حسان خان

لائبریرین
مولانا جلال‌الدین رومی کے فرزند بهاءالدین محمد سُلطان ولَد کی ایک بیت:
می‌دان که گُناهِ مردِ عاشق
مُبدَل شود و ثواب گردد

(بهاءالدین محمد سلطان ولد)
[جان لو اور] جانے رہو کہ مردِ عاشق کا گُناہ تبدیل ہو کر ثواب ہو جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آنچہ گفت ایزد بہ آدم با ملک ہرگز نگفت
گوشِ ناقابل نباشد محرمِ اسرارِ عشق


نظیری نیشاپوری

خدا تعالیٰ نے جو کچھ بھی آدم سے کہا وہ فرشتے سے ہرگز نہ کہا، (پس ثابت ہوا کہ) ناقابل لوگوں کے کان عشق کے اسرار و رموز کے محرم نہیں ہوتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گُذشت عمر و دل از حِرص سر نمی‌تابد
کسی عِنانم از این راه برنمی‌تابد

(بیدل دهلوی)
عُمر گذر گئی [لیکن] دل حِرص سے سر نہیں موڑتا۔۔۔ کوئی شخص اِس راہ سے میری لگام نہیں موڑتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
غُبارِ عَجزِ من و دامنِ خطِ تسلیم
ز پا فُتادگی از جاده سر نمی‌تابد

(بیدل دهلوی)
میری ناتوانی کا غبار ہے اور جادۂ تسلیم کا دامن ہے۔۔۔۔ خستگی و واماندگی راہ سے سر نہیں موڑتی۔

تشریح: میری ناتوانی کا غُبار ہمیشہ تسلیم کی راہ کے دامن پر رہتا ہے، یعنی غُبار جیسا مَیں ناتواں شخص ہمیشہ تسلیم و اطاعت کی راہ اپنائے رکھتا ہوں۔ یہی میری راہ ہے اور میں اِس راہ سے سر نہیں موڑوں گا، کیونکہ زمین پر گِرا ہونا اور خستگی و ماندگی و ضَعف و ناتوانی اپنی مُعیّن راہ سے سرتابی نہیں کرتی۔ یعنی جو شخص زمین پر اُفتادہ ہو اور خستہ و ماندہ و ضعیف ہو وہ جادے (راہ) کو تَرک نہیں کرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
درایِ محملِ فُرصت خُروشِ صُور گرفت
هنوز گوشِ منِ بی‌خبر نمی‌تابد

(بیدل دهلوی)
محملِ فُرصت کی درا نے صُورِ [قیامت] کا خُروش اپنا لیا۔۔۔ لیکن ہنوز مجھ بے خبر کا کان نہیں مُڑتا [اور توجُّہ نہیں کرتا]۔
× درا = گھنٹی

× بیتِ ہٰذا میں 'فُرصت' شاید 'وقت' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جهان ز مغزِ خِرد پنبه‌زارِ اوهام است
چه سُود برقِ جُنون یک شرر نمی‌تابد

(بیدل دهلوی)
مغزِ عقل کے سبب دنیا اوہام کا کِشت زار ہے۔۔۔ برقِ جُنوں [کا] کیا فائدہ [کہ] وہ ایک شرر [جتنی بھی] نہیں چمکتی۔
× کِشت زار = کھیت
 

حسان خان

لائبریرین
مولانا جلال‌الدین رومی کے فرزند بهاءالدین محمد سُلطان ولَد کی ایک بیت:
می‌سوز چو آهن اندر آتش
تا زآینهٔ دلت رود زنگ

(بهاءالدین محمد سلطان ولد)
آہن کی مانند آتش میں جلتے رہو تاکہ تمہارے آئینۂ دل سے زنگ چلا جائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خداوندا پس از من حالِ ایں وادی چہ خواہد بُود
پس از مجنوں ندید آباد کس اقلیمِ صحرا را


میرزا مظہر جانجاناں

اے خدا، میرے بعد اِس وادی (کہ جہاں میں ہوں) کا کیا حال ہوگا؟ کہ مجنوں کے بعد کسی نے صحرا کی مملکت کو بھی آباد نہ دیکھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
قرنِ بیستُم کے عثمانی شاعر 'توفیق فکرت' کا ایک قطعہ:
کیمسه‌دن اُمّیدِ فیض ائتمم، دیله‌نمم پرّ و بال
کندی جوّیم، کندی افلاکیم‌ده کندیم طائریم
اِنحِنا طوقِ اسارت‌دن گران‌دېر بۏینوما
فکری حُر، عرفانې حُر، وجدانې حُر بیر شاعریم

