حسان خان

لائبریرین
مگو با یار حَرفِ ناملایم
رگِ گل طاقتِ نشتر ندارد
(شاه محمد طاهر الٰه‌آبادی)

یار کے ساتھ حَرفِ ناملائم مت کہو؛ رگِ گُل طاقتِ نشتر نہیں رکھتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
این بادِ دل‌فریب که در کویِ دل‌بر است
یاد از نسیمِ گلشنِ فردوس می‌دهد
(شاه محمد طاهر الٰه‌آبادی)

کوئے دلبر میں جو یہ بادِ دل فریب ہے وہ نسیمِ
گلشنِ فردوس کی یاد دلاتی ہے۔
 
تا بادہ تلخ تر شود و سینہ ریش تر
بگدازم آبگینہ و در ساغر افگنم


میں آبگینہ پگھلا کر ساغر میں پھینکتا ہوں تا کہ بادہ تلخ تر اور سینہ ریش تر ہو جائے۔

غالب دہلوی
 

گفتن برِ خورشید کہ من چشمہء نورم
دانند بزرگاں کہ سزاوارِ سُہا نیست

سورج کو یہ کہنا کہ میں نور کا سرچشمہ ہوں، بزرگ جانتے ہیں کہ ایسا کہنا سہا ستارے کو زیب نہیں دیتا(کجا آفتاب اور کجا سہا جیسا چھوٹا ستارہ)۔

(حافظ شیرازی)
Alcor is 12 times as luminous as Sun.
source:Alcor


گفتن برِ خورشید کہ من چشمہء نورم
نادانیء چشم است کہ زیبا بہ سہا نیست

یہ شعر حافظ کا نہیں ہے شاید۔ گنجوری نسخے پر موجود نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شد زبانم بند تا دل محو شد در یادِ دوست
بهتر است از صد زبان این بی‌زبانی‌ها مرا
(شاه محمد طاهر الٰه‌آبادی)

جب سے دل دوست کی یاد میں محو ہوا، میری زبان بند ہو گئی؛ [لیکن] یہ میری بے زبانیاں؎ صد زبانوں سے بہتر ہیں۔
× مصرعِ ثانی کا یہ ترجمہ کرنا بھی ممکن ہے:
میرے لیے (یا میرے نزدیک) یہ بے زبانیاں صد زبانوں سے بہتر ہیں۔
 
آخری تدوین:
Alcor is 12 times as luminous as Sun.
source:Alcor


گفتن برِ خورشید کہ من چشمہء نورم
نادانیء چشم است کہ زیبا بہ سہا نیست

یہ شعر حافظ کا نہیں ہے شاید۔ گنجوری نسخے پر موجود نہیں ہے۔
یہ غزل قاضی سجاد حسین صاحب اپنی کتاب دیوانِ حافظ میں لائے تھے۔۔برصغیر میں رائج نسخے میں ممکن ہے یہ موجود ہو
 

حسان خان

لائبریرین
خالی از عشقِ تو کس نیست بگو باعث چیست
که چنین جور و جفا با دگری نیست ترا
(شاه محمد افضل الٰه‌آبادی)

کوئی شخص نہیں ہے جو تمہارے عشق سے خالی ہو؛ [پس] کہو کہ سبب کیا ہے کہ تمہارا ایسا جور و جفا کسی دیگر کے ساتھ نہیں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
روزها شد که به سویم گذری نیست ترا
جز تغافل مگر ای جان هنری نیست ترا
(شاه محمد افضل الٰه‌آبادی)

کئی روز ہو گئے کہ میری جانب تمہارا کوئی گذر نہیں ہوا۔۔۔ اے جان! مگر کیا تم تغافل کے سوا کوئی ہنر نہیں جانتے؟
 

حسان خان

لائبریرین
تا به کَی زحمتِ اغیار کَشَم، می‌خواهم
بعد از این آرزویِ صحبتِ یاری نکنم
(محمد فضولی بغدادی)

میں کب تک زحمتِ اغیار اٹھاؤں؟۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ اِس کے بعد سے کسی یار کی صحبت کی آرزو نہ کروں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ما را چه باک در رهِ عشقِ تو از رقیب
تدبیرِ او به آهِ سحر کرده‌ایم ما
(محمد فضولی بغدادی)

ہمیں تمہارے عشق کی راہ میں رقیب کی کیا پروا و خوف؟۔۔۔ اُس کی تدبیر ہم [اپنی] آہِ سَحَرگاہی سے کر چکے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لب از ذکرِ دهانِ دوست بستم، احتیاطم بین
کزین رازِ نهان واقف نمی‌خواهم شود لب هم

