اِس بیت کا ترجمہ یہ ہے:
تم نے اپنے حُسنِ ملیح سے جہاں میں شورش برپا کر دی اور ہر زخمیِ بسمل کو فغاں میں مصروف کر دیا۔

شاید یہ جامی کی بیت نہیں ہے، کیونکہ کلیاتِ جامی میں مجھے یہ بیت نظر نہیں آئی

از حسن ملیح خود شورِ بجہان کردی
ہر زخمی و بسمل را مصروفِ فغاں کردی
 

حسان خان

لائبریرین
میرا مشاہدہ رہا ہے کہ پاکستان میں جو فارسی شاعری ارادت مندانہ طور پر بُزُرگانِ ادب و تصوف سے منسوب ہے، اس میں سے بیشتر الحاقی ہے، اور ایسی کئی الحاقی غزلیں زبانی اور شاعرانہ لحاظ سے بھی پست ہیں۔ رومی، حافظ، جامی وغیرہ سے منسوب کئی غزلیں در حقیقت اُن کی نہیں ہیں۔
 
آخری تدوین:
زاهد از مسجد من از میخانه رسوا گشته ام
هر کسی را طشت از بامِ دگر افتاده است

زاہد مسجد سے اور میں میخانہ سے رسوا ہوا ہوں، ہر کسی کو مختلف رسوائی حاصل ہوئی ہے(ہر کسی کا طشت مختلف بالاخانوں سے گر پڑا ہے)۔

غنی کاشمیری
 
در خاک میامیز که تو گوهر پاکی
در سرکه میامیز که تو شکر و شیری
(مولوی رومی)

خاک میں مت مِل کہ تو گوہرِ پاک ہے. سرکے میں مت مل تو شِیر و شکر ہے.
 
بے جرم و خطا قتلم از نازِ بتان کردی
خود تیغ زدی بر من، نام دیگران کردی

مدہوش به یک ساغر ای پیرِ مغان کردی
دل بُردی و جان بُردی بے تاب و تواں کردی

شد جامئِ بیچاره از عشق تو آواره
آوارۂ غربت را در خاک نہان کردی
تو نے مجھے بے جرم و خطا نازِ بتاں سے قتل کردیا. خود ہی مجھ پر شمشیر ماری، نام دیگروں کا لگادیا.
اے پیرِ مغاں! ایک ساغر سے تو نے بےہوش کردیا. تو دل و جاں لے گیا، مجھے بے تاب و تواں کردیا.

بےچارہ جامی تیرے عشق سے آوارہ ہوگیا. آوارۂ سفر کو تو نے خاک میں نہاں کردیا.

خاطر نشیں رہے کہ یہ جامی کی ابیات نہیں ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
یہودی فارسی شاعر 'عِمرانی' کی مثنوی 'گنج‌نامه' سے دو ابیات:
خواهی که تُرا نجات باشد
حق را به تو التفات باشد
محروم مکن ز خویش درویش
تا حق نکند دلِ تُرا ریش

(عمرانی)
اگر تم چاہتے ہو کہ تم کو نجات نصیب ہو اور حق تعالیٰ تمہاری جانب اِلتِفات کرے تو تم [کسی] درویش کو اپنے [پاس] سے محروم مت کرو تاکہ حق تعالیٰ تمہارے دل کو زخمی نہ کرے۔
 

حسان خان

لائبریرین
زمزمهٔ فکرِ من وجد و سماع آورَد
تا غزلِ مولوی‌ست سرخَطِ افکارِ من

(صائب تبریزی)
جب سے مولوی [رُومی] کی غزل میرے افکار کا سرمَشق ہے (یعنی جب سے میرے افکار مولویِ رُومی کی غزل کی تقلید و پَیروی کرتے ہیں)، میری فکر کا زیرِ لب نغمہ وجْد و سَماع برپا کر دیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو سعی کن که درین بحر ناپدید شوی
وگرنه هر خس و خاری شِناوری داند

(صائب تبریزی)
تم کوشش کرو کہ اِس بحر میں غائب و مفقود ہو جاؤ۔۔۔ ورنہ تو ہر خس و خار [ہی] شِناوری (تیراکی) جانتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هنگامهٔ اربابِ سُخن چون نشود گرم؟
صائب سُخن از مولویِ رُوم دراَفکنْد

(صائب تبریزی)
اربابِ سُخن کا ہنگامہ کیوں نہ گرم ہو؟۔۔۔ [کہ] 'صائب' نے مولویِ رُوم کا ذِکر شروع کیا [ہے]۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صائب فسرده‌ایم بِیا در میان فِکن
از قولِ مولوی غزلِ عاشقانه‌ای

(صائب تبریزی)
اے «صائب»، ہم افسُردہ ہو گئے ہیں۔۔۔ آؤ، مولوی [رُومی] کی کہی کوئی عاشقانہ غزل درمیان میں ڈال دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
صائب تبریزی کی ایک غزل کا مقطع:
صائب چو سُخن سر کند از مولویِ رُوم
شیران بِنَیارند در آن دشت چریدن

(صائب تبریزی)
'صائب' جب مولویِ رُوم کا ذِکر شروع کرتا ہے تو شیر [بھی] اُس دشت میں چرنے کی جُرأت و طاقت نہیں کر پاتے۔

× مصرعِ دوم مولانا رُومی کا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دشتی که چراگاهِ شکارانِ تو باشد
شیران بِنَیارند در آن دشت چریدن

(مولانا جلال‌الدین رومی)
جو دشت تمہارے شِکاروں کی چراگاہ ہو، اُس دشت میں شیر [بھی] چرنے کی جُرأت و طاقت نہیں کر پاتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
قفقازی آذربائجان کے تُرکی گو شاعر میرزا علی‌اکبر 'صابر' سے منسوب ایک فارسی رُباعی:
(رباعی)

راهم بِدهید رُو‌ به راه آمده‌ام
بر درگهِ حضرتِ اِلٰه آمده‌ام
بی تُحفه نیامدم نه دستم خالی‌ست
با دستِ پُر از همه گُناه آمده‌ام

(منسوب به میرزا علی‌اکبر 'صابر')
مجھے راہ دیجیے، میں راہ کی جانب رُخ کیے آیا ہوں۔۔۔ میں حضرتِ خُدا کی درگاہ پر آیا ہوں۔۔۔ میں تُحفے کے بغیر نہیں آیا ہوں، نہ میرا دست خالی ہے۔۔۔ میں تمام گُناہوں سے پُر دست کے ساتھ آیا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صائب تبریزی کی ایک غزل کا مقطع:
این غزل صائب مرا از فیضِ مولانایِ رُوم
از زبانِ خامهٔ شکَّرفشان بی‌خواست خاست

(صائب تبریزی)
اے صائب! مولانائے رُوم کے فیض سے یہ غزل میرے قلمِ شَکَر فِشاں کی زبان سے [کسی] خواہش و اِرادے کے بغیر نِکلی ہے۔ (یعنی یہ غزل خود بخود ہی میرے قلم کی زبان پر جاری ہو گئی ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
حافظ شیرازی کی سِتائش میں کہی گئی بیت:
ز جامِ حافظِ شیراز مست گردیده‌ست
کلامِ صائب از آن رُو شرابِ شیراز است

(صائب تبریزی)
وہ حافظِ شیراز کے جام سے مست ہو گیا ہے۔۔۔ 'صائب' کا کلام اِسی وجہ سے شرابِ شیراز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
نۏلور شیرین‌مذاق ائتسه منی حلوایِ حُرّیت
(میرزا علی‌اکبر 'صابر')
کیا ہو جائے گا اگر مجھ کو حلوائے آزادی شیریں دہن کر دے؟

Nolur şirinməzaq etsə məni həlvayi-hürriyyət,
قفقازی آذربائجانی شاعر میرزا علی‌اکبر 'صابر' کے مندرجۂ بالا تُرکی مصرعے کا منظوم فارسی ترجمہ:
(مصرع)
شود شیرین، خُدایا، کامم از حلوایِ حُرّیت!
(احمد شفایی)
اے خُدا! میرا دہن حلوائے آزادی سے شیریں ہو جائے!
 
فردا دگر به دستِ نظیری حساب نیست
امروز هر سوال که داری جواب گیر


کل کو نظیری کے ہاتھ میں حساب نہ ہوگا. آج جو بھی سوال تو رکھتا ہے اس کا جواب حاصل کر لے.

نظیری نیشاپوری
 
در عشق یکی بود غم و شادیِ بیدل
بگریست سعادت شد و خندید مبارک


عشق میں بیدل کا غم اور خوشی ایک تھے؛ رونا سعادت ہو گیا اور ہنسنا مبارک.

بیدل دهلوی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
امیر علی‌شیر نوایی علیہ الرحمہ کی وفات پر کہا گیا قِطعۂ تاریخ:
جنابِ امیری هدایت‌پناهی
که ظاهر از او گشت آثارِ رحمت
شد از خارزارِ جهان سویِ باغی
که آنجا شگُفته‌ست گُلزارِ رحمت
چو نازل شد انوارِ رحمت به رُوحش
بِجو سالِ فوتش ز «انوارِ رحمت»

(غیاث‌الدین بن هُمام‌الدین خوانْدمیر)
جنابِ امیر و ہدایت پناہ - کہ جن کی ذات سے آثارِ رحمت ظاہر ہوئے - خارزارِ دُنیا سے اُس باغ کی جانب چلے گئے کہ جہاں گُلزارِ رحمت کِھلے ہوئے ہیں۔۔۔ چونکہ اُن کی رُوح پر انوارِ رحمت نازل ہوئے، تم اُن کے سالِ فوت کو «انوارِ رحمت» سے تلاش کرو۔
× انوارِ رحمت = ۹۰۶ھ
 
آخری تدوین:
غازى به دست پورِ خود شمشیرِ چوبین مى‌دهد
تا او در آن اُستا شود شمشیر گیرد در غزا
(مولانا جلال‌الدین رومی)
غازی اپنے فرزند کے دست میں [کھیلنے کے لیے] چوبی شمشیر دیتا ہے، تاکہ وہ اُس میں اُستاد ہو جائے، اور کافروں کے خلاف جنگ میں [اصلی] شمشیر پکڑے۔
× چوب = لکڑی؛ چوبی/چوبیں = لکڑی سے بنی ہوئی
 
Top