا:
یار پیار نبھان دے قول کُوڑے، ایویں چاردا ایں بار بار سانوں
انج بولدا ایں جِویں سچ ہووے، تیرے جھوٹھ تے آندا اے پیار سانوں​

احباب کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔
 
گرہ
’’نظام چاچا، شہر جا رہے ہو؟ میرے لئے ایک سیر سوجی لیتے آنا، یہ رہے پیسے‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے، پر یار بشیرے میں بھول جاتا ہوں، اگر بھول گیا تو؟‘‘
’’چاچا اپنے صافے کو گرہ لگا لو، گرہ محسوس کرو کے تو یاد آ جائے گا‘‘
’’ہاں یار، یہ بھی ٹھیک ہے‘‘ نظام چاچا نے اپنے صافے کو گرہ لگا لی اور شہر کو چل دیا۔ گھنٹہ بھر بعد چاچا ایک دکان کے تھڑے پر بیٹھا سوچ رہا تھا ’پتہ نہیں، میں نے یہ گرہ کیوں لگائی تھی‘ مگر اسے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔ تھک ہار کر اُس نے گرہ کھول دی۔

تین چار دن بعد بشیرا ملا تو چاچے سے سوجی کا پوچھا۔ چاچے کو ایک جھماکے سے سب کچھ یاد آ گیا، تاہم خفت مٹانے کو اپنی ڈَب سے پیسے نکالے اور جھلا کر بولا: ’’ایہ لے پیسے، ایڈا کاہلا ایں تے آپ لے آ جا کے‘‘۔


متلاشی
 
ملے جُلے آنسو

ابھی کوئی گھنٹہ بھر پہلے کی بات ہے۔ بہو نے کہا: ابو جی، کھانا لگا دیا ہے۔ لاؤنج میں ایک چھوٹی سی میز پر میرا اکیلے کا کھانا لگا ہوا تھا۔ میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ برآمدے میں چھوٹے دونوں (پوتا: عبدالباسط، اور پوتی: وَردَہ) بیٹھے دکھائی دئے۔ وردہ چھوٹی ہے، دونوں کی عمروں میں یہی کوئی پندرہ دن کا فرق ہے (دونوں گزشتہ برس اگست میں پیدا ہوئے)۔
منظر کچھ یوں ہے۔

عبدالباسط زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے، اس کی گود میں بڑی بہن (مدیحہ) کی پکچر بُک رکھی ہے، ایک ایک تصویر پر انگلی رکھتا ہے
اور بہت جوشیلے انداز میں کچھ کہتا جاتا ہے۔ وَردَہ اس کے پاس خاموش بیٹھی پورے انہماک سے پکچر بُک کو دیکھ رہی ہے
اور گاہے گاہے عبدالباسط کے چہرے کی طرف دیکھ لیتی ہے،
جیسے کوئی ہونہار شاگرد کوئی مشکل سوال سمجھ رہا ہو۔
چھوٹی بہو (عبدالباسط کی ماں) کچن کی جالی سے بچوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے۔​

یہ منظر دیکھ کر میرا تشکر دل کو لبریز کرکے آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ بڑی بہو (وردہ کی ماں) پانی لے کر آتی ہے، میں اُس کی توجہ بچوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں مگر الفاظ میرا ساتھ نہیں دیتے۔ بہو کی نظریں میری انگلی کے اشارہ کے پیچھے ’’ننھے استاد شاگرد‘‘ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔

’’آج اِن کی دادی زندہ ہوتی تو اس کے ماتھے کی دمک اور آنکھوں کی چمک کس قدر جاں فزا ہوتی! ‘‘ اس خیال کے ساتھ ہی میرے آنسووں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔



مدیحہ گیلانی
 
آخری تدوین:
واقعات تو بہت سے ہیں۔لیکن میں دو واقعات سنانا چاہوں گا ۔
میری ایک خالہ فیصل آباد رہتی ہیں۔انہوں نے اپنے بیٹے کو ٹماٹر لینے بھیجا اور ساتھ کہا کہ دھنیا ضرور لے کے آنا ۔میرا وہ کزن کافی دیر بعد واپس تو خالی ہاتھ تھا۔خالہ نے پوچھا کہ ٹماٹر نہیں لاے ۔کہنے لگا آپ نے خود کہا تھا کہ دھنیا ضرور لانا تو دھنیا نہیں ملا ۔اس لیے میں ٹماٹر بھی نہیں لایا ۔
اس طرح کا ایک اور واقعہ میری شیخوپورہ والی خالہ کے ساتھ بھی پیش آیا انہوں نے اپنے بیٹے کو 500 کا نوٹ دے کر کہا کہ جاو گاجریں لے آو حلوہ بنانا ہے وہ کافی دیر بعد واپس آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔دروازہ کھولا تو سامنے عجیب منطر تھا اس نے گدھا ریڑھی پر بوری لادی ہویی تھی میری خالہ دیکھ کر بہت ہنسی اور محلے میں بانٹ کر گاجریں ختم کیں۔
۔۔۔ پانچ سو روپے میں بوری بھر گاجریں!!!! ؟ اور وہ بھی گدھا ریڑھی پر؟۔۔۔
کس زمانے کی بات کرتے ہو
دل لُبھانے کی بات کرتے ہو
 

عمر سیف

محفلین
ملے جُلے آنسو

ابھی کوئی گھنٹہ بھر پہلے کی بات ہے۔ بہو نے کہا: ابو جی، کھانا لگا دیا ہے۔ لاؤنج میں ایک چھوٹی سی میز پر میرا اکیلے کا کھانا لگا ہوا تھا۔ میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ برآمدے میں چھوٹے دونوں (پوتا: عبدالباسط، اور پوتی: وَردَہ) بیٹھے دکھائی دئے۔ وردہ چھوٹی ہے، دونوں کی عمروں میں یہی کوئی پندرہ دن کا فرق ہے (دونوں گزشتہ برس اگست میں پیدا ہوئے)۔
منظر کچھ یوں ہے۔

عبدالباسط زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے، اس کی گود میں بڑی بہن (مدیحہ) کی پکچر بُک رکھی ہے، ایک ایک تصویر پر انگلی رکھتا ہے
اور بہت جوشیلے انداز میں کچھ کہتا جاتا ہے۔ وَردَہ اس کے پاس خاموش بیٹھی پورے انہماک سے پکچر بُک کو دیکھ رہی ہے
اور گاہے گاہے عبدالباسط کے چہرے کی طرف دیکھ لیتی ہے،
جیسے کوئی ہونہار شاگرد کوئی مشکل سوال سمجھ رہا ہو۔
چھوٹی بہو (عبدالباسط کی ماں) کچن کی جالی سے بچوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے۔​

یہ منظر دیکھ کر میرا تشکر دل کو لبریز کرکے آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ بڑی بہو (وردہ کی ماں) پانی لے کر آتی ہے، میں اُس کی توجہ بچوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں مگر الفاظ میرا ساتھ نہیں دیتے۔ بہو کی نظریں میری انگلی کے اشارہ کے پیچھے ’’ننھے استاد شاگرد‘‘ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔

’’آج اِن کی دادی زندہ ہوتی تو اس کے ماتھے کی دمک اور آنکھوں کی چمک کس قدر جاں فزا ہوتی! ‘‘ اس خیال کے ساتھ ہی میرے آنسووں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔



مدیحہ گیلانی
:)
آسی سر خوش رہیں۔
 

فلک شیر

محفلین
ملے جُلے آنسو

ابھی کوئی گھنٹہ بھر پہلے کی بات ہے۔ بہو نے کہا: ابو جی، کھانا لگا دیا ہے۔ لاؤنج میں ایک چھوٹی سی میز پر میرا اکیلے کا کھانا لگا ہوا تھا۔ میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ برآمدے میں چھوٹے دونوں (پوتا: عبدالباسط، اور پوتی: وَردَہ) بیٹھے دکھائی دئے۔ وردہ چھوٹی ہے، دونوں کی عمروں میں یہی کوئی پندرہ دن کا فرق ہے (دونوں گزشتہ برس اگست میں پیدا ہوئے)۔
منظر کچھ یوں ہے۔

