بات احساس کی ہے
چند ہفتے قبل چھٹی کے دن میں اور میرا دوست کافی پینے اور چہل قدمی کرنے نکلے - حسبِ عادت ہم کافی تیز چل رہے تھے
ایک موڑ پر ہمارے سامنے ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے آہستہ آہستہ چلتے جارہے تھے ہم نے انھیں پاس کرکے آگے نکل جانا تھا
اچانک ان سے چند قدم پیچھے میرادوست رُک گیا اور میرا بازو پکڑکر مجھے بھی روک لیا- میں نے پوچھا خیریت کیا کچھ بھول آئے ہو
کیونکہ اس کے چہرے پرتفکر اورسنجیدگی کے گہرے تاثرات تھے- کہنے لگا نہیں بس ذرا آہستہ چلو ہمیں کوئی جلدی نہیں چہل قدمی
کرنے ہی تو نکلے ہیں - میں پوچھا ہاں لیکن تمھیں یہ اچانک کیسے خیال آگیا ؟ اس نے جواب دیا ذرا ان بزرگ کو دیکھو جو چلنے میں
دقت محسوس کررہے ہوں گے لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں ہم جو یوں برق رفتاری سے ان سے آگے نکل جائیں گے
تو ان کے دل میں ملال نہ آجائے اپنی بے بسی ، بیماری اور ناتوانی کا احساس نہ ہوہمیں یوں تیزی سے چلتے دیکھ کر-
شان دار!!!
 

باسل احمد

محفلین
میری فیملی حال ہی میں بیرون ملک میں منتقل ہوئی ہے جبکہ میں اکیلا پاکستان میں ہوں۔تو کچھ دن پہلے میں چند دوست احباب اور کچھ بزرگان کے ساتھ ایک گپ شپ کی محفل لگائے بیٹھا تھا ۔باتیں کرتے کرتے اچانک کسی بات کی تائید کے لیے ایک بزرگ محترم کو بے ساختہ کہہ دیا"ہیں نا امی؟؟؟" تو سب کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔مجھے اپنی غلطی کا احساس توہوا لیکن محظوظ بہت زیادہ ہوئے۔
جب رات کو میں اپنے بستر پر لیٹا تو ایک اداسی سی امڈ آئی اور اسی وقت امی کو فون کیا اور کھل کر بات کی تو مزاج قدرے بہتر ہوا۔پھر اپنی والدہ محترمہ کو یہ واقعہ سنایا تو وہ بھی مسکرائیں اور کہنے لگیں کہ آکے مل ہی جاؤ ،کام تو ہوتے رہیں گے۔خیر کہنے کا مطلب یہ تھا والدین اولاد کے لیے ایک انمول سرمایہ ہیں۔ان کے بغیر زندگی بے کیف ہے۔
 

گل بانو

محفلین
1965 سے پہلے کی بات ہے، میں اُن دنوں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ گھر (گاؤں) سے سکول (شہر) تک کوئی 5 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ راستے میں ایک اور گاؤں پڑتا تھا۔ اپنا آنا جانا پیدل ہی ہوا کرتا۔ گاؤں کی آبادی، نہر کا پل، کچی سڑک، پھر کھیتوں کے بیچوں بیچ پگڈنڈی، پھر بیچ والا گاؤں جس میں پکے مکان نسبتاً زیادہ تھے، پھر ادھ پکی سڑک، پھر ایک اور نہر کی پٹڑی جس پر سکول کا پچھلا پھاٹک کھلتا تھا۔ روز کا معمول یہی تھا، سویرے سویرے روٹی کھا کر سکول جانا ہوتا، تپتی دوپہر کو گھر کی طرف واپسی۔ سردیوں میں دھوپ بھلی لگتی اور گرمیوں میں بھی کھیتوں، درختوں وغیرہ کی وجہ سے دھوپ کی شدت کا احساس تو نہ ہوتا، تاہم پسینہ اپنا راستہ بنا لیتا۔

اسی طرح کی ایک دوپہر، سکول سے واپسی پر کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی پر پڑے کاغذ کے ایک لفافے نے توجہ کھینچ لی جس پر چکنائی کے داغ تھے۔ کسی نے پکوڑے خریدے ہوں گے، راہ چلتا کھاتا گیا ہو گا، جہاں پکوڑے ختم ہو گئے لفافہ وہیں ڈال دیا۔ موٹے سفید کاغذ پر کالی روشنائی میں کچھ شعر چھپے ہوئے تھے، اور یہی بات میری توجہ کھینچ گئی۔

چلتے چلتے لفافہ اٹھایا، اس کو احتیاط سے کناروں کے ساتھ ساتھ پھاڑا، کھولا تو کھلا کہ کسی ادبی رسالے کا ورق ہے۔ ایک طرف نظم تھی، عنوان وغیرہ کا تو کچھ پتہ نہیں، لکھا کچھ ایسا تھا کہ:
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
اور ہوا کا پاگل جھونکا
یوں ہی اپنی دھُن میں کھویا
نگر نگر سے اک اک گھر سے
سوکھے سبز اور (آگے یاد نہیں) پتے ۔۔۔ لے کر ۔۔۔ اُڑتا جائے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

