حسان خان

لائبریرین
صفَوی دَور کے فارسی شاعر «طرزی افشار» کی ایک غزل سے دو ابیات:

با منِ دل‌خسته ای دل‌دار جنگیدن چرا؟
تو غزالِ گُلشنِ حُسنی پلنگیدن چرا؟
با مُسلمانانِ مِسکین کافریدن بهرِ چه؟
با گرفتارانِ مُستَضعَف فرنگیدن چرا؟
(طرزی افشار)


اے دِل‌دار! مجھ دل‌خستہ کے ساتھ جنگ کرنا کِس لیے؟۔۔۔ تم گُلشنِ حُسن کے غَزال ہو، تیندوا بننا کِس لیے؟۔۔۔ مُسلمانانِ مِسکین کے ساتھ کافِرانہ سُلوک کرنا کِس لیے؟۔۔۔۔ تہی‌دست و زار و ناتواں اسیروں کے ساتھ [ظالِمانہ] فَرَنگی روِش رکھنا کس لیے؟۔۔۔

× پَلَنگیدن، کافِریدن، فَرَنگیدن شاعر کے اِختِراع‌کردہ مصادِر ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرحمٰن جامی» کے زمانے میں دِیارِ «خُراسان» کے تیموری پادشاہ «سُلطان حُسَین بایقرا» نے اپنے منثور رِسالے کا ایک حِصّہ اُس زمانے کے «خُراسان» کے عظیم‌ترین فارسی شاعر و ادیب «جامی» کی مدح و سِتائش سے مُختَص کیا تھا۔ اُس حِصّے میں سے تبَرُّکاً چند سطریں دیکھیے اور «حضرتِ جامی» پر سلام بھیجیے:

"۔۔۔اور اُن تمام [اشخاص] میں اَعلَم و افضل، بحرِ فضائل کے دُرِّ پاک اور افلاکِ ولایت کے‌ خورشیدِ تاب‌ناک اور جواہرِ نظم کے صاحبِ انتظام، حضرتِ شیخ‌الاسلام مولانا عبدالرحمٰن جامی سَلّمَهُ الله وَاِبقا ہیں، کہ جب سے فلکِ قدیمی‌نِہاد ثوابِت و سیّار کے ذریعے سے صد ہزار دِیدوں سے اہلِ عالَم کی جانِب ناظِر ہے، ویسا کوئی نادِر‌خیال [شخص] اُس کی نظر میں نہیں آیا ہے، اور جب سے مِہرِ جہان‌نُما، بلکہ خورشیدِ سِپِہرپَیما، جہان کے گِرد گردِش کر رہا ہے، اُس کا پرتَو ہرگز اُن جیسے عدیم‌المِثال [شخص] پر نہیں پڑا ہے۔ اُن کے جواہرِ نظم سے صدفِ جہان دُرِّ ثمین سے پُر ہے، اور اُن کے لَآلیِ نثر سے اطلَسِ افلاک پر زیب و تزئین ہے۔ اُن کی تصانیف جُملہ عُلوم میں بےحد ہیں، اور ہر تصنیف میں خزائنِ معانی بےعدد ہیں۔"

===========

تُرکی متن:

"و اول جمله‌نینگ اعلم و افضل، فضایل دریاسی‌نینگ دُرِّ پاکی و ولایت افلاکی‌نینگ خورشیدِ تاب‌ناکی نظم جواهری‌نینگ صاحبِ انتظامی حضرتِ شیخ‌اسلام مولانا عبدالرحمٰن جامی سلّمه الله وابقاتورور کیم تا فلکِ قدیمی‌نهاد ثوابت و سیّاردین، یوز مینگ کۉز بیله، عالَم اهلی‌غه ناظردورور، کۉزی‌گا انداق نادر‌خیال کېلمامیش و تا مِهرِ جهان‌نما، بلکه خورشیدِ سپهرپیما، جهان دَوری‌غه سایردورور، پرتَوی هرگز انینگ‌تېک عدیم‌المثال اوستی‌گا توشمامیش. جواهرِ نظمی‌دین جهان صدفی تۉلا دُرِّ ثمین و لآلیِ نثری‌دین افلاک اطلسی‌غه زیب و تزیین. تصانیفی جمیعِ علوم‌دا بی‌حد و هر تصنیف‌دا خزاین‌المعانی بی‌عدد."
 

