مجلسِ انس و بهار و بحثِ عشق اندر میان
جامِ می نگرفتن از جانان گران جانی بود
(حافظ شیرازی)

محبت اور بہار کی مجلس اور اس میں عشق کی بحث! محبوب سے شراب کا جام نہ تھامنا کاہلی ہوگی۔

مترجم:قاضی سجاد حسین
 

حسان خان

لائبریرین
این فخر بس مرا که به هر دو زبان
حکمت همی مرتّب و دیوان کنم
جان را ز بهرِ مدحتِ آلِ رسول
گه رودکی و گاهی حسّان کنم
(ناصر خسرو)

یہ فخر میرے لیے کافی ہے کہ میں دونوں زبانوں (فارسی و عربی) میں حکمت مرتّب و تألیف کرتا ہوں؛ میں [اپنی] جان کو آلِ رسول کی مدحت کے لیے کبھی رودکی اور کبھی حسّان کرتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
تو، ای شعرِ روانِ من، کجایی؟
تو، ای تاب و توانِ من، کجایی؟
مرا پیری به چنگِ خود گرفته‌ست،
تو، ای یارِ جوانِ من، کجایی؟
(لایق شیرعلی)

اے میرے شعرِ رواں، تم کہاں ہو؟ اے میری تاب و تواں، تم کہاں ہو؟ مجھے پِیری نے اپنے چنگل میں لے لیا ہے؛ اے میری یارِ جواں، تم کہاں ہو؟
× پِیری = بڑھاپا
 
آخری تدوین:
خوش تر آن باشد که سِرِ دلبران
گفته آید در حدیثِ دیگران
(مولانا رومی)

بہتر یہی ہوتا ہے کہ معشوقوں کا راز دوسروں کے قصہ میں بیان ہوجائے۔

رازِ سربستهِ ما بین که بدستان گفتند
هر زمان با دف و نی بر سرِ بازارِ دگر
(حافظ شیرازی)

ہمارے سربستہ راز کو دیکھ، ہر وقت ایک نئے بازار میں دف اور بانسری کے ساتھ داستان میں انہوں نے بیان کیا۔

مترجمِ ہردُو اشعار: قاضی سجاد حسین
 

حسان خان

لائبریرین
ز روزِ گذر کردن اندیشه کن
پرستیدنِ دادگر پیشه کن
بترس از خدا و میازار کس
رهِ رستگاری همین است و بس
(فردوسی طوسی)

روزِ جزا کی فکر کرو؛ خدائے عادل کی پرستش کرنے کو پیشہ بناؤ؛ خدا سے ڈرو اور کسی کو آزردہ مت کرو؛ راہِ نجات یہی ہے اور بس۔
× لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'روزِ گذر کردن' کا معنی روزِ جزا ہے کہ اُس روز پلِ صراط سے گذرنا ہو گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
چو گوهر از دمِ تسلیم کن سپر بیدل
در این محیط که تیغ است سر کشیدنِ موج
(بیدل دهلوی)

اے بیدل! اِس بحرِ محیط میں کہ جس میں موج کی سرکشی تیغ [کی مانند] ہے، تم گوہر کی طرح دمِ تسلیم کو سپر بناؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
آرزو هر دم مرا تا آسمان‌ها می‌بَرَد
زندگی هر دم مرا بر خاک یکسان می‌کند
(لایق شیرعلی)

آرزو ہر دم مجھے آسمانوں تک لے جاتی ہے، [جبکہ] زندگی ہر دم مجھے خاک سے یکساں کر دیتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
در ہیچ وقت خدمتِ مَردے نکردہ ای
وآنگہ نشستہ صحبتِ مردانت آرزوست


شیخ ابوسعید ابوالخیر

تُو نے (اپنی زندگی میں) کسی بھی وقت کسی (صاحبِ دل و نظر) مرد کی خدمت نہیں کی، اور اِس کے بعد بھی تجھے مَردوں کی صحبت میں بیٹھنے کی آرزو ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
ز عشقت دل‌فگار و سینه‌چاکم،
ز هَجرت خسته‌جان و دردناکم.
به رویِ خاک یادِ من نکردی،
کنی یادم، چو اندر زیرِ خاکم.
(لایق شیرعلی)

تمہارے عشق سے میں دل فگار و سینہ چاک ہوں؛ تمہارے ہجر سے میں خستہ جان و دردمند ہوں؛ خاک کے اوپر تو تم نے مجھے یاد نہیں کیا [لیکن] جب میں زیرِ خاک چلا جاؤں گا تو تم مجھے یاد کرو گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
مادرم رفت، نیز بشْتابم،
روحِ پاکش در انتظارِ من است.
(لایق شیرعلی)

میری مادر چلی گئیں، [اب] مجھے بھی جلدی کرنی چاہیے؛ اُن کی روحِ پاک میرے انتظار میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بختم ندهد کامِ دلِ غم‌زده غالب
گویی لبِ یار است که در بوسه لئیم است
(غالب دهلوی)

لغت: "کامِ دل دادن" = دل کی خواہش پوری کرنا۔
"لئیم" = کنجوس۔
غالب! میری بدنصیبی میرے غمزدہ دل کی تمنائیں پوری ہونے نہیں دیتی، گویا میرا بخت، لبِ یار ہے کہ بوسہ دینے میں کنجوس ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
محو کن نقشِ دویی از وَرَقِ سینهٔ ما
ای نگاهت، الفِ صیقلِ آیینهٔ ما
(غالب دهلوی)

الفِ صیقل = آئینہ پہلے فولاد کا ہوا کرتا تھا۔ برسات میں عام طور پر زنگ آلود ہو جاتا اور اُسے صیقل کرنا پڑتا۔ جس آلے سے اُسے صیقل کرتے تھے اُسے مِصقَل کہتے تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی سلاخ ہوتی تھی جس کا ایک سرا نوکدار اور تیز ہوتا تھا۔ جب مصقل سے آئینے کو صاف کرنے لگتے تو مصقل کی تیز نوک سے جو لکیر آئینے پر پڑتی اُسے الفِ صیقل کہتے تھے۔ الف جو پہلا حرف ہے وحدت کی علامت ہے۔ صیقل کی لکیر کو شکل کے اعتبار سے اور ابتدائے صیقل کے اعتبار سے الفِ صیقل کہنا بہت موزوں ہے۔
نگاہ بھی لکیر کی طرح ہوتی ہے اسی لیے شاعر نے کہا ہے: اے کہ تیری نگاہ ہمارے آئینے (یعنی آئینۂ دل) کا الفِ صیقل ہے ہمارے سینے سے دوئی کے نقش کو مٹا دے۔
یعنی محبوب کی نگاہ دل کا تزکیہ کر کے اُس میں توحید کا نقش جماتی ہے اور اگر کوئی غیر نقش وہاں ہوں تو اُنہیں یکسر مٹا دیتی ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
مردی برای شهرت، مردی برای دولت،
گر مرگ پُرسد از من، من بهرِ تو بمیرم!...
(لایق شیرعلی)

کوئی آدمی شہرت کے لیے [مرتا ہے]، کوئی آدمی دولت کے لیے [مرتا ہے]؛ اگر موت مجھ سے پوچھے، میں تمہارے لیے مر جاؤں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر گهی بوده‌ست دستِ من به گیسویی دراز
با همه ناقابلی بسیار قابل بوده‌ام
(لایق شیرعلی)

جب کبھی بھی میرا دست کسی گیسو کی جانب دراز رہا ہے، میں تمام تر ناقابلی کے باوجود بسیار قابل رہا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر من ندارم سیم و زر، گر من ندارم بحر و بر،
دارم تو را تا در بغل، گنجینه‌ام، گنجینه‌ام.
(لایق شیرعلی)

اگرچہ میں سیم و زر نہ رکھوں، اگرچہ میں بحر و بر نہ رکھوں، [لیکن] جب تک میں تمہیں آغوش میں رکھتا ہوں، میں خزانہ ہوں، میں خزانہ ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
من رویِ جهان ندیده بودم،
رویِ تو برایِ من جهان بود.
(لایق شیرعلی)

میں نے جہان کا چہرہ نہیں دیکھا تھا؛ تمہارا چہرہ میرے لیے جہان تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
من نمی گویم کہ چندیں دشمنی آخر چراست؟
لیک می پرسم کہ اول آں ہمہ یاری چہ بود؟


ہلالی چغتائی

میں یہ نہیں کہتا کہ (مجھ سے تیری) اس قدر دشمنی آخر کیوں ہے؟ لیکن یہ ضرور پوچھتا ہوں کہ اول اول کی وہ گرم جوش دوستی کیا تھی؟
 

حسان خان

لائبریرین
متاب از عشق رو گرچه مجازی ست
(مولانا جامی)

عشق اگرچہ مجازی ہے، اس سے منہ مت موڑ،
بہتر ترجمہ: عشق سے رُخ مت موڑو، خواہ مجازی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔

نیٹ پر موجود مثنویِ یوسف و زلیخا میں اِس شعر کا یہ متن بھی ملتا ہے:
متاب از عشق رو گر خود مجازی‌ست
که آن بهرِ حقیقی کارسازی‌ست


اِس کا اگلا شعر:
به لوح اوّل 'الف بی' تا نخوانی
ز قرآن درس خواندن کَی توانی

جب تک تم لوح پر اوّلاً 'الف بے' نہ خوان لو، تم قرآن سے درس کب خوان سکتے ہو؟
× خواننا (بر وزنِ 'جاننا') = پڑھنا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دلِ فارغ ز دردِ عشق دل نیست
تنِ بی‌دردِ دل جز آب و گِل نیست
(عبدالرحمٰن جامی)

جو دل دردِ عشق سے خالی ہو وہ دل نہیں ہے؛ جس تن میں دردِ دل نہ ہو وہ بجز آب و گِل نہیں ہے۔
 
Top