محمد وارث

لائبریرین
صائب دوچیز می شکند قدرِ شعر را
تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس

مغل صاحب اس کا کچھ مطلب بھی تو سمجھائیے - میرے تو اوپر سے گزر گیا - :confused:

فرخ صاحب اس شعر کا ترجمہ شاید کچھ یوں ہوگا کہ

اے صائب، دو چیزیں (کسی) شعر کی قدر و قیمت کر دیتی ہیں، ایک (سخن) ناشناس کی پسندیدگی (شعر کی داد دینا) اور دوسری سخن شناس کا خاموش رہنا (شعر کی داد نہ دینا)۔

اور کیا خوب کہا ہے صائب تبریزی نے واہ واہ، سبحان اللہ (علم نہیں کہ صائب میری اس داد کو اول الذکر کے زمرے میں رکھیں گے یا آخر الذکر کے :) )
 

محمد وارث

لائبریرین
موجیم کہ آسودگیِ ما عدمِ ماست
ما زندہ بہ آنیم کہ آرام نگیریم


(ابو طالب کلیم کاشانی)

ہم موج (کی طرح) ہیں کہ ہمارا سکون ہمارا عدم (مٹ جانا) ہے، ہم اسی وجہ سے زندہ ہیں کہ آرام (سکون) نہیں کرتے۔ یعنی زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دل کہ جمع است، غم از بے سر و سامانی نیست
فکرِ جمعیّت اگر نیست، پریشانی نیست


(نظیری نیشاپوری)

دل (خاطر) جمع ہے، سو بے سر و سامانی کا کوئی غم نہیں ہے، اگر جمع کرنے کی فکر نہ ہو تو (دنیا میں) کوئی پریشانی نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تُو اے پیماں شکن امشب بما باش
کہ ما باشیم فردا یا نہ باشیم


(فیضی)

اے پیماں شکن آج کی رات ہمارے ساتھ رہ، کہ کل ہم ہوں یا نہ ہوں۔ :(
 

محمد وارث

لائبریرین
انار کلی اور شہزادہ سلیم کی محبت کے متعلق متضاد آرا پائی جاتی ہیں اور کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا لیکن اس محبت کے وجود کے معترفین نے اس کے ثبوت میں شواہد بھی پیش کیے ہیں اور اسی قسم کا ایک ثبوت یہ شعر بھی ہے جس کے متعلق قیاس ہے کہ یہ شہزادہ سلیم کا شعر ہے جو اس نے انار کلی کی قبر پر لکھوایا تھا:
تا قیامت شکر گویم کردگارِ خویش را
آہ گر من باز بینم روٕے یارِ خویش را


میں قیامت تک خدا کا شکر ادا کرتا
اگر میں اپنے محبوب کے چہرہ کا دیدار کر سکتا


آج کلیاتِ سعدی کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ شعر اچانک سامنے آ گیا۔ یہ کلیاتِ سعدی (نظم و نثر)، 'شرکت نسبی اقبال و شرکاء' تہران کے شائع کردہ ہیں اور اسکی تصیح مشہور ادبی محقق محمد علی فروغی نے کی ہے، شعر کچھ یوں ہے:

وہ کہ گر من بازبینم روئے یارِ خویش را
تا قیامت شکر گویم کردگارِ خویش را


شیخ سعدی شیرازی کی سولہ اشعار پر مشتمل خوبصورت غزل کا یہ مطلع ہے، مکمل غزل اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شیخ مستغنی بدین و برہَمن مغرورِ کفر
مستِ حُسنِ دوست را با کفر و ایماں کار نیست


(منوہر توسنی)

شیخ دین سے بے نیاز ہے اور برہمن اپنے کفر پر مغرور ہے (لیکن) جو (عاشق) دوست کے حسن میں مست ہے اسے کفر و اسلام سے کوئی کام (تعلق) نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے اپنی کتاب 'آبِ کوثر' میں شیخ جلال خان جمالی کے ایک قصیدے کے سات اشعار لکھے ہیں (یہ قصیدہ انہوں نے اپنے مرشد کی مدح میں لکھا ہے اور مذکورہ اشعار تشبیب کے اشعار ہیں)، وہی پیش کر رہا ہوں اور ترجمہ کرنے کی جرأت بھی کر رہا ہوں کہ یہ اشعار مجھے بہت پسند آئے، اسلیئے اگر ترجمے میں کوئی غلطی ہو تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔


ز آسماں گر تیغ بارَد سر نخارَد اہلِ دل
نیشِ سوزن بر دلِ نامرد زخم خنجر است


اگر آسمان تلوار بھی چلا دے تو اہلِ دل سر نہیں اٹھاتے (اور) نامرد کے دل کیلیئے سوئی کی چھبن بھی خنجر کے زخم کی طرح ہوتی ہے۔


مردِ نتواں گفت اُو را کُو تن آراید بہ زر
زینتِ مرداں ست آہن، زر زناں را زیور است


اسے مردِ ناتواں کہو (کہتے ہیں) کہ جس کا جسم (مال و) زو سے سجا ہوا ہے کہ مردوں کی زینت آہن (لوہا) ہے اور زر عورتوں کیلیئے زیور ہے۔