(توفیق فکرت)
میں کسی شخص سے اُمیدِ فیض نہیں کرتا، [اور] بال و پر کی گدائی نہیں کرتا
خود کی فضا اور خود کے افلاک میں مَیں خود ہی پرواز کرتا ہوں
طوقِ اِسارت سے خم ہو جانا میری گردن پر گراں ہے
میں ایک آزاد فکر والا، آزاد عرفان والا، اور آزاد وِجدان والا شاعر ہوں

Kimseden ümmîd-i feyz etmem, dilenmem perr-ü-bâl
Kendi cevvim, kendi eflâkimde kendim tâirim,
İnhinâ tavk-ı esâretten girândır boynuma;
Fikri hür, irfânı hür, vicdânı hür bir şâirim.
(Tevfik Fikret)
قرنِ بیستُم کے عثمانی شاعر 'توفیق فکرت' کے ایک قطعے کا منظوم فارسی ترجمہ:
من ندارم انتظارِ بال و بر از هیچ کس
در فضا و آسمانِ خویشتن پر می‌زنم
شاعری هستم رها، عرفان و افکارم رها
نیست از بندِ اِسارت حلقه‌ای بر گردنم

(توفیق فکرت)
مترجم: جلال خسروشاهی

میں کسی بھی شخص سے بال و پر کی توقع نہیں رکھتا۔۔۔ میں خود [ہی] کی فضا و آسمان میں پرواز کرتا ہوں۔۔۔ میں ایک آزاد شاعر ہوں، میرا عرفان و میرے افکار آزاد ہیں۔۔۔ میری گردن پر زنجیرِ اسیری کا کوئی حلقہ نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ہرچند مست و بیخودم غافل ز یادت نیستم
اے نغمۂ تسبیحِ تو در ہر لبِ پیمانۂ


شیخ علی حزیں لاھیجی

ہرچند کہ میں مست اور بے خود ہوں لیکن تیری یاد سے غافل نہیں ہوں، اے کہ تیری تسبیح کے نغمے ہی (میرے) ہر پیمانے کے لبوں پر ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
به کُنهِ قطره و موج و حُباب اگر بِرسی
وجودِ هیچ یک از عینِ بحر نیست جدا

(بیدل دهلوی)
اگر تم قطرہ و موج و حُباب کی حقیقت و اصل تک پہنچ جاؤ [تو تم کو معلوم ہو جائے گا کہ] اُن میں کسی کا بھی وجود خود بحر سے جُدا نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ما را چه خیال است به آن جلوه رسیدن
او هستی و ما نیستی، او جُمله و ما هیچ

(بیدل دهلوی)
ہمارا اُس جلوے تک پہنچنا کیسا خیالِ [مُحال] ہے!۔۔۔ وہ ہستی ہے اور ہم نیستی ہیں، وہ سب کچھ ہے اور ہم ہیچ ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
موهومیِ من چون دهنش نام ندارد
گر از تو بِپُرسند بِگو نامِ خدا هیچ

(بیدل دهلوی)
اُس کے دہن کی مانند، میری موہُومی [بھی] نام نہیں رکھتی۔۔۔ اگر تم سے [اِس کا نام] پوچھیں، تو تم کو خدا کی قسم، کہنا: ہیچ (یعنی کچھ بھی نہیں)!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فطرت از رُویِ ادب اظهارِ نادانی کند
ورنه یونان بُرده‌اند خاکسترِ درواز را

(فطرت دروازی)
'فطرت' از رُوئے ادب اظہارِ نادانی کرتا ہے، ورنہ درواز کی خاکِستر کو [بھی] یُونان لے جایا گیا ہے۔

تشریح: 'درواز' حالیہ تاجِکستان کے ایک خِطّے کا نام ہے، جہاں سے 'فطرت دروازی' کا تعلق تھا۔ جبکہ کِشورِ یُونان کو دانائی و حِکمت کا دیار مانا جاتا تھا۔ شاعر اِس افتخار آمیز بیت میں کہہ رہا ہے کہ اگر میں اظہارِ نادانی کرتا ہوں تو وہ صرف دیگروں کے ادب و احترام کے باعث ہے، ورنہ میرا تعلق جس خِطّے سے ہے وہاں کی تو خاکِستر (راکھ) کو بھی یہ شرَف حاصل ہے کہ اُس کو تبرُّکاً یُونان لے جایا جاتا رہا ہے۔ جب خاکِسترِ درواز ہی اِتنی مُحترم و بُلند قدر ہے تو شاعرِ درواز کی دانائی کا عالَم کیا ہو گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
ز مِهرِ لاله‌رُویانم نشد جز درد و غم حاصل
به شاهی می‌رسی، فطرت، اگر دل با خدا بندی

