محمد وارث

لائبریرین
قطرۂ اشکے کہ ما داریم کافی کی بوَد؟
دامنِ آلودۂ خود را بدریا می بریم


چندر بھان برہمن

ہمارے ندامت کے آنسوؤں کے قطرے کافی کیسے ہوں؟ اس لیے ہم اپنے بہت زیادہ آلودہ دامن کی صفائی کے لیے اسے (رحمت کے) دریا کی طرف لے جاتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
کُجا به افسرِ شاهی سرم فُرُود آید؟
که من گدایِ خرابات و خاکِ آن کویم
(امیر علی‌شیر نوایی)

میرا سر [کسی] شاہی تاج کے لیے کہاں نیچے آئے گا؟ کہ میں شراب خانے کا گدا اور اُس کُوچے کی خاک ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
روزے بہ دلبرے نظرے کرد چشمِ من
زاں یک نظر مرا دو جہاں از نظر فتاد


شیخ سعدی شیرازی

ایک دن میری آنکھوں نے اُس دلبر کو ایک نظر دیکھا، بس اُس ایک نظر سے دونوں جہاں میری نظروں سے گر گئے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اس شعر کا ترجمہ کیا ہوگا
تاب یک جلوہ نیا ورذ نہ موسی نہ طور
ایں دلم ہست گہ زین گو نا ہزاران دید است
تابِ یک جلوه نیاورد نه موسی و نه طور
این دلم هست که زین گونه هزاران دیده‌ست

موسیٰ اور طُور دونوں ایک جلوے کی تاب نہ لا سکے۔۔۔ یہ میرا دل ہے کہ جو اِس طرح کے ہزاروں [جلوے] دیکھ چکا ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
تابِ یک جلوه نیاورد نه موسی و نه طور
این دلم هست که زین گونه هزاران دیده‌ست

موسیٰ اور طُور دونوں ایک جلوے کی تاب نہ لا سکے۔۔۔ یہ میرا دل ہے کہ جو اِس طرح کے ہزاروں [جلوے] دیکھ چکا ہے۔
بہت شکریہ. یہ شعر کس کا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
ای دل، چو مُرغِ وصل به سُویت نمود مَیل
یک دم قرار پیشه کن، این اضطراب چیست

(امیر علی‌شیر نوایی)
اے دل! جب پرندۂ وصل نے تمہاری جانب رغبت کر لی [ہے تو ذرا] ایک لمحہ آرام اختیار کرو، یہ اِضطِراب کیا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
آں یارِ نکوئے من، بگرفت گلوئے من
گفتا کہ چہ می خواہی، گفتم کہ ہمیں خواہم


مولانا رُومی

میرے اُس خوش خصال اور نیک طینت محبوب نے مجھے گردن (حلق) سے پکڑ لیا اور پوچھا کہ آخر تُو چاہتا کیا ہے؟ میں نے کہا کہ بس یہی! (کہ تُو مجھے پکڑے رکھے اور چاہے جان لے لے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر ز مسیح پُرسَدت مُرده چگونه زنده کرد
بوسه بِدِه به پیشِ او جانِ مرا که همچُنین
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اگر وہ تم سے مسیح کے بارے میں پوچھے کہ اُس نے مُردہ کیسے زندہ کیا تھا تو اُس کے سامنے میری جان کو بوسہ دو [اور کہو] کہ: اِسی طرح!

× ایک جا مصرعِ ثانی کا یہ متن نظر آیا ہے:
بوسه بِدِه به پیشِ او بر لبِ ما که همچُنین
اُس کے سامنے ہمارے لب پر بوسہ دو [اور کہو] کہ: اِسی طرح!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
که دارد در همه لشکر کمانی
که چون ابرویِ زیبایِ تو باشد
(سعدی شیرازی)

کُل لشکر میں کس شخص کے پاس ایسی کمان ہے کہ جو تمہارے ابروئے زیبا کی مانند [خوب] ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
یک سحر آن گُل صبوحی کرد با من، زان نفَس
پیرهن چون گُل درم، هر کس که گیرد نامِ صُبح

(امیر علی‌شیر نوایی)
ایک صُبح اُس گُل نے میرے ساتھ شرابِ صُبحگاہی پی تھی۔۔۔ اُس لمحے سے [جب بھی] کوئی بھی شخص صُبح کا نام لیتا ہے، میں گُل کی طرح [اپنا] پیرہن پھاڑتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گر من نمانم ظن مبر کز کوئے تو دامن کشم
با باد ہمراہی کند خاکِ من اندر کوئے تو


امیر خسرو دہلوی

اگر میں نہ رہوں تو (بُھول کر بھی) یہ خیال مت کرنا کہ میں تیرے کوچے کو چھوڑ گیا ہوں، کہ (میرے بعد) میری خاک تیرے کوچے میں ہوا کے ساتھ ساتھ ہوگی (تیرے کوچے میں میری خاک اُڑتی پھرے گی)۔
 

حسان خان

لائبریرین
آبِ خضر چه جویم و انفاسِ عیسوی
آن لب به دستم ار فِتد، این هر دو حاصل است

(امیر علی‌شیر نوایی)
میں خضر کا آبِ حیات اور حضرتِ عیسیٰ کے انفاس کس لیے تلاش کروں؟۔۔۔ وہ لب اگر میرے دست میں آ جائے تو یہ دونوں چیزیں حاصل ہو جائیں گی۔
× انْفاس = سانسیں
 

حسان خان

لائبریرین
عیسیِ مریم به فلک رفت و فُرومانْد خرش
من به زمین ماندم و شد جانبِ بالا دلِ من
(مولانا جلال‌الدین رومی)

عیسیٰ بن مریم فلک پر چلے گئے اور اُن کا خر نیچے رہ گیا۔۔۔ میں زمین پر رہ گیا اور میرا دل جانبِ بالا چلا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہ طہماسب صفوی کی مدح میں کہے گئے قصیدے کی ایک بیت میں مُحتشَم کاشانی کہتے ہیں:
شاهنشهی که گشت ازو پایِ کاینات
در شاه‌راهِ مذهب اِثنیٰ عشر روان

(مُحتشَم کاشانی)
یہ وہ شہنشاہ ہے کہ جس کے سبب کائنات کا پاؤں اِثناعشری مذہب کی شاہراہ میں رواں ہوا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
وان کس که ز دامِ عشق دور است
مُرغی باشد که پر ندارد

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اور جو شخص عشق کے جال سے دور ہے، وہ اُس پرندے کی مانند ہے کہ جو پر نہیں رکھتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نوش‌لبی دررسید هوش بِبُرد از حسَن
شکر خداوند را أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَن

(امیر حسن سجزی دهلوی)
ایک شیریں لب [محبوب نزدیک] پہنچا اور 'حسَن' سے ہوش لے گیا۔۔۔ خداوندِ تعالیٰ کا شکر کہ وہ غم کو ہم سے دُور لے گیا۔

× عربی عبارت سورۂ فاطر کی آیت ۳۴ سے مُقتبَس ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مثنویِ خِردنامهٔ اسکندری کے اختتام میں عبدالرحمٰن جامی اپنے شاگرد و دوست امیر علی‌شیر نوایی کی تحسین میں ایک جا کہتے ہیں:
زهی طبعِ تو اوستادِ سخن
ز مِفتاحِ کِلکت گُشادِ سُخن

(عبدالرحمٰن جامی)
زہے تمہاری طبعِ [شاعری]، اے اُستادِ سُخن!۔۔۔ تمہارے قلم کی کلید سے سُخن کو کُشاد [حاصل] ہے۔
 
Top