خود سے بہت خفا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔ نوید صادق

مرک

محفلین
حضور کیا خوب لمبی چوڑی گتھی ہوئی غزل ہے ماشااللہ غزل میں گہرائی کا گو شکوہ کیا جا رہا ہے حالانکہ ہم کو تو پائینچے اٹھا کر اترنا پڑ رہا ہے اور پستہ قامتوں کے واسطے ڈوب مرنے کو کافی ہے۔:grin:

خود سے بہت خفا ہوں میں، خود سے بہت جدا تھا میں
دیکھا نہیں کہ کیا ہوں میں، سوچا نہیں کہ کیا تھا میں

ارے واہ۔۔۔ کیا بات ہے حضور۔۔۔ یہی معاملہ ہے۔۔۔ اسی طرح اپنی بھی گزرتی جاتی ہے کل بدھ تھا آج جمعرات ہے، آئندہ جمعے کی امید ہے۔۔

ٹوٹ گیا، بکھر گیا، اپنے لئے تو مر گیا
تیری طرف تھا گامزن، خود سے کٹا ہوا تھا میں

ارے واہ۔۔۔ پہلے مصرعے میں کیا زوربیان صرف ہوا ہے کہ جنگ عظیم میں لندن پر ہونے والی بمباری یاد آگئی :grin:
دوسرا مصرعہ بھی خوب ہے۔۔۔

کیجے ملاحظہ ذرا، دفترِ ماہ و سالِ دل
میرا اسیر تھا یہ دل، اس میں پڑا ہوا تھا میں

ارے واہ! کیا عمر بھر کی تاریخ اسیری سمیٹی ہے آپ نے دو سطروں میں!
ہم آپ کو مرد حر کا خطاب ضرور دیتے مگر اندیشہ ہے کہ اس خطاب کے بعد آپ ہمیں آسانی سے جانے نہیں دیں گے۔:grin:

یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں

ارے واہ صاحب واہ! زنگ پڑے دریچے۔۔۔ کیا تخیل ہے!
گلی میں کون تھا، اس کا تو پتہ نہیں۔۔۔

میرا ہی احتساب تھا، میں ہی تھا محتسب کہ رات
جرم عجیب ہو گیا، خود سے نکل گیا تھا میں

بہت خوب! خود پہ پہریدار ہوں میں۔۔۔ بس ایسا چوکیدار ہوں میں۔۔۔

دیکھا، گلی میں کون ہے! کوئی نہیں ہے! آہٹیں!!
سنتا ہوں، چند سال قبل خود سے بچھڑ گیا تھا میں

اسی واسطے سونے پہلے آنکھیں ہی نہیں دروازہ بھی بند کر لینا چاہئے۔:grin:

شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں

بہت خوب! مردم شناس ہی جو نہ تو ہوا تو امید وفا کیا اور حاصل جفا کیا۔۔۔۔ :rolleyes:

تو بھی خبر کی لہر میں بہتا چلا گیا نوید
تیرے لئے تو ٹھیک تھا، اپنے لئے برا تھا میں

حضور یہ ہم اور آپ سے لوگ اپنے ہی حق میں برے کیوں ہوتے ہیں۔۔۔۔ :confused:

لیجئے صاحب ہم کی گہری غزل سے پائینچے اٹھائے نکل آئے ہیں۔۔۔ بہت خوب کلام ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!:hatoff:
بہت دماغ ہے وہ بھی فضول خیر ہمارا بھی ایسا ہی حال ہے کچھہ :laugh::laugh::laugh:
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب نوید بھائی ۔۔۔۔ ایک ایک شعر گویا کسی قیمتی مالا میں پرویا ہوا موتی ہے ۔ خیالات میں نہ صرف وسعت ہے بلکہ بلا کی گہرائی بھی ہے ۔ مجموعی طور سے بہت ہی مکمل غزل ہے ۔ مجھے تو بہت پسند آئی ۔
ہم بھی کبھی کبھار کہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر سب ہماری ان سنی کر دیتے ہیں ۔ ;)
بقول آپ کے ہی ۔۔۔۔ :)

شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں
 

آصف شفیع

محفلین
نوید صاحب کی یہ غزل دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ کس عمدگی سے اپنا شعری سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، جس بحر( مفتعلن-مفاعلن،مفتعلن-مفاعلن: بحرِ رجزمثمن مطوی ) میں انہوں نے غزل کہی ہے اس کے لیے بہت ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جب تک قاری اس بحر سے آشنا نہیں ہوتا ، اسے اس بحر میں لکھے گئے اشعار عام سے معلوم ہوتے ہیں۔ جون ایلیا جب اس بحر میں شعر کہتے تھے تو وہ اس بحر کو اپنے اوپر طاری کر لیتے تھے۔ میرے خیال میں نوید صادق نے بھی اس بحر کی روانی میں اتر کر غزل کہی ہے، یہی وجہ ہے کہ مطلع سے لیکر مقطع تک تمام اشعار ایک سی کیفیت میں لکھے نظر آتے ہیں یہ کیفیت کہیں بے خودی اور کہیں خوداحتسابی کی صورت دکھائی دیتی ہے۔اسی کیفیت کو کسی نے ہائبر نیشن اور کسی نے ایسٹیویشن کہا۔ یہ کیفیت در اصل کیا ہے ہی وہی جان سکتا ہے جو اس میں سے گزرا ہو ۔غزل کا ایک ایک مصرعہ بہت سلیقے سے کہا گیا ہے۔محترم الف-عین نے جس شعر کا حوالہ دیا وہ بھی یقینا بہت خوب ہے، لیکن غزل کے باقی اشعار میں بھی وہی سلیقگی اوررنگِ تغزل بجا طور نظر آتا ہے جسے ہم نوید صادق کی دوسری غزلوں میں دیکھتے ہیں۔ایسی خوبصورت غزل کیلیے ضروری ہے کہ اس کے ہر شعر پر بحث کی جائے۔ آحباب تمام شعروں پر اپنے آرا ارسال کریں تو غزل کے مفاہیم زیادہ بہتر انداز میں سامنے آ سکتے ہیں۔ دو شعر بہت ہی اچھے لگے
ٹوٹ گیا ، بکھر گیا ، اپنے لیے تو مر گیا
تیری طرف تھا گامزن، خود سے کٹا ہوا تھا میں
شکوہ کروں تو کس کامیں، رنج کروں تو کس طرح
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا ہوں میں
 

مرک

محفلین
میرے مان نے کو چھوڑیے اوروں کو مناہیئے یہاں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں:grin::grin::grin:
ماشاللہ:)
 

آصف شفیع

محفلین
آپ کے تبصرے پر داد دینے کو دل کرتا ہے۔ آپ کی تحریر سے پستہ قامتی کی بجائے سرو قامتی ظاہر ہوتی ہے۔ خوشی ہے کہ کم از کم آپ نے غزل کے ہر شعر کو ڈسکس تو کیا۔ آپ کا تبصرہ یقینا برا نہیں ہے۔لیکن انداز شوخ ہے۔نوید صاحب کو ایسی شوخ تنقید نگار مبارک ہو-
 

مرک

محفلین
آپ کے تبصرے پر داد دینے کو دل کرتا ہے۔ آپ کی تحریر سے پستہ قامتی کی بجائے سرو قامتی ظاہر ہوتی ہے۔ خوشی ہے کہ کم از کم آپ نے غزل کے ہر شعر کو ڈسکس تو کیا۔ آپ کا تبصرہ یقینا برا نہیں ہے۔لیکن انداز شوخ ہے۔نوید صاحب کو ایسی شوخ تنقید نگار مبارک ہو-
سر جی میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا محسن صاحب نے کیا ہے :rolleyes:
 

محسن حجازی

محفلین
آپ کے تبصرے پر داد دینے کو دل کرتا ہے۔ آپ کی تحریر سے پستہ قامتی کی بجائے سرو قامتی ظاہر ہوتی ہے۔ خوشی ہے کہ کم از کم آپ نے غزل کے ہر شعر کو ڈسکس تو کیا۔ آپ کا تبصرہ یقینا برا نہیں ہے۔لیکن انداز شوخ ہے۔نوید صاحب کو ایسی شوخ تنقید نگار مبارک ہو-

آصف شفیع صاحب ہمیں خاتون سمجھنے پر مصر ہیں غالبا کثرت کلام اس کا سبب رہا ہوگا۔:rolleyes:
 

مغزل

محفلین
چلیے ہم اپنی رائے دوبارہ ارسال کیے دیتے ہیں ۔ لگتا ہے نوید بھائی بائی پاس کرگئے اس رائے کو :laugh:

نوید صادق صاحب۔۔۔
کیا بات ہے ۔۔ کرافٹنگ کی تو حد ہے ۔ نیا مصرع لکھنا اور وہ بھی روایت کی پابندی کے ساتھ ۔،۔۔
ایک ایک مصرع لاجواب ہے ۔۔ میری دانست میں آپ یہ غزل دیگر پر حاکمیت رکھتی ہے۔۔۔
خود کلامی ، خود فریبی، خود اذیتی کی داخلی و خارجی کیفیات کی آئنہ دار اس ملکوتی حسن کی حامل غزل پر ناچیز کی دااد اور مبارکباد ۔۔
میں اس طرح کا برتاؤ (ٹریٹمینٹ) دوسری بار پڑھا ہے آپ سے پہلے لیاقت علی عاصم کی غزل ۔۔۔
میں۔۔۔دو ایک شعر پیش کرتا ہوں ۔۔ باقی فرصت سے

دکھ مرے عجیب ہیں سب مرے قریب ہیں
پھر یہ تذکرہ ہے کیا میں کہاں چلا گیا
خیمہ خیمہ صف بہ صف ہے یزید ہرطرف
اے زمین ِ کربلا میں کہاں چلا گیا
بن گیا سکوتِ دشت اک صدائے بازگشت
میں کہاں چلا گیا ، میں کہاں چلا گیا

آپ کے یہ تین شعر سب پر بھاری ہیں :

یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں

میرا ہی احتساب تھا، میں ہی تھا محتسب کہ رات
جرم عجیب ہو گیا، خود سے نکل گیا تھا میں

دیکھا، گلی میں کون ہے! کوئی نہیں ہے! آہٹیں!!
سنتا ہوں، چند سال قبل خود سے بچھڑ گیا تھا میں

والسلام
 
Top