صاحبان و صاحبات!

ہماری روزمرہ زندگی میں کئی چھوٹی چھوٹی مگر دل چسپ اور فکر انگیز باتیں ہو جاتی ہیں۔ گھر میں کوئی بچہ، دفتر میں کوئی ساتھی، محفل میں کوئی دوست ایسی بات کر دیتا ہے، ایسا کام کر گزرتا ہے کہ ہم اس سے لطف اندوز تو ہوتے ہیں، اس میں کوئی نکتہ سامنے آ جاتا ہے۔ کسی معاشرتی رویے کی لطیف نشاندہی ہوتی ہے، کوئی تغیر نوٹ کیا جاتا ہے۔

آئیے ہم اپنی زندگی کے ایسے لمحات کی کہانیاں یہاں پیش کریں۔ واقعہ حقیقی ہونا چاہئے، کرداروں اور مقامات کے نام فرضی بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ جہاں ضروری ہو پس منظر اور پیش منظر کا حوالہ دے دیجئے، اس سے خوشہ چینی کا لطف آتا ہے۔
 

عمر سیف

محفلین
اپنے بلاگ پہ ایک کولیگ جو میرا فلیٹ میٹ بھی تھا کا واقعہ پوسٹ کیا تھا وہ یہاں شئیر کرنا چاہوں گا۔



یہاں ”عنایت سویٹس” بہت مشہور دکان ہے،جہاں سب پاکستانی چٹ پٹی اور مزےدار چیزیں کھانے کو ملتی ہیں۔پکوڑے، سموسے، دہی بھلے، فروٹ چاٹ، فالودہ، ہر قسم کی مٹھائی ۔ بحرین میں اور بھی سویٹس کی دکانیں ہیں پر عنایت سویٹس کا کوئی ثانی نہیں۔ جناب کم و بیش تیس سال سے یہاں مقیم ہیں، اور ماشاءاللہ بہت اچھا بزنس کر رہے ہیں۔
میرا دل کچھ چٹ پٹا کھانے کو کر رہا تھا، اپنے کولیگ سے ذکر کیا تو اس کا بھی دل للچایا۔ دونوں گپیں مارتے، بازار سے ہوتے عنایت کی دکان پر پہنچے۔ رستے میں میں زکریا صاحب کا ذکر کر رہا تھا جو میرے والد کے اچھے دوست تھی اور بحرین میں کافی عرصہ سے مقیم تھے۔ میں نے سوچا کہ عنایت سے اُن کے بارے دریافت کروں گا کہ اُن کی آرٹیفشل جیولری کی دکان بھی بازار میں ہی کہیں تھی اور والد صاحب کا سلام بھی پہنچانا تھا۔
کاؤنٹر پر آرڈر دیتے زکریا صاحب کے بارے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اُن کا اور اُن کے بڑے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔ سُن کر شاک لگا۔باقی دو بیٹے اب اُن کی شاپ سنبھلتے ہیں۔ عنایت نے اُن کی دکان کا پتہ سمجھایا اور واپسی پر اُن کی دکان پر جانے کا پروگرام بنا۔
پہلے سموسوں کی پلیٹ منگوا کر کھائی اور پھر بھلّے۔ فارغ ہو کر کاؤنٹر کی طرف آئے تو کولیگ کو وہاں جلیبیاں پڑی نظر آئیں۔ اُس نے دو چار جلیبیاں لیں اور ہم زکریا صاحب کی دکان کی طرف چلنے لگے۔ وہاں پہنچے تو دکان بند تھی۔ کافی ٹائم ہوگیا تھا شاید اسی لیے۔ واپسی پر میرا کولیگ سارا رستہ عنایت کی بہت تعریف کرتا رہا کہ بہت اچھا بندہ ہے۔ سب تازہ پٹھائی وغیرہ بناتا ہے۔ اِس سے اچھے سموسے تو آج تک میں نے نہیں کھائے۔
کولیگ چونکہ میرا فلیٹ میٹ بھی ہے تو واپس آ کر اُس نے دودھ گرم کرنا شروع کیا۔میں بیٹھا ٹی وی دیکھنے میں مصروف اور اتنا مگن کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ کب آیا اور ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھا۔ اُس نے جلیبیاں دودھ میں ڈالی اور کھانے لگا۔ آخری دو چار چمچ رہ گئے ہونگے تو معلوم نہیں کیا ہوا اُسے، زور زور سے چلانے لگا
”راتی میرا دھیاں ای رکھنا۔مینوں کجھ ہو جاوے تے عنیتے نوں پڑ لینا”
آئی واز لائک ۔” ہیںںںںںںںںںںں”
میں اس کا منہ دیکھنا شروع ہوگیا کہ اسے کیا ہوا اچانک؟؟
”او یار یہ عنایت بیپ بیپ بیپ، جلیبیاں ٹھیک نہیں۔ میرے منہ کا ذائقہ چینج ہو رہا ہے۔ باسی لگتی تھیں جلیبیاں”۔ اور نا جانے کیا کیا۔
یہ سب شور ختم ہوا۔ بعد میں اتنا ہنسے اس بات پر کہ پہلے اُس کی تعریف کرتے نہیں تھک رہا تھا اور پھر ۔”مینوں کجھ ہو جاوے تے عنیتے نوں پڑ لینا”۔

 
ان دنوں میرپور آزاد کشمیر سے میری بیٹی ہمارے ہاں مہمان ہے۔
آج صبح میری پوتی (عمر تین سال) اس کی گود میں بیٹھی کہنے لگی: ’’پھوپھو، پھوپھو! ڈبلو ڈبلو ڈبلو ڈاٹ‘‘
ہم سب بہت ہنسے۔ بیٹی نے پوچھا: ’’بھئی یہ آپ نے کس سے سیکھا‘‘۔ کہنے لگی: ’’بابا سے‘‘۔

شذرہ: بچی اپنے ابو کو ’’بابا‘‘ کہا کرتی ہے اور مجھے ’’ابو‘‘۔
 

تلمیذ

لائبریرین
نہایت مفید دھاگہ ہے۔ میں بھی اس کی ضرورت محسوس کررہا تھا۔ واقعی روز مرہ زندگی کی کئی باتیں اور واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کو شئیر کرنا مفید ہوتا ہے۔
 

مجھے اس دھاگے کا علم نہیں تھا۔
ویسے بھی وہ ایک مخصوص ماحول کی مناسبت سے ہے، یہاں میدان کسی قدر وسیع ہے۔
امید ہے کہ آپ اور جناب الف عین میری اس جسارت پر چشم پوشی فرمائیں گے۔
 
میرے ایک بہت بے تکلف دوست ہیں۔ سر کے بالوں کے معاملے میں کچھ ۔۔ ۔۔ نام تو اُن کا کچھ اور ہے، تاہم یہاں اُن کے اجدادی وطن کے حوالے سے انہیں ’’غزنوی‘‘ کہے لیتے ہیں۔

ایک دن کچھ دوست میرے ہاں مدعو تھے۔ چند دوست آئے تو میں ان کو لئے نشست گاہ میں گیا، اس دوران غزنوی صاحب تشریف لے آئے۔ میری یہی پوتی گیٹ میں کھڑی تھی۔

غزنوی صاحب کے بقول:
بچی سے میں نے مصافحہ کیا، حال پوچھا، وہ جواب بھی دے رہی تھی اور ایک ٹک میری طرف دیکھے بھی جا رہی تھی۔ پھر اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی ’’میں نے بھی کل ٹنڈ کرائی ہے‘‘۔
 
جامعہ نگر واقع ابوالفضل جماعت اسلامی کی لائبریری میں اکثر جانا ہوتا ہے ۔لائبریرین ہیں تنویر آفاقی صاحب جامعۃ الفلاح سے فارغ التحصیل ۔ان کے صاحبزادے ہیں عمار ۔تو کل کی بات ہے میں لائبریری گیا ۔اتفاق سے میرے جیب میں ایک چونگم پڑا تھا وہ میں نے میاں عمار کو دیا اور کہا چلو ایک اسٹوری سناو ۔۔۔۔
میاں عمار اپنی توتلی زبان میں گویا ہوئے :
ایک چھیل (شیر)تھا ۔وہ چھو (سو)لہا (رہا)تھا ۔پھل (پھر)ایک مکھی آئی اور اس کے دائیں طلف (طرف)والی گال پل (پر)بیتھ (بیٹھ)گئی ۔چھیل (شیر) نے مکھی کو مالنے (مارنے)کے لئے اپنے گال پل جول (زور)چھے مالا (مارا)اچھکی (اس کی)گال چھل گئی ۔پھل (پھر)مکھی دوچھلی (دوسری)گال پل بھی بیتھی (بیٹھی)چھیل (شیر)نے وہاں بی (بھی)جول( زور)چھے مالا اس کی دوچھلی (دوسری) گال بھی چھل گئی ۔۔۔
میں نے کہا :بس کہانی ختم !!
تو کیا ؟ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
:تھوتی (چھوٹی ) سی استولی (اسٹوری)تھی تو۔۔۔۔
آپ کوپتہ ہے اچ چھے (اس سے)کیا چھبک (سبق)ملا ۔۔۔عمار اب مجھ سے جواب چاہ رہا تھا؟؟
میں نے کہا تم بتاو،مجھے تو نہیں پتہ :
اوہو چھب (سب)اپنی اپنی جگہ پل بلے (بڑے)ہوتے ہیں ۔عمار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔:)
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے اس دھاگے کا علم نہیں تھا۔
ویسے بھی وہ ایک مخصوص ماحول کی مناسبت سے ہے، یہاں میدان کسی قدر وسیع ہے۔
امید ہے کہ آپ اور جناب الف عین میری اس جسارت پر چشم پوشی فرمائیں گے۔

یعقوب بھائی میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ میں نے تو وہ دھاگا متعارف کروایا تھا۔ کہ اسی بہانے وہ بھی اوپر آ گیا۔
 
غزنوی صاحب کے بڑے بھائی جو انہی کی طرح ’’بے بال و پر‘‘ ہیں، کندھے پر ہتھیلی کے سہارے ایک تربوز لئے گھر میں داخل ہوئے۔
غزنوی صاحب نے جملہ کسا: ’’ایک ہی لے آتے بھائی! کافی ہوتا، دو کا کیا کریں گے‘‘
جواب ملا: ’’اوہ، مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ ایک پہلے بھی گھر پر رکھا ہے، ورنہ میں لاتا ہی نہیں!‘‘
 

عمر سیف

محفلین
کئی بار آپ ایسے جملے کہہ دیتے ہیں یا سُن لیتے ہیں جنہیں سن یا کہہ کر آپ کی ہنسی نہیں رکتی۔
منظور مستری ہمارے محلے کا رہائشی ہے، کبوتر بازی کا شوق اس کے سارے ٹبر کو ہے۔ اسے محلے میں جورا جورا بھی کہتے ہیں۔ اب جناب اس کی چھت پہ جانے کیسے ایک کتا چھڑ گیا، اب میرا بھائی باہر سے دیکھ آیا اور مجھے بتا رہا ہے " بھائی وہ دیکھو، جورے کی کت پہ چُتا"
میں نے دوبارہ پوچھا کیا ؟؟ پھر شرمندہ سا ہوگیا کہ میں کچھ غلط کہہ گیا۔
 

زبیر مرزا

محفلین
بات احساس کی ہے
چند ہفتے قبل چھٹی کے دن میں اور میرا دوست کافی پینے اور چہل قدمی کرنے نکلے - حسبِ عادت ہم کافی تیز چل رہے تھے
ایک موڑ پر ہمارے سامنے ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے آہستہ آہستہ چلتے جارہے تھے ہم نے انھیں پاس کرکے آگے نکل جانا تھا
اچانک ان سے چند قدم پیچھے میرادوست رُک گیا اور میرا بازو پکڑکر مجھے بھی روک لیا- میں نے پوچھا خیریت کیا کچھ بھول آئے ہو
کیونکہ اس کے چہرے پرتفکر اورسنجیدگی کے گہرے تاثرات تھے- کہنے لگا نہیں بس ذرا آہستہ چلو ہمیں کوئی جلدی نہیں چہل قدمی
کرنے ہی تو نکلے ہیں - میں پوچھا ہاں لیکن تمھیں یہ اچانک کیسے خیال آگیا ؟ اس نے جواب دیا ذرا ان بزرگ کو دیکھو جو چلنے میں
دقت محسوس کررہے ہوں گے لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں ہم جو یوں برق رفتاری سے ان سے آگے نکل جائیں گے
تو ان کے دل میں ملال نہ آجائے اپنی بے بسی ، بیماری اور ناتوانی کا احساس نہ ہوہمیں یوں تیزی سے چلتے دیکھ کر-
 
بات احساس کی ہے

۔
۔
۔
اس نے جواب دیا:
ذرا ان بزرگ کو دیکھو جو چلنے میں دقت محسوس کررہے ہوں گے لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں ہم جو یوں برق رفتاری سے ان سے آگے نکل جائیں گے تو ان کے دل میں ملال نہ آجائے اپنی بے بسی ، بیماری اور ناتوانی کا احساس نہ ہوہمیں یوں تیزی سے چلتے دیکھ کر-

بہت ہی عمدہ بات! بہت شکریہ زبیر مرزا صاحب!
 
1965 سے پہلے کی بات ہے، میں اُن دنوں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ گھر (گاؤں) سے سکول (شہر) تک کوئی 5 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ راستے میں ایک اور گاؤں پڑتا تھا۔ اپنا آنا جانا پیدل ہی ہوا کرتا۔ گاؤں کی آبادی، نہر کا پل، کچی سڑک، پھر کھیتوں کے بیچوں بیچ پگڈنڈی، پھر بیچ والا گاؤں جس میں پکے مکان نسبتاً زیادہ تھے، پھر ادھ پکی سڑک، پھر ایک اور نہر کی پٹڑی جس پر سکول کا پچھلا پھاٹک کھلتا تھا۔ روز کا معمول یہی تھا، سویرے سویرے روٹی کھا کر سکول جانا ہوتا، تپتی دوپہر کو گھر کی طرف واپسی۔ سردیوں میں دھوپ بھلی لگتی اور گرمیوں میں بھی کھیتوں، درختوں وغیرہ کی وجہ سے دھوپ کی شدت کا احساس تو نہ ہوتا، تاہم پسینہ اپنا راستہ بنا لیتا۔

اسی طرح کی ایک دوپہر، سکول سے واپسی پر کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی پر پڑے کاغذ کے ایک لفافے نے توجہ کھینچ لی جس پر چکنائی کے داغ تھے۔ کسی نے پکوڑے خریدے ہوں گے، راہ چلتا کھاتا گیا ہو گا، جہاں پکوڑے ختم ہو گئے لفافہ وہیں ڈال دیا۔ موٹے سفید کاغذ پر کالی روشنائی میں کچھ شعر چھپے ہوئے تھے، اور یہی بات میری توجہ کھینچ گئی۔

چلتے چلتے لفافہ اٹھایا، اس کو احتیاط سے کناروں کے ساتھ ساتھ پھاڑا، کھولا تو کھلا کہ کسی ادبی رسالے کا ورق ہے۔ ایک طرف نظم تھی، عنوان وغیرہ کا تو کچھ پتہ نہیں، لکھا کچھ ایسا تھا کہ:
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
اور ہوا کا پاگل جھونکا
یوں ہی اپنی دھُن میں کھویا
نگر نگر سے اک اک گھر سے
سوکھے سبز اور (آگے یاد نہیں) پتے ۔۔۔ لے کر ۔۔۔ اُڑتا جائے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

دوسری طرف ایک غزل تھی۔ آج تقریباً 50 سال بعد بھی اس کے دو شعر من و عن یاد ہیں:
گلشن گلشن دام بہت ہیں​
اب یہ منظر عام بہت ہیں​
مے خانے آباد ہیں دل کے​
ٹوٹے پھوٹے جام بہت ہیں​
۔۔۔ شاعر کا نام مت پوچھئے گا۔ تب اتنا شعور ہی نہیں تھا کہ شاعر کا نام کتنا اہم ہوتا ہے۔

محب علوی ، محمد وارث ، الف عین ، محمد خلیل الرحمٰن ، سید شہزاد ناصر ، نیلم ، منیر انور ، اور دیگر صاحبان و صاحبات۔
 
Top