حسان خان

لائبریرین
بُرد همّت ذرّهٔ ما را به اوجِ آسمان
ورنه کَی خورشید پروایِ منِ ناچیز داشت؟
(صائ
ب تبریزی)
[ہماری] ہمّت اور عزمِ قوی ہمارے ذرّے کو اوجِ آسماں تک لے گیا؛ ورنہ خورشید کو کب مجھ ناچیز کی پروا تھی؟
 

حسان خان

لائبریرین
نشاطِ غربت از دل کَی بَرَد حُبِّ وطن بیرون
به تختِ مصرم امّا جای در بیت‌ُالحَزَن دارم

(صائب تبریزی)
غریب الوطنی کی عشرت و شادمانی کب دل سے حُبِّ وطن بیرون لے جاتی ہے؟ میں تختِ مصر پر ہوں، لیکن میری جا بیت الحَزَن میں ہے۔
× بیت الحَزَن (خانۂ غم) سے وہ حُجرہ مراد ہے جہاں حضرتِ یعقوب (ع) حضرتِ یوسف (ع) کی جدائی کے غم میں گریہ کیا کرتے تھے۔
 
کاش بودندی به گیتی استوار و دیرپای
دوستان در دوستی چون دشمنان در دشمنی
(رهی معیری)

کاش دوست دوستی میں آں قدر مضبوط اور دیرپا رہتے جیسے دشمن دشمنی میں۔
 

حسان خان

لائبریرین
در بهارِ سرخ‌رویی همچو جنّت غوطه داد
فکرِ رنگینِ تو صائب خطّهٔ تبریز را
(صائب تبریزی)

اے صائب! تمہاری فکرِ رنگیں نے خطّہ تبریز کو جنّت کی طرح بہارِ سُرخ رُوئی میں غرق کر دیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ما بلبلِ عشقیم ولے لب نہ کشودیم
سوزیم چو پروانہ و بیتاب نہ گردیم


شاہزادی زیب النسا مخفی

ہم عشق کے بلبل ہیں لیکن (آہ و زاری کرنے کے لیے) لب نہیں کھولتے، پروانے کی طرح جل جاتے ہیں اور بیتاب نہیں ہوتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر آن که عاقبتِ کارِ این جهان را دید
عزیزِ مصر به چشمش ذلیل می‌آید
(سعیدا نقشبندی یزدی)

جس شخص نے بھی اِس جہاں کے کام کا انجام دیکھ لیا، اُس کی نظر میں عزیزِ مصر [بھی] ذلیل و حقیر ہو جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
در اقالیمِ جنون، تدبیر را باید گذاشت
نیست راهی عقل را در کشورِ دیوانگی
(سعیدا نقشبندی یزدی)

جنون کی مملکتوں میں تدبیر ک
و ترک کر دینا لازم ہے؛ مُلکِ دیوانگی میں عقل کے لیے کوئی راہ نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پیشِ اهلِ حق ای دل، عقل را به دور افکن
بِه ز بی‌خودی نبوَد باده بزمِ عرفان را
(سعیدا نقشبندی یزدی)

اے دل! اہلِ حق کے سامنے، عقل کو دور پھینک دو؛ بزمِ عرفاں میں بے خودی سے بہتر کوئی بادہ نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آنچه در شش جِهاتِ گردون است
بهرِ اِثباتِ ذاتِ بی‌چون است
(سعیدا نقشبندی یزدی)

آسمان کی شش جِہت میں جو کچھ بھی ہے وہ خدائے بے چون و بے مثل کی ذات کے اِثبات کے لیے ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تُخمِ حسرت سبز شد بر خاکِ ما امّا نکرد
دانهٔ امّیدِ ما از خاک سر بیرون هنوز
(سعیدا نقشبندی یزدی)
حسرت کا بیج ہماری خاک پر سبز ہو گیا، لیکن ہمارے دانۂ امید نے ہنوز خاک سے [اپنا] سر بیرون نہیں نکالا۔
(یعنی ہماری خاک پر حسرتوں کے بیج نشو و نما پا کر سبزے میں تبدیل ہو چکے ہیں، لیکن ہم نے جو امید کا دانہ بویا تھا، اُس میں ابھی تک ںُمو و بالیدگی کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در این چمن چو بلبل صد نیشِ خار خوردم
چون غنچه وا نکردم رازِ نهانِ خود را
(سعیدا نقشبندی یزدی)

میں نے اِس چمن میں بلبل کی طرح صد بار نوکِ خار کھائی، [لیکن] میں نے غنچے کی مانند اپنے رازِ نہاں کو فاش نہ کیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سخن ہا وقفِ گفتارِ تو کردم
نظر ہا نذرِ دیدارِ تو کردم


