اُمّی لقبی کہ عرش یکپایۂ اوست
احمد نامی کہ نَقْدِ جاں مایۂ اوست
گویند کہ آں مظہر جاں سایہ نداشت
ویں طرفہ کہ عالم ہمہ در سایۂ اوست

اردو ترجمہ:

وه اُمّی لقب کی عرش الٰہی ان کا مقام ہے
وه احمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) نام والے کہ جو ہمارے جان و دل کے مالک ہیں
کہتے ہیں کہ اس نور الہی کے پرتو (آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کا سایہ نہ تها
یہ عجوبہ اس لیے کہ تمام عالم ہی ان کے سایۂ (رحمت) میں ہے۔

مرزا مظہر جانِ جاناں​
 

محمد سلمان

محفلین
من تو شدم تو من شدی

یہ غزل کونسی ہے بتائیے
شاعری جزویست از پیغمبری
جاہلان اش کفر دانند از خری

اس کا ترجمہ بتا دیجئے

شاعری تو پیغمبری کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے
جاہل لوگ کم عقلی کے باعث اسے کفر سمجھتے ہیں
 

محمد سلمان

محفلین
در قیامت کشتۂ نازِ تو می غلطد بہ خون
بر نیاید زود خون از زخمِ تیغِ تیز را


تیرے ناز سے قتل ہوا قیامت کے روز خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہے کیونکہ تیز دھار تلوار سے لگے ہوئے زخم سے جلد خون نہیں آتا

صائب تبریزی
 

محمد وارث

لائبریرین
دل خون و جاں فگار و جگر ریش و سینہ چاک
ہم خود بگو کہ چوں نکشم آہِ درد ناک


مولانا عبدالرحمٰن جامی

(تیرے فراق میں) دل خون ہو چکا ہے، جان تار تار ہے، جگر گھائل ہے اور سینہ چاک، تُو خود ہی کہہ کہ میں کیسے دردناک آہیں نہ بھروں۔
 
دل خون و جاں فگار و جگر ریش و سینہ چاک
ہم خود بگو کہ چوں نکشم آہِ درد ناک


مولانا عبدالرحمٰن جامی

(تیرے فراق میں) دل خون ہو چکا ہے، جان تار تار ہے، جگر گھائل ہے اور سینہ چاک، تُو خود ہی کہہ کہ میں کیسے دردناک آہیں نہ بھروں۔
تنم فرسودہ جاں پارہ زہجراں یا رسول اللہ
دلم پژمردہ آوارہ زعصیاں یا رسول اللہ
 
اگر دزدیدنِ جان می نخواہی چیست از شوخی
اگر تو( جان) دل چرانا نہیں چاہتا تو اس شوخی کا (مطلب)
بہ ہنگامِ خرامش خویش را صد جائی دزدیدن؟
چلتے چلتے ترا بار بار , (مڑ مڑ کر)چوری چوری دیکھنے کا مطلب۔
خسرو
 
چندیں ہزار شیشۂ دل را بر سنگ زد
افسانہ ایست ایں کہ دلِ یار نازک است

صائب تبریزی

اُس نے تو ہزاروں شیشے جیسے دل پتھر پر دے مارے اور توڑ دیے، یہ بات کہ محبوب کا دل بڑا نازک ہے، افسانہ ہی ہے۔
برسنگ ھے یا بہ سنگ ھے؟
 
محمود بھائی معذرت کیسی، مجھے خوشی ہے کہ آپ ادھر توجہ فرما رہے ہیں۔ اور بھائی برزگ تو سانجھے ہوتے ہیں لہذا اگر آپ نے ایسا سنا تو ہم بھی احترام کرتے ہیں، گو میں نے بھی برزگوں کی کتابوں میں ویسا ہی دیکھا ہے جیسا پہلے لکھا ہے۔

جہاں تک وزن کی بات ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ شعر 'بحرِ ہزج مثّمن اخرب مکفوف محذوب' میں کہی ہوئی غزل کا ہے جسکا وزن


مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے

میرے خیال میں آپ کو تسامح اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ کہ آپ اسکے پہلے مصرع میں لفظ "میندیش" جسکا وزن "مفاعیل" ہے کو لفظ "مندیش" جسکا وزن 'مفعول' یا 'فاعیل' سمجھ رہے ہیں اور رکن کے آغاز میں ہونے والی ایک 'ہجائے کوتاہ' کی کمی 'چہ' سے پوری کر رہے ہیں۔

تقطیع دیکھتے ہیں۔

عرفی کا شعر

عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را

عرفی تُ - مفعول
مِ یندیش - مفاعیل
ز غو غا ء - مفاعیل
رقیبا - فعولن

آواز - مفعول
سگا کم نَ - مفاعیل
کُند رزق - مفاعیل
گدا را - فعولن

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ دونوں مصرعے موزوں ہیں اور ایک انتہائی مشہور و معروف اور عربی، فارسی، اردو تینوں زبانوں کی مستعمل بحر میں ہیں، اب اگر آپ لفظ میندیش کو مندیش (من دیش) پڑھیں تو 'چہ' کا اضافہ نا گزیر ہے اور وہی آپ کر رہے ہیں۔


محمود بھائی میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس تھریڈ کو خوبصورت فارسی اشعار سے نوازتے رہیں گے، اور یقین مانیں مجھے فارسی کا ہر شعر خوبصورت لگتا ہے :)
بہت خوب
 
رمز آشنائے معنیٰ ، ہر خیرہ سر نبا شد
طبعِ سلیم فضل است، اِرثِ پدر نبا شد
ابو المعانی بیدل
علم کا ھر مدٌعی معانی أشنا نہیں ھوتا۔
طبعِ سلیم اللہ پاک کا فضل ھے، باپ کی میراث نہیں۔
 
با دوست باش گر همه آفاق دشمنند
کاو مرهم است اگر دگران نیش می‌زنند
(سعدی شیرازی)

اگر سارے جہان تیرے دشمن ہوں، دوست کے ساتھ رہو کیونکہ اگر دوسرے لوگ نیش( ڈنگ) مارتے ہیں تو وہ دوست مرہم( کی مانند) ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از مولانا رُومی

آں کس کہ ز چرخ نیم نانے دارد
وز بہرِ مقام آشیانے دارد
نے طالبِ کس بوَد نہ مطلوبِ کسے
گو شاد بزی کہ خوش جہانے دارد


وہ کہ جسے کھانے کے لیے آسمان سے تھوڑی سی روٹی مل جاتی ہے، اور سر چُھپانے کے لیے اُس کے پاس ایک ٹھکانہ ہے، جو نہ کسی کا طالب ہے اور نہ ہی کسی کا مطلوب، اُسے کہہ دو کہ خوش خوش شاد باد زندگی بسر کرے کہ اُس کا جہان آفتوں اور مصیبتوں سے پاک ہے۔
 
Top