عبدالباسط زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے، اس کی گود میں بڑی بہن (مدیحہ) کی پکچر بُک رکھی ہے، ایک ایک تصویر پر انگلی رکھتا ہے
اور بہت جوشیلے انداز میں کچھ کہتا جاتا ہے۔ وَردَہ اس کے پاس خاموش بیٹھی پورے انہماک سے پکچر بُک کو دیکھ رہی ہے
اور گاہے گاہے عبدالباسط کے چہرے کی طرف دیکھ لیتی ہے،
جیسے کوئی ہونہار شاگرد کوئی مشکل سوال سمجھ رہا ہو۔
چھوٹی بہو (عبدالباسط کی ماں) کچن کی جالی سے بچوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے۔​

یہ منظر دیکھ کر میرا تشکر دل کو لبریز کرکے آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ بڑی بہو (وردہ کی ماں) پانی لے کر آتی ہے، میں اُس کی توجہ بچوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں مگر الفاظ میرا ساتھ نہیں دیتے۔ بہو کی نظریں میری انگلی کے اشارہ کے پیچھے ’’ننھے استاد شاگرد‘‘ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔

’’آج اِن کی دادی زندہ ہوتی تو اس کے ماتھے کی دمک اور آنکھوں کی چمک کس قدر جاں فزا ہوتی! ‘‘ اس خیال کے ساتھ ہی میرے آنسووں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔



مدیحہ گیلانی
جو منظر کشی آپ نے کی ہے میں نے چشم تصور میں گویا خود دیکھا یقین کریں آنسو نکل آئے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
کچھ دن قبل میں اپنے کالج کے سرور کا معائینہ کرنے گیا تو وہاں تہہ خانے میں دیوار پر چپکا ایک کاغذ دکھائی دیا۔ اسے پڑھا تو وہ کچھ ایسے تھا

