حسان خان

لائبریرین
به پایان آمد این دفتر، حکایت همچنان باقی
به صد دفتر نشاید گفت حسب‌الحالِ مشتاقی
(سعدی شیرازی)

یہ دفتر ختم ہو گیا، [لیکن] حکایت اُسی طرح باقی ہے؛ مشتاقی و عاشقی کی گزارشِ حال اور شرح و تفسیر سو دفتروں میں [بھی] نہیں کہی جا سکتی۔
× دفتر = ڈائری
× لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'شایستن' کا ایک نادر ضمنی معنی 'امکان داشتن' اور 'ممکن بودن' بھی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دل ز دستم رفت و جان هم، بی دل و جان چون کنم
سِرِّ عشقم آشکارا گشت، پنهان چون کنم
(عطّار نیشابوری)

دل میرے دست سے چلا گیا اور جان بھی، دل و جاں کے بغیر میں کیسے [زندگی] کروں؟ میرا رازِ عشق آشکار ہو گیا، پنہاں کیسے کروں؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ابوالقاسم لاهوتی کے ایک شعر پر تضمین:
به راهِ عشق اثر از من مپرسید

چو دل گم شد، خبر از من مپرسید
چه جایِ دل، ز سر از من مپرسید
ز عقل و دل دگر از من مپرسید
چو عشق آمد کجا عقل و کجا دل؟

(صدرالدین عینی)
عشق کی راہ میں مجھ سے [میرے] نشان کے بارے میں مت پوچھیے؛ جب دل گم ہو گیا، تو مجھ سے [اُس کی] خبر کے بارے میں مت پوچھیے؛ دل کو تو چھوڑیے، مجھ سے [میرے] سر کے بارے میں مت پوچھیے؛ مجھ سے اِس کے بعد عقل و دل کے بارے میں مت پوچھیے؛ جب عشق آ گیا تو کہاں عقل اور کہاں دل؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر کسم گوید که درمانی کن آخر درد را
چون به دردم دایماً مشغول درمان چون کنم
(عطّار نیشابوری)

ہر کوئی مجھ سے کہتا ہے کہ آخر [اپنے] درد کا کوئی علاج کرو؛ [لیکن] جب میں درد [ہی] میں دائماً مشغول و سرگرم ہوں تو علاج کیسے کروں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
قاصدا، با تو چہ گوئیم ز حالِ دلِ خویش
یار با ماست چہ حاجت بہ پیام است اینجا


ابوالفیض فیضی دکنی

اے قاصد، ہم تجھ سے اپنے دل کا حال کیا کہیں کہ دوست تو ہمارے ساتھ (ہمارے دل میں) ہے، لہذا اس صورتحال میں نامہ و پیغام کی کیا حاجت؟
 

حسان خان

لائبریرین
ای آفتابِ حُسن برون آ دمی ز ابر
کان چهرهٔ مُشَعشَعِ تابانم آرزوست
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اے آفتابِ حُسن! ذرا ایک لمحے کے لیے ابر سے بیرون آؤ کہ مجھے اُس روشن و تاباں چہرے کی آرزو ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی وفات پر فرّخی سیستانی کے مرثیے سے ایک بیت:
کاشکی آن شب و آن روز که ترسیدم از آن
نه فتادستی و شادی نشدستی تیمار
(فرّخی سیستانی)

اے کاش کہ میں جس شب اور جس روز سے ڈرا کرتا تھا وہ واقع نہ ہوتا اور خوشی غم میں تبدیل نہ ہو جاتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
ازرقی هروی کے ایک مدحیہ قصیدے سے اقتباس:
تا آتشی‌ست جامهٔ خورشیدِ گرم‌رَو

تا ناخوشی‌ست پیشهٔ افلاکِ خاک‌کار
خورشید را برایِ تو بادا همه طلوع
و افلاک را برایِ تو بادا همه مدار
(ازرقی هروی)
جب تک خورشیدِ گرم رَو کا جامہ آتشی ہے اور جب تک افلاکِ خاک کار کا پیشہ ناخوشی و ناشادی ہے، خورشید کا ہر طلوع اور افلاک کی ہر گردش تمہارے لیے ہو۔
× گرم رَو = تیز رَو، تیز رفتار
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تنت به نازِ طبیبان نیازمند مباد
وجودِ نازکت آزردهٔ گزند مباد
(حافظ شیرازی)

[خدا کرے کہ] تمہارا تن طبیبوں کے ناز کا نیازمند نہ ہو اور تمہارا وجودِ نازک آزار و گزند سے آزُردہ نہ ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی وفات پر فرّخی سیستانی کے مرثیے سے ایک اقتباس:
سفری کآن را باز آمدن امّید بُوَد

غمِ او کم بُوَد ارچند که باشد دشوار
سفری داری اِمسال شها اندر پیش
که مر آن را نه کران است پدید و نه کنار
(فرّخی سیستانی)
جس سفر میں واپس آنے کی آمید ہو، اُس کا غم کم ہوتا ہے، اگرچہ وہ دشوار ہی کیوں نہ ہو؛ [لیکن] اے شاہ! اِس سال تمہیں ایسا سفر درپیش ہے کہ جس کی نہ کوئی حد ظاہر ہے اور نہ انتہا۔

× ایک کتاب میں مصرعِ سوم کی صورت یہ نظر آئی ہے:
"سفری داری اِمسال دراز اندر پیش"
(اِس سال تمہیں ایک طویل سفر درپیش ہے۔۔۔)
 

حسان خان

لائبریرین
نباشد همی نیک و بد پایدار
همان بِه که نیکی بُوَد یادگار
همان گنج و دینار و کاخِ بلند
نخواهد بُدن مر تو را سودمند
سخن مانَد از تو همی یادگار
سخن را چنین خوارمایه مدار
(فردوسی طوسی)

نیک اور بد دنیا میں ہمیشہ باقی نہیں رہتے، لہٰذا یہی بہتر ہے کہ ہماری نیکیاں بطورِ یادگار باقی رہ جائیں۔ نیز، خزانہ، دینار اور بلند محل تمہارے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوں گے، بلکہ یہ سخن ہے جو تمہاری یادگار کے طور پر باقی رہے گا، لہٰذا سخن کو اِس طرح حقیر شمار مت کرو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فرعون که می‌زد لِمَنِ الْمُلْکْ ز نَخوَت
در بحرِ عدم غوطه زد از چوبِ شُبانت
(صائب تبریزی)
[اے خدا!] فرعون کہ جو تکبّر سے کہا کرتا تھا کہ '[میرے بجز] فرماں روائی کس کے پاس ہے؟'، وہ تیرے چوپان (حضرتِ موسیٰ) کے چوبی عصا سے بحرِ عدم میں غرق ہو گیا۔

× اِس بیت میں 'لِمَنِ الْمُلْکْ' سورۂ غافِر کی آیت ۱۶ سے مُقتَبَس ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مروّتے دگر از دیگرے نمی یابم
نشتتہ ام بگدائی بر آستانۂ خویش


نظیری نیشاپوری

میں کسی سے بھی کسی قسم کی دیگر مروت اور احسان نہیں چاہتا بلکہ اپنے آستانے پر فقیری میں (آرام سے خوش) بیٹھا ہوں۔ (گدا ہوں لیکن در بدر مارا مارا نہیں پھرتا)۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو که کوتاه و طلایی بکنی موها را
منِ شاعر به چه تشبیه کنم یلدا را؟
(مهدی فَرَجی)

جب تم [اپنی] زلفوں کو کوتاہ اور طلائی کر لو، [تو پھر بتاؤ کہ] میں شاعر شبِ یلدا کو کس چیز سے تشبیہ دوں؟
× شبِ یلدا = سال کی طویل ترین شب
 

حسان خان

لائبریرین
مرا ز منصبِ تحقیقِ انبیاست نصیب
چه آب جویم از جویِ خشکِ یونانی
(رودکی سمرقندی)

مجھے انبیاء کے منصبِ حقیقت سے بہرہ حاصل ہے؛ میں یونانی افکار کی جوئے خُشک سے آب کیا تلاش کروں؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هزار بار خدا را شفیع می‌آرم
ولی چه سود، چو تو نشْنوی 'خدا را' را؟
(رودکی سمرقندی)

میں ہزار بار خدا کو [اپنا] شفیع و واسِطہ بناتا ہوں؛ لیکن کیا فائدہ، جب تم [میری] 'خدارا!' کو نہیں سنتے؟
 

حسان خان

لائبریرین
چندان بُوَد کرشمه و نازِ سهی‌قدان
کاید به جلوه سروِ صنوبرخرامِ ما
(حافظ شیرازی)
مطلبِ لفظی تو یہ ہے کہ اور محبوبوں کا کرشمہ و ناز ہمارے محبوب کے جلوہ گری شروع کرنے تک ہے جس وقت وہ جلوہ افروز ہو جاوے گا سب کے ناز و کرشمہ ختم اور بے قدر اور گم ہو جاویں گے۔ اور مطلبِ معنوی یہ ہے کہ محبوبانِ مجازی اُسی وقت تک محبوب اور دل ربا معلوم ہوتے ہیں کہ محبوبِ حقیقی کا جمال کسی کے قلب پر متجلّی نہیں ہوتا اور جس وقت اس کا مشاہدہ ہو جاتا ہے پھر سب کا حسن و جمال لاشَے معلوم ہونے لگتا ہے۔ پس اس میں تعلیم ہے کہ عشقِ حقیقی حاصل کرو تاکہ مجاز کی طرف التفات نہ رہے۔
(مترجم و شارح: مولانا اشرف علی تھانوی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
گیر ای دلِ من عِنانِ آن شاهنشاه
اِمشب برِ من قُنُق شو ای رُوت چو ماه
ور گُوید فردا مشنو زود بِگوی
لا حَولَ ولا قُوَّةَ اِلّا بِالله
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اے میرے دل! اُس شہنشاہ کی لگام تھامو [اور اُس سے کہو] "اے کہ تمہارا چہرہ مِثلِ ماہ ہے! اِس شب میرے نزد مہمان بن جاؤ"۔۔۔ اور اگر وہ کہے کہ "فردا" تو [اُس کی بات] مت سُنو اور فوراً کہو: "لا حَولَ ولا قُوَّةَ اِلّا بِالله"۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از دامِ عقلِ مصلحت‌اندیش رَسته‌ایم
زنجیرِ زلفِ آن شهِ خوبانم آرزوست
(مهدیه الٰهی قُمشه‌ای 'آتش')

ہم عقلِ مصلحت اندیش کے دام سے رہا ہو گئے ہیں؛ مجھے اُس شاہِ خوباں کی زلف کی زنجیر کی آرزو ہے۔
 
Top