حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
ذکر کن ای دوست تا باشی سلیم

(محمود عیانی)
اے دوست! «بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» ذِکر کرو تاکہ سلامت و بے گزند و دُرُست و سالِم ہو جاؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
حَرفِ نخُست است ز نظمِ حکیم

(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» [خُدائے] حکیم کی نظم [میں] سے حَرفِ اوّل ہے۔

× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم‌» بھی نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
خالِ رُخ‌آرایِ عَروسِ قدیم

(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» عَروسِ قدیم کے چہرے کی آرائش کرنے والا خال ہے۔
× عَروس = دُلہن

× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم‌» بھی نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
گیسویِ مُشکینِ نِگارِ قدیم

(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» نِگارِ قدیم کی زُلفِ سیاہ ہے۔
× «نِگار» یہاں «معشوقِ زیبا» کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم‌» بھی نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
گوهرِ یک‌دانهٔ دُرجِ قدیم

(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» زیوردانِ قدیم کا گوہرِ یک دانہ ہے۔

× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم‌» بھی نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
نغمهٔ مُرغانِ ریاضِ نعیم

(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» جنّتِ نعیم کے پرندوں کا نغمہ ہے۔

× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم‌» بھی نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
هست ز گُل‌زارِ الٰهی شمیم

(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» گُلزارِ الٰہی [کی جانب] سے [آنے والی] بُوئے خوش ہے۔

× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم‌» بھی نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
مخزنِ اسرارِ خدایِ کریم

(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» خُدائے کریم کے اَسرار کا مخزن ہے۔

× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم‌» بھی نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
در غم و اندوه و مُصیبت ندیم

(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» غم و اندوہ و مُصیبت میں مُونِس و ہمدم ہے۔

× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم‌» بھی نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
ابرویِ خوش‌وسمهٔ حُسنِ قدیم

(زُلالی خوانساری)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» حُسنِ قدیم کا ابروئے خوش آرائش ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
مطلعِ دیباچهٔ نظمِ قدیم

(زُلالی خوانساری)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» نظمِ قدیم کے دیباچے کا مطلع ہے۔
 
ای دل صبور باش که در بارگاهِ دوست
نومیدیِ تو عرضِ تمنای دیگر است


اے دل صابر رہ کہ دوست کی بارگاہ میں تیری نومیدی بھی ایک (قسم کی) تمنا ہے۔

آه از دروغِ وعدۂ من کز پیِ فریب
فردای حشر طالبِ فردای دیگر است


میرے وعدے کے جھوٹ پر افسوس کہ فریب کے واسطے کل کا حشر ایک اور کل کا طالب ہے۔

فیضی دکنی
 

حسان خان

لائبریرین
می‌شنیدم که آفتِ جانی
چون که دیدم هزار چندانی

(لاادری)
میں سُنتا تھا کہ تم آفتِ جاں ہو، [لیکن] جب میں نے دیکھا تو تم ہزار گُنا [زیادہ] نِکلے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«نِظامی گنجوی» نے اپنی مثنوی «مخزن الاسرار» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
هست کلیدِ درِ گنجِ حکیم

(نظامی گنجوی)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» [خُدائے] حکیم کے خزانے کے در کی کلید ہے۔

× بیت کے مصرعِ اوّل کا وزن «مفعولن مفعولن فاعلن» اور مصرعِ ثانی کا وزن «مفتعلن مفتعلن فاعلن» ہے۔ کسی بیت کے مصرعوں میں اِن دو اوزان کا باہم آنا جائز ہے۔
اِس بیت کے وزن کے بارے میں جاننے کے لیے یہ دھاگا دیکھیے، جس میں جنابِ محمد وارث نے اِس بیت کا مُفصّل عَروضی تجزیہ کیا ہے۔

فارسی شاعری اور مثنوی میں «بسم الله الرحمٰن الرحیم» کو سب سے قبل حضرتِ «نظامی گنجَوی» نے «مخزن الاسرار» میں منظوم کیا تھا، بعد میں اُن کی پیروی میں مثنویاں لکھنے والے کئی شاعروں نے بسم اللہ کے ساتھ مصرع لگا کر اِس عبارت کو منظوم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ لیکن اوّلیت و معنائیت و شُہرت کے لحاظ سے نظامی علیہ الرّحمہ کی بیت سب پر فوقیت رکھتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نہ صرف فارسی شاعری میں، بلکہ تُرکی شاعری میں بھی نظامی گنجَوی (رح) کی مثنویوں کی پیروی میں درجنوں مثنویاں لکھی گئی ہیں۔ جو تُرکی مثنویاں «مخزن الاسرار» کی پیروی میں لکھی گئیں، اُن میں تُرکی سرا شُعَراء نے بسم اللہ کو بھی منظوم کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً عُثمانی البانوی شاعر «طاشلېجالې یحییٰ بیگ» (وفات: ۱۵۸۲ء) نے اپنی تُرکی مثنوی «گُلشنِ انوار» میں بسم اللہ کے ساتھ یہ مصرع لگایا ہے (جو بہ یک وقت تُرکی بھی ہے اور فارسی بھی):
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
سرْوِ گُلستانِ کلامِ قدیم

