حسان خان

لائبریرین
عشقِ من بر گُلِ رُخسارِ تو امروزی نیست
دیر سال است که من بُلبُلِ این بُستانم

(سعدی شیرازی)
تمہارے گُلِ رُخسار کے لیے میرا عشق اِمروزی نہیں ہے بلکہ کئی سال ہو گئے ہیں کہ میں اِس بوستان کا بُلبُل ہوں۔
× اِمروز = آج × اِمروزی = آج کا، آج سے تعلق رکھنے والا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
من اگر زُهد نوَرزم سببش رِندی نیست
مُفلِسم جُبّه و دستار ندارم چه کنم

(نورالعین واقف لاهوری بتالوی)
میں اگر زُہد و زاہدی نہیں کرتا تو اِس کا سبب رِندی نہیں ہے
میں مُفلِس ہوں، میرے پاس جُبّہ و دستار نہیں ہے۔۔۔ [پس] میں کیا کروں؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
کافرِ بُتکدہ جز مہرِ رُخَت قبلہ نداشت
صوفیِ صومعہ جز ذکرِ تو اوراد نکرد


شیخ علی حزیں لاھیجی

بُتکدے کے کافر کا تیرے سورج جیسے چہرے کا سوا کوئی اور قبلہ نہ تھا، اور خانقاہ کے صوفی نے تیرے ذکر کے سوا کوئی اور ورد وظیفہ نہ کیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
امیرِ بخارا حیدر تورہ بن شاہ مراد (دورهٔ امارت: ۱۸۰۰ء-۱۸۲۶ء) کے بارے میں ناصح کولابی فرماتے ہیں:
شده‌ست حاکمِ شهرِ بُخار امیر حیدر
ولی چه سود، که در دست ذوالفقار ندارد

(ناصح کولابی)
شہرِ بُخارا کا حاکم امیر حیدر ہو گیا ہے، لیکن کیا فائدہ، کہ وہ دست میں ذوالفقار نہیں رکھتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
تنم به کوچهٔ محراب و دل به خانهٔ دَیر
پیاله خنده کند بر خداپرستیِ ما

(قانع)
میرا تن کوچۂ محراب میں ہے اور دل خانۂ دَیر میں۔۔۔۔ پیالہ ہماری خدا پرستی پر ہنستا ہے۔

× 'دَیر' بنیادی طور پر مسیحی راہبوں کی اقامت گاہ و عبادت گاہ کو کہتے ہیں، لیکن بیتِ ہٰذا میں یہ لفظ میکدے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خادمِ درگهِ پیرم که ز دل‌جوییِ خود
غافل از خویش نمود و زبر و زیرم کرد

(روح‌الله خُمینی)
میں پِیرِ خرابات کی درگاہ کا خادم ہوں کہ جس نے اپنی دلجُوئی سے مجھے خود سے غافل کر دیا اور مجھے زیر و زبر کر دیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تا چند تلخ‌کام به هجرِ تو زیستن
شهدم چشان از آن لبِ شَکّرشِکن بیا

(نادره بیگم)
تمہارے ہجر میں کب تک تلخ کام زندگی بسر جائے؟۔۔۔۔ آ جاؤ [اپنے] اُس شَکَر شِکن لب سے مجھے شہد چکھاؤ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گر وصالِ یار خواهی خوار باش
شاهدِ این دعوی‌ام خار و گُل است

(واضح)
اگر تم وصالِ یار چاہتے ہو تو ذلیل ہو جاؤ۔۔۔ میرے اِس دعوے کی مثال خار و گُل ہے۔
('خار' پست و ذلیل ہوتا ہے لیکن اُس کو گُل کا وصال مُیسّر رہتا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
حاجت به مَی و باده و پیمانه ندارم
از گردشِ چشمانِ تو مستانه‌ام اِمروز

(مخفی بدخشانی)
مجھے شراب و بادہ و پیمانہ کی حاجت نہیں ہے۔۔۔ میں اِمروز تمہاری چشموں کی گردش سے مست ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
در شهرِ بُخار مُستمندیم همه
دل‌خسته و زار و دردمندیم همه
از رویِ نیاز همچو سقّایِ گدا
خاکِ رهِ شاهِ نقشبندیم همه

(سقّای بُخارایی)
شہرِ بُخارا میں ہم سب غمگین و بے نوا ہیں
ہم سب دل خستہ و زار و درمند ہیں
'سقّائے گدا' کی مانند از روئے نیاز
ہم سب شاہِ نقشبند کی خاکِ راہ ہیں

× شاهِ نقشبند = خواجه بهاءالدین نقشبند بُخاری
 

حسان خان

لائبریرین
با آبِ حیاتم نبُوَد کار، فضولی
من کُشتهٔ لعلِ لبِ جان‌پرورِ یارم

(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! مجھے آبِ حیات کے ساتھ [کوئی] کام نہیں ہے۔۔۔ میں تو اپنے یار کے لعلِ لبِ جاں پروَر کا قتیل ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چو با آدمی جُفت گردد پری
نگوید پری جُز به لفظِ دری