حسان خان

لائبریرین
«حافظ شیرازی» کی ایک فارسی-عرَبی غزل کی ابتدائی دو ابیات:

أَتَتْ رَوَائِحُ رَنْدِ الْحِمَىٰ وَزَادَ غَرَامِي
فدایِ خاکِ درِ دوست باد جانِ گِرامی
پیامِ دوست شُنیدن سعادت است و سلامت
مَنِ اْلمُبَلِّغُ عَنِّي إِلَىٰ سُعَادَ سَلَامِي
(حافظ شیرازی)


معشوق کی اِقامت‌گاہ کے درختِ عُود کی خوشبوئیں آئیں اور [اُن سے] میرے عشق و شَیفتَگی میں اِضافہ ہو گیا۔۔۔ [میری] جانِ گِرامی یار کے در کی خاک پر فدا ہو!۔۔۔

یار کا پیغام سُننا سعادت و سلامتی ہے۔۔۔۔ [پس] کون میری جانب سے «سُعاد» (میری معشوقہ) کی طرف میرا سلام پُہنچائے گا؟۔۔۔ (یا بہ الفاظِ دیگر: آیا یہاں کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ جو «سُعاد» کو میری جانب سے سلام پُہنچا دے؟)
(سُعاد = عربی شعر و ادبیات میں ایک معشوقہ کا نام)
 

حسان خان

لائبریرین
گیارہ سو سالہ زبان و ادبیاتِ فارسی کا بوستان اِس قدر فَراخ ہے کہ جب مجھ کو ذرا محسوس ہونے لگا تھا کہ میں نے اِس گُل‌زارِ ہمیشہ‌بہار کے اکثر حِصّوں کی گُل‌گشت اور اُس کے بیش‌تر رنگارنگ و گُوناگُوں گُلوں کا تماشا کر لیا ہے تو تبھی میری نظروں کے پیش میں گُلستانِ زبانِ فارسی کا اِک ایسا گُلِ رعنا آ گیا جو تاحال نادیدہ تھا، اور میری زبان‌دانی کے زَعم کو فُرُوتَنی کے اِس احساس میں تبدیل کر گیا کہ اِس زبانِ جمیل اور اِس ادبیاتِ لطیف کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کے لیے ہنوز بےعدد چیزیں باقی ہیں، اور مجھ پر آشکار ہو گیا کہ اِس وقت تک تو میں اُس باغِ ادبیاتِ فارسی کے ابتدائی وُرودی حِصّے ہی میں ہوں، اور انتہائی حِصّے تک پہنچنے کے لیے عُمریں درکار ہیں۔۔۔

میں دس سال سے زبانِ فارسی سیکھ رہا اور ادبیاتِ فارسی کا مُطالعہ کر رہا ہوں، لیکن دل‌چسپ چیز دیکھیے کہ میں چند روز قبل تک اِک ایسے لفظ سے ناآگاہ رہا ہوں کہ جو کُہنہ شعر و زبان میں کئی بار استعمال ہوا ہے۔۔۔ میرا اِشارہ «بنامیزد» کی جانب ہے کہ جو در اصل «به نامِ ایزد» کا مُخفّف ہے۔ کثرتِ استعمال کے سبب سے اُس عِبارت سے کسرۂ اِضافت اور «ایزد» کا الِف محذوف ہو گیا تھا۔ یہ کلِمہ برائے مَیمَنَت و برَکت اور دفعِ چشمِ بد کے لیے استعمال ہوتا تھا، اور تعجُّب اور قَسَم کے محل میں بھی اِس کو بروئے کار لایا جاتا تھا۔ یعنی یہ سمجھ لیجیے کہ یہ کلِمہ «ماشاءالله» اور «چشمِ بد دُور» جیسی عِبارات کا مُعادِل و ہم‌معنی تھا۔

حافظ، سعدی، نظامی، خاقانی، جامی، انوَری، رُومی، امیر خُسرَو کے بہ شُمول کئی دیگر فارسی شُعَرا اِس لفظ کو اپنی شاعری کے اندر کاربُرد (استعمال) میں لائے ہیں۔ مِثال کے طور پر شہرِ «غَزنین» کے شاعر «سَنایی غزنوی» کی ایک ایسی غزل کی اختتامی دو ابیات دیکھیے کہ جس میں «بنامیزد» بطورِ ردیف استعمال ہوا ہے:

ز خِجلت سرو قدّت را همی‌گوید پس از سجده
زهی قامت زهی بالا بنامیزد بنامیزد
من از عشق و تو از خوبی به عالَم در سمر گشته
زهی وامِق زهی عذرا بنامیزد بنامیزد
(سنایی غزنوی)


درختِ سرْو تمہارے قد کو سجدہ [کرنے] کے بعد شرمندگی سے کہتا ہے: "زہے قامت! زہے بالا! ماشاءاللہ! ماشاءاللہ!"

میں عشق کے باعث، اور تم خُوبی و زیبائی کے باعث، عالَم میں افسانہ (یعنی مشہور) ہو گئے ہیں۔۔۔ زہے وامِق! زہے عذرا! ماشاءاللہ! ماشاءاللہ!
 

حسان خان

لائبریرین
نقّاشِ چین چو صورتش آورد در نظر
زد بر زمین قلم که چه‌ها می‌کَشیم ما
(سُلطان حُسَین بایقرا)


نقّاشِ چِین جب اُس [یار] کی صُورت کو نظر میں لایا تو اُس نے [اپنا] قلم زمین پر دے مارا [اور کہا] کہ ہم [پردۂ نقّاشی پر] کیسی کیسی [فُضول] چیزیں کھینچتے ہیں!۔۔۔ (یعنی میرے یار کی زیبا اور بےعَیب و نَقص صُورت دیکھ کر «چِین» کے ماہِر نقّاش نے بھی شرمندہ ہو کر نقّاشی کو خَیرباد کہہ دیا، کیونکہ صُورتِ یار کے پیش میں اُس کو اپنی تمام نقّاشیاں بدصورت و عَیب‌دار نظر آئیں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
هر که گوید که خلاصش دِه ز عشق
آن دُعا از آسمان مردود باد
(مولانا جلال‌الدین رومی)


جو بھی شخص یہ دُعا کرتا ہے کہ اُس کو عشق سے خَلاصی عطا ہو، [خُدا کرے کہ اُس کی] وہ دُعا آسمان سے رد ہو جائے!
 

حسان خان

لائبریرین
«خُراسان» اور «بدَخشان» کے فاطمی-اسماعیلی شاعر و ادیب «ناصِر خُسرَو» (سالِ وفاتش: ۱۰۸۸ء) «مِصر» کے فاطمی-اسماعیلی-شیعی خلیفہ «المُستَنصِر بالله» کی جانب سے سرزمینِ «خُراسان» میں اسماعیلی مذہب کے "حُجّت" اور داعی و مُبلِّغ تھے۔ یوں تو فارسی ادبیات کی تاریخ میں «ناصر خُسرَو» کے علاوہ بھی ایک دو اسماعیلی نویسندے گُذرے ہیں، لیکن جو بُزُرگی و ناموَری «ناصر خُسرَو» کے نصیب میں آئی ہے، وہ کسی دیگر اسماعیلی ادیب کو عطا نہیں ہوئی۔ «ناصر خُسرَو» کا دیوانِ اشعارِ عربی تو مُتَأسِّفانہ دست‌بُردِ روزگار سے محفوظ نہ رہ سکا، لیکن خوش‌بختانہ اُن کا دیوانِ اشعارِ فارسی اور اور اُن کی اکثر فارسی کُتُب و رسائل اِن ہزار سال میں محفوظ رہ گئے ہیں جو اُن کو فارسی میں پُرکارترین اسماعیلی ادیب بناتے ہیں۔ اُن کو یہ شرَف بھی حاصل ہے کہ زبانِ فارسی میں سب سے اوّلین سفرنامہ اُن ہی کے قلم سے نِکلا تھا۔ افغانستان، تاجکستان اور شُمالی پاکستان (چِترال و گِلگِت-ہُنزہ) کے اسماعیلیوں میں «ناصر خُسرَو» کو بِسیار تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور وہ خود کو اُن سے اور اُن کی تبلیغات و تعلیمات سے منسوب کرتے ہیں، اور اُن کو «سیِّدنا پِیر ناصر خُسرَو» کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