مُلا نورالدین ظہوری ترشیزی

میں نے اپنی ساری باتیں اور سارا کلام تیری گفتار (کے وصف بیان کرنے) کے لیے وقف کردیا، اور تمام نظریں (دیکھنا) تیرے دیدار کی نذر کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
کَی فرنگی با مسلمانی نهانی می‌کند
آنچه با ما آشکارا یارِ جانی می‌کند
(سعیدا نقشبندی یزدی)
[کوئی] فرنگی کسی مسلمان کے ساتھ پوشیدہ و مخفیانہ [بھی وہ کچھ] کب کرتا ہے جو کچھ [ہمارا] یارِ جانی ہمارے ساتھ آشکارا کرتا ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر که از خود فُرود می‌آید
آسمان در سُجود می‌آید
(سعیدا نقشبندی یزدی)

جو بھی شخص اپنے آپ سے فُرُو آتا ہے (یعنی انکسار و خاکساری اختیار کرتا ہے)، آسمان [اُس کے لیے] سجدے میں جھک جاتا ہے۔
× فُرُو = نیچے
 
طالب رخِ افروختہ از شعلۂ دل را
برقع ز کفن کن کہ نقابی بہ ازین نیست


اے طالب! دل کے شعلے سے افروختہ رخ پر کفن کا برقع ڈال کہ اس سے بہتر کوئی نقاب نہیں۔

طالب آملی
 

حسان خان

لائبریرین
دوامِ عشق اگر خواهی مکن با وصل آمیزش
که آبِ زندگی هم می‌کند خاموش آتش را
(صائب تبریزی)

اگر تم عشق کا دوام چاہتے ہو تو وصل کے ساتھ آمیزش مت کرو؛ کہ آبِ حیات بھی آتش کو خاموش کر دیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دوامِ عشق اگر خواهی مکن با وصل آمیزش
که آبِ زندگی هم می‌کند خاموش آتش را
(صائب تبریزی)

اگر تم عشق کا دوام چاہتے ہو تو وصل کے ساتھ آمیزش مت کرو؛ کہ آبِ حیات بھی آتش کو خاموش کر دیتا ہے۔
۱۹۱۵ء میں دیارِ آلِ عثمان میں شائع ہونے والی کتاب 'مجوهراتِ صائبِ تبریزی' میں مؤلف 'محمد خلوصی' نے اِس بیت کا تُرکی زبان میں ترجمہ یوں کیا تھا:
ای واقفِ ذوقِ عشق اولان دل‌خسته! اگر دوامِ عشقی آرزو ایدرسه‌ڭ صقین وصلتی اعتیاد ایدنمه! زیرا آتشه آبِ حیات بیله دوکسه‌ڭ ینه سونر!..
Ey vâkıf-ı zevk-i aşk olan dil-haste! Eğer devâm-ı aşkı arzu edersen, sakın vuslatı i’tiyâd edinme! Zira ateşe âb-ı hayât bile döksen yine söner!
اے ذوقِ عشق سے واقف دل خستہ! اگر تم دوامِ عشق کی آرزو کرتے ہو تو خبردار وصل کی عادت مت اختیار کرو! کیونکہ اگر تم آتش پر آبِ حیات بھی اُنڈیلو، تو بھی وہ بجھ جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از گفتهٔ مولانا مدهوش شدم صائب
این ساغرِ روحانی صهبایِ دگر دارد
(صائب تبریزی)

اے صائب! میں گُفتۂ مولانا [رومی] سے مدہوش ہو گیا؛ یہ ساغر روحانی ایک دیگر ہی شراب رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز بلبلانِ خوش‌اَلحانِ این چمن صائب
مریدِ زمزمهٔ حافظِ خوش‌اَلحان باش
(صائب تبریزی)

اے صائب! اِس چمن کے بُلبُلانِ خوش اَلحان میں سے تم حافظِ خوش اَلحان کے زمزمے کے مرید رہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
به فکرِ صائب ازان می‌کنند رغبت خلق
که یاد می‌دهد از طرزِ حافظِ شیراز
(صائب تبریزی)

صائب کی فکر کی طرف مردُم اِس لیے رغبت کرتے ہیں کیونکہ وہ طرزِ حافظِ شیرازی کی یاد دلاتی ہے۔

× 'فکرِ صائب' کا لفظی معنی 'فکرِ درست و راست' ہے۔

میرے خیال سے اِس بیت میں صائب تبریزی نے یہ سُخن صرف حافظ شیرازی کی اُستادی کا اعتراف کرنے کے لیے کہا ہے، ورنہ مجموعی طور پر صائب اور حافظ کی طرزیں بِسیار مختلف ہیں۔
 
Top