گر چو فرہادم بتلخی جاں برآید حیف نیست
بس حکایتہائے شیریں باز مے ماند ز من

اگر کڑواہٹ سے فرہاد کی طرح میری جان نکل جائے کوئی افسوس نہیں۔ بہت سی میٹھی حکایتیں تو میری باقی رہ جائیں گی
ترجمہ:قاضی سجاد حسین
(یہاں لفظ "شیریں" ذوالمعنی ہے۔اس سے مراد فرہاد کی معشوق شیریں بھی ہوسکتی ہے اور اس کا اصلی مطلب میٹھی بھی ہوسکتی ہے)
 

ارتضی عافی

محفلین
گر چو فرہادم بتلخی جاں برآید حیف نیست
بس حکایتہائے شیریں باز مے ماند ز من

اگر کڑواہٹ سے فرہاد کی طرح میری جان نکل جائے کوئی افسوس نہیں۔ بہت سی میٹھی حکایتیں تو میری باقی رہ جائیں گی
ترجمہ:قاضی سجاد حسین
(یہاں لفظ "شیریں" ذوالمعنی ہے۔اس سے مراد فرہاد کی معشوق شیریں بھی ہوسکتی ہے اور اس کا اصلی مطلب میٹھی بھی ہوسکتی ہے)
عالی است
 
(اے) صنم کہ مجھے اپنے دین و دل پر اعتماد نہیں ہے
آدھے غمزہ میں اِس کو(دل) اور اُس کو(دین) کو لُوٹ لو۔

یہ غمزہ ہے، غمزدہ نہیں۔
غمزہ=آنکھ کا اشارہ
بہت ممنون ہو بھائی صاحب، دراصل فارسی سے قطعی نابلد ہوں اور ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس میں مصنف نے فارسی اشعار کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔۔ سو پڑھ تو لیتا ہوں مگر اشعار کا مفہوم نہ معلوم ہونے کے سبب تشنگی رہ جاتی ہے۔۔ بہر حال بہت شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
اے کہ می پُرسی از احوالِ غنیمت خبرے
مُشتِ خاکیست کہ در دیدۂ دشمن کردند


غنیمت کنجاہی

اے کہ تُو غنیمت کے احوال کی خبر پوچھتا ہے، وہ تو بس ایک مُشتِ خاک (آدمی) ہے جسے دشمن (شیطان) کی آنکھوں میں ڈال دیا گیا۔
 

طالب سحر

محفلین
ہلالِ عید نگر چوں جمالِ شاہدِ چیں
پسِ نقابِ تنک، جملۂ خیال چنیں
امیر خسرو

عید کا چاند دیکھیے، جیسے شاہدِ چین کا حسن ہو، جس کے باریک نقاب کے پیچھے گمان، تصور اور خیال سب جمال ہی جمال میں ڈھل جاتے ہیں۔
(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بے نیازانہ ز اربابِ کرم می گزرم
چوں سیہ چشم کہ بر سرمہ فروشاں گزرد


طالب آملی

میں اربابِ کرم کے پاس سے بے نیازانہ گزر جاتا ہوں جیسے کہ سیاہ آنکھوں والا سرمہ فروشوں کے پاس سے گزر جاتا ہے۔ (جیسے سیاہ آنکھوں والے کو سرمے کی حاجت نہیں ہوتی ویسے مجھے بھی لوگوں کے کرم اور مہربانی کا احسان لینے کی حاجت نہیں)۔
وارث بھائی، فارسی میں اِس مصدر کا درست املاء 'گذشتن' ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر چو فرہادم بتلخی جاں برآید حیف نیست
بس حکایتہائے شیریں باز مے ماند ز من

اگر کڑواہٹ سے فرہاد کی طرح میری جان نکل جائے کوئی افسوس نہیں۔ بہت سی میٹھی حکایتیں تو میری باقی رہ جائیں گی
ترجمہ:قاضی سجاد حسین
(یہاں لفظ "شیریں" ذوالمعنی ہے۔اس سے مراد فرہاد کی معشوق شیریں بھی ہوسکتی ہے اور اس کا اصلی مطلب میٹھی بھی ہوسکتی ہے)
برادر جان، ایسا ہی ایک اور شعر دیکھیے:
آوازِ تیشه امشب از بیستون نیامد
شاید به خوابِ شیرین فرهاد رفته باشد

