منہاج علی

محفلین
بہ لوحِ مشہدِ پروانہ ایں رقم دیدم
کہ آتشے کہ مرا سوخت خویش را ہم سوخت


عرفی شیرازی

پروانے کی لوحِ مزار پر میں نے یہ لکھا دیکھا کہ جس آگ (شمع) نے مجھے جلایا اُس نے خود اپنے آپ کو بھی جلا لیا۔
بھئی یہ شعر عجیب ہے۔ رہ رہ کے ذہن میں گونجتا ہے۔ الفاظ نہیں کیفیت کے بیان کے لیے۔ شکریہ وارث صاحب۔
 
گدایی شنیدم که در تنگ جای
نهادش عُمَر پای بر پشتِ پای
ندانست درویشِ بی‌چاره کاوست
که رنجیده دشمن نداند ز دوست
برآشفت بر وی که کوری مگر؟
بدو گفت سالارِ عادل عُمَر
نه کورم ولیکن خطا رفت کار
ندانستم از من گنه در گذار
چه منصف بزرگانِ دین بوده‌اند
که با زیردستان چنین بوده‌اند
(سعدی شیرازی)

میں نے سنا کہ کسی تنگ جگہ میں حضرت عمر نے کسی گدا کے پاوٗں پر پاوٗں رکھ دیا۔بےچارے درویش کو معلوم نہیں تھا کہ یہ وہ (حضرت عمر علیہ سلام) ہیں کیونکہ رنجیدہ شخص دشمن اور دوست کے درمیان تمییز و تشخیص نہیں جانتا۔وہ (درویش) خشمگیں ہوا (اور بولا) کہ کیا تم کُور (اندھے) ہو؟ سالارِ عادل حضرت عمر نے اسے کہا ’’میں کُور نہیں ہوں لیکن غلطی ہوگئی مجھ سے، میرا گناہ معاف کردے‘‘۔ بزرگانِ دین کتنے منصف تھے کہ زیردستوں کے ساتھ ایسے (منصف) تھے۔

ماخذ: بوستانِ سعدی
 
12 ذی الحجہ حضرت عثمان علیہ سلام کا روزِ شہادت ہے۔ حضرت عثمان کی ستائش میں عبید زاکانی کے چند اشعار مع ترجمہ:

خصمِ خدا و خصمِ رسول است و خصمِ خود
آن بی‌حیا که دشمنِ عثمانِ با حیاست
تا دامنِ قیامت و تا روزِ رستخیز
دستِ عبید و دامنِ عثمانِ با حیاست
کو نخست بهرِ نبی سیم و زر بباخت
وانگه برای قوتِ دین جان و سر بباخت
(عبید زاکانی)

وہ بےحیا جو عثمانِ با حیا کا دشمن ہے، وہ خدا، رسول ﷺ اور خود کا دشمن ہے۔ دامنِ قیامت اور روزِ رستاخیز تک عبید کا دست (ہاتھ) اور عثمانِ با حیا کا دامن ہے (یعنی میری پناہ حضرتِ عثمان علیہ سلام ہیں) کہ انہوں (حضرت عثمان) نے پہلے نبی ﷺ کے لئے سیم و زر قربان کیے اور پھر قوتِ دین کے لئے جان و سر قربان کیے۔
 
آخری تدوین:
۲۳ ذوالحجہ روزِ شہادتِ خلیفہٗ ثانی امیر المومنین حضرت عمرِ فاروق علیہ سلام ہے۔ حضرت عمر کی مدح میں عبید زاکانی کی منقبت سے کچھ اشعار:

چون بست بهرِ دینِ محمد میان عمر
در هم شکست گردنِ گردن‌کشان عمر
برباد رفت خرمنِ کفارِ خاکسار
چون برکشید خنجرِ آتش‌فشان عمر
خورشیدِ دین به اوجِ کمال آن‌زمان رسید
کانداخت سایه بر سرِ اسلامیان عمر
دستش به مکه گردنِ قیصر بزد به روم
چون گشت بر ممالکِ دین قهرمان عمر
هم آسمانِ دانش و هم آفتابِ عدل
هم‌خوابه‌یِ محمدِ آخر زمان عمر
آن کو به تیغ شرعِ نبی آشکار کرد
بنیادِ دین به بازویِ خود استوار کرد
(عبید زاکانی)