(منسوب به عُنصُری بلخی)
جب پری آدمی کے قریب آتی اور ہم نشینی کرتی ہے تو وہ زبانِ دری (فارسی) کے بجز کسی زبان میں [حَرف] نہیں کہتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
خواستم سوزِ دلِ خویش بِگویم با شمع
داشت خود او به زبان آنچه مرا در دل بود

(مِهری هِراتی)
میں نے چاہا کہ میں اپنے دل کا سوز شمع سے کہوں [لیکن] خود اُس کی زبان پر وہ تھا جو میرے دل میں تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرا دامان بِحمدِالله پاک است
ز حَرفِ عیب‌جویانم چه باک است

(وحشی بافقی)
الحمدللہ میرا دامن پاک ہے، [لہٰذا] مجھے عیب تلاش کرنے والوں کے حَرف سے کیا خوف و پروا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر روز در کویش رَوَم، پیدا کنم یارِ دگر
اُو را بہانہ سازم و آنجا روم بارِ دگر


ہلالی چغتائی

ہر روز اُس کے کوچے میں جاتا ہوں اور وہاں دوسرے کسی کے ساتھ جان پہچان بناتا ہوں، پھر اُس کے ساتھ بہانے بازی کرتا ہوں (تا کہ پھر وہاں جا سکوں) اور یوں دوبارہ وہاں چلا جاتا ہوں۔
========
ترے کُوچے ہر بہانے، مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا
مصحفی
 

حسان خان

لائبریرین
پیشِ که درم جیب؟ که گردونِ ستم‌گر
قُفلم به درِ دل زد و بِشْکست کلیدم

(بیدل دهلوی)
میں کس کے سامنے [اپنا] گریبان پھاڑوں؟ کہ فلکِ ستم گر نے میرے دل کے در پر قُفل لگا دیا اور [بعد ازاں] میری کلید توڑ دی۔

× اکثر جگہوں پر 'قفلم به درِ دل زد' کی بجائے 'عقلم به درِ دل زد' درج ہے۔ لیکن غزلیاتِ بیدل کی ایک تصحیح میں 'عقلم' کی بجائے 'قفلم' نظر آیا ہے، جو درست تر معلوم ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مسلمانان مسلمانان زبانِ پارسی گویم
که نَبْوَد شرط در جمعی شَکَر خوردن به تنهایی

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے مسلمانو! اے مسلمانو! میں زبانِ فارسی بولتا ہوں، کیونکہ کسی مجمع کے اندر تنہا تنہا شَکَر کھانا رسم و قاعدہ [اور خوب و صحیح] نہیں ہے۔

× مولانا رُومی نے مندرجۂ بالا بیت میں زبانِ فارسی کو 'شَکَر' کہا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دامنِ زُلفش گرفتم برفِکند از رُخ نقاب
ای دریغا من چو گشتم دُزد شب مهتاب شد

(میرزا ابراهیم وفایی)
میں نے [جب] اُس کا دامنِ زُلف پکڑا، اُس نے رُخ سے نقاب اُتار پھینکا۔۔۔۔ افسوس! میں جب چور بنا، شب مہتابی ہو گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
حافظ شیرازی کی ایک بیت پر تخمیس:
به گردون می‌رساند دودِ آهم موجِ دریا را
کند سوراخ آهِ من سحرگه سنگِ خارا را
منوّر می‌کند از لطفِ عامش کوه و صحرا را

اگر آن تُرکِ شیرازی به دست آرد دلِ ما را
به خالِ هندویش بخشم سمرقند و بخارا را

(میرزا عبدالله بن عِصمت فیّاض خُجندی)
میری آہ کا دُود موجِ دریا کو فلک پر پہنچا دے گا
میری آہ صبح کے وقت سنگِ خارا کو سوراخ سوراخ کر دے گی
[اور] اُس کے لطفِ عام سے کوہ و صحرا کو مُنوّر کر دے گی
اگر وہ تُرکِ شیرازی ہمارے دل کو دست میں تھام لے
تو میں اُس کے سیاہ خال کے عِوض میں سمرقند و بُخارا بخش دوں گا
× دُود = دھواں
 

حسان خان

لائبریرین
در فرقتِ تو زنده نه از سخت‌جانی‌ام
جان از کمالِ ضعف نیامد به لب مرا

(حکیم طالب سرمَدی)
میں تمہارے فراق میں خود کی سخت جانی کے باعث زندہ نہیں ہوں [بلکہ] جان کمالِ کمزوری کے سبب میرے لب پر نہ آ سکی۔
 
Top