حسان خان

لائبریرین
عشق کارِ خفتگان و نازکانِ نرم نیست
عشق کارِ پُردلان و پهلوانست ای پسر

(مولانا جلال‌الدین محمد بلخی رومی)
اے پسر! عشق سوتے رہنے والوں اور نرم و نازک لوگوں کا کام نہیں، بلکہ عشق تو دلیروں اور پہلوانوں کا کام ہے۔

ندارم مونسی در غارِ گیتی
بیا، تا مونسِ غارم تو باشی
(فخرالدین عراقی)

(اِس) غارِ دنیا میں میرا کوئی مونس و یار نہیں ہے؛ (اے یار) آ جا تاکہ تُو میرا یارِ غار بن جائے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ہر کو قتیلِ عشق نشد چوں بخاک رفت
ہم بے خبر بیامد و ہم بے خبر برفت


عبید زاکانی

ہر وہ شخص کہ جو عشق کا قتیل نہ ہوا اور خاک میں چلا گیا، وہ اِس دنیا میں بے خبر آیا اور بے خبر ہی چلا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
کاشکی هرگز نمی‌کردم گذر سوی درت
دوش با بیگانه‌ای چند آشنا دیدم تو را

(محمد فضولی بغدادی)
کاش میں ہرگز تمہارے تمہارے در کی طرف سے نہیں گذرتا (کیونکہ) کل شب میں نے (وہاں) تمہیں چند بیگانوں کے ساتھ آشنا دیکھا۔

ای رقیب! از دیدنت هرگز مرا ذوقی نشد
غیرِ این ساعت که از جانان جدا دیدم تو را

(محمد فضولی بغدادی)
اے رقیب! مجھے تمہاری رویت سے ہرگز کبھی کوئی لذت حاصل نہیں ہوئی؛ سوائے اِس لمحے کے کہ جب میں نے تمہیں (اپنے) محبوب سے جدا دیکھا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیست کاری به دورویانِ جهانم صائب
روی دل از همه عالم به کتاب است مرا
(صائب تبریزی)

اے صائب! مجھے دنیا کے دوچہرہ اور منافق لوگوں سے کوئی کام نہیں ہے؛ (میرے) دل کا رُخ تو پوری دنیا میں سے (صرف) کتاب کی جانب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتی ز ناز بیش مرنجان مرا برو
آن گفتنت که بیش مرنجانم آرزوست

(مولانا جلال الدین رومی)
تم نے ناز سے کہا کہ 'مجھے مزید رنج مت دو، چلے جاؤ'۔۔۔ مجھے تمہاری یہ بات کہ 'مزید رنج مت دو' (دوبارہ سننے) کی آرزو ہے۔

یعقوب وار وااسفاها همی‌زنم
دیدارِ خوبِ یوسفِ کنعانم آرزوست

(مولانا جلال الدین رومی)
میں یعقوب کی طرح محزون و مغموم فریادیں کرتا رہتا ہوں؛ مجھے (اپنے) یوسفِ کنعان کے چہرۂ زیبا کے دیدار کی آرزو ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پیمانۂ رنگیست دریں بزم بگردش
ہستی ہمہ طوفانِ بہار است، خزاں ہیچ


مرزا غالب دہلوی

اِس دنیا کی بزم میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی، کسی نہ کسی رنگ کا پیمانہ گردش میں ہے، یعنی ہماری ساری زندگی ایک طوفانِ بہار ہے سو یہاں خزاں کا وجود ہی نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
یک دیدن از برای ندیدن بوَد ضرور
هرچند روی مردمِ عالم ندیدنی‌ست
(صائب تبریزی)

اگرچہ دنیا کے لوگوں کے چہرے ناقابلِ دید ہیں لیکن نہ دیکھنے کے لیے ایک بار دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔

تا در لحد شود گلِ بی‌خار بسترت
دامن ز خارزارِ علایق کشیدنی‌ست
(صائب تبریزی)

لحد میں گُلِ بے خار کو اپنا بستر بنانے کے لیے تمہیں (اپنے) دامن کو تعلقات کے خارزار سے کھینچنا ہو گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آناں کہ جاں فدائے نگارے نکردہ اند
ہمکارِ شاں مباش کہ کارے نکردہ اند