ترجمہ:
جب حضرت عمر نے دین کے لئے کمر باندھی تو سرکشوں کی گردن توڑ دی۔
جب حضرت عمر نے اپنی خنجرِ آتش‌فشان کھینچی تو عاجز و خوار کافروں کی خرمن برباد ہوئی۔
آفتابِ دین اوجِ کمال کو اس وقت پہنچا جب حضرت عمر نے مسلمانوں کے سر پر سایہ کیا۔
جب حضرت عمر ممالکِ دین پر محافظ و نگران بنے تو مکے میں رہتے ہوئے اپنا ہاتھ روم میں قیصرِ (روم) کی گردن پر مارا۔
حضرت عمر آسمانِ دانش بھی تھے اور آفتابِ عدل بھی۔ اور ہم‌بالینِ حضرتِ محمدِ آخرِ زمان بھی تھے۔
وہ (عمر) جنہوں نے بر سرِ شمشیر شریعتِ نبی کو ظاہر و آشکار کیا۔ دین کی بنیاد کو اپنے بازو پر استوار کیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جاں بہ غم تا ندہی وصل بجاناں نشود
شرطِ عشق است کہ تا ایں نشود آں نشود


خواجہ عزیزالدین عزیز

جب تک تُو غم میں جان نہیں دے گا تب تک محبوب کا وصل بھی حاصل نہ ہوگا، یہ عشق میں لازم ہے اور عشق کا دستور ہے کہ جب تک یہ (جان دینا) نہ ہوگا تب تک وہ (وصل) بھی نہ ہوگا۔
 

منہاج علی

محفلین
جاں بہ غم تا ندہی وصل بجاناں نشود
شرطِ عشق است کہ تا ایں نشود آں نشود


خواجہ عزیزالدین عزیز

جب تک تُو غم میں جان نہیں دے گا تب تک محبوب کا وصل بھی حاصل نہ ہوگا، یہ عشق میں لازم ہے اور عشق کا دستور ہے کہ جب تک یہ (جان دینا) نہ ہوگا تب تک وہ (وصل) بھی نہ ہوگا۔

کیا کہنا۔
راحت بھی اٹھائی ہے جو آزار ملے ہیں
غوّاص کو اکثر دُرِ شہوار ملے ہیں
انیسؔ
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
جاں بہ غم تا ندہی وصل بجاناں نشود
شرطِ عشق است کہ تا ایں نشود آں نشود


خواجہ عزیزالدین عزیز

جب تک تُو غم میں جان نہیں دے گا تب تک محبوب کا وصل بھی حاصل نہ ہوگا، یہ عشق میں لازم ہے اور عشق کا دستور ہے کہ جب تک یہ (جان دینا) نہ ہوگا تب تک وہ (وصل) بھی نہ ہوگا۔
عمدہ!
 

منہاج علی

محفلین
ہَماں بہتر کہ لیلٰی در بیاباں جلوہ گر باشَد
ندارَد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی


(صائب تبریزی)

یہی بہتر ہے کہ لیلٰی کسی بیاباں میں جلوہ گر ہو، کہ تنگنائے شہر (شہر کے تنگ کوچے / تنگ دل لوگ) حسنِ صحرائی کی تاب (قدر) نہیں رکھتے۔
آہا!!
 

منہاج علی

محفلین
رباعی

رندے دیدم نشستہ بر خنگ زمیں
نہ کفر نہ اسلام نہ دنیا و نہ دیں
نہ حق نہ حقیقت نہ شریعت نہ یقیں
اندر دو جہاں کرا بود زہرہ ایں


(عمر خیام)

میں نے ایک رند کو دیکھا جو زمین (میخانے) کے ایک کونے میں بیٹھا تھا، نہ اسے کفر کی کچھ فکر تھی نہ اسلام اور نہ دین و دنیا کی، اور نہ ہی حق کی نہ حققیت کی نہ شریعت اور یقین کی، دو جہانوں میں اتنی دلیری اور اتنا حوصلہ (بھلا رند کے سوا) کس میں ہو سکتا ہے؟

اف اللہ! کیا کہنا بھئی۔۔۔۔
یہ اعجاز صرف شاعر ہی کے پاس ہے کہ بہادری کا عام تصور ہی بدل ڈالے۔
عبیداللہ علیمؔ کا جملہ یاد آرہا ہے کہ ’’شاعری کا تعلق اُس عالَم سے ہے جہاں دعویٰ دلیل کا درجہ رکھتا ہے‘‘
ایک رند جس کو کسی چیز سے سروکار نہیں۔ ایک کونے میں پڑا ہے۔ اس کو شاعر نے اس انداز سے بہادر کہہ دیا ہے کہ بہادری کی صِفت رندی و بے خودی کی مترادف معلوم ہورہی ہے۔
 
آخری تدوین:
کف افسوس بود از بحر چون ساحل نصیب من

از آن لبها ز گوهر چون صدف معمور شد گوشم

محترم احباب ترجمہ درکار ہے شکریہ
قدرے غور و تفکر کے بعد میرے ذہن میں اس کا یہ مفہوم بن رہا ہے، لیکن غلطی کی گنجائش پھر بھی موجود ہے۔اہلِ علم ہی اس کی تصحیح فرما سکتے ہیں۔