چند مشورے، کمپیوٹر سپورٹ ٹیم کی طرف سے

- جب آپ اپنے کمپیوٹر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرانا چاہیں تو اس امر کو یقینی بنا لیں کہ آپ کے مانیٹر، کمپیوٹر اور ہر ممکنہ جگہ پر پھول، بچوں اور بلی و دیگر گھریلو جانوروں کی تصاویر لگی ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہم لوگوں کی اپنی زندگی تو ہوتی نہیں، اس لئے یہ جان کر خوش ہو جائیں گے کہ آپ کی زندگی اتنی اچھی جا رہی ہے
- کمپیوٹر پر جب بھی کوئی ایرر میسج آئے تو اسے ہرگز ہرگز نہ نوٹ کریں۔ ہم لوگوں کے پاس قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ہم کمپیوٹر کی کالی سکرین دیکھ کر مسئلہ سمجھ جاتے ہیں
- جب ہم آپ کو بتائیں کہ ہم آ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کافی کے لئے چلے جائیے۔ آپ کے دفتر کے 300 افراد کے سکرین سیورز کے پاس ورڈ ہمیں یاد ہوتے ہیں
- جب بھی ہمیں کال کریں اور بتائیں کہ آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں تو ہرگز ہرگز یہ نہ بتائیے کہ کس ایرر کی وجہ سے آپ ایسا نہیں کر پا رہے
- جب ہم آپ کو ہنگامی بنیادوں پر کوئی ای میل کریں تو اسے پڑھے بغیر ضائع کر دیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم محض ٹیسٹنگ کر رہے ہوں؟
- جب ہم لوگ کھانا کھا رہے ہوں تو اپنے سارے مسائل کی گٹھڑی لے کر ہمارے سامنے بیٹھ جائیے۔ ظاہر ہے کہ ہماری پیدائش صرف آپ کی خدمت کرنے کو ہوئی ہے تو پھر کیا حرج ہے
- جب کوئی کام عجلت میں کرانا چاہیں تو بڑی اے بی سی میں لکھ کر ای میل کریں۔ اس سے سرور کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ والی ای میل فوری طور پر ہمیں پہنچا دے
- جب فوٹو سٹیٹ مشین کام نہ کر رہی ہو تو ہمیں فون کر لیجئے۔ ظاہر ہے کہ فوٹو سٹیٹ مشین میں بھی کچھ نہ کچھ کمپیوٹر ہوتا ہی ہے
- جب آپ کے گھر میں کمپیوٹر پر کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے تو فوراً ہمیں فون کر لیں۔ ہمارے پاس جادو کی چھڑی ہوتی ہے کہ ہم دفتر بیٹھے بیٹھے آپ کے گھریلو پی سی کو ٹھیک کر سکتے ہیں
- جب آپ کا مانیٹر خراب ہو جائے تو ہمیں کال کیجیئے۔ ظاہر ہے کہ ری سائیکل کی ذمہ داری بھی ہم لوگوں پر عائد ہوتی ہے
- جب بھی کمپیوٹر خراب ہو تو فوراً اسے اٹھا کر ہمارے دفتر چھوڑ جائیے۔ ہرگز یہ نہ بتائیے کہ آپ کا نام، عہدہ، ڈیپارٹمنٹ، فون نمبر یا یہ کہ خرابی کیا ہے۔ اس سے ہمیں مزید محنت کرنے کی ترغیب ملے گی
- جب ہم آپ کو یہ بتائیں کہ مانیٹر سکرین میں ہرگز سیاہی کا کارٹریج نہیں ہوتا، کبھی بھی یقین نہ کیجئے۔ اس سے ہمیں اپنے کام سے مزید لگن پیدا ہوتی ہے
- جب ہم وعدہ کریں کہ ہم تھوڑی دیر تک آ جائیں گے، فوراً سڑا سا منہ بنا کر پوچھیئے کہ "اوہو، تھوڑی دیر کتنے ہفتے بعد پوری ہوگی"۔ اس سے ہمارا دل چاہے گا کہ فوراً پہنچیں
- جب پرنٹر فائل کو پرنٹ نہ کرے تو کم از کم بیس بار مزید وہی فائل دوبارہ بھیجیں۔ اکثر بلیک ہول آپ کی فائلوں کو نگل جاتے ہیں۔ بیس بار بھیجنے سے کوئی نہ کوئی فائل عین ممکن ہے کہ بلیک ہول سے بچ جائے؟
- اگر بیس بار بھیجنے پر بھی پرنٹر کام نہ کرے تو پھر اپنے دفتر کے دیگر 69 پرنٹروں کو یہ فائل بھیج دیجیئے۔ ظاہر ہے کہ کوئی نہ کوئی پرنٹر تو بلیک ہول کی زد سے باہر ہوگا
- کبھی بھی، کسی بھی قیمت پر، کمپیوٹر یا پروگرام کے حصوں کے نام نہ یاد کیجئے۔ جب آپ فون پر ہمیں کہیں گے کہ "یار یہ کام نہیں کر رہا" ہمیں فوراً علم ہو جائے گا کہ خرابی کہاں ہے
- پروگرام یا کمپیوٹر پر موجود ہیلپ کو کبھی بھول کر بھی ہاتھ نہ لگائیے۔ یہ ہیلپ صرف ذہنی طور پر معذور افراد کے لئے بنائی جاتی ہے اور اس میں رنگ برنگے کارٹون ہی تو ہوتے ہیں
- اگر ماؤس کی تار بار بار کی بورڈ یا دیگر امور میں حرج پیدا کر رہی ہو تو اسے مانیٹر کے نیچے دبا دیں۔ ظاہر ہے کہ بیس کلو جتنا وزنی مانیٹر ماؤس کی تار کا کیا بگاڑ سکتا ہے
- اگر سپیس بار کام چھوڑ جائے تو اس کا الزام ہمارے سر لگا دیں کہ دو ہفتے قبل ہم نے ونڈوز کو اپ ڈیٹ کیا تھا جس کے بعد یہ خرابی ہوئی ہے
- کیا آپ کو علم ہے کہ آپ کے کی بورڈ کی کیز کو ڈبل روٹی کے ٹکڑوں اور پیپسی اور کافی کے قطروں سے کتنی محبت ہے
- جب پاپ اپ سکرین پر لکھا آئے کہ کیا آپ واقعی یہ کام کرنا چاہتے ہیں، فوراً یس کا بٹن دبا دیں۔ خوامخواہ پیغام پڑھنے کا فائدہ؟
- جب ہم میں سے کوئی بھی بندہ فون پر اپنے گھر بات کر رہا ہو تو فوراً بغیر پوچھے میز کے کنارے پر ٹک جائیے اور ہمیں گھورتے رہیئے۔ ظاہر ہے کہ ہماری اپنی تو کوئی زندگی ہے ہی نہیں
- جب ہم آپ کو کسی تکنیکی تفصیل سے آگاہ کریں تو فوراً جماہی لے کر کہیئے "یار یہ سب بکواس ہے۔ مجھے ککھ پلے نہیں پڑ رہا"۔ ہم آپ کو کیسے بتائیں کہ ہماری محنت کو جب بکواس کہا جائے تو ہمیں کتنی دلی خوشی ہوتی ہے
- جب پرنٹر کا سیاہی کا کارٹریج بدلنا ہو تو فوراً ہمیں فون کیجیئے۔ ایچ پی کمپنی کا حکم ہے کہ اتنا مشکل کام صرف وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے پاس کوانٹم مکینکس کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ہو
- جب آپ کو مطلوبہ بندہ نہ مل رہا ہو تو ہمیں فون کر کے تلاش کرنے پر لگا دیجئے
- جب کئی برس قبل ناکارہ کمپیوٹر کا پاس ورڈ یاد نہ ہو تو فوراً ہمیں فون کیجئے۔ ہم لوگ پیدائشی ہیکر ہوتے ہیں
- جب کمپیوٹر کام چھوڑ جائے تو سیکریٹری کو فون کر کے حکم دیجیئے کہ وہ ہمیں اس بارے بتائے۔ ظاہر ہے کہ سیکریٹری کو اپنے کمرے میں بیٹھے بٹھائے آپ کے کمپیوٹر کی خرابی کے بارے تمام تر تفصیلات پتہ ہوں گی
- جب آپ کو کوئی بڑی وڈیو فائل جو کئی میگا بائٹس پر مشتمل ہو، ملے تو فوراً پورے دفتر کو ای میل میں فارورڈ کر دیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے ہمارے انٹرانیٹ پر کوئی فرق نہیں پڑنا اور ہمارے پاس ڈسک پر ہمیشہ ان فائلوں کے لئے جگہ موجود رہتی ہے
- جب آفس میں رش لگا ہو، عین اسی وقت کئی سو یا اگر ممکن ہو تو ہزار دو ہزار صفحات پرنٹ کرنا شروع کر دیں۔ ظاہر ہے کہ آپ سے زیادہ پرنٹر پر کس کا حق ہے
- جب کمپیوٹر سے متعلق کوئی چیز پوچھنی ہو تو اس کا نام وغیرہ ہرگز یاد نہ کریں۔ بار بار یہی کہتے رہیں کہ وہ کیا بات تھی جو میں نے پوچھنی تھی
- ظاہر ہے ہم جیسے نکمے بندے فوری تو مدد کو نہیں پہنچ سکتے۔ آپ خود مسئلہ حل کرنے کی کوشش کیجئے۔ بعد ازاں آپ کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے اور اصل مسئلے تک پہنچنے تک ہم کافی چست و چالاک ہو چکے ہوں گے
- کبھی یہ نہ بتائیے کہ آپ نے کیا کیا۔ بس یہی کہہ دینا کافی ہے کہ "یہ خود ہی بند ہو گیا ہے"
 
آج فیس بک پر جناب محمد وارث نے ملا نورالدین ظہوری کا یہ شعر پوسٹ کیا
بَگو حدیثِ وفا، از تو باوَرست، بَگو
شَوَم فدائے دروغے کہ راست مانندست​

اور اِس فقیر سے فی البدیہہ ترجمہ سرزد ہو گیا:
یار پیار نبھان دے قول کُوڑے، ایویں چاردا ایں بار بار سانوں
انج بولدا ایں جِویں سچ ہووے، تیرے جھوٹھ تے آندا اے پیار سانوں​

احباب کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔
اب اس ترجمہ گا بھی کوئی ترجمہ کر دیوے تو اس اس فقیر کوبھی کچھ سمجھ آوے:)
 
Top