مرد را کردار عالی قدر گرداند نہ نام
ہر کسے کُو را علی نام است نے چُوں حیدر است


کسی بھی شخص کو اسکا کردار عالی قدر بناتا ہے نہ کے اسکا نام، ہر وہ جس کا نام علی ہو، حیدر (ر) کی طرح نہیں ہے۔


از معانی افتخارِ سینۂ عالم بوَد
عزّتِ معدن نہ از کوہ است بل از گوہر است


مطالب اور معانی ہی سینۂ عالم کا افتخار ہوتے ہیں (نا کہ بلند و بانگ لاتعداد الفاظ)، کہ معدن (کان) کی عزت (بلند و بالا) پہاڑ سے نہیں بلکہ گوہر سے ہوتی ہے۔


سُرخیِ روئے مُنافق لالہ را ماند کہ اُو
اسود القلب است اگرچہ رنگِ رویش احمر است


منافق کے چہرے کی سرخی لالہ (کے پھول) کی مانند ہوتی ہے کہ اسکا (لالہ کا) دل سیاہ ہوتا ہے اگرچہ اسکا رخ کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔


نے کسے کاہل بیاباں شُد دمِ وحدت زند
خونِ ہر آہوئے صحرائی نہ مشکِ اذفر است


کسی کاہل سے بیاباں ایک ہی لمحے میں عبور نہیں ہو سکتا (وہ تیز رفتار نہیں ہوسکتا) کہ ہر صحرائی ہرن کا خون اذفر کی خوشبو نہیں ہوتا (مشکِ اذفر: ایک خاص خوشبو ہے جو ایک خاص ہرن سے نکلتی ہے)


اصلِ ایماں در نیابی در فقیہِ بے اصول
کامتحانِ دینِ او در احتضارِ محضر است


ایمان کی اصل کسی بے اصول فقیہ سے نہیں ملے گی کہ اس کے دین کا امتحان تو موت کے پروانوں میں ہے (کہ لوگوں کی موت کے فیصلے اور کفر و ایمان کے فتوے اس کی اپنی خواہشات و پسند و ناپسند پر مبنی ہوتے ہیں)
 

محمد وارث

لائبریرین
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم


(میں نے اس سے کہا کہ تو مشکی ہے یا عبیری - دونوں خوشبو کی قسمیں ہیں - کہ تیری دل آویز خوشبو سے میں مَیں مست ہوا جاتا ہوں)

بگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مدّتے با گُل نشستم


(اس نے کہا میں تو ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گُل کے ساتھ نشست رہی ہے)

جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم


(یہ تو ہمنشیں کے جمال کا اثر ہے، وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے)

(سعدی شیرازی)
 

محمد وارث

لائبریرین
ما و خاکِ رہگذر بر فرقِ عریاں ریختن
گُل کسے جوید کہ او را گوشۂ دستار ہست


(غالب دھلوی)

ہم ہیں اور اپنے ننگے سر (فرقِ عریاں) پر رہگزر کی خاک ڈالنا، پُھول تو وہ تلاش کرے کہ جس کے پاس دستار ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حاصلم زیں مزرعِ بے بر نمی دانم چہ شُد
خاک بودم، خوں شدم، دیگر نمی دانم چہ شُد



اس بے ثمر کھیتی (دنیا) سے نہیں جانتا مجھے کیا حاصل ہوا، خاک تھا، خوں ہو گیا اور اسکے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ کیا ہوا۔


دی من و صوفی بہ درسِ معرفت پرداختیم
از رقم گم کرد و من دفتر نمی دانم چہ شُد



کل (روزِ ازل؟) میں اور صوفی معرفت کا سبق لے رہے تھے، اُس نے لکھا ہوا گم کر دیا اور میں نہیں جانتا کہ وہ درس (تحاریر، دفتر) کیا تھا۔


(ابوالمعانی عبدالقادر بیدل)
 

محمد وارث

لائبریرین
بَگو حدیثِ وفا، از تو باوَرست، بَگو
شَوَم فدائے دروغے کہ راست مانندست


(مُلا نُورالدین ظہوری)

(مجھ سے تُو) وفا کی باتیں کر، تیری ہر بات کا مجھے اعتبار ہے، (اسلیئے) کہتا رہ، قربان جاؤں اس جھوٹ پر کہ جو (تیرے منہ سے) سچ کی طرح لگتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
علامہ اقبال کی کتاب پیامِ مشرق سے ایک خوبصورت نظم پیشِ خدمت ہے۔

محاورہ مابین خدا و انسان

خدا
جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی


میں نے یہ جہان ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا، تو نے اس میں ایران و توران و حبش بنا لیے۔