(فطرت دروازی)
لالہ رُویوں کی محبّت سے بجز درد و غم حاصل نہ ہوا۔۔۔ اے 'فطرت'! اگر تم دل کو خدا کے ساتھ باندھو تو پادشاہی تک پہنچ جاؤ گے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جز کاهشِ جان نیست ز هم‌صحبتِ سرکش
گریان بُوَد آن موم که با شعله ندیم است
(بیدل دهلوی)

سرکش ہم صحبت سے بجز بربادیِ جاں حاصل نہیں ہوتا؛ وہ موم گِریاں ہے جو شعلے کے ساتھ ہم نشیں ہے۔
سرکش اور رعونت پسند انسان کی صحبت میں بیٹھنے والے فرد کو ذہنی و جسمانی گھاٹے کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ موم جو شعلہ کے ساتھ وقت گذارتی ہے، وہ ہمیشہ روتی ہے۔
مفہومِ شعر یہ ہے کہ سرکش اور متکبر انسان کی دوستی و رفاقت سے بچنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کی صحبت کے مضر اثرات انسان کے ذہن اور جسم و جان پر پڑتے ہیں، مگر کمزور ہونے کی وجہ سے وہ اس کی سرکشی کا جواب نہ دے سکنے کے سبب اندر ہی اندر کڑھتا اور گھلتا رہتا ہے۔ جس طرح موم بتی کا موم نرم ہونے کے باعث اور آگ کے شعلے کا مقابلہ اور تاب نہ لا سکنے کی بنا پر آنسوؤں کی طرح گر گر کر اپنے وجود کا خاتمہ کر دیتا ہے، اسی طرح جس شخص میں سرکشوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی طاقت نہ ہو، اسے چاہیے کہ وہ ان کی صحبت اور قرب سے گریز کرے اور اپنی جان بچا کر رکھے۔

(مترجم و شارح: نصیرالدین نصیر گولڑوی)
 

حسان خان

لائبریرین
مُصطفیٰ را جز به اِرشادِ علی نتْوان شِناخت
گر به سُویِ خانه می‌آیی ز راهِ در درآ

(ابوطالب کلیم کاشانی)
مُصطفیٰ (ص) کو علی (رض) کی ہدایت و رہنمائی کے بجُز پہچانا نہیں جا سکتا۔۔۔ اگر تم خانے (گھر) کی جانب آتے ہو تو در کی راہ سے اندر آؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُغل پادشاہ ابوالمُظفّر شہاب الدین محمد شاہجہاں کی مدح میں کہے گئے قصیدے کی ایک بیت میں ابوطالب کلیم کاشانی کہتے ہیں:
رواجِ شرع به حدّی که در قلمروِ هند
زمینِ تشنه نخورْد آب را به ماهِ صیام

(ابوطالب کلیم کاشانی)
[عہدِ شاہجہاں میں] شریعت کا رواج اِس حد تک [ہے] کہ قلمروِ ہند میں زمینِ تشنہ نے [بھی] ماہِ صِیام میں آب نہ پیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُغل پادشاہ ابوالمُظفّر شہاب الدین محمد شاہجہاں کی مدح میں کہے گئے قصیدے کی ایک بیت میں ابوطالب کلیم کاشانی کہتے ہیں:
ز سربرهنگیِ آفتاب روشن شد
که بسته بهرِ طوافِ حریمِ او اِحرام

(ابوطالب کلیم کاشانی)
[بہ روزِ نوروز] خورشید کی سر برہنگی (یعنی تابندگی و درخشندگی کے ساتھ از نو طلوع) سے آشکار ہوا کہ اُس نے [پادشاہ] کی حریم کے طواف کے لیے اِحرام باندھا ہے۔ (حالتِ اِحرام میں سر کو برہنہ رکھا جاتا ہے۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نیک و بد در زمانهٔ ما نیست
هر چه دیدم ز بد بتر دیدم

(ابوطالب کلیم کاشانی)
خوب و بد ہمارے زمانے میں نہیں ہے۔۔۔ میں نے جو بھی چیز دیکھی، بد سے بدتر دیکھی۔
 
Top