دوسری طرف ایک غزل تھی۔ آج تقریباً 50 سال بعد بھی اس کے دو شعر من و عن یاد ہیں:
گلشن گلشن دام بہت ہیں
اب یہ منظر عام بہت ہیں
مے خانے آباد ہیں دل کے
ٹوٹے پھوٹے جام بہت ہیں​
۔۔۔ شاعر کا نام مت پوچھئے گا۔ تب اتنا شعور ہی نہیں تھا کہ شاعر کا نام کتنا اہم ہوتا ہے۔

محب علوی ، محمد وارث ، الف عین ، محمد خلیل الرحمٰن ، سید شہزاد ناصر ، نیلم ، منیر انور ، اور دیگر صاحبان و صاحبات۔
آپ کی اس بات پر مجھے بھی اپنے بچپن کا وہ وقت یاد آگیا جب کاغذ کے چھوٹے چھوٹے لفافوں میں گھر کا سودا سلف آیا کرتا تھا اور کوئی بہت ہی کم مقدار کی چیز ہوتی تو اخبار کے تراشے میں لپٹی ہوتی ہم سامان نکال کر اسے بڑے احترام سے کھولتے تاکہ پھٹ کر پڑھنے سے رہ نہ جائے پھر اسے بغور پڑھتے اس وقت تک اچھی طرح اردو لکھ پڑھ لیتے تھے اگر وہ بچوں کی کہانی کا کوئی صفحہ ہوتا تو سمجھو اس سے بڑھ کر خوشی نہ ہوتی ، یا پھر کوئی معلومات ہوتی تو بھی سب کو پڑھاتے جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگا ہو ،اور آخر کار اسے سنبھال رکھتے کہ کسی اور کے کام بھی آجائے گا ۔ آج اتنی کتابیں جا بجا بکھری پڑی ہیں اور تقریبا! ہر بچے کی پہنچ میں ہیں لیکن وہ رغبت نہیں ہے کتابوں سے دوری اور معلوماتَ عامہ کا فقدان ، لمحہ فکریہ ہے
 

گل بانو

محفلین
بچپن کی ایک حرکت آج بھی ہت ہنساتی ہے ! اسکول ہمارے گھر سے کافی دور ہوا کرتا تھا بس نکل جاتی تو تانگے سے جانا پڑتا تھا ایک شارٹ کٹ بھی تھا جہاں راستے میں کھیت تھے ، ہم اکثر وبیشتر واپسی کا سفر اسی راستے سے طے کیا کرتے ، بہت سے بچے ایک ساتھ مل کر آتے تھے ۔ کھیت میں داخل ہوتے رگِ شرارت پھڑکنے لگتی اور ہم اس وقت کی موجودہ فصل سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے جس پر کھیت کا مالی ہم کو مارنے دوڑتا اور ہم سر پٹ بھاگ کھڑے ہوتے ۔ وہ روزتیار رہتا کہ اب بچے آئیں گے تو میں انھیں خرابہ کرنے نہیں دوں گا اور مار بھگاؤں گا اور ہم بھی بڑے ہی شرارتی کھڑے گنے کے کھیت میں گھس جاتے اس کو نظر ہی نہ آتے چپکے چپکے بہت سے گنے توڑتے جہاں کوئی ہلچل ہوتی مالی وہاں پہنچتا ،لیکن دوسری طرف کوئی ایک بچہ گنا ہلا کر اسے پنی طرف متوجہ کرتا، ہم سب باری باری گنے ہلاتے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگتا پھرتا اور پکڑ نہ پاتا ، ہم گنے توڑکر باہر نکلتے اور شور مچاکر بھاگ کھڑے ہوتے وہ ڈنڈا ہلاتا ہوا پیچھے بھاگا آتا لیکن ہم یہ جا وہ جا اگلے دن پھر وہی :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
گو کہ یہ قصہ چند ایک دن پرانا ہو چکا ہے پر مجھے یاد ہی نہیں رہتا تھا یہاں شریک لڑی کرنے کو۔ :)
ہوا کیا ہمارے چاچو کا بیٹا حذیفہ گاؤں گیا اپنے پاپا کے ساتھ۔ دوسری جماعت میں پڑھتا ہے۔ پھر اپنی خالہ کے ہاں بھی گیا۔ انہوں نے بھرے ہوئے کریلے پکائے ہوئے تھے اور کھانے میں وہ بھی تھے۔ اب چچی تو اپنے بچوں کے مزاج اور ٹیسٹ سےخوب واقف ہیں سو کبھی یوں کریلے پکائے نہیں تھے، اسی لئیے بچے نے کبھی دیکھے بھی نہیں تھے۔ واپس اسلام باد آ کر اپنی چھوٹے بھائی کو بتانے لگا " عبد الرافع ! تمہیں پتا ہے، ان کے گھر میں تو کریلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ ایک تو ان کو دھاگے سے بند کیا ہوا تھا اور کھولو تو اندر سے دال نکلتی ہے دال"۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