(بِندرابن داس خوشگو)
آج شب بیستون سے تیشے کی آواز نہیں آئی؛ شاید فرہاد خوابِ شیریں میں چلا گیا ہو۔

خوابِ شیریں میں ایہام ہے، اس کا مطلب 'میٹھی نیند' بھی ہو سکتا ہے اور 'شیریں کا خواب' بھی۔ شعر کا سارا لطف اسی ذومعنی ترکیب سے ہے۔
بیستون = وہ کوہ جہاں پر فرہاد شیریں کے لیے جوئے شِیر کھودا کرتا تھا
تیشہ = سنگ تراشی اور چوب تراشی کا آلہ، کلہاڑا
 

حسان خان

لائبریرین
ویسےگ کے ساتھ ذ آئے تو ایک عجیب سی چبھن کاسا احساس ہوتا ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے ساچق میں چ کے ساتھ ق کا آنا ۔
ویسے جن فارسی الاصل الفاظ میں 'ذ' موجود ہے اُنہیں اوائل میں عربی کی طرح ذال کی آواز ہی کے ساتھ تلفظ کیا جا تا تھا۔ اِس کے علاوہ ایک قاعدہ یہ بھی تھا کہ جن فارسی الفاظ میں دال سے قبل کوئی حرفِ صامت یا حرکت ہوتی تھی، اُن میں دال کو ذال لکھا اور پڑھا جاتا تھا۔ خراسانی عہد کے کئی قلمی نسخوں میں اِس قاعدے کی پیروی کی گئی ہے۔ قرنِ سیزدہمِ میلادی کے بعد سے یہ ذال، جسے ذالِ معجم کے نام سے جانا جاتا ہے، فارسی زبان سے مفقود ہو گیا تھا، اور اُس دور کی اب شائع ہونے والی اغلب کتابوں میں بھی جدید املاء ہی استعمال کیا جاتا ہے جن میں ذال کا یہ استعمال نظر نہیں آتا۔ لیکن چند فارسی الفاظ مثلاً گذشتن، پذیرفتن، آذر وغیرہ کے معیاری املاء میں اِس کی نشانی باقی رہ گئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحتِ مَولِد
کجا دانند حالِ ما سَبُک‌سارانِ ساحل‌ها
(احمد رضا خان بریلوی)

ہم مولدِ رسول (ص) کی شادمانی سے عشقِ احمد (ص) کے بحر میں غرق ہیں؛ ساحلوں پر موجود کم عقل و پست افراد ہمارا حال کیا جانیں!
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابی چنین هایل
کجا دانند حالِ ما سبک‌بارانِ ساحل‌ها

(حافظ شیرازی)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی، فارسی میں اِس مصدر کا درست املاء 'گذشتن' ہے۔
بجا فرمایا آپ نے خان صاحب، کوشش میری یہی ہوتی ہے کہ اس کو ذال ہی سے لکھوں لیکن ساری عمر سے اردو میں زے دیکھ دیکھ کر کبھی کبھی انجانے میں زے ہی سے لکھ جاتا ہوں :)
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
شب نیست که از غمت دلم جوش نکرد
وز بهر تو زهرِ اندُهی نوش نکرد
ای جانِ جهان هیچ نیاوردی یاد
آن را که ترا هیچ فراموش نکرد
(سیف فرغانی)

کوئی شب ایسی نہیں جس میں تمہارے غم سے میرا دل بے تاب نہ ہوا اور تمہارے لیے کوئی زہرِ غم نوش نہ کیا؛ (لیکن) اے جانِ جہاں! تم نے اُس کو ذرا یاد نہیں کیا جس نے تمہیں ذرا فراموش نہ کیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خلیدن‌های مِنقارِ هُما در اُستُخوان غالب
پس از عمری به یادم داد کاوش‌های مژگان را
(غالب دهلوی)