«ناصر خُسرَو» نے کئی قصیدے فاطمیوں اور «المُستَنصِر بِالله» کی ستائش میں لِکھے تھے۔ ویسے ہی ایک سِتائشی قصیدے سے چند ابیات دیکھیے:


من همی‌ نازِش به آلِ حیدر و زهرا کنم
تو همی نازِش به سِند و هِندِ بدگوهر کنی
گر بِبیند چشمِ تو فرزندِ زهرا را به مِصر
آفرین از جانْت بر فرزند و بر مادر کنی
دل ز مِهرِ چهرِ او چون جنّتِ مأوا کنی
چشمِ خویش از نورِ او پُرزُهرهٔ ازهر کنی
ای خُداوندِ زمان و فخرِ آلِ مُصطفیٰ
خنجرِ گُل‌گونْت را کَی سر سُویِ خاور کنی؟
چین تو را بنده شود، گر تو برو پُرچین کنی
قیصرت سجده کند، گر رُوی زی قیصر کنی
جانِ اسکندر ز شادی سر به گردون بر بَرَد
گر تو نعلِ اسپِ خویش از تاجِ اسکندر کنی
وقتِ آن آمد که روزِ کِین چو خاکِ کربلا
آب را در دجله از خونِ عدو احمر کنی
(ناصر خُسرَو)


[اے مُخالِف!] میں آلِ حَیدر و زہرا (فاطمیوں) پر فخر کرتا ہوں، جبکہ تم سِندھ و ہند کی بداَصل و بدسِرِشت [مملَکَتوں] پر فخر کرتے ہو۔۔۔ اگر تمہاری چشم فرزندِ زہرا (المُستَنصِر بِالله) کو مِصر میں دیکھ لے تو تم [دل و] جان سے فرزند اور مادر پر آفرین کرو گے۔۔۔ تم دل کو اُس کے چہرے کی محبّت سے جنّتِ مأوا کی مانند کر لو گے اور اپنی چشم کو اُس کے نُور سے زُہرۂ درخشاں سے پُر کر لو گے۔۔۔ (اب رُوئے تخاطُب فاطمی خلیفہ کی جانب ہے) اے مالکِ زماں اور اے فخرِ آلِ مُصطفیٰ! تم اپنے خنجرِ گُل‌گُوں کے سر کو کب جانبِ مشرق کرو گے؟۔۔۔ اگر تم ابرو کو پُرچِیں (پُرشِکن) کرو تو چِین تمہارا غُلام ہو جائے گا۔۔۔ اگر تم قَیصر کی جانب چہرہ کرو تو قَیصر تم کو سجدہ کرے گا۔۔۔ اگر تم اپنے اسْپ کی نعل کو تاجِ اسکندر سے بناؤ تو اِسکندر کی جان شادمانی سے آسمانوں تک عُروج کر جائے گی۔۔۔ [اب] اِس چیز کا وقت آ گیا ہے کہ تم بہ روزِ اِنتِقام خاکِ کربلا کی طرح آب کو دجلہ میں خونِ اعدا سے سُرخ کر دو!۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
اندر دلِ من عشقِ تو چون نورِ یقین است
بر دیدهٔ من نامِ تو چون نقشِ نِگین است
(سَنایی غزنوی)


میرے دل میں تمہارا عشق نُورِ یقین کی مانند ہے۔۔۔ میرے دِیدے پر تمہارا نام نقشِ نِگیں کی طرح [منقوش] ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر به سرمنزِل سلمیٰ رسی ای بادِ صبا
چشم دارم که سلامی بِرَسانی ز منَش
(حافظ شیرازی)


اے بادِ صبا! اگر تم «سلمیٰ» (میری معشوقہ) کی منزِل‌گاہ و مسکن پر پُہنچو تو مجھ کو توقُّع و اُمید ہے کہ تم میری جانِب سے اُس کو اِک سلام پُہنچا دو گی۔۔۔
(سلْمیٰ = عربی ادبیات میں ایک زنِ معشوقہ کا نام)
 
