محمد وارث

لائبریرین
صائب تبریزی کی ایک خوبصورت غزل کے چند اشعار اور انکا ترجمہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:


موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکے است
ھر چند پردہ ھاست مخالف، نوا یکے است


موجِ شراب اور موجِ آب حیات (اصل میں) ایک ہی ہیں۔ ہر چند کہ (ساز کے) پردے مخلتف ہو سکتے ہیں لیکن (ان سے نکلنے والی) نوا ایک ہی ہے۔


خواھی بہ کعبہ رو کن و خواھی بہ سومنات
از اختلافِ راہ چہ غم، رھنما یکے است


چاہے کعبہ کی طرف جائیں یا سومنات کی طرف، اختلافِ راہ کا غم (نفرت؟) کیوں ہو کہ راہنما تو ایک ہی ہے۔

ایں ما و من نتیجۂ بیگانگی بود
صد دل بہ یکدگر چو شود آشنا، یکے است


یہ میرا و تیرا (من و تُو کا فرق) بیگانگی کا نتیجہ ہے۔ سو دل بھی جب ایک دوسرے کے آشنا ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ہی ہوتے ہیں (ایک ہی بن جاتے ہیں)۔


درِ چشم پاک بیں نبود رسمِ امتیاز
در آفتاب، سایۂ شاہ و گدا یکے است


نیک (منصف؟) نگاہیں ایک کو دوسرے سے فرق نہیں کرتیں (کہ) دھوپ میں بادشاہ اور فقیر کا سایہ ایک (جیسا ہی) ہوتا ہے۔


بے ساقی و شراب، غم از دل نمی رود
این درد را طبیب یکے و دوا یکے است


ساقی اور شراب کے بغیر غم دل سے نہیں جاتا کہ اس درد (دردِ دل) کا طبیب بھی ایک ہی ہے اور دوا بھی ایک۔


صائب شکایت از ستمِ یار چوں کند؟
ھر جا کہ عشق ھست، جفا و وفا یکے است

صائب یار کے ستم کی شکایت کیوں کریں کہ جہاں جہاں بھی عشق ہوتا ہے وہاں جفا اور وفا ایک ہی (چیز) ہوتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دِلا باز ایں ھمہ افسردگی چیست؟
بہ عہدِ گُل، چنیں پژمردگی چیست؟


اے دل یہ ہر وقت کی افسردگی کیوں ہے، اس موسمِ گل میں یہ پژمردگی کیوں ہے؟

اگر آزردۂ از توبۂ دوش
دگر بتواں شکست، آزردگی چیست؟


اگر تو کل کی توبہ کی وجہ سے آزردہ ہے تو اسے پھر توڑ دے، (اس میں) پریشانی کیا ہے؟

(شیخ بہائی)
 

محمد وارث

لائبریرین
دل خاکِ سرِ کوئے وفا شُد، چہ بجا شُد
سر در رہِ تیغِ تو فدا شُد، چہ بجا شُد


(عبدالقادر بیدل)

(ہمارا) دل، کوئے وفا کی خاک ہوگیا، کیا خوب ہوا، اور سر تیری راہ میں تیری تلوار پر فدا ہوگیا، کیا خوب ہوا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چوں دردِ عاشقی، بجہاں ھیچ درد نیست
تا دردِ عاشقی نَچَشَد، مرد، مرد نیست


جیسا عشق کا درد ہے، دنیا میں کوئی اور درد ویسا نہیں ہے (لیکن) جب تک کوئی مرد (انسان) دردِ عشق چکھ نہ لے وہ مرد (انسان) نہیں ہے۔


آغازِ عشق یک نَظَرش با حلاوتست
انجامِ عشق جز غم و جز آہِ سرد نیست


عشق کا آغاز، اس (محبوب) کی ایک نظر کے ساتھ کتنا شیریں ہوتا ہے، لیکن عشق کا انجام بجز غم اور بجز سرد آہ کے کچھ نہیں ہے۔

(حکیم سنائی غزنوی)
 

محمد وارث

لائبریرین
ما را دماغِ جنگ و سرِ کارزار نیست
ورنہ دلِ دو نیم کم از ذوالفقار نیست


(صائب تبریزی)

ہمیں جنگ کا دماغ نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے سر میں لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کا سودا سمایا ہے وگرنہ ہمارا دو ٹکڑے (ٹکڑے ٹکڑے) دل (اللہ کی مہربانی سے) ذوالفقار سے کم نہیں ہے (ذوالفقار: مہروں والی تلور، حضرت علی (ع) کی تلوار کا نام)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گماں مبر کہ ستم کردی و وفا نہ کُنَم
بیا بیا کہ ہماں شوق و آرزو باقی است


یہ گمان نہ کر کہ تُو نے مجھ پر ستم کیئے ہیں تو میں وفا نہیں کرونگا، آجا، آجا کہ (اب بھی میرا) وہی شوق اور وہی آرزو باقی ہیں۔


فدائے صُورَتِ زیبا رُخے کہ فانی نیست
نثارِ حُسنِ حسینے کہ حُسنِ اُو باقی است


میں اس خوبصورت چہرے والی صورت پر فدا ہوں کہ (جسکی خوبصورتی) فانی نہیں ہے، میں اس حسین کے حسن پر قربان ہوں کہ جسکا حسن باقی (رہنے والا) ہے۔

(اکبر الٰہ آبادی - دیوان)
 

محمد وارث

لائبریرین
شبِ قدرست و طے شد نامہ ہَجر
سَلامُ ُ ھیّ َ حتَّی مطلَعِ الفجر


شب قدر ہے اور ہجر کا نامہ لپٹ گیا ہے، سلامتی ہے جب تک فجر طلوع ہو۔

دِلا در عاشقی ثابت قدم باش
کہ در ایں رہ نباشد کارِ بے اجر


اے دل عاشقی میں ثابت قدم رہ، کہ اس راہ میں کوئی کام بلا اجر نہیں ہے۔

من از رندی نخواہم کرد توبہ
ولو آذیتَنی بالہُجر و الہَجر


میں رندی سے توبہ نہ کروں گا، اگرچہ تو مجھے اذیت دے برا بھلا کہہ کر (ہُجر)، یا جدائی سے (ہَجر)۔

(حافظ شیرازی)
 

محمد وارث

لائبریرین
در طبع دگر رہ ندَہَم ہیچ ہوس را
گر حسرتِ اشراقِ فلاطوں روَد از دل


میں اب اپنی طبیعت (دل) میں کسی ہوس (خواہش) کو دوبارہ راہ (جگہ) نہیں دونگا، اگرچہ کہ افلاطون کی اشراقی (مثالی) دنیا کی حسرت بھی دل سے مٹ ہی کیوں نہ جائے (یعنی افلاطون کی مثالی دنیا دیکھنے کی حسرت ہے لیکن ان خواہشوں نے وہ تنگ کیا ہے کہ اگر یہ بھی دل سے چلی جائے تو کوئی غم نہیں کہ اب میں اپنے دل میں کسی خواہش کو نہیں آنے دونگا)


غالب نبَوَد کشتِ مرا پارۂ ابرے
جز دودِ فغانے کہ بہ گردوں روَد از دل


غالب میری کھیتی (کے مقدر) میں بادل کا کوئی ٹکڑا نہیں ہے، سوائے میری آہ و فغاں کے دھوئیں (بادل) کے جو دل سے نکل کر آسمان تک جاتا ہے۔

(غالب دھلوی)
 

محمد وارث

لائبریرین
گاھے کہ سنگِ حادثہ از آسماں رَسَد
اوّل بلا بہ مرغِ بلند آشیاں رَسَد


(ابو طالب کلیم کاشانی)

جب کبھی بھی حادثے (مصیبت) کا پتھر آسمان سے برستا ہے تو سب سے پہلی افتاد بلند و بالا آشیانے والے پرندے پر پڑتی ہے (ہم خاکساروں کو کیا)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نیچے دی گئی رباعی شاہ شجاع کی ہے۔

شاہ شجاع شیراز کا حکمران تھا اور حافظ شیرازی کے عہد میں علم و فن کا پشت پناہ۔ دراصل شاہ شجاع کے والد امیر مبارز الدین نے شیراز کے عیش پرور اور راگ و رنگ کے رسیا والی شاہ ابو اسحق کو شکست دیکر شیراز پر قبضہ کیا تھا اور ابو اسحق کو قتل کر دیا تھا۔

امیر مبارز الدین انتہائی کٹر حکمران تھا جس نے پورے شیراز میں محتسب مقرر کر دیئے اور تمام مے خانے بند کروا دیے تھے۔ حافظ شیرازی نے تو اس سختی کی مذمت میں درد ناک غزلیں کہی ہی ہیں، مبارز الدین کا بیٹا شاہ شجاع بھی اپنے باپ کی اس سختی پر بلبلا اٹھا اور یہ رباعی کہی:

در مجلسِ دہر ساز مستی پست است
نہ چنگ، نہ قانون و نہ دف بر دست است
رنداں ہمہ ترکِ مے پرستی کردند
جز محتسبِ شہر کہ بے مے مست است


دنیا کی مجلس میں مستی کا ساز پست (ہو گیا) ہے، ہاتھوں میں نہ چنگ ہے، نہ قانون ہے اور نہ دف ہے (تینوں نام سازوں کے ہیں)، سب رندوں نے مکمل طور ہر مے کشی ترک کر دی ہے، ماسوائے محتسبِ شہر کے کہ وہ بغیر مے کے ہی مست ہے۔

(تمام تفصیلات اور رباعی مولانا شبلی نعمانی کی شہرۂ آفاق کتاب 'شعر العجم' جلد دوم سے لی ہیں، مولانا نے اس رباعی کی توصیف بھی فرمائی ہے)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ز ہر کلام، کلامِ عرب فصیح تر است
بجز کلامِ خموشی کہ افصح از عرب است


(صائب تبریزی)

عرب کا کلام، ہر کلام سے فصیح تر (خوش بیاں، شیریں) ہے ماسوائے کلامِ خموشی (خاموشی) کے کہ وہ عرب کے کلام سے بھی فصیح ہے (خاموشی کی فضیلت بیان فرمائی ہے)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اہلِ ہمّت را نباشد تکیہ بر بازوئے کس
خیمۂ افلاک بے چوب و طناب استادہ است


(ناصر علی سرھندی)

ہمت والے لوگ کسی دوسرے کے زورِ بازو پر تکیہ نہیں کرتے، (دیکھو تو) آسمانوں کا خیمہ چوب اور طنابوں (وہ لکڑیاں اور رسیاں جس سے خیمے کو گاڑتے ہیں) کے بغیر ہی کھڑا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بوئے آں دُود کہ امسال بہ ہمسایہ رسید
ز آتشی بُود کہ در خانۂ من پار گرفت


(اوحدی مراغی)

جس دھوئیں کی بُو اس سال ہمسایہ تک پہنچی ہے وہ اس آگ کی ہے جس نے پچھلے سال میرے گھر کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
می رَوی با غیر و می گوئی بیا عرفی تو ھم
لطف فرمودی بروکیں پائے را رفتار نیست

(عرفی شیرازی)

(تم) غیر کے ساتھ جا رہے ہو اور کہتے ہو کہ عرفی تو بھی آ جا، آپ نے عنایت فرمائی لیکن میرے پاؤں میں چلنے کی طاقت نہیں ہے۔
 

mfdarvesh

محفلین
روز محشر کہ جاں گداز بود
اولین پرسش نماز بود

اگر غلطی ہوئی تو درستکی کر دیجئے گا
 

محمد وارث

لائبریرین
عشقت نہ سرسری ست کہ از سر بدَر شَوَد
مہرت نہ عارضی ست کہ جائے دگر شود


(تیرا عشق سرسری نہیں ہے کہ ہمارے سر سے نکل جائے گا، تیری محبت عارضی نہیں ہے کہ کسی دوسری جگہ چلی جائے گی)

دردیست دردِ عشق کہ اندر علاجِ او
ہر چند سعی بیش نمائی بَتَر شود


دردِ عشق ایسا درد ہے کہ اسکے علاج میں تو جس قدر زیادہ کوشش کرے گا (حال) بدتر ہو جائے گا۔

حافظ سر از لحد بدر آرد بپائے بوس
گر خاکِ او بپائے شما پے سپر شود

(حافظ پاؤں چومنے کیلیئے اپنا سر قبر سے باہر نکال لے گا، اگر اسکی خاک کبھی آپ کے پاؤں سے پامال ہوگئی)

(حافظ شیرازی)
 
عشقت نہ سرسری ست کہ از سر بدَر شَوَد
مہرت نہ عارضی ست کہ جائے دگر شود

(تیرا عشق سرسری نہیں ہے کہ ہمارے سر سے نکل جائے گا، تیری محبت عارضی نہیں ہے کہ کسی دوسری جگہ چلی جائے گی)

دردیست دردِ عشق کہ اندر علاجِ او
ہر چند سعی بیش نمائی بَتَر شود

دردِ عشق ایسا درد ہے کہ اسکے علاج میں تو جس قدر زیادہ کوشش کرے گا (حال) بدتر ہو جائے گا۔

حافظ سر از لحد بدر آرد بپائے بوس
گر خاکِ او بپائے شما پے سپر شود

(حافظ پاؤں چومنے کیلیئے اپنا سر قبر سے باہر نکال لے گا، اگر اسکی خاک کبھی آپ کے پاؤں سے پامال ہوگئی)

(حافظ شیرازی)

بہت خوب ۔ ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
زاں پیشتر کہ عالَمِ فانی شَوَد خراب
ما را بہ جامِ بادۂ گلگوں خراب کُن


(حافظ شیرازی)


منظوم ترجمہ ڈاکٹر خالد حمید

قبل اس کے سارا عالَمِ فانی خراب ہو
مجھ کو بہ جامِ بادۂ گلگوں خراب کر
 

فرحت کیانی

لائبریرین
درِ چشم پاک بیں نبود رسمِ امتیاز
در آفتاب، سایۂ شاہ و گدا یکے است


نیک (منصف؟) نگاہیں ایک کو دوسرے سے فرق نہیں کرتیں (کہ) دھوپ میں بادشاہ اور فقیر کا سایہ ایک (جیسا ہی) ہوتا ہے۔


بہت خوب وارث ۔۔۔ معذرت آپ کی تھریڈ کا تسلسل توڑ رہی ہوں لیکن صرف شکریہ کا بٹن مجھے کافی نہیں لگا۔۔۔ مجھے فارسی زبان نہیں آتی اور اگر آپ اس سلسلے کو شروع نہ کرتے تو اتنے دل نشیں کلام سے مجھ جیسے اور بھی کتنے لوگ محروم رہ جاتے۔۔۔ دلی شکریہ قبول کیجئے :)
خوش رہئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
درِ چشم پاک بیں نبود رسمِ امتیاز
در آفتاب، سایۂ شاہ و گدا یکے است

نیک (منصف؟) نگاہیں ایک کو دوسرے سے فرق نہیں کرتیں (کہ) دھوپ میں بادشاہ اور فقیر کا سایہ ایک (جیسا ہی) ہوتا ہے۔


بہت خوب وارث ۔۔۔ معذرت آپ کی تھریڈ کا تسلسل توڑ رہی ہوں لیکن صرف شکریہ کا بٹن مجھے کافی نہیں لگا۔۔۔ مجھے فارسی زبان نہیں آتی اور اگر آپ اس سلسلے کو شروع نہ کرتے تو اتنے دل نشیں کلام سے مجھ جیسے اور بھی کتنے لوگ محروم رہ جاتے۔۔۔ دلی شکریہ قبول کیجئے :)
خوش رہئے۔


شکریہ فرحت۔

صائب تبریزی کی یہ غزل واقعی بہت خوبصورت ہے، لا جواب۔

ویسے فارسی تو مجھے بھی نہیں آتی لیکن اسکی محبت ہی کچھ ایسی ہے کہ مجھے کھینچتی ہی چلی جا رہی ہے :) اور مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ احباب اس تھریڈ کو پڑھتے ہیں :)

آپ کی نیک تمناؤں کیلیئے بہت شکریہ آپ کا، نوازش۔
 
Top