جس طرح ساحل کو سمندر سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا باوجودیکہ آبِ بحر بہت دفعہ ساحل کا چکر لگاتا ہے، اسی طرح میرا نصیب بھی (یا میرے پاس بھی) کفِ افسوس تھا، یعنی میرے پاس دستِ تاسف مَلنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔ لیکن اب معشوق سے ملنے کے بعد اس کے اُن لبوں سے نکلی باتوں سے میرے گوش (کان) ویسے ہی معمور ہیں جیسے صدف ایک گراں‌بہا گوہر سے معمور ہوتا ہے۔
 

منہاج علی

محفلین
نیست عارف را نظر بر جلوۂ حُسنِ بُتاں
چشمِ بلبل مستِ دیدارِ گُلِ تصویر نیست


محسن فانی کاشمیری

حقیقت جاننے والے عارف لوگوں کی نظر حُسنِ بُتاں کے جلوے (ظاہری حُسن) پر نہیں ہوتی جیسے کہ بلبل کی آنکھ تصویر میں بنے ہوئے پھول کے دیدار سے مست نہیں ہے۔
کیا کہنا
 

منہاج علی

محفلین
درونِ تُست اگر خلوتی و انجمنیست
بروں ز خویش کجا می روی؟ جہاں خالیست!
بیدل
اگر تمھارے باطن میں خلوتی و انجمنی موجود ہیں
سو اپنے آپ سے باہر کہاں چلے ہو؟ جہان خالی ہے
 

منہاج علی

محفلین
شیخی بہ زنی فاحشہ گفتا: مستی
ھر لحظہ بہ دام دگری پابستی؛
گفتا؛ شیخا، ھرآن چہ گویی ھستم،
آیا تو چنان کہ می نمایی ھستی؟
(عمر خیام)

ایک شیخ نے ایک فاحشہ عورت سے کہا اے خراب حال
تو ہر وقت دوسروں کو پھانسنے میں لگی رہتی ہے
اُس نے کہا اے شیخ تو جو بھی کہہ لے کہ میں ہوں
لیکن کیا تو بھی (باطن میں) ویسا ہی ہے جیسا (ظاہر میں) نظر آتا ہے۔
آہا۔
مقدمہٗ شعر و شاعری میں شعر کی تاثیر کے عنوان میں حالی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے اس میں یہ رباعی پڑھی تھی۔
اس واقعے کے شیخ صاحب یہ رباعی رقاصہ کی دلکش آواز میں سننے کے بعد بالکل ہوش کھو بیٹھے تھے۔
 

منہاج علی

محفلین
در خزانِ عمرِ صورت‌سوز بی‌سیرت نشد
حسنِ معنی‌دارِ یار و عشقِ بامعنایِ من

صورت‌سوز عمر کی خزاں میں یار کا پُرمعنی حُسن اور میرا بامعنی عشق رُسوا نہیں ہوا۔

نیست ممکن نقدِ حالِ خویش را پنهان کنم
چون بود آیینه‌ی امروزِ من فردایِ من
(حیدری وجودی)

ممکن نہیں ہے کہ میں اپنے موجودہ حال کو پنہاں کروں جب میرے امروز (آج) کا آئینہ میرا فردا (آنے والا کل) ہے۔
کیا کہنا۔۔۔ دوسرا شعر حیران کُن ہے۔۔۔۔
 

منہاج علی

محفلین
تا نیابی ترجمانی هم‌چو عیسیٰ در کنار
بر لبِ خود مهر چون مریم نمی‌باید زدن
(صایب تبریزی)

جب تک اپنے پاس حضرت عیسیٰ جیسا ترجمان نہیں پا لیتے، حضرت مریم کی طرح اپنے لب پر مہر نہیں لگانی چاہیے۔

تشریح:
جب یہود نے بدونِ شوہر حضرت مریم کے ہاں حضرت عیسیٰ کی پیدائش پر تعجب کا اظہار کیا اور حضرت مریم کو موردِ طعن قرار دیا تو حضرت مریم نے بغیر بولے نوزاد حضرت عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عیسیٰ نے نوزادگی میں کلام کرکے حضرت مریم کی پاکدامنی و عفت کی گواہی دی۔ صائب مذکورہ بالا شعر میں کہتے ہیں کہ اس واقعے کے برعکس، اگر کوئی ایسا ترجمان موجود نہ ہو جو شخصِ بےگناہ کی پاک دامنی ثابت کرسکے، تو آں‌گاہ خاموش رہنا مصلحت نہیں۔
اف!!!
جناب بہت شکریہ یہ شعر پڑھوانے کا۔
 
Top