ظہوری ترشیزی

وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنی جان محبوب پر فدا نہیں کی، اُنکا ہمکار مت بن کہ اُنہوں نے تو کوئی کام ہی نہیں کیا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کاسہء چشم حریصاں پر نشد
تاصدف قانع نشد پر در نشد
بند بگسل باش آزاد اے پسر
چند باشی بند سیم بند زر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حریصوں کی آنکھ کبھی سیر نہیں ہوتی
صدف جب تک (ایک قطرے پر) صبر نہ کرے کبھی موتی سے نہ بھرے۔
تو اے چھوکرے تو (بھی) ان قیود کو توڑ کر آزاد ہو جا
کب تک سیم و زر( کی زنجیروں) میں جکڑا رہے گا
مثنوی۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر پس از مرگ هم آسوده نباشم چه عجب
کلفتِ روز به شب خوابِ پریشان آرد
(انیسی شاملو)

اگر موت کے بعد بھی مجھے آرام نہ ملے، تو کیا عجب؟۔۔۔ دن میں پیش آنے والا رنج رات کے وقت پریشان خواب لے آتا ہے۔

از جنون منّت پذیرم، زآنکه عمری شد که یار
از برم رفته‌ست و با او گرمِ گفتارم هنوز
(مؤمن استرآبادی)

میں (اپنے) جنون کا احسان مند ہوں، کیونکہ یار کو میرے پہلو سے رخصت ہوئے ایک عمر ہو گئی لیکن میں ابھی تک اُس کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از عکسِ رُخَت دلِ عراقی
گلزار و بہار و باغ و صحراست


شیخ فخرالدین عراقی

تیرے چہرے کے عکس سے عراقی کا دل، گلزار ہے، بہار ہے، باغ ہے، صحرا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای عشق پیشِ هر کسی نام و لقب داری بسی
من دوش نامِ دیگرت کردم که دردِ بی‌دوا
(مولانا جلال الدین رومی)

اے عشق! ہر کسی کے سامنے تمہارے کئی مختلف نام اور لقب ہیں؛ میں نے کل شب تمہارا ایک دوسرا نام رکھا ہے یعنی: دردِ بے دوا!
 

محمد وارث

لائبریرین
با سایہ تو را نمی پسندم
عشق است و ہزار بدگمانی


غنی کاشمیری

مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ سایہ بھی تیرے ساتھ ہو کیونکہ جہاں عشق ہوتا ہے وہاں ہزار بدگمانیاں بھی ہوتی ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو را من دوست می‌دارم چو بلبل مر گلستان را
مرا دشمن چرا داری چو کودک مر دبستان را

(سیف فرغانی)
میں تم سے اس طرح محبت کرتا ہوں جس طرح بلبل گلستان سے محبت کرتا ہے؛ (لیکن) تم مجھ سے اس طرح نفرت کیوں کرتے ہو جس طرح بچہ مکتب سے نفرت کرتا ہے؟
 
تو ہر دم می سرا نغمہ کے ہر دم می سرِ رقصم
بہر طرزِ کہ می رقصانیم ، اے یار می رقصم

عثمان مروندی علیہ رحمۃ الرحمٰن ۔۔۔۔۔۔المعروف ۔۔ حضرتِ لعل شہباز قلندر
یہ کلام حضرت عثمان ہارونی رحمتہ اللہ کا ہے
 
تو ہر دم می سرا نغمہ کے ہر دم می سرِ رقصم
بہر طرزِ کہ می رقصانیم ، اے یار می رقصم

عثمان مروندی علیہ رحمۃ الرحمٰن ۔۔۔۔۔۔المعروف ۔۔ حضرتِ لعل شہباز قلندر
منم عثمان ھارونی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر، دار می رقصم
(حضرت خواجہ عثمان ھارونی رحمتہ اللہ)

ترجمہ: میں عثمان ھارونی، شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں سولی پر ناچتا ہوں
 

حسان خان

لائبریرین
می‌گردد آسمان همه شب با دو صد چراغ
در جست و جوی چشمِ خوشِ دلربای تو
(مولانا جلال الدین رومی)

آسمان تمام شب دو سو چراغوں کے ساتھ تمہاری چشمِ خوش و دل ربا کی جستجو میں پھرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نگردد وحشتِ دل کم به زیب و زینتِ دنیا
نسازد نقشِ یوسف دل‌نشین دیوارِ زندان را

(صائب تبریزی)
دنیا کی زیب و زینت سے وحشتِ دل کم نہیں ہوتی؛ یوسف کا نقش دیوارِ زنداں کو دل نشیں نہیں بنا دیتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اسیرِ عشقم و از ہر چہ در جہاں فارغ
گدائے یارم و بر ہر کہ در دو عالم شاہ


رھی معیری

میں عشق کا اسیر ہوں اور جہاں میں جو کچھ بھی ہے اُس سے آزاد ہوں، میں یار کا گدا ہوں اور دونوں جہانوں میں جو کچھ بھی ہے اُس پر بادشاہ ہوں۔
 
Top