نقشبنديه عجب قافله سالارانند!
كه برند از ره پنهان به حرم قافله را
از دل سالك ره، جاذبۀ صحبتشان
مي‌برد وسوسۀ خلوت و فكر چله را


(مولانا جامی)

حضراتِ (سلسلہِ) نقشبند عجب قافلہ کے سالار ہیں کہ اپنے متعلقین کو پوشیدہ طریقہ سے بارگاہِ الہٰی تک لے جاتے ہیں۔ انکی صحبت کی کشش سالک کے دل سے خلوت کے خیال اور چلہ کشی کے فکر کو ختم کر دیتی ہے۔
مشکلیں آسان ہوں اور حاجتیں بر آئیں سب
نقشبندی سلسلے کے اولیا کے واسطے

میرے والد صاحب کا تعلق بھی سلسلہء نقشبندیہ سے ہے۔
جامی غالباََ خواجہ عبید اللہ احرار کے مرید تھے جو کہ سلسلہء نقشبندیہ کی اہم شخصیت ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
قطعاتِ تاریخِ وفاتِ عبدالرحمٰن جامی:

گوهرِ کانِ حقیقت، دُرِّ بحرِ معرفت

کو به حق واصل شده در دل نبودش ماسواه
کاشفِ سِرِّ الٰهی بود بی‌شک، زان سبب
گشت تأریخِ وفاتش: 'کشفِ اَسرارِ الٰه'
(امیر علی‌شیر نوایی)
کانِ حقیقت کے گوہر، [اور] بحرِ معرفت کے دُرّ [جامی]؛ کہ جو حق تعالیٰ سے واصل ہو گئے تھے اور جن کے دل میں اللہ کے سوا کچھ نہ تھا؛ وہ بے شک الٰہی اَسرار کے کاشف (یعنی آشکار کنندہ) تھے، لہٰذا اُن کی تاریخ وفات یہ ہوئی ہے: 'کشفِ اَسرارِ اِلٰہ'۔
کشفِ اَسرارِ الٰه = ۸۹۸ هجری

سَرِ اربابِ معنی عارفِ جام

که بود او مرشدِ اهلِ طریقت
چو شد زین دارِ فانی، گشت تأریخ
به فوتش: 'هادیِ سِرِّ حقیقت'
(امیر علی‌شیر نوایی)
رئیسِ اربابِ معنی اور عارفِ جام [جامی]، کہ جو اہلِ طریقت کے مرشد تھے؛ جب اُنہوں نے اِس دارِ فانی سے کوچ کیا تو اُن کی تاریخِ وفات 'ہادیِ سِرِّ حقیقت' ہوئی۔
هادیِ سِرِّ حقیقت = ۸۹۸ هجری
مولانا جامی کی وفات پر قطعۂ تاریخ:
جامی که آفتابِ سِپِهرِ کمال بود

تصنیف کرده بود ز هر علم بی‌حِسیب
رفت از میان و مانْد میانِ سخن‌وران
تاریخِ فوتِ خویش به 'اشعارِ دل‌فریب'
(مولانا حُسامی)
جامی کہ جو آسمانِ کمال کے آفتاب تھے، اور جنہوں نے ہر علم کی بے شمار تصانیف تألیف کی تھیں؛ وہ درمیان سے چلے گئے لیکن سخنوروں کے درمیان 'اشعارِ دلفریب' سے اپنی تاریخِ وفات چھوڑ گئے۔
اشعارِ دلفریب = ۸۹۸ هجری
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای کاش!
خاطره‌ها کاغذین می‌بودند
بدها را می‌سوزاندم
(سید عزیز مهدی رضوی)

اے کاش!
یادیں کاغذی ہوتیں
میں بد یادوں کو جلا ڈالتا
 

حسان خان

لائبریرین
قافیه اندیشم و دل‌دارِ من
گویدم مندیش جز دیدارِ من
(مولانا جلال‌الدین رومی)

میں قافیے کی فکر کرتا ہوں اور میرا دلدار مجھ سے کہتا ہے کہ میرے دیدار کے بجز کسی چیز کی فکر مت کرو۔
 

حسان خان

لائبریرین
من جان و زندگیِ خود، ای جان و زندگی،
گر دوست داشتم، ز برایِ تو داشتم
(کمال اصفهانی)

اے [میری] جان و زندگی! میں اپنی جان و زندگی کو اگر دوست رکھتا تھا تو وہ تمہاری خاطر رکھتا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
"گناهت را نمی‌بخشم،
که سرگردانِ خود کردی و
رُوگردان شدی از من."
(لایق شیرعلی)

[اے محبوب!]
میں تمہارے گناہ کو نہیں بخشوں گا
کہ تم نے [مجھے] اپنا سرگرداں کیا اور
مجھ سے رُوگرداں ہو گئے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای تن جَزَع مکن که مجازی‌ست این جهان
وی دل غمین مشو که سِپَنجی‌ست این سرای
(مسعود سعد سلمان لاهوری)
اے تن! بے تابی مت کرو کہ یہ جہاں مجازی ہے؛ اور اے دل! غمگین مت ہو کہ یہ سرائے عارضی و ناپائدار ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
طعنهٔ اغیار بهرِ یار می‌باید کشید
یار باید طعنهٔ اغیار می‌باید کشید
(محمد فضولی بغدادی)
طعنۂ اغیار یار کی خاطر اٹھانا لازم [ہوتا] ہے؛ یار درکار ہو تو طعنۂ اغیار اٹھانا لازم [ہوتا] ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عقل را کرد برون عشقِ تو از خانهٔ دل
کاین سراسیمه به هم‌رازیِ من محرم نیست
(محمد فضولی بغدادی)

تمہارے عشق نے عقل کو خانۂ دل سے بیرون کر دیا کہ یہ سراسیمہ حال میری ہمرازی کا مَحرَم نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نَیَم یعقوب کز اغیار پرسم یوسفِ خود را
ز غیرت بلکه بویش هم ز پیراهن ‌نمی‌خواهم
(محمد فضولی بغدادی)

میں یعقوب نہیں ہوں کہ میں اغیار سے اپنے یوسف کے بارے میں بازپُرس کروں؛ بلکہ میں تو غیرت کے باعث اُس کی بُو بھی پیراہن سے نہیں چاہتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیستم بلبل که هر ساعت نهم دل بر گُلی
زین همه گُل‌چهره مقصودِ منِ محزون یکی‌ست
(محمد فضولی بغدادی)

میں بلبل نہیں ہوں کہ ہر ساعت کسی [دیگر] گُل پر دل رکھ دوں؛ اِن تمام گُل چہرہ [خُوبوں] سے مجھ مغموم کا مقصود ایک [ہی] ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
من به سربازی ز شمعِ مجلست کم نیستم
چیست جرمِ من که در بزمِ تو محرم نیستم
(محمد فضولی بغدادی)

میں سربازی [و جاں فشانی] میں تمہاری مجلس کی شمع سے کم نہیں ہوں؛ [پس] میرا جُرم کیا ہے کہ میں تمہاری بزم میں مَحرَم نہیں ہوں؟
 

حسان خان

لائبریرین
خویِ تو با دیگران چو شاخِ سَمَن بود
کار چو با من فتاد خار برآورد
(خاقانی شروانی)
دیگروں کے ساتھ تمہاری خِصلت شاخِ سمن کی طرح تھی، [لیکن] جب میرے ساتھ مُعاملہ پیش آیا تو اُس میں خار نکل آئے۔
 
عشق دوست ہر ساعت درونِ نار می رقصم
گہے بر خاک می غلطم گہے بر خار می رقصم


(دوست کے عشق میں ہر دم آگ میں رقص کرتا ہوں کبھی خاک میں آلودہ ہوتا ہوں اور کبھی کانٹے پر رقص کرتا ہوں)

بیا اے مُطرب مجلس سماع ذوق را دردہ
کہ من از شادیء وصلش قلندروار می رقصم


(اے مطرب ذوق سماع کی محفل کو زندہ کروکہ میں اس کے وصل کی خوشی میں قلندروار رقصاں ہوں)

شرم بدنام درعشقش بیا اے پارسا اکنوں
نمی ترسم زرسوائی بہر بازار می رقصم


(اس کے عشق میں شرم اور بدنامی کیا اے پارسا اب آئومیں کسی رسوائی سے نہیں ڈرتا اور ہر بازار میں رقصاں ہوں)

مرا خلقے ہمی گوئد گدا چندیں چہ می رقصم
بدل داریم اسرارے ازاں اسرار می رقصم


(مجھے سب کہتے ہیں تم ایک گداگر اس قدر کیوں رقص کرتے ہولیکن میں دل میں ایک راز رکھتا ہوں اس راز کی دھن میں یہ رقص کرتا ہوں)

منم عثمان مروندی کہ یار خواجہ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم


(میں عثمان مروندی ہوں جو خواجہ منصور (حلاج) کا دوست ہوں خلق خدا مجھے ملامت کرتی ہے مگر میں دار پر رقص کرتا ہوں)

(سید عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر)

’’میں عثمان مروندی منصور حلاج کا دوست‘‘ - ایکسپریس اردو
 

حسان خان

لائبریرین
فضولی! در رهِ او کُشتهٔ تیغِ جفا گشتی
عفاک الله! شهیدِ کربلا را اقتدا کردی
(محمد فضولی بغدادی)

اے فضولی! تم [محبوب] کی راہ میں کُشتۂ تیغِ جفا ہو گئے؛ اللہ تمہاری مغفرت کرے! تم نے شہیدِ کربلا کی پیروی کی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عشقِ یوسف کرد در پیری زلیخا را جوان
عشقِ رویت پیر کرد اندر جوانی‌ها مرا
(شاه محمد طاهر الٰه‌آبادی)

عشقِ یوسف نے زلیخا کو پِیری میں جوان کر دیا تھا، [لیکن] تمہارے چہرے کے عشق نے مجھے جوانیوں میں پِیر کر دیا۔
× پِیری = بڑھاپا؛ پِیر = بوڑھا
 

لاریب مرزا

محفلین
حجابِ هستیِ من مانِع است وصلِ ترا
شکایت از که کنم در میان رقیب منم
(محمد فضولی بغدادی)
میری ہستی کا حجاب تمہارے وصل کا مانِع ہے۔۔۔ میں کس کی شکایت کروں؟ درمیان میں رقیب میں [ہی] ہوں۔
واہ!! اعلیٰ ترین!!


تو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم


شیخ عثمان مروندی معروف بہ لعل (لال) شہباز قلندر

تُو ایسا قاتل ہے کہ محض تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے، میں وہ بسمل ہوں کہ (تیرے) خونخوار خنجر کے نیچے تڑپتا ہوں، پھڑپھڑاتا ہوں، حالتِ رقص میں ہوں۔
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم

لاجواب!! بے حد عمدہ!!
 

حسان خان

لائبریرین
بیاور مَی که باکی نیست ما را
اگر عید است و گر ماهِ صیام است
(شاه خوب‌الله الٰه‌آبادی)

شراب لے آؤ کہ ہمیں کوئی پروا نہیں کہ خواہ عید ہے یا خواہ ماہِ صیام ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بگویم نامِ من دیوانهٔ تو
اگر پُرسی ترا باری چه نام است
(شاه خوب‌الله الٰه‌آبادی)
اگر تم پوچھو کہ "ذرا بتاؤ، تمہارا نام کیا ہے؟" تو میں کہوں گا: "تمہارا دیوانہ"۔
 
Top