بہر کیکے تو کلیمے را مسوز
در صداع ہر مگس مگذارروز


پسو سے تنگ آکر گدڑی نہ جلا دو
مکھی سے تنگ آکر باہر نکلنا مت چھوڑو

(مولانا جلال الدین رومی)
 

حسان خان

لائبریرین
آهی به عشقِ فاتحِ خیبر کنیم طرح
در گنبدِ سپهر مگر در کنیم طرح
(غالب دهلوی)

'طرح' = صورت و پیکر۔
'طرح کردن' = بنانا، بنیاد رکھنا۔
'فاتحِ خیبر' = حضرت علی رض۔
حضرت علی رض (فاتحِ خیبر) کی محبت میں ایک آہ کھینچیں۔ شاید اُس آہ سے گنبدِ آسمان میں (دروازہ وا ہو جائے) شگاف پڑ جائے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
سپاسِ جُودِ تو فرض است آفرینش را
درین فریضه دو گیتی همان دوگانهٔ توست
(غالب دهلوی)

اس مخلوق کو تیری بخشش کا شکر بجا لانا فرض ہے۔ اس فریضے میں یہ دو جہاں، شکرانے کے دو نفل ہیں۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
بی‌نوایی بین که گر در کُلبه‌ام باشد چراغ
بخت را نازم که با من دولتِ بیدار هست
(غالب دهلوی)

لغت: 'دولتِ بیدار' = ایسی دولت جس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
میری بے سر و سامانی کو دیکھ کہ اگر میری کٹیا میں چراغ (روشن) ہو تو میں اُسے اپنی خوشی بختی سمجھتا ہوں اور فخر کرتا ہوں کہ مجھے دولتِ بیدار مل گئی۔ شمع کو دولتِ بیدار کہنا، بہت بلیغ استعارہ ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

محمد وارث

لائبریرین
اے حسن خلعتِ دردے کہ ترا ہست بدوش
کم مپندار کہ از ملکِ دو عالم بیش است


امیر حسن سجزی دہلوی

اے حسن، درد کی وہ خلعت کہ جو تیرے کاندھوں پر ہے، اُسے کم مت سمجھ کہ وہ تو دونوں جہانوں کی ملکیت سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔
 
محترم حسان خان صاحب سے بصد احترام گزارش ہے کہ امام غزالی سے منسوب درج ذیل رباعیات اور قطعہ کا اپنی سہولت سے تصحیح و ترجمہ کر دیجئے گا۔ شکریہ

رباعی
اے کانِ بقا درچہ بقائے، کہ نہ
در جاے نہ - کدام جائے، کہ نہ
ای ذاتِ تو از ذات و جہت مستغنی
آخر تو کجائی و کجائے، کہ نہ


رباعی
باجامہ - نمازے بسرِ خم کردیم
وز آبِ خرابات تیمم کردیم
شاید کہ دریں میکدہ ہا دریا بردیم
آں یار کہ در صومعہ ہا گم کردیم


قطعہ
گفتم دلا تو چندین برِ خویشتن چہ پیچی
با یک طبیبِ محرم این راز درمیان نہِ
گفتا کہ ہم طبیبے فرمودہ است بامن
گر مہرِ یار داری صد مھر بر زبان نہِ


(امام غزالی)
بتحقیق مولانا شبلی نعمانی
حوالہ جات تذکرہِ مجمع الفصحاء ، روضات الجنات
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میوه از بهرِ رسیدن می‌رود یک ساله راه
پختگی‌ها گر هوس داری سفر شرط است شرط
(میر محمد علی رایج سیالکوتی)

میوہ پُختہ ہونے کے لیے یک سالہ راہ طے کرتا ہے؛ اگر تمہیں پُختگیوں کی آرزو ہے تو سفر شرط ہے۔
حسان بھائی ، میوہ پختہ ہونا غیر معروف ہے ۔ میوہ پکنا عموماً مستعمل ہے ۔ دوسرے مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ میوه از بهرِ رسیدن سے کیا مراد ہے ۔ امید ہے کہ اس پر روشنی ڈالیں گے۔
 
رُویش بچشمِ پاک تواں دید چوں ہِلال
ہر دیدہ جائے جلوہء آں ماہ پارہ نیست


اس کا چہرہ ہلال کی طرح پاک نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے،کیونکہ ہر آنکھ اُس ماہ پارے کے جلوے کی جگہ نہیں ہے۔

(حافظ شیرازی)
 
ہر کہ پیماں با ھوالموجود بست
گردنش از بند ہر معبود رَست


جس کسی نے بھی رب حضور کو ہر جگہ موجود جاننے ماننے کا عہد کیا
اُس کی گردن ہر باطل معبود کی زنجیر سے نجات پا گئی!