من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی


میں نے خاک سے خالص فولاد پیدا کیا تھا، تو نے اس سے شمشیر و تیر و توپ بنا لیے۔


تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را


تو نے اس سے چمن کے درخت کاٹنے کیلیے کلہاڑا بنا لیا، نغمہ گاتے ہوئے پرندوں کیلیے قفس بنا لیا۔



انسان
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم


تو نے رات بنائی میں نے چراغ بنا لیا۔ تو نے مٹی بنائی میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔


بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم


تو نے بیابان، پہاڑ اور میدان بنائے۔ میں نے اس میں خیابان، گلزار اور باغ بنا لیے۔


من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم


میں وہ ہوں کہ پتھر سے آئینہ/شیشہ بناتا ہوں، میں وہ ہوں کہ زہر سے شربت/تریاق بناتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خمارِ ما و درِ توبہ و دلِ ساقی
بیک تبسّمِ مینا، شکست و بست و کُشاد


(مخلص خان عالمگیری)

ہمارا خمار، توبہ کا دروازہ اور ساقی کا دل، مینا کے ایک تبسم سے، ٹوٹ گیا (خمار) اور بند ہو گیا (توبہ کا دروازہ) اور کِھل اٹھا (دلِ ساقی)۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے اس شعر میں مستعمل صنعتِ لفّ (لپٹنا، لپیٹنا) و نشر (کھولنا) کی خصوصی توصیف فرمائی ہے۔ (غبارِ خاطر)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ھرگَزَم امّید و بیم از وصل و ہجرِ یار نیست
عاشقم عاشق مرا با وصل و ہجراں کار نیست


(مجھے ہر گز بھی وصال یار کی امید یا اسکے ہجر کا خوف نہیں ہے کہ میں عاشق ہوں اور عاشقوں کو وصال اور ہجر سے کیا کام)۔


سرّ ِ عشقِ یار با بیگانگاں ھاتف مَگو
گوشِ ایں ناآشنایاں محرَمِ اسرار نیست

(اے ھاتف، عشقِ یار کے راز بیگانوں سے مت کہہ کہ ان ناآشناؤں کے کان محرمِ اسرار نہیں ہیں)۔


(ھاتف اصفہانی)
 

محمد وارث

لائبریرین
گر من از عشقِ تو دیوانہ شَوَم باکی نیست
کہ چو من شیفتہ در کوئے تو بسیاری ھست


(سیف فرغانی)

اگر میں تیرے عشق میں دیوانہ ہو گیا ہوں تو اس میں کوئی شرم نہیں ہے، کہ تیرے کوچے میں میری طرح کے شیفتہ بہت سے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مولانا ابو الکلام آزاد نے "غبارِ خاطر" میں امیر الامرا شریف خان شیرازی کا یہ شعر لکھا ہے:

بگذر مسیح، از سرِ ما کُشتگانِ عشق
یک زندہ کردنِ تو بصد خوں برابرست


(اے مسیح، ہم عشق کے ہلاک شدگان کر سر پر سے گذر جا کہ تیرا ایک مردہ کو زندہ کرنا (کسی کے ارمانوں کے) سو خون کرنے کے برابر ہے۔



مالک رام دہلوی نے غبارِ خاطر کے حواشی میں مغل شہنشاہ جہانگیر (جو کہ شاعر بھی تھا) کی کتاب "توزکِ جہانگیری" کے حوالے سے اس شعر کے متعلق مندرجہ ذیل واقع لکھا ہے۔

"جہانگیر لکھتا ہے کہ جب یہ شعر میرے سامنے پڑھا گیا تو بے اختیار میری زبان پر یہ شعر آ گیا:

از من متاب رُخ کہ نِیَم بے تو یک نَفَس
یک دل شکستنِ تو بصد خوں برابرست


(میری طرف سے منہ مت پھیر کہ تیرے بغیر میں ایک لحظہ بھی نہیں ہوں، تیرا ایک دل کو توڑنا، سو خون کرنے کے برابر ہے۔ نِیَم - نہ ام کا مخفف، میں نہیں ہوں)

اس پر دربار کے سب موزوں طبع نے ایک ایک شعر کہہ کر پیش کیا، ان میں ملّا علی احمد مُہرکَن کا یہ شعر بھی تھا:

اے محتسب ز گریۂ پیرِ مغاں بترس
یک خم شکستنِ تو بصد خوں برابرست"


(اے محتسب، پیرِ مغاں کی آہ و زاری پر ترس کھا کہ تیرا ایک جام کو توڑنا، سو خون کرنے کے برابر ہے)۔


(اشعار کا ترجمہ کرنے کی جسارت خود ہی کی ہے اسلیئے اگر کوئی غلطی نظر آئے تو معذرت خواہ ہوں۔)
 

پر امید

محفلین
اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
وین حرفِ معما نہ تو خوانی و نہ من
ہست از پسِ‌پردہ گفت و گوئی من و تو
چوں پردہ بر افتند نہ تو مانی و نہ من

خیام

ترجمہ

ازل کے بھید نہ تم جانتے ہو نہ میں، اس پہیلی کے الفاظ نہ تم پڑھ سکتے ہو نہ میں
پردے کