حسان خان

لائبریرین
شاد بودم تا تو را دیدم، ندانستم، که عشق
بود و نابودِ مرا سرمایهٔ غم می‌کند.
(لایق شیرعلی)

میں نے جب تک تمہیں نہیں دیکھا تھا، میں شاد تھا۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ عشق میرے وجود و عدم کو سرمایۂ غم کر دے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
حُسنِ روزافزونِ تو عمرِ مرا کم می‌کند،
قامتِ موزونِ تو قدِّ مرا خم می‌کند.
(لایق شیرعلی)

تمہارا حُسنِ روزافزوں میری عمر کو کم کر دے گا؛ تمہاری قامتِ موزوں میرے قد کو خم کر دے گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از آن ساغر به کف دارم، که اندر ساغرت بینم
که خود را مست و ازخودرفته و عاشق‌ترت بینم
(لایق شیرعلی)

میرے کف میں اِس لیے ساغر ہے تاکہ میں ساغر کے اندر تمہیں دیکھوں، اور تاکہ خود کو مست و از خود رفتہ اور تمہارا مزید عاشق دیکھوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قامتم خم شد ز بارِ دردِ تو،
کس نمی‌داند چه قامت داشتم.
(لایق شیرعلی)

میری قامت تمہارے درد کے بار سے خم ہو گئی؛ کوئی نہیں جانتا کہ میں کیسی قامت رکھتا تھا۔
× بار = بوجھ
 

حسان خان

لائبریرین
چه خوش گویند، قدرِ نعمت از بعدِ زوالِ اوست،
اگر من هم بمیرم، پیشِ یاران یاد خواهی کرد...
(لایق شیرعلی)

یہ بات کتنی خوب کہتے ہیں کہ نعمت کی قدر اُس کے زوال کے بعد ہوتی ہے؛ اگر میں بھی مر جاؤں تو تم [مجھے] یاروں کے سامنے یاد کرو گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
بینایی داشت چشمِ تو از نورِ عشقِ من
قدرِ مرا ندانی اگر، کور می‌شوی
(لایق شیرعلی)

تمہاری چشم میں بینائی میرے عشق کے نور سے تھی؛ اگر تم میری قدر نہ جانو تو اندھی ہو جاؤ گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
خالی‌ست برم بی تو، بی‌بحر و برم بی تو
دنیاست به سانِ گور اندر نظرم بی تو
(لایق شیرعلی)

تمہارے بغیر میری آغوش خالی ہے، تمہارے بغیر میں بے بحر و بر ہوں؛ تمہارے بغیر دنیا میری نظر میں قبر کی مانند ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نمانده قدرِ دل‌داری و دل‌بندی و دل‌سوزی،
کجایی، اعتبارِ دل، کجایی، افتخارِ دل؟
(لایق شیرعلی)

دل داری، دل بندی اور دل سوزی کی قدر باقی نہیں رہی ہے۔۔۔ اے آبروئے دل، کہاں ہو؟ اے افتخارِ دل، کہاں ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
"روزی، که بازمی‌رسد وقتِ زوالِ من،
یادی کنید از من و نُقص و کمالِ من!
نوشید مَی به خاطرِ جامِ شکسته‌ام،
خوانید شعرِ حافظ و صائب مثالِ من."
(لایق شیرعلی)

جس روز کہ میرا وقتِ زوال پہنچ جائے گا، آپ مجھے اور میرے نُقص و کمال کو ذرا یاد کیجیے گا! میرے جامِ شکستہ کی یاد میں شراب پیجیے گا اور میری طرح حافظ و صائب کے اشعار خوانیے (پڑھیے) گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از میریِ ما مردم اگر گُشنه بمیرند،
آن بِه که بمیریم از این میر شدن‌ها.
(لایق شیرعلی)

اگر ہماری میری سے مردم بھوکے مر جائیں تو اِس میر بننے سے ہمارا مر جانا بہتر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آرزوئے خُرّمے ہرگز نگنجد در دلم
در دلِ تنگے کہ من دارم چہ جائے آرزوست


اہلی شیرازی

میرے دل میں کسی بھی خوشی کی آرزو نہیں سماتی، میرے پریشان اور مضطرب اور افسردہ اور تنگ دل میں آرزؤں کی جگہ ہی کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
در دلم هفت آشیانِ آسمان گُنجیده باشد،
گرچه دارم آشیان در خانهٔ پست‌آشیانه...
(لایق شیرعلی)

میرے دل میں سات آشیانِ آسمان سمائے ہوئے ہیں؛ اگرچہ میرا آشیاں [ایک] پست آشیانہ گھر میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شست و شو مشغلهٔ شوخیِ ابرِ کرم است
دِژم آن خرقه که با داغِ نیالودن رفت
(غالب دهلوی)

اللہ تعالیٰ کے ابرِ کرم کا ایک شوخ مشغلہ یہ ہے کہ وہ گنہگاروں کے دامن سے گناہوں کے داغ دھو ڈالتا ہے۔ ایسی صورت میں اُس خرقے کی حالت کتنی افسوس ناک ہے کہ جس پر کوئی ایسا داغ نہ پڑا اور وہ خرقہ اس داغ سے آلودہ نہ ہونے کی کوشش ہی میں ختم ہو گیا۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
برنتابم به سبو باده ز دور آوردن
خانهٔ من به سرِ کوی مُغان می‌بایست
(غالب دهلوی)

میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرے لیے شراب کسی دور جگہ سے آئے۔ میرا گھر تو کوئے مغاں کی گلی میں ہونا چاہیے۔
(مترجم: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
× 'می‌بایست' کا لفظی ترجمہ 'ہونا چاہیے تھا' ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا تُنُک‌مایه به دریوزه خودآرا نشود
نرخِ پیرایهٔ گفتار گران می‌بایست
(غالب دهلوی)

لغت: "پیرایہ" = آرایش و زینت، حسنِ انداز۔
آراستگیِ کلام کا نرخ ذرا گراں ہونا چاہیے تاکہ کم مایہ لوگ اُسے لے کر (اُس کی بھیک مانگ کر) اپنے آپ کو اس سے سنوار نہ لیں۔
کلام اتنا بلند ہونا چاہیے کہ دوسرے کم مایہ لوگ اُس کی نقل کر کے اُس پر فخر نہ کر سکیں۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
چون خاکِ کربلاست فضولی مقامِ من
نظمم به هر کجا که رسد حرمتش رواست
زر نیست، سیم نیست، گهر نیست، لعل نیست
خاک است شعرِ بنده، ولی خاکِ کربلاست
(فضولی بغدادی)
اے فضولی! خاکِ کربلا میرا مقام ہے لہٰذا میری نظم جہاں بھی پہنچے اس کی حرمت روا ہے۔ میرا شعر سیم و زر نہیں ہے، لعل و گہر نہیں ہے بلکہ خاک ہے ، لیکن خاکِ کربلا ہے
 

حسان خان

لائبریرین
چون خاکِ کربلاست فضولی مقامِ من
نظمم به هر کجا که رسد حرمتش رواست
زر نیست، سیم نیست، گهر نیست، لعل نیست
خاک است شعرِ بنده، ولی خاکِ کربلاست
(فضولی بغدادی)
اے فضولی! خاکِ کربلا میرا مقام ہے لہٰذا میری نظم جہاں بھی پہنچے اس کی حرمت روا ہے۔ میرا شعر سیم و زر نہیں ہے، لعل و گہر نہیں ہے بلکہ خاک ہے ، لیکن خاکِ کربلا ہے
فخرِ آذربائجان حضرت فضولی کے ترکی دیوان کا اختتامیہ قطعہ:
چون خاکِ کربلاست فضولی مقامِ من
نظمم به هر کجا که رسد حرمتش رواست
درّ نیست، سیم نیست، گهر نیست، لعل نیست
خاک است شعرِ بندہ، ولی خاکِ کربلاست

(محمد فضولی بغدادی)

اے فضولی! چونکہ خاکِ کربلا میرا مقام ہے (یعنی چونکہ میں کربلا میں مقیم ہوں یا یہ کہ میں منزلت میں خاکِ کربلا کے برابر ہوں)، اس لیے میری نظم جہاں بھی پہنچے اُس کی حرمت روا ہے۔ اس ناچیز بندے کے اشعار موتی نہیں ہیں، سیم نہیں ہیں، گہر و لعل نہیں ہیں، بلکہ صرف خاک ہیں، لیکن وہ کوئی عام خاک نہیں، بلکہ کربلا کی خاک ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
چو تو من هم زمانی واله بودم،
سراپا درد بودم، ناله بودم.
به مانندِ تو عاشق بودم و مست،
به مانندِ تو هژده‌ساله بودم.
(لایق شیرعلی)

تمہاری طرح میں بھی ایک زمانے میں والہ تھا؛ [میں بھی] سراپا درد تھا، نالہ تھا؛ تمہاری مانند میں [بھی] عاشق و مست تھا؛ تمہاری مانند میں [بھی] اٹھارہ سالہ تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ خود را زمانی دیده بودم در کَنارِ دل،
کنون می‌بینمش هر لحظه در چنگِ فشارِ دل.
(لایق شیرعلی)

میں نے اپنے دل کو ایک زمانے میں دل کے پہلو میں دیکھا تھا؛ اب میں ہر لمحہ اُسے فشارِ دل کے پنجے میں دیکھتا ہوں۔
 
Top