گیارہ سو سالہ زبان و ادبیاتِ فارسی کا بوستان اِس قدر فَراخ ہے کہ جب مجھ کو ذرا محسوس ہونے لگا تھا کہ میں نے اِس گُل‌زارِ ہمیشہ‌بہار کے اکثر حِصّوں کی گُل‌گشت اور اُس کے بیش‌تر رنگارنگ و گُوناگُوں گُلوں کا تماشا کر لیا ہے تو تبھی میری نظروں کے پیش میں گُلستانِ زبانِ فارسی کا اِک ایسا گُلِ رعنا آ گیا جو تاحال نادیدہ تھا، اور میری زبان‌دانی کے زَعم کو فُرُوتَنی کے اِس احساس میں تبدیل کر گیا کہ اِس زبانِ جمیل اور اِس ادبیاتِ لطیف کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کے لیے ہنوز بےعدد چیزیں باقی ہیں، اور مجھ پر آشکار ہو گیا کہ اِس وقت تک تو میں اُس باغِ ادبیاتِ فارسی کے ابتدائی وُرودی حِصّے ہی میں ہوں، اور انتہائی حِصّے تک پہنچنے کے لیے عُمریں درکار ہیں۔۔۔

میں دس سال سے زبانِ فارسی سیکھ رہا اور ادبیاتِ فارسی کا مُطالعہ کر رہا ہوں، لیکن دل‌چسپ چیز دیکھیے کہ میں چند روز قبل تک اِک ایسے لفظ سے ناآگاہ رہا ہوں کہ جو کُہنہ شعر و زبان میں کئی بار استعمال ہوا ہے۔۔۔ میرا اِشارہ «بنامیزد» کی جانب ہے کہ جو در اصل «به نامِ ایزد» کا مُخفّف ہے۔ کثرتِ استعمال کے سبب سے اُس عِبارت سے کسرۂ اِضافت اور «ایزد» کا الِف محذوف ہو گیا تھا۔ یہ کلِمہ برائے مَیمَنَت و برَکت اور دفعِ چشمِ بد کے لیے استعمال ہوتا تھا، اور تعجُّب اور قَسَم کے محل میں بھی اِس کو بروئے کار لایا جاتا تھا۔ یعنی یہ سمجھ لیجیے کہ یہ کلِمہ «ماشاءالله» اور «چشمِ بد دُور» جیسی عِبارات کا مُعادِل و ہم‌معنی تھا۔

حافظ، سعدی، نظامی، خاقانی، جامی، انوَری، رُومی، امیر خُسرَو کے بہ شُمول کئی دیگر فارسی شُعَرا اِس لفظ کو اپنی شاعری کے اندر کاربُرد (استعمال) میں لائے ہیں۔ مِثال کے طور پر شہرِ «غَزنین» کے شاعر «سَنایی غزنوی» کی ایک ایسی غزل کی اختتامی دو ابیات دیکھیے کہ جس میں «بنامیزد» بطورِ ردیف استعمال ہوا ہے:

ز خِجلت سرو قدّت را همی‌گوید پس از سجده

زهی قامت زهی بالا بنامیزد بنامیزد
من از عشق و تو از خوبی به عالَم در سمر گشته
زهی وامِق زهی عذرا بنامیزد بنامیزد
(سنایی غزنوی)

درختِ سرْو تمہارے قد کو سجدہ [کرنے] کے بعد شرمندگی سے کہتا ہے: "زہے قامت! زہے بالا! ماشاءاللہ! ماشاءاللہ!"

میں عشق کے باعث، اور تم خُوبی و زیبائی کے باعث، عالَم میں افسانہ (یعنی مشہور) ہو گئے ہیں۔۔۔ زہے وامِق! زہے عذرا! ماشاءاللہ! ماشاءاللہ!
افغانستانی فارسی میں ماشاءاللہ کے مفہوم میں "نامِ خدا" بولا جاتا ہے
 
زمانه بوته‌ی خار از درشت‌خوییِ توست
اگر شوی تو ملایم جهان گلستان‌است
(صائب تبریزی)

زمانہ تیری درشت‌خوئی کی وجہ سے خار کا درختچہ ہے. اگر تو ملائم و نرم‌خو ہوجا تو دنیا (تیرے لئے) گلستان ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
یکبار بے چراغ مکن ایں دو خانہ را
از دل جدا، ز دیدہ جدا میروی، مرو


واقف لاہوری (بٹالوی)

ایک ہی بار میں اِن دو گھروں کو بے چراغ اور ویران مت کر، تُو دل سے بھی جدا ہے اور آنکھوں سے بھی دُور جا رہا ہے، مت جا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرا عشقت بنامیزد بدان‌سان پروَرید ای جان
که با یادِ تو در دوزخ توانم آرَمید ای جان
(سنایی غزنوی)


اے جان! مجھ کو تمہارے عشق نے، ماشاءاللہ، اِس طرح پرورِش کیا ہے کہ میں تمہاری یاد کے ساتھ دوزخ میں [بھی] اِستِراحت کر سکتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
دیگران از مرگ مُهلت خواستند
عاشقان گویند: نی نی زود باد
(مولانا جلال‌الدین رومی)


دیگر اشخاص موت سے مُہلت و تأخیر چاہتے ہیں، [جبکہ] عُشّاق کہتے ہیں: نہیں نہیں، جَلد آئے!
 

حسان خان

لائبریرین
نیست در عشقِ بُتان حاصلِ ما غیر از اشک
گُهَری بهتر از این نیست در این بحرِ عمیق
(محمد فضولی بغدادی)


عشقِ بُتاں میں ہم کو اشک کے بجُز [کُچھ] حاصِل نہیں ہوتا۔۔۔ اِس بحرِ عمیق میں اِس سے بہتر کوئی گَوہر نہیں ہے۔ (بُت = محبوبِ زیبا)
 

حسان خان

لائبریرین
حیاتی از تو تمنّایِ بوسه‌ای دارد
برآرَش از لبِ جان‌پروَر این تمنّا را

(بانو بی‌بی حیاتی کِرمانی)

[اے یار!] «حیاتی» کو تم سے اِک بوسے کی تمّنا ہے۔۔۔ [اپنے] لبِ جاں‌پروَر سے اُس کی اِس تمنّا کو برآوردہ کر دو!۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بی‌قراریِ سِپِهر از عشق است
گرم‌رفتاریِ مِهر از عشق است

(عبدالرحمٰن جامی)

فلک کی بے‌قراری عشق کے باعث ہے۔۔۔ خورشید کی گرم‌رفتاری عشق کے باعث ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
غمِ عشق از دلِ کس کم مبادا
دلِ بی‌عشق در عالَم مبادا

(عبدالرحمٰن جامی)

خُدا کرے کہ کسی شخص کے دل سے غمِ عشق کم نہ ہو اور عالَم میں [کوئی] دلِ بےعشق نہ ہو!
 

محمد وارث

لائبریرین
آغشتہ ایم ہر سرِ خارے بخونِ دل
قانونِ باغبانیِ صحرا نوشتہ ایم


غالب دہلوی (یوم پیدائشِ غالب: 27 دسمبر)

ہم نے ہر ایک کانٹے کی نوک اپنے خونِ دل سے آلودہ اور تر (اور گُل رنگ) کی ہے، اور اس طرح ہم نے (بعد میں آنے والوں کے لیے) صحرا کی باغبانی کے اصول و ضوابط و قواعد لکھ دیئے ہیں۔
 

انعام ندیم

محفلین
حضرات، مولانا رومی کی مندرجہ ذیک غزل کا اُردو ترجمہ درکار ہے۔ اگر کوئی دوست مدد کرسکیں تو نوازش ہوگی:

به روز مرگ چو تابوت من روان باشد
گمان مبر که مرا درد این جهان باشد

برای من مگری و مگو دریغ دریغ
به دوغ دیو درافتی دریغ آن باشد

جنازه‌ام چو ببینی مگو فراق فراق
مرا وصال و ملاقات آن زمان باشد

مرا به گور سپاری مگو وداع وداع
که گور پرده جمعیت جنان باشد

فروشدن چو بدیدی برآمدن بنگر
غروب شمس و قمر را چرا زبان باشد

تو را غروب نماید ولی شروق بود
لحد چو حبس نماید خلاص جان باشد

کدام دانه فرورفت در زمین که نرست
چرا به دانه انسانت این گمان باشد

کدام دلو فرورفت و پر برون نامد
ز چاه یوسف جان را چرا فغان باشد

دهان چو بستی از این سوی آن طرف بگشا
که های هوی تو در جو لامکان باشد
 
Top