حسان خان

لائبریرین
ای فدایِ چشمِ مخمورِ تو خوابِ عاشقان
وی بلاگردانِ زُلفت پیچ و تابِ عاشقان

(صائب تبریزی)
اے کہ تمہاری چشمِ مخمور پر عاشقوں کی نیند فدا ہے۔۔۔ اور اے کہ عاشقوں کا پیچ و تاب تمہاری زُلف کا بلا دُور کرنے والا صدقہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون نیابد نورِ فیض از روحِ پاکِ مولوی؟
شمسِ تبریز است صائب در میانِ عاشقان

(صائب تبریزی)
وہ مولوی [رُومی] کی روحِ پاک سے نُورِ فیض کیسے نہ پائے؟۔۔۔ 'صائب' عاشقوں کے درمیان شمسِ تبریز (تبریز کا خورشید) ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اقتدا تا به مولوی کرده‌ست
شعرِ صائب تمام عرفان است

(صائب تبریزی)
جب سے 'صائب' نے مولوی [رُومی] کی اقتدا کی ہے، اُس کی شاعری تمام کی تمام عِرفان ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عقل در بارگاهِ حضرتِ عشق
مُنفعِل چون نخوانده مهمان است

(صائب تبریزی)
عقل حضرتِ عشق کی بارگاہ میں بِن بُلائے مہمان کی طرح شرمسار ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا رویِ تو پیدا شد عالَم همه موسیٰ شد
آن آتشِ سوزان در سیمایِ تو می‌بینم

(بهاءالدین محمد عبدی)
جیسے ہی تمہارا چہرہ ظاہر ہوا، تمام عالَم موسیٰ ہو گیا۔۔۔ وہ آتشِ سوزاں مَیں تمہارے چہرے میں دیکھتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مثنویِ خِردنامهٔ اسکندری کے اختتام میں عبدالرحمٰن جامی اپنے شاگرد و دوست امیر علی‌شیر نوایی کی تحسین میں ایک جا کہتے ہیں:
زهی طبعِ تو اوستادِ سخن
ز مِفتاحِ کِلکت گُشادِ سُخن

(عبدالرحمٰن جامی)
زہے تمہاری طبعِ [شاعری]، اے اُستادِ سُخن!۔۔۔ تمہارے قلم کی کلید سے سُخن کو کُشاد [حاصل] ہے۔
مثنویِ «خِردنامهٔ اسکندری» کے اختتام میں عبدالرحمٰن جامی اپنے شاگرد و دوست امیر علی‌شیر نوایی کی تحسین میں ایک جا کہتے ہیں:
سُخن را، که از رونق افتاده بود
به کُنجِ هوان رخْت بِنْهاده بود
تو دادی دِگر باره این آبروی
کشیدی به جولان‌گهِ گُفت‌وگوی

(عبدالرحمٰن جامی)
سُخن کو - کہ جس کی رونق ختم ہو گئی تھی اور جو اپنا ساز و سامان لے کر گوشۂ ذِلّت میں چلا گیا تھا - تم نے دوبارہ یہ آبرو دی اور اُس کو گفتگو کی جولاں گاہ میں کھینچ لائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی کی وفات پر کہے گئے مرثیے کا مطلع:
هر دم از انجُمنِ چرخ جفایِ دِگر است
هر یک از انجُمِ او داغِ بلایِ دِگر است

(امیر علی‌شیر نوایی)
فلک کی انجُمن سے ہر دم اِک جفائے دیگر [نازل ہوتی] ہے۔۔۔ فلک کا ہر ایک ستارہ کسی بلائے دیگر کا داغ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
امیر علی‌شیر نوایی نے اپنی تُرکی مثنوی «لیلیٰ و مجنون» کے ایک باب کے عُنوان میں عبدالرحمٰن جامی کو اِن سِتائش آمیز الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے:

"ولایت سِپِهری‌نینگ اخترِ جهان‌تابی و هدایت معدنی‌نینگ گوهرِ سېرابی و نظم اَوجی‌نینگ مِهرِ فلک‌احتشامی و معانی جامی‌نینگ رندِ صافی‌آشامی یعنی مولانا نورالدین عبدالرحمٰن جامی..."

"آسمانِ ولایت کے اخترِ جہاں تاب اور معدنِ ہدایت کے گوہرِ سیراب اور اَوجِ نظم کے خورشیدِ فلک احتشام اور جامِ معانی کے رندِ صافی آشام یعنی مولانا نورالدین عبدالرحمٰن جامی۔۔۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مُریدِ مولویِ رُوم تا نشد صائب
نکرد در کمرِ عرش دست گُفتارش

(صائب تبریزی)
جب تک 'صائب' مولویِ رُوم کا مُرید نہ ہوا، اُس کے گُفتار نے عرش کی کمر میں دست نہ کیا۔ (یعنی تب تک اُس کی شاعری عرش تک نہ پہنچی۔)
 

حسان خان

لائبریرین
ز شعرِ مولویِ رُوم چون بِپردازید
مُوَحِّدان غزلِ صائب انتخاب کنید

(صائب تبریزی)
اے مُوَحِّدو! جب آپ مولویِ رُوم کی شاعری سے فارغ ہو جائیں تو 'صائب' کی غزل مُنتخَب کیجیے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ازان ترانهٔ ما هوش می‌بَرَد صائب
که پَیروِ سُخنِ مولوی و عطّاریم

(صائب تبریزی)
اے صائب! ہمارا ترانہ اِس لیے ہوش لے جاتا ہے کیونکہ ہم مولوی [رُومی] اور عطّار [نیشابوری] کے سُخن کے پَیرو ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر چه می‌خواهیم صائب هست در دیوانِ او
با کلامِ مولوی زاشعارِ عالَم فارِغیم

(صائب تبریزی)
اے صائب! ہم جو بھی چیز چاہتے ہیں وہ [مولانا رُومی] کے دیوان میں ہے۔۔۔ مولوی [رُومی] کے کلام کے ہوتے ہوئے ہم اشعارِ عالَم سے فارغ و بے نیاز ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هیچ است فکرِ صائب در پیشِ فکرِ مُلّا
با آفتابِ تابان نورِ سُها چه باشد؟

(صائب تبریزی)
مُلّا [رُومی] کی فکر کے پیش میں صائب کی فکر ہیچ ہے۔۔۔۔ آفتابِ تاباں کے مُقابل ستارۂ سُہا کے نُور کی کیا حیثیت؟
 

حسان خان

لائبریرین
سال‌ها اهلِ سُخن باید که خونِ دل خورند
تا چو صائب آشنایِ طرزِ مولانا شوند

(صائب تبریزی)
'صائب' کی طرح طرزِ مولانا [رُومی] سے آشنا ہونے کے لیے اہلِ سُخن کو سالوں تک خونِ دل پینا لازم ہے۔ (یعنی سالوں تک مُسلسل خونِ دل پی کر ہی طرزِ مولانا رُومی سے آشنا ہوا جا سکتا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
صائب از افکارِ مولانایِ رُوم
طُرفه شوری در جهان افکنده‌ای

(صائب تبریزی)
اے صائب! تم نے مولانائے رُوم کے افکار سے جہان میں ایک عجیب و نادر شور [و آشوب] برپا کر دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر فیض که می‌رسد به صائب
از رُوح پُر از فُتوحِ مُلّاست

(صائب تبریزی)
'صائب' کو جو بھی فَیض پہنچتا ہے وہ مُلّا [رُومی] کی روحِ پُرفُتوح سے ہے۔

× تصوُّف کی اصطلاح میں 'فُتوح' اُس گُشائشِ حالِ باطنی کو کہتے ہیں جو سُلوک کے مراحل میں سالِک کو نصیب ہوتی ہے۔
 
نظیرؔی کاش بنمایی که در ساغر چه می داری
که پیشِ زاهدان قدرِ گناهکاران شود پیدا


نظیری کاش تو دکھائے کہ تو ساغر میں کیا رکھتا ہے تا کہ زاہدوں کے سامنے گناہگاروں کی قدر پیدا ہو۔

نظیری نیشاپوری
 

حسان خان

لائبریرین
ما ز اهلِ عالَمیم امّا ز عالَم فارِغیم
از غم و شادی و نَوروز و مُحرّم فارِغیم

(صائب تبریزی)
ہم اہلِ عالَم میں سے ہیں، لیکن ہم عالَم سے آسودہ و بے نیاز ہیں۔۔۔ ہم غم و شادمانی و نَوروز و مُحرّم سے آسودہ و بے نیاز ہیں۔
 
از حسن ملیح خود شورِ بجہان کردی
ہر زخمی و بسمل را مصروفِ فغاں کردی

بے جرم و خطا قتلم از نازِ بتان کردی
خود تیغ زدی بر من، نام دیگران کردی

مدہوش به یک ساغر ای پیرِ مغان کردی
دل بُردی و جان بُردی بے تاب و تواں کردی

شد جامئِ بیچاره از عشق تو آواره
آوارۂ غربت را در خاک نہان کردی

اس کلام کا ترجمہ اگر بتا دیں تو مہربانی ہوگی
 
Top