حسان خان

لائبریرین
با آن که جیب و جامِ من از مال و مَی تهی‌ست
ما را فراغتی‌ست که جمشیدِ جم نداشت

(فرُّخی یزدی)
باوجود اِس کے کہ میری جیب مال سے اور میرا جام شراب سے خالی ہے، ہمیں ایسی فراغت و آسودگی نصیب ہے جو جمشید کے پاس نہیں تھی۔
× جمشید = ایک اساطیری ایرانی پادشاہ
 

حسان خان

لائبریرین
بُریدنی‌ست، سرِ آن سگی که در پنجاب
بدیِ پنج‌تنِ پاک و چار یار کند

(دلشاد پسرُوری)
اُس سگ کا سر قطع کیے جانے کا لائق ہے جو پنجاب میں پنجتنِ پاک اور چار یار کی بدی کرے۔

× دلشاد پسرُوری بارہویں صدی ہجری کے صاحبِ دیوان فارسی شاعر تھے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عالمِ توفیق را غالب سوادِ اعظمم
مِهرِ حیدر پیشه دارم، حیدرآبادِ خودم
(غالب دهلوی)

"میں تائیدِ الٰہی کی دنیا کا سوادِ اعظم (بڑا شہر) ہوں، عشقِ علی میرا پیشہ ہے، میں نے اپنی ذات کو حیدرآباد یعنی مقامِ حیدر بنا لیا ہے۔"
(مترجم: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
به جانِ من بر، سَتخیز کرد لشکرِ عشق
چنانکه لشکرِ طالوت کرد بر جالوت
(طیّان مرغَزی)

لشکرِ عشق نے میری جان پر اِس طرح ہنگامہ کر دیا جس طرح لشکرِ طالوت نے جالوت پر کیا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ز فریادم بنالد کوہ و رہ ندہی بسوئے خود
تعالیٰ اللہ چہ سنگ است ایں دلِ نامہربانِ تو


امیر خسرو

میری فریادوں سے پہاڑ اور پتھر بھی پگھل جاتے (روتے) ہیں، لیکن تُو پھر بھی مجھے اپنی طرف آنے کی راہ نہیں دیتا (مجھ پر مہربانی نہیں کرتا)، اللہ اللہ یہ تیرا نامہربان دل کس طرح کا پتھر ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
شنیده‌ام که بهشت آن کسی تواند یافت
که آرزو برساند به آرزومندی
(شهید بلخی)

میں نے سنا ہے کہ بہشت وہ شخص حاصل کر سکتا ہے جو کسی آرزومند کی آرزو [و حاجت] برآوردہ کرے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
زمانه گفت مرا خشمِ خویش دار نگاه
کِرا زبان نه به بند است پای در بند است
(رودکی سمرقندی)

زمانے نے مجھ سے کہا کہ اپنے غیظ و غضب پر قابو رکھو کہ جس شخص کی زبان قید میں نہ ہو اُس کے پاؤں قید میں ہوتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
کشم بر صفحهٔ دل صورتِ جانانهٔ خود را
بدین صورت دهم تسکین دلِ دیوانهٔ خود را
(شیخ احمد خلخالی)

میں صفحۂ دل پر اپنے محبوب کی صورت کھینچتا ہوں، [اور] اِس طرح اپنے دیوانے دل کو تسکین دیتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ من ارزنی، عشقِ تو کوهی
چه سایی زیرِِ کوهی ارزنی را؟
(رودکی سمرقندی)

میرا دل ایک باجرا ہے، جبکہ تمہارا عشق ایک کوہ ہے؛ ایک کوہ کے زیر میں ایک باجرے کو کیا پیستے ہو؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چنان کز چشمِ او ترسم نترسید
جهودِ خیبری از تیغِ حیدر
چنان کان چشمِ او کرده‌ست با من
نکرد آن نامور حیدر به خیبر
چنان بر من کند آن جور و بیداد
نکردند آلِ بوسفیان به شبّر
چنان چون من بر او گریم نگرید
ابَر شبّیر زهرا روزِ محشر
(دقیقی طوسی)


ترجمہ:
جس طرح میں اُس کی چشم سے ڈرتا ہوں، اُس طرح خیبر کے یہود [بھی] تیغِ حیدر سے نہ ڈرے تھے۔
جیسا کچھ اُس کی اُس چشم نے میرے ساتھ کیا ہے، ویسا اُس نامور حیدر نے [بھی] خیبر میں نہ کیا تھا۔
جس طرح وہ مجھ پر وہ [سب] ظلم و ستم کرتا ہے، اُس طرح آلِ ابوسفیان نے [بھی] حضرتِ حسن پر [ظلم] نہ کیا تھا۔
جس طرح میں اُس (محبوب) پر روتا ہوں، اُس طرح حضرتِ زہرا [بھی] بروزِ محشر حُسین پر نہ روئیں گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گرفته خاطرِ غالب ز هند و اعیانش
بر آن سر است که آوارهٔ عجم گردد
(غالب دهلوی)

غالب کا دل ہند اور اس کے اکابر سے اُکتا گیا ہے۔ اب وہ یہ ارادہ کر رہا ہے کہ سرزمینِ ایران میں جا کر آوارہ گردی کرے۔
(مترجم: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
هر که بازآید ز در پندارم اوست
تشنه مسکین آب پندارد سراب

(سعدی شیرازی)

جو بھی در سے واپس آتا ہے، میں تصور کرتا ہوں وہ ہے؛ مسکینِ تشنہ سراب کو آب تصور کرتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دلم می‌کرد ره گم در شبِ تارِ سرِ زلفش
سُهَیلِ طلعتِ او گر نبودی رهنمون در وَی
(ارسلان طوسی)
اُس کے تارِ زلف کی تاریک شب میں میرا دل راہ گم کر دیتا، اگر اُس (شب) میں اُس کے چہرے کا ستارہ راہ نما نہ ہوتا۔
× سُهَیل = ایک درخشاں و روشن ستارے کا نام

ارسلان طوسی کا انتقال ۹۹۵ھ میں لاہور میں ہوا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پیش از آن کاندر جهان باغ و مَی و انگور بود
از شرابِ لایزالی جانِ ما مخمور بود
(مولانا جلال‌الدین رومی)

قبل اُس کے کہ دنیا میں باغ و مَے و انگور کا وجود تھا، ہماری جان شرابِ لایزالی سے مست و مدہوش تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
چه خوش صیدِ دلم کردی بنازم چشمِ مستت را
که کس مرغانِ وحشی را از این خوش‌تر نمی‌گیرد
(حافظ شیرازی)

تم نے کس خوبی سے میرے دل کو شکار کر لیا، تمہاری چشم مست پر آفریں! کہ کوئی وحشی پرندوں کو اِس سے خوب تر شکار نہیں کرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نازم به چشمِ یار که از مستی‌اش شراب
مستیِ طبعِ خویش فراموش می‌کند
(ذوقی اصفهانی)

چشمِ یار پر آفریں! کہ اُس کی مستی سے شراب اپنی طبع کی مستی فراموش کر دیتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چالاکیِ نگاهِ تو نازم که سویِ من
دیدی چنانکه چشمِ ترا هم خبر نشد
(ایجاد همَدانی)

تمہاری نگاہ کی چابُکی و تیزی پر آفریں! کہ تم نے میری جانب ایسے دیکھا کہ تمہاری چشم کو بھی خبر نہ ہوئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
صفایِ رویِ عرَق‌ناکِ یار را نازم
که صلح داده به هم آفتاب و شبنم را
(اوجی نظیری)
یار کے عرَق ناک چہرے کی صفا پر آفریں! کہ اُس نے آفتاب و شبنم میں باہم صلح کرا دی ہے۔
تشریح: شاعر نے چہرۂ یار کی صفا و پاکیزگی کو نورِ خورشید یا خورشید سے تشبیہ دی ہے، جبکہ اُس چہرے پر موجود عرَق کو شبنم کی مانند ٹھہرایا ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ اگرچہ خورشید کے طلوع کے بعد شبنم بخار بن کر معدوم ہو جاتی ہے، لیکن خورشید جیسے چہرۂ یار پر شبنم جیسے عرَق کا ہونا اِس چیز کا حاکی ہے کہ یار کے چہرۂ عرَق ناک کی پاکیزگی نے آفتاب و شبنم کے مابین صلح کرا دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به دوستی که اگر زهر باشد از دستت
چنان به ذوق و ارادت خورم که حلوا را
(سعدی شیرازی)

دوستی کی قسم! اگر تمہارے دست سے زہر ہو تو میں اُسے ایسے ذوق و ارادت کے ساتھ کھاؤں گا کہ جیسے حلوے کو [کھا رہا ہوں۔]
 

محمد وارث

لائبریرین
اُمیدِ عیش کجا و دلِ خراب کجا
ہوائے باغ کجا، طائرِ کباب کجا


عرفی شیرازی

عیش کی اُمید کہاں اور خراب و ویران دل کہاں؟ باغ و بہار کی تمنا کہاں اور کباب بنا ہوا پرندہ کہاں؟ (ہوا کا مطلب اگر فضا لیں تو یہ کہ باغ کی ہوا کہاں اور کباب بنا ہوا پرندہ کہاں)۔
 
Top