قومی متفکراند در مذہب و دین
قومی متحیراند در شک و یقین
ناگاہ منادی ای بر آمد ز کمین
کای بیخبراند راہ نہ آنست نہ این


ایک قوم دین و مذہب میں غورو فکر کر رہی ہے
ایک قوم شک و یقین کی وادی میں حیران پریشان ہے
اچانک گھات سے ندا بلند آتی ہے
اے نادانوں نہ یہ راہ سیدھی ہے نہ وہ

(عمر خیام)
 
ہر چند کہ رنگ و روی زیباست مرا
چوں لالہ رُخ و چو سرو بالا ست مرا
معلوم نہ شد کہ در طربخانہ خاک
نقاشِ ازل بہر چہ آرا ست مرا


بے شک میرا حسن و جمال اور رنگ و روپ بہت خوب ہے
لالہ کی طرح سرخ اور سرو کی مانند دراز قد ہوں
لیکن سمجھ نہیں آتی کہ اس فانی دنیا مٹی کے گھر میں
قدرت نے مجھے کس لئے اتنے حسن و جمال سے نوازا ہے

(عمر خیام)
 
خیام کہ خیمہ ہای حکمت می دوخت
در کوزہ غم فتادہ ناگاہ بسوخت
مقراض اجل طناب عمرش بہ برید
دلال قضا بہ رائگانش بفروخت


خیام جو کہ فلسفہ و حکمت کے خیمے سیتا تھا
غم کی بھٹی میں اچانک گر گیا اور جل گیا
موت کی قنیچی نے جب اس کی عمر کی ڈور کاٹی
قضا و قدر کے دلال نے جسد خاکی کو بے مول ہی فروخت کر دیا

(عمر خیام)
 
من بندہ عاصیم ، رضای تو کجاست
تاریک دلم ، نور صفای تو کجاست
ما را تو بہشت اگر بہ طاعت بخشی
این مزد بود، لطف و عطای تو کجاست


میں گنہگار بندہ ہوں تیری بخشش کہاں ہے
میرا دل تاریک ہے تیرا شفاف نور کہاں ہے
جنت اگر ہیمں نیکیوں سے ملنی ہے تو
یہ تو مزدوری ہوئی تیری رحمتیں اور عنایتیں کہاں ہیں

(عمر خیام)
 
تا چند ز مسجد و نماز و روزہ
در میکدہ ہا مست شو از دریوزہ
خیام بخور بادہ کہ این خاک ترا
گہہ جام کنند ، گہہ سبو ، گہہ کوزہ


کب تک مسجد و نماز و روزہ میں مصروف رہے گا
میکدے میں جا دیوانہ بن اورگدا گری کر
اے خیام تو شراب پی کیونکہ تیری اس خاک سے
کبھی جام بنے گا ، کبھی صراحی و مٹکا اور کبھی کوزہ

(عمر خیام)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں جانتا ہوں کہ 'میوہ پُختہ ہونا' اردو میں غیر معروف ہے، لیکن میں چند وجوہات کی بنا پر قصداً معروف و متداول اردو کی بجائے ایک ذرا غیر معروف لیکن فارسی سے مزید متاثر زبان استعمال کرتا ہوں۔ :)
'رسیدن' کا ایک معنی میوے کا پختہ و کامل ہونا اور پکنا بھی ہے۔ فارسی میں 'پکے ہوئے میوے' کو 'میوۂ رسیدہ' کہتے ہیں۔
بہت بہت شکریہ حسان ! اب احساس ہورہا ہے کہ آپ کو زحمت دینے سے پہلے لغت میں دیکھ لینا چاہیئے تھا ۔ اب خیال رکھوں گا ۔ :):):)
 

لاریب مرزا

محفلین
از دیدہ رفت وز دِلِ پُرخوں نمی رَوَد
در دل چناں نشستہ کہ بیروں نمی رَوَد
(اہلی شیرازی)

وہ آنکھوں سے دُور تو چلا گیا لیکن دلِ پُرخوں سے نہیں جاتا، وہ دل میں کچھ ایسے گھُسا ہوا ہے کہ نکالے نہیں نکلتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گر بروئے آب رفتن آرزو داری غنی
زیرِ پائے اہلِ دل افتادہ چوں سجادہ باش


غنی کاشمیری

اے غنی اگر تُو پانی کے اُوپر چلنے کی آرزو رکھتا ہے (یعنی تجھ سے کرامات کا ظہور ہو) تو پھر مُصلّے کی طرح اہلِ دل کے پاؤں کے نیچے بِچھ جا۔
 
ای دیدہ اگر کور نۂ گور ببین
وین عالم پر فتنہ و پر شور ببین
شاہان و سران و سروران زیر گلند
روہای چو مہہ در دہن مور ببین


اے آنکھ اگر اندھی نہیں ہے تو قبر دیکھ
اس دنیا کے شور و غل اور فتنہ و فساد کو دیکھ
بادشاہ ،بزرگ اور سردار زیر زمین چلے گئے
چاند جیسے چہروں کو چیونٹیوں کے منہ میں دیکھ

(عمر خیام)
 
ایں قافلہ عمر عجب می گزرد
در یاب دمی کہ با طرب می گزرد
ساقی! غم فردای قیامت چہ خوری
پیش آر پیالہ ای کہ شب می گزرد


زندگی کا قافلہ عجیب انداز میں گزرتا ہے
اس لمحے کو حاصل کر لے جو خوشی اور راحت میں گزرتا ہے
ساقی آنے والی قیامت کا غم کیوں کرتا ہے
تو جام پکڑا کہ شب گزرتی جاتی ہے

(عمر خیام)
 
از آمدن و رفتن ما سودی کو
وز تار امید عمر ما پودی کو
چندین سرد پای ناز نینان جہان
می سوزد و خاک می شود دودی کو


ہمارا دنیا میں آنا اور جان کیا نفع دیتا ہے
کیا معلوم کہ زندگانی کی ڈور کہاں تک ہے
کتنے ہی دراز قد حسین اور خوبرو
جل کر خاک ہو گئے اوراُن کا دھواں تک نہیں ملتا

(عمر خیام)
 

محمد وارث

لائبریرین
ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مستغنی است
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را


حافظ شیرازی

ہمارے ناقص و ناپختہ و خام عشق سے دوست کا حُسن و جمال بے نیاز ہے کیونکہ خوبصورت اور حسین چہرے کو آب و رنگ و خال و خط کی ضرورت نہیں ہوتی۔
 
در دست صفحہ را پرِ پروانہ کن حزین
چوں شمع خامہ ام گہر افشانِ آتش است


حزین، صفحے کو ہاتھ میں پروانے کے پر کی طرح تھام لے کیونکہ میرا قلم مثلِ شمع آگ کے موتی برساتا ہے۔

شیخ علی حزین
 
خونِ شہیدِ عشق جہاں را فروگرفت
کشتی مساز نوح کہ طوفانِ آتش است


شہیدِ عشق کے خون نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اے نوح ! کشتی مت بنا کہ آگ کا طوفان ہے.

عرفی شیرازی
 
نسیما جانب بطحا گزر کن
ز احوالم محمد را خبر کن

اے صبا بطحا کی طرف چل
میرے احوال حضورؐ کو سنا

ببریں جانِ مشتاقم بہ آں جا
فدائے روضہ خیر البشر کُن


میری بے تاب جان کو اُس جگہ لے جا
تا کہ یہ حضور کے روضہ اقدس پر نثار ہو جائے


توئی سلطان عالم یا محمد
زروئے لطف سوئے من نظر کن


یا رسول اللہ آپ ہی دونوں جہان کے سلطان ہیں
آپ نگاہ کرم مجھ پر ڈالیں

مشرف گرچہ شد جامی زلطفش
خدایا ایں کرم با ر دگر کن


جامی اگرچہ آپؐ کے لطف سے محظوظ ہو گیا
یا اللہ یہ کرم بار بار ہو

(مولانا عبدالرحمن جامی)
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از حکیم عمر خیام

ہرگز دلِ من ز علم محروم نشد
کم ماند ز اسرار کہ معلوم نشد
ہفتاد و دو سال فکر کردم شب و روز
معلومم شد کہ ہیچ معلوم نشد


میرا دل ہرگز بھی علم سے محروم نہیں رہا اور اسرارِ ازل میں سے کم ہی اسرار ایسے ہونگے کہ جو مجھے معلوم نہیں ہوئے۔ ستر اور دو (بہتّر) سال دن رات میں نے غور و فکر کیا اور آخر یہی معلوم ہوا کہ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں۔

(یہ رباعی کچھ کتب میں فخرالدین رازی سے بھی منسوب ہے)۔
 
من از چشم تو ای ساقی خراب افتاده‌ام لیکن
بلایی کز حبیب آید هزارش مرحبا گفتیم
(حافظ شیرازی)

میں ساقی کی حسین آنکھ سے مست پڑا ہوں، لیکن جو مصیبت دوست کی طرف سے آئی، ہم نے اس کو ہزار بار خوش آمدید کہا ہے۔

(مترجم: قاضی سجاد حسین)
 
گدای کوی شماییم و حاجتی داریم
روا مدار که محروم از آستان برویم
(حافظ شیرازی)

ہم تیرے کوچہ کے فقیر ہیں اور ہم ضرورت مند ہیں، اس کو جائز نہ سمجھ کہ ہم چوکھٹ سے محروم چلے جائیں۔
(مترجم: قاضی سجاد حسین)
 
بیا بزم گدایاں شہ نشاں خودی ست
کہ تا نتیجہ احساں وجود خود بینی


خودی کے شہ نشیں گداؤں کی محفل میں آجا
تا کہ تو اپنے وجود حقیقی کو پا کراحسان مند ہو جائے

در آ بہ مجلس مسکیں معین شوریدہ
کہ نقل و بادہ ز گفت و شنود خود بینی


آ جا اور مجھ عاشق دیوانہ مسکیں معین کی مجلس میں بیٹھ
تا کہ تجھے گفت و شنود کی شرینی و حلاوت اور زندگی کا شعور ملے

(خواجہ معین الدین چشتی)
 
توتیائے چشم سازم خاکپائے نقشبند
تابیابم سر حق از لطف سائے نقشبند
روبدرگاہ بہاؤ الدین نظر کن زانکہ ہست
نہ فلک مانند درباں در سرائے نقشبند
مشکلات ماہمہ ہرگز نیاید در عدد
المدد یا خواجہ مشکلکشائے نقشبند


میں تو شاہِ نقشبند (رح) کی خاکِ پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتا ہوں۔ اس عمل کا فائدہ یہ ہو گا کہ الله کریم کے اسرار حضرت خواجہ نقشبند (رح) کے لطف و کرم سے پا لوں گا۔ اے مخاطب! تو جا کر درگاہِ خواجہ بہاؤ الدین نقشبند (رح) کی زیارت کر، تجھے پتا چل جائے گا کہ نو آسمان نقشبند کے در اقدس پر دربان بنے ہوئے ہیں۔ ہماری مشکلات تو شمار سے باہر ہیں۔ (اے بندہ نواز خواجہ) شاہِ نقشبند (رح) آپ مشکل کشا ہیں مدد فرما کر ان ساری مشکلات کو دور فرما دیجئے۔

(خواجہ حافظ شیرازی)
 
Top