تصور کیجیے کہ عاشق مر چکا ہے اور اُسے مرے ہوئے ایک عرصہ گذر چکا ہے۔ قبر ویران پڑی ہے اور اُس کی ہڈیاں اِدھر اُدھر بکھری ہوئی ہیں۔ ہما (جو ہڈیاں کھاتا ہے) آتا ہے اور اُن ہڈیوں پر چونچ مارتا ہے۔ اس کی چونچ کی چبھن سے عاشق کو (جس کا جذبۂ عشق ابھی زندہ اور تازہ ہے) وہ وقت یاد آتا ہے جب کسی کی لمبی لبی اور تیز مژگاں اس کے رگ و ریشہ میں چبھتی تھیں۔
مرزا غالب نے عشق کے جذبۂ غیرفانی کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے اور ایک نہایت ہی حسین محاکاتی فضا پیدا کی ہے جس سے اُن کے احساسات کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔
(شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مہدی سہیلی کی نظم 'اصفہان' کے ابتدائی دو اشعار:
اصفهان ای اصفهان من تشنهٔ زاینده‌رُودت
هر زمان گویم سلامت هر نَفَس خوانم درودت
من به قربانِ تو و گل‌های زرد و سرخ و سبزت
جان فدایِ آسمانِ آبی و ابرِ کبودت

(مهدی سهیلی)
اصفہان! اے اصفہان! میں تمہارے زایندہ رُود کا تشنہ ہوں؛ میں ہر وقت تمہیں سلام کہتا ہوں اور ہر نَفَس تم پر درود پڑھتا ہوں؛ میں تم پر اور تمہارے زرد و سرخ و سبز گُلوں پر قربان جاؤں اور (میری) جان تمہارے آبی رنگ آسمان اور نیلگوں ابر پر فدا ہو۔
× زایندہ رُود = اصفہان سے گذرنے والا دریا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کسے بدونِ تو باور نکردہ است مرا
کہ با تو نسبتِ من چون دروغ با قسم است
(فاضل نظری)

تیرے سوا کسی کو مجھ پر یقین نہیں رہا کہ تیرے ساتھ میری نسبت اس جھوٹ کی طرح ہے جس پر قسم (کھائی جاتی)ہے (یعنے جیسے جھوٹ پر قسم کھائی جائے تو جھوٹ مضبوط ہوجاتا ہے، اتنی مضبوط میری تیرے ساتھ نسبت ہے)۔
اِس شعر کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح قسم کے بغیر کوئی شخص کسی دروغ پر یقین نہیں کرتا، اُسی طرح تمہارے بغیر کسی کو میری ہستی کا باور نہیں ہے۔
 
از تپش ہائے پر پروانہ می آید بہ گوش
کآشنائے شمع را بیرون محفل آتش است


(محفل کے باہر) گرمیوں سے پروانے کا پر کان تک آتا ہے۔ شمع کے آشنا کو بیرون محفل آتش ہے۔

ابوالمعانی میرزا عبد القادر بیدل
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از تپش ہائے پر پروانہ می آید بہ گوش
آشنائے شمع را بیرون محفل آتش است
(محفل کے باہر) گرمیوں سے پروانے کا پر کان تک آتا ہے۔ شمع کے آشنا کو بیرون محفل آتش ہے۔
ابوالمعانی میرزا عبد القادر بیدل
از تپش‌های پرِ پروانه می‌آید به گوش
کاشنای شمع را بیرونِ محفل آتش است

کاشنا = که آشنا

بہتر ترجمہ: پروانے کے پر کی تپشوں سے سنائی دیتا ہے (یعنی معلوم ہوتا ہے) کہ آشنائے شمع کو بیرونِ محفل آتش ہے۔
اِس شعر کا مضمون واضح نہیں ہے، لیکن جو مفہوم میرے ذہن میں متشکل ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ پروانہ، کہ شمع کا آشنا ہے، اپنی محفل یعنی شمع کے باہر مضطرب ہے اور اُس کے پروں کی پُراضطراب تپش و لرزش کی آواز سے شاعر کو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ پروانہ وصالِ شمع کے بغیر گویا آتش میں جل رہا ہے اور اپنی محفل میں ورود کے لیے بے تاب ہے۔ یعنی اگر کوئی دیگر ہوتا تو وہ شمع کے نزدیک آنے پر جلتا، لیکن شمع کا عاشق پروانہ شمع سے دوری کے باعث جل رہا ہے۔
پس نوشت: یہ مفہوم بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ شاعر نے پروانے کے پر کی تپشوں سے یہ عمومی نتیجہ نکالا ہے کہ جو کوئی بھی شمع کا آشنا ہو، وہ محفل سے باہر اضطراب کی حالت میں سوزاں رہتا ہے، یا یہ کہ بیرونِ محفل اُس کے لیے آتش کی مانند ہے۔
 
آخری تدوین:
Top