(طاشلېجالې یحییٰ بیگ)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» کلامِ قدیم کے گُلستان کا سرْو ہے۔

Bismi'llahi'r-rahmani'r-rahîm
Serv-i gülistân-ı kelâm-i kadîm


حَیف ہے اگر ہم عاشقانِ فارسی جنابِ نظامی گنجَوی کے نام و آثار سے ناواقف ہوں اور اُن پر رحمت و سلام نہ بھیجیں!
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
اگرچہ وعدہء خوباں وفا نمی داند
خوش آں حیات کہ در انتظار می گزرد

اگرچہ خوباں کے وعدے کو ایفا کا پتہ نہیں ہوتا۔
وہ زندگی پھر بھی خوبصورت ہے جو انتظار میں گزرے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگرچہ وعدہء خوباں وفا نمی داند
خوش آں حیات کہ در انتظار می گزرد

اگرچہ خوباں کے وعدے کو ایفا کا پتہ نہیں ہوتا۔
وہ زندگی پھر بھی خوبصورت ہے جو انتظار میں گزرے۔
یہ بیت صائب تبریزی کی ہے۔
اگرچه وعدهٔ خوبان وفا نمی‌داند
خوش آن حیات که در انتظار می‌گذرد

(صائب تبریزی)
اگرچہ حسینوں کا وعدہ وفا نہیں جانتا، (لیکن اس کے باوجود) وہ زندگی کیا ہی خوب ہے کہ جو (وفائے وعدہ کے) انتظار میں گذرتی ہے۔
 
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
گیسویِ مُشکینِ نِگارِ قدیم

(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» نِگارِ قدیم کی زُلفِ مُشک آلود ہے۔
× «نِگار» یہاں «معشوقِ زیبا» کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم‌» بھی نظر آیا ہے۔
حضور میرے ناقص خیال میں مِشکیں یعنی میم کے نیچے زے کے ساتھ
انتہائی کالے چمکدار سیاہ کو کہتے ہیں جیسے اسپ مشکیں یا گیسوئے مشکیں
میں نے ایک بار خانہ فرہنگ ایران پشاور صدر میں مِشکیں کو مُشکیں پڑھ دیا یعنی پیش کے ساتھ تو فورا اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید غیور صاحب نے تصحیح کی کہ زیر کے ساتھ ہوتا ہے پیش کے ساتھ نہیں۔
بہرحال یہ تو تقریبا بیس سال پرانی بات ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حضور میرے ناقص خیال میں مِشکیں یعنی میم کے نیچے زے کے ساتھ
انتہائی کالے چمکدار سیاہ کو کہتے ہیں جیسے اسپ مشکیں یا گیسوئے مشکیں
میں نے ایک بار خانہ فرہنگ ایران پشاور صدر میں مِشکیں کو مُشکیں پڑھ دیا یعنی پیش کے ساتھ تو فورا اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید غیور صاحب نے تصحیح کی کہ زیر کے ساتھ ہوتا ہے پیش کے ساتھ نہیں۔
بہرحال یہ تو تقریبا بیس سال پرانی بات ہے۔
«مُشک» سیاہ رنگ مادّہ ہے، اِس لیے «مُشکین» مجازاً سیاہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
ایران میں «مُشکین» کا ایک مُتبادل تلفُّظ میم پر کسرہ کے ساتھ «مِشکین» بھی رائج ہے، لیکن لفظ کا اصل تلفُّظ میم پر ضمّہ کے ساتھ «مُشکین» ہی ہے۔ ابھی ایرانی فرہنگوں میں دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اُن میں بھی اِسی تلفُّظ کو مُرجّح بتایا گیا ہے۔ جبکہ تاجکستانی فرہنگوں میں فقط «مُشکین» تلفُّظ دیا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز سر تا پا همه حُسن و صفایی
مگر آیینهٔ لُطفِ خدایی

(عبدالمجید تبریزی)
تم سر سے پا تک تمام کے تمام حُسن و صفا ہو۔۔۔ آیا کیا تم آئینۂ لُطفِ خُدا ہو؟

× مصرعِ ثانی کا یہ ترجمہ بھی کیا جا سکتا ہے:
شاید کہ تم آئینۂ لُطفِ خُدا ہو۔
 
Top