(محمد فضولی بغدادی)
میں نے دہنِ یار کے ذکر سے لب بند کر لیے، میری احتیاط دیکھو۔۔۔ کہ میں نہیں چاہتا کہ اِس رازِ نہاں سے [حتّیٰ میرا] لب بھی واقف ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
ماوراءالنہری شاعر محمد نقیب خان طُغرل احراری اپنے 'قصیدۂ بزرگان' میں قاآنی شیرازی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
گرچه نه او سُنّی و من شیعی‌ام
لیک سخن عاریِ هر ماجَراست

اگرچہ نہ وہ سُنّی ہے اور نہ میں شیعہ ہوں، لیکن [شعر و] سخن ہر کشمکش و نِزاع سے مُبرّا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا بادہ تلخ تر شود و سینہ ریش تر
بگدازم آبگینہ و در ساغر افگنم


میں آبگینہ پگھلا کر ساغر میں پھینکتا ہوں تا کہ بادہ تلخ تر اور سینہ ریش تر ہو جائے۔

غالب دہلوی
تا باده تلخ‌تر شود و سینه ریش‌تر
بگدازم آبگینه و در ساغر افگنم

(غالب دهلوی)
"میں صراحی پگھلا کر جام میں ڈال لیتا ہوں تاکہ شراب اور زیادہ تلخ اور سینہ اور زیادہ مجروح ہو جائے۔"
یہ شعر مرزا غالب کی بلند نظری اور عالی حوصلگی کی نشان دہی کرتا ہے۔ اقبال نے اس شعر کو غالب کے فکری اور شعری مزاج کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
سرو را نسبت به نخلِ قامتِ خوبان مکن
نخلِ قامت میوهٔ سیبِ ذقن می‌آورَد
(محمد فضولی بغدادی)

سرو کو قامتِ خُوباں کے نخل سے نسبت مت دو؛ نخلِ قامت سیبِ ذقن کا میوہ لاتا ہے۔
× ذَقَن = ٹھوڑی، زَنَخدان
 

محمد وارث

لائبریرین
گر عشق نبودے و غمِ عشق نبودے
چندیں سخنِ نغز کہ گفتے کہ شنیدے


شیخ شرف الدین پانی پتی (معروف بہ بُو علی قلندر)

اگر عشق نہ ہوتا اور غمِ عشق نہ ہوتا تو اس قدر خوبصورت اور لاجوب کلام کون کہتا اور کون سنتا؟
 

حسان خان

لائبریرین
جامی غالباََ خواجہ عبید اللہ احرار کے مرید تھے جو کہ سلسلہء نقشبندیہ کی اہم شخصیت ہیں۔
ماوراءالنہری شاعر محمد نقیب خان طُغرل احراری کا شجرۂ نسب بھی خواجہ ناصرالدین عبیداللہ احرار سے ملتا تھا، اور اِسی لیے 'احراری' اُن کے نام کا جزء تھا۔ وہ اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں:
خسروا امروز در دورِ فلک
نیست چون من شاعرِ شیرین‌زبان
در سمرقندِ چو قند اکنون منم
افتخارِ زمرهٔ احراریان
می‌رسد اصلم به احرارِ ولی
دودهٔ من باشد از این دودمان

اے خسرو! امروز دورِ فلک میں مجھے جیسا [کوئی] شیریں زباں شاعر نہیں ہے۔ میں سمرقندِ مثلِ قند میں الحال زُمرۂ احراریاں کا افتخار ہوں۔ میرا نسب احرارِ ولی سے جا ملتا ہے اور میرِی نسل اِس خاندان سے ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به تختِ قیصر و کاووس نیست مایل دل
که آستانهٔ دل‌دار شد میسّرِ ما
(خلیفهٔ عثمانی سلطان سلیم خان اول)

[ہمارا] دل تختِ قیصر و کاووس پر مائل نہیں ہے کہ ہمیں آستانۂ دلدار میسّر ہو گیا ہے۔
× کاوُوس = ایک اساطیری ایرانی پادشاہ کا نام
 
عمر اگر باقیست رنجش ہا کہن خواہد شدن
آں لبانِ تلخ گو شیریں سخن خواہد شدن


اگر عمر باقی ہے تو رنجشیں پرانی ہو جائیں گی اور وہ تلخ گو ہونٹ شیریں سخن ہو جائیں گے۔

نظیری نیشاپوری
 
من از ازل بنهاده ام سر بر خطِ فرمانِ تو
رایِ تو باشد رایِ من، نبود مرا رایِ دگر
(بو علی قلندر)

میں نے ازل سے تیرے فرمان پر سر تسلیمِ خم کیا ہے۔تیری رائے میرے رائے ہے، میری کوئی اور رائے نہیں ہوتی ہے۔
 
Top