حسان خان

لائبریرین
گر جلوه‌کنان بِگْذری آدینه به مسجد
بُت‌خانه کنی مسجدِ آدینهٔ ما را

(عبدالرحمٰن جامی)
اگر تم جلوہ کرتے ہوئے بہ روزِ جُمعہ مسجد سے گُذرو تو تم ہماری مسجدِ جُمعہ (مسجدِ جامع) کو بُت خانہ کر دو گے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بِگْشا دری از تیغِ جفا سینهٔ ما را
وز سینه بُرون بر غمِ دیرینهٔ ما را

(عبدالرحمٰن جامی)
[اے محبوب!] تیغِ جفا سے ہمارے سینے میں ایک در کھولو اور [ہمارے] سینے سے ہمارے غمِ دیرینہ کو بیرون لے جاؤ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چون ناوکِ دل‌دوزِ تو راحت نرساند
هر مرحمِ راحت که رسد سینهٔ ما را

(عبدالرحمٰن جامی)
جو بھی مرحمِ راحت ہمارے سینے پر پہنچتا ہے، [اُن میں سے کوئی بھی] تمہارے تیرِ دل دوز کی طرح راحت نہیں پہنچاتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ماییم و دلِ صافِ چو آیینه چه داری
محروم ز عکسِ رُخت آیینهٔ ما را

(عبدالرحمٰن جامی)
ہم ہیں اور [ہمارا] آئینے جیسا صاف دل [ہے]۔۔۔ تم ہمارے آئینے کو اپنے چہرے کے عکس سے کس لیے محروم رکھتے ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
تو شاهی و ما عُور و گداییم چه نسبت
با اطلسِ زربفتِ تو پشمینهٔ ما را

(عبدالرحمٰن جامی)
تم شاہ ہو [جبکہ] ہم برہنہ و گدا ہیں۔۔۔ تمہارے اطلسِ زربفْت کے ساتھ ہمارے پشْمی (اُونی) لباس کو کیا نِسبت؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ما را اگر از کینه به پهلو ندِهی راه
این بس که به دل جای دِهی کینهٔ ما را

(عبدالرحمٰن جامی)
اگر تم کِینے کے باعث ہم کو [اپنے] پہلو میں راہ نہیں دیتے، [تو] یہ [ہی] کافی ہے کہ تم [اپنے] دل میں ہمارے کِینے کو جگہ دیتے ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جامی چه کنی گنجِ هُنر عرض چو آن شوخ
قدری ننِهد حاصلِ گنجینهٔ ما را

(عبدالرحمٰن جامی)
اے جامی! جب وہ شوخ ہمارے گنجینے کے حاصل [و ثمر] کی کوئی قدر نہیں کرتا تو تم [اُس کو] گنجِ‌ ہُنر کس لیے نُمائش کرتے ہو؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی کی ایک نعتیہ بیت:
صِفتِ بادهٔ عشقش ز منِ مست مپُرس
ذوقِ این مَی نشِناسی به خدا تا نچَشی

(عبدالرحمٰن جامی)
مجھ مست سے اُن کے عشق کی شراب کی توصیف مت پوچھو۔۔۔ بخدا! جب تک تم نہیں چکھو گے تم اِس شراب کا ذوق و لذّت نہیں پہچانو گے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سیمین‌ذقنا، سنگ‌دلا، لاله‌عِذارا
خوش کن به نگاهی دلِ غم‌پرورِ ما را

(عبدالرحمٰن جامی)
اے سِیمیں ذقن! اے سنگ دل! اے لالہ رُخسار!۔۔۔ [اپنی] ایک نگاہ سے ہمارے دلِ غم پروَر کو خوش کر دو۔
× ذقَن = زنَخدان، چانہ، ٹھوڑی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
این قالبِ فرسوده گر از کُویِ تو دور است
ألقَلْبُ عَلیٰ بابِكَ لَيْلاً ونَهارا

(عبدالرحمٰن جامی)
[میرا] یہ قالبِ فرسودہ اگر[چہ] تمہارے کُوچے سے دور ہے، [لیکن میرا] دل شب و روز تمہارے در پر ہے۔

عُثمانی شاعر «والِهی» کی مندرجۂ ذیل تُرکی-عربی بیت دیکھیے جو شاید «جامی» کی بیت ہی سے مُتأثر ہو کر لکھی گئی تھی:

دور ایتدی فلک گرچه قاپوڭ‌دان بنی امّا
ألقَلْبُ عَلیٰ بابِكَ لَيْلاً ونَهارا
(والِهی)
اگرچہ فلک نے مجھے تمہارے در سے دور کر دیا، لیکن [میرا] دل شب و روز تمہارے در پر [رہتا] ہے۔

وزن: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

Dūr itdi felek gerçi ḳapuñdan beni ammā
 

حسان خان

لائبریرین
آزُرده مبادا که شود آن تنِ نازُک
از بهرِ خُدا چُست مکن بندِ قبا را

(عبدالرحمٰن جامی)
خدا کے لیے بندِ قبا کو چُست مت کرو۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ [تمہارا] وہ تنِ نازُک آزُردہ ہو جائے!
 

حسان خان

لائبریرین
گر چاکِ گریبان نکند راه‌نمایی
طِفلان چه شِناسند که دیوانه کُدام است

(صائب تبریزی)
اگر گریبان کا چاک رہنمائی نہ کرے تو بچّے کیا پہچانیں کہ دیوانہ کون ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
گر هست چو مِجمَر نفَسم گرم عجب نیست
اِذ حُبُّكَ قَد اَوقَدَ فِی قَلبِیَ نارا

(عبدالرحمٰن جامی)
اگر میرا نفَس (سانس) آتش دان کی طرح گرم ہے تو عجب نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ تمہاری محبّت نے میرے دل میں آتش روشن کی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
من چون گُذَرم از سرِ کُویِ تو کز آنجا
یارایِ گُذشتن نبُوَد بادِ صبا را

(عبدالرحمٰن جامی)
میں تمہارے سرِ کُوچہ سے کیسے گُذروں کہ وہاں سے تو بادِ صبا کو [بھی] گُذرنے کا یارا نہیں ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خوش آن که ز مَی مست شوی بی‌خبر اُفتی
پِنهان ز تو من بوسه زنم آن کفِ پا را

(عبدالرحمٰن جامی)
خوشا یہ کہ تم شراب سے مست ہو کر بے خبر ہو جاؤ۔۔۔ [اور] میں تم سے چُھپ کر [تمہارے] اُس کفِ پا کو بوسہ دے دوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
جامی نکند جز هوَسِ بزمِ تو لیکن
در حضرتِ سُلطان که دِهد بار گدا را

(عبدالرحمٰن جامی)
جامی تمہاری بزم کی آرزو کے بجُز [کوئی آرزو] نہیں کرتا، لیکن سُلطان کے حُضور میں گدا کو [شرَفِ] باریابی کون دیتا ہے/دے گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
نعتیہ بیت:
جهان را مُطاع و خُدا را مُطیع
اسیرانِ روزِ جزا را شفیع

(عبدالرحمٰن جامی)
وہ جہان کے مُطاع، اور خُدا کے مُطیع ہیں (یعنی جہان اُن کی اطاعت کرتا ہے، اور وہ خدا کی اطاعت کرتے ہیں)۔۔۔ وہ اسیرانِ روزِ جزا کے شفیع ہیں۔

مأخوذ از: خِرَدنامهٔ اسکندری
 

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عُثمانی سُلطان سلیم خان اوّل کی ایک بیت:
درهم شده از آهِ من آن زُلف عجب نیست
کز باد گه آشُفته شود سُنبُل و گه کج

(سلطان سلیم خان اول)
[اگر] میری آہ سے وہ زُلف درہم و برہم ہو گئی ہے [تو] عجب نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ ہوا سے سُنبُل گاہے آشُفتہ و نامُرتّب ہو جاتا ہے اور گاہے کج۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
گر چاکِ گریبان نکند راه‌نمایی
طِفلان چه شِناسند که دیوانه کُدام است

(صائب تبریزی)
اگر گریبان کا چاک رہنمائی نہ کرے تو بچّے کیا پہچانیں کہ دیوانہ کون ہے؟

گریبان اور طفلان میں "ن" کا اعلان نہیں -درست کر لیں -وزن خراب ہورہا ہے -شعر غضب کا ہے -
 

حسان خان

لائبریرین
گریبان اور طفلان میں "ن" کا اعلان نہیں -درست کر لیں -وزن خراب ہورہا ہے -شعر غضب کا ہے -
فارسی میں نُونِ غُنّہ کی آواز نہیں ہے۔ اردو شاعری کے اندر جن الفاظ میں نُونِ غُنّہ آتا ہے (یعنی جن میں نُون کا اعلان نہیں ہوتا)، فارسی شاعری کے اندر اُن میں نُون سے ماقبل کے مُصوِّت کو کوتاہ کر کے تلفُّظ کیا جاتا ہے، جس سے وزن میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ مثلاً، جامی کے مندرجۂ ذیل مصرعے میں «این» کو «اِن» تلفُّظ کیا جائے گا:
این قالبِ فرسوده گر از کُویِ تو دور است

اگر آپ پوچھیں کہ جب فارسی میں نُونِ غُنّہ سِرے سے ہے ہی نہیں، تو پھر بیشتر پاکستانی کتابوں میں فارسی ابیات میں نُونِ غُنّہ کی علامت (ں) کیوں نظر آتی ہے، اور پاکستانی شعرخواں اُن الفاظ کو نُونِ غُنّہ کی آواز کے ساتھ کیوں خوانتے (پڑھتے) ہیں تو اِس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں فارسی کی اصوات کو اردو کی عینک کے ساتھ دیکھا جاتا ہے، اور عموماً فارسی اشعار کو اردو طرزِ کتابت میں لکھا جاتا، اور اُن کی باآواز قرائت اردو تلفُّظ و لہجے کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اِس لیے ہمارے ذہنوں میں یہ تصوُّر رائج ہے کہ گویا اردو کی طرح فارسی میں بھی نُونِ غُنّہ موجود ہے۔
 
آخری تدوین:
Top