ماہی احمد

لائبریرین
ہفتے والے دن چچی بتانے لگیں کہ عبد الرافع کو جب نماز کے لئیے بولو تو کہتا ہے "ابھی میں 10 سال کا نہیں ہوا۔ جب ہو جاؤں تب پڑھوں گا"۔:)
چاچو نے کہا اچھا ٹھیک ہے حذیفہ آؤ ہم نماز کے لئیے چلتے ہیں مسجد تو عبد الرافع فوراً تیار ہو گیا "میں بھی جاؤں گا"۔:)
چاچو کہنے لگے "ابھی تو تم نے کہا کہ تم دس سال کے ہو کر نماز پڑھو گے اور تمہیں آتی بھی نہیں ہے"۔:)
کہنے لگا" ہو سکتا ہے نا مسجد جا کر مجھے نماز آ جائے "
:p:p:p:p
:p
 
بر سبیلِ تذکرہ ایک واقعہ سن لیجئے۔ سن ۲۰۰۰ کے لگ بھگ کی بات ہے، میں تب شاید ۴۷ یا ۴۸ سال کا تھا۔
میرے ایک باس تھے ڈاکٹر عبدالباری صاحب (باس کم اور بزرگ زیادہ)، ایک دن کہنے لگے: ’’تیری ڈیٹ آف برتھ کیہ اے، آسی؟‘‘ ۔ کہا: ۱۹۵۳ ۔
انہوں نے میرے سر کے سفید بالوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ’’تے ایہ؟ ۔۔ بزرگ نظر آن دی کوشش کر رہیا ایں، کاکا؟‘‘
۔۔۔ ۔
شذرہ: میں نے بالوں کو کبھی رنگ، بسمہ وغیرہ نہیں لگایا۔
 
باری صاحب بہت دل چسپ شخصیت کے حامل تھے۔
ایک دن مجھے دفتر پہنچنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ میں نے سلام کہا تو بڑی گرم جوشی سے بولے: ’’آؤ جی، آؤ جی، آسی صاحب۔ خیر نال‘‘۔ میں سمجھا آج میٹھے میٹھے لفظوں میں کچھ کھٹی میٹھی سننی پڑیں گی، وہ بھی ان کے دیرینہ دوست ہمدانی صاحب کے سامنے۔
بیٹھنا تو تھا ہی، میں بیٹھ چکا تو کہنے لگے: ’’فرعون دی لاش کتھے پئی اے؟‘‘۔
میں نے برجستہ کہا: ’’پتہ نہیں سر، میں نہیں رکھی۔‘‘ ان کے منہ سے قہقہے گویا ابل پڑے۔
 
فرعون کی لاش سے بات چلی، مجھی سے پوچھنے لگے: ’’فرعون بڑا تھا کہ ابوجہل‘‘۔ میں نے کہا: ’’ابوجہل‘‘
بولے: ’’کچھ خدا کا خوف کرو یار، وہ خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، ابوجہل نے تو نہیں کیا‘‘۔

عرض کیا:
دو باتیں ہیں، سر! ۔ ۔۔ پہلی یہ کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدالانبیاء ہیں؛ ابوجہل کو سیدالکفار ہونا چاہئے۔ اور دوسری یہ کہ جب وہ مرنے لگا تو پکار اٹھا: ’’آمنتُ برب موسیٰ‘‘۔ اور یہ جب بدر میں قتل ہونے لگا تو کہتا ہے: ’’میری گردن جڑ سے کاٹنا، پتہ چلے کسی سردار کا سر ہے‘‘۔

کہنے لگے: ٹھیک کہتے ہو یار! سب سے بڑی برائی تکبر ہے۔ اللہ محفوظ رکھے۔
 
کل ایک صاحب نے کسی کا ایس ایم ایس نقل کر دیا۔
متن: ’’رات جن لوگوں کو چاند نظر آیا تھا آج دن میں انہیں تارے بھی نظر آگئے‘‘۔

رد عمل:
کوئی درجن بھر لوگوں نے ان ’’مصائب‘‘ کا رونا رو دیا جو اُن پر پہلے روزے ’’کی وجہ سے ٹوٹ پڑے تھے‘‘۔

تبصرہ:
کسی نے نہیں سوچا کہ یارو یہ کوئی نکتہ آفرینی، نکتہ سنجی بھی ہو سکتی ہے۔ ذکر چاند دیکھنے کا تھا، یاروں نے دن میں تارے نظر آنے کا سبب روزے کو قرار دے دیا، جو مذکور ہے ہی نہیں۔ چاند دیکھنے کا استعارہ کسی سے ملاقات کے معانی بھی تو دیتا ہے۔ اور رومان کی روایت میں دن میں تارے نظر آنا بھی بالکل سامنے کی بات ہے۔
حاصل: یہ ہمارا اندازِ فکر ہے، جس طرف لے جائیے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ مذکورہ مبصرین تقریباََ سارے ہی اہل قلم ٹھہرے۔
 
آخری تدوین:
Top