(علامہ اقبال)
 
اس لڑی میں موجود تمام دوستدارانِ زبانِ فارسی کے نام یہ بند:
ما کاخ نداریم که هی فخر فروشیم
اموال نداریم که بر فقر بپوشیم
داریم گرانمایه ترین ثروت عالم
چند دوست که آنرا به جهانی نفروشیم
(نامعلوم)

ہم محل نہیں رکھتے کہ اس پر فخر کریں
اموال نہیں رکھتے کہ فقیری کو پنہاں کریں
ہم گراں قدر ترین دولتِ دنیا رکھتے ہیں
(وہ) چند دوست (ہیں) کہ انہیں کسی دنیا کو فروخت نہیں کریں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ فرید الدین عطار

دل عاشقِ رُوئے تست با عہدِ درست
جاں طالبِ وصلِ تو از روزِ نخست
آنکس کہ نہ جست وصلِ تو ہیچ نیافت
و آنکس کہ ترا یافت دگر ہیچ نہ جست


(میرا) دل، محکم اور صحیح صحیح عہد و پیمان کے ساتھ، تیرے ہی چہرے کا عاشق ہے، اور جان پہلے دن ہی سے تیرے وصال کی طالب ہے۔ ہر وہ کہ جس نے تیرے وصال کی جستجو نہ کی اُسے کچھ بھی نہ ملا، اور وہ کہ جسے تُو مل گیا اُس نے پھر کسی اور کی جستجو ہی نہ کی۔
 
می کند از ما سویٰ قطعِ نظر
می نہد ساطور برحلقِ پسر


(اقبال)

ماسوا (غیر الله) سے نظریں ہٹا لیتا ہے اور بیٹے کے گلے پر چھری چلا دیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اس لڑی میں موجود تمام دوستدارانِ زبانِ فارسی کے نام یہ بند:
ما کاخ نداریم که هی فخر فروشیم
اموال نداریم که بر فقر بپوشیم
داریم گرانمایه ترین ثروت عالم
چند دوست که آنرا به جهانی نفروشیم
(نامعلوم)

ہم محل نہیں رکھتے کہ اس پر فخر کریں
اموال نہیں رکھتے کہ فقیری کو پنہاں کریں
ہم گراں قدر ترین دولتِ دنیا رکھتے ہیں
(وہ) چند دوست (ہیں) کہ انہیں کسی دنیا کو فروخت نہیں کریں گے۔
هی فخر فروشیم = مسلسل/ہمیشہ غرور و تکبر کرتے رہیں۔۔۔
یہ 'هی' تہرانی گفتاری فارسی میں استعمال ہوتا ہے، اور اِس کا وہاں تلفظ hey ہے۔

"چند دوست که آن را به جهانی نفروشیم"
اِس مصرعے کا مفہوم یہ ہے:
چند دوست کہ جنہیں ہم ایک دنیا کے عوض بھی فروخت نہ کریں (گے)۔۔۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بہجر و وصل و ملال و نشاط گریہ کنم
دراں دلے کہ طلب ہست، آرمیدن نیست


نظیری نیشاپوری

چاہے ہجر ہو یا وصال، ملال ہو یا نشاط، میں گریہ و زاری ہی کرتا ہوں کیونکہ جس دل میں کوئی طلب ہوتی ہے اُس کے لیے پھر آرام و سکون و قرار نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی ، میوہ پختہ ہونا غیر معروف ہے ۔ میوہ پکنا عموماً مستعمل ہے ۔ دوسرے مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ میوه از بهرِ رسیدن سے کیا مراد ہے ۔ امید ہے کہ اس پر روشنی ڈالیں گے۔
میں جانتا ہوں کہ 'میوہ پُختہ ہونا' اردو میں غیر معروف ہے، لیکن میں چند وجوہات کی بنا پر قصداً معروف و متداول اردو کی بجائے ایک ذرا غیر معروف لیکن فارسی سے مزید متاثر زبان استعمال کرتا ہوں۔ :)
'رسیدن' کا ایک معنی میوے کا پختہ و کامل ہونا اور پکنا بھی ہے۔ فارسی میں 'پکے ہوئے میوے' کو 'میوۂ رسیدہ' کہتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
رباعی
اے کانِ بقا درچہ بقائے، کہ نہ
در جاے نہ - کدام جائے، کہ نہ
ای ذاتِ تو از ذات و جہت مستغنی
آخر تو کجائی و کجائے، کہ نہ
ای کانِ بقا در چه بقایی، که نه‌ای
در جای نه‌ای، کدام جایی، که نه‌ای
ای ذاتِ تو از ذات و جهت مستغنی
آخر تو کجایی و کجایی، که نه‌ای

اے کانِ بقا! کون سی بقا ایسی ہے جس میں تو نہیں ہے؟ تو کہیں نہیں ہے، لیکن کون سی جگہ ایسی ہے جہاں تو نہیں ہے؟ اے کہ تیری ذات، ذات و جہت سے مستغنی ہے، آخر تو کہاں ہے اوروہ کہاں ہے جہاں تو نہیں ہے؟
رباعی
باجامہ - نمازے بسرِ خم کردیم
وز آبِ خرابات تیمم کردیم
شاید کہ دریں میکدہ ہا دریا بردیم
آں یار کہ در صومعہ ہا گم کردیم
با جامه نمازی به سرِ خُم کردیم
وز آبِ خرابات تیمم کردیم
شاید که درین میکده‌ها دریابیم
آن یار که در صومعه‌ها گم کردیم

ہم نے جام کے ساتھ بر سرِ خُم نماز کی؛ اور آبِ خرابات سے تیمم کیا؛ شاید ہم اِن میکدوں میں اُس یار کو [دوبارہ] پا لیں جسے ہم نے خانقاہوں میں گم کر دیا تھا۔
قطعہ
گفتم دلا تو چندین برِ خویشتن چہ پیچی
با یک طبیبِ محرم این راز درمیان نہِ
گفتا کہ ہم طبیبے فرمودہ است بامن
گر مہرِ یار داری صد مھر بر زبان نہِ
گفتم دلا! تو چندین بر خویشتن چه پیچی
با یک طبیبِ محرم این راز در میان نِه
گفتا که هم طبیبی فرموده‌است با من
گر مهرِ یار داری صد مُهر بر زبان نِه

میں نے کہا کہ اے دل! تم اِس قدر کیوں تڑپتے اور پیچ و تاب کھاتے ہو؟ کسی طبیبِ محرم کو اِس راز سے آگاہ کر دو۔ اُس نے کہا کہ ایک طبیب نے بھی مجھ سے یہی فرمایا ہے کہ اگر یار کی محبت رکھتے ہو تو [اپنی] زبان پر مُہریں لگا لو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در دستِ دیگر است سیاه و سفیدِ ما
با روز و شب به عربَده بودن چه احتیاج
(غالب دهلوی)

کہا جاتا ہے کہ گردشِ روز و شب سے انسانی قسمتیں متاثر ہوتی ہیں، اس لیے لوگ اُسے کوستے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمارا سیاہ و سفید تو کسی اور کے ہاتھ میں ہے، پھر گردشِ روزگار کا شکوہ کیسا اور اس سے الجھنے کی کیا ضرورت!
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
فارغش ساخته از حسرتِ پیکان غالب
حق بُوَد بر جگرِ ریشِ تو دندانِ تُرا
(غالب دهلوی)

لغت: پیکان اصل میں تیر کی نوک کو کہتے ہیں، پھر تیر کا مفہوم بھی دیتا ہے۔ 'فارغش' کی ش کی ضمیر کا مرجع 'جگرِ ریش' ہے جو دوسرے مصرعے میں آیا ہے۔
عاشق کے دل میں محبوب کے تیرِ محبت کھانے کا جو شوق تھا وہ پورا نہ ہوا اور اُس کے دل میں حسرت رہ گئی۔ اُس نے اس دکھ میں دانتوں سے اپنا جگر کاٹ کاٹ کر زخمی کر لیا۔ اس سے اُس کے زخمی جگر کو پیکانِ محبوب کھانے کی حسرت سے نجات مل گئی۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے:
اے غالب! تیرے دانتوں کا تیرے جگرِ ریش پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اُسے حسرتِ پیکاں کی خلش سے (جو دل میں رہ گئی تھی) فراغت دلائی ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
خوش فرو می‌رود افسونِ رقیبت در دل
پنبهٔ گوشِ تو گردد مگر افسانهٔ ما
(غالب دهلوی)

کانوں میں روئی رکھنے سے آواز سنائی نہیں دیتی۔ شاعر نے رقیب کی جھوٹی باتوں کے طلسم کو افسون اور اپنی داستانِ محبت کو افسانہ کہا ہے۔ محبوب سے کہتا ہے کہ رقیب کی جھوٹی باتیں تو تمہارے دل میں اُتر جاتی ہیں اور ہماری سچی داستانِ محبت شاید تمہارے کانوں میں پہنچ کر روئی (پنبۂ گوش) بن جاتی ہے، یعنی بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
می‌روی و گریه می‌آید مرا
ساعتی بنشین که باران بگذرد

(منسوب بہ امیر خسرو )
تو جارہا ہے اور مجھے گریہ آرہا ہے۔ایک ساعت بیٹھ کہ باران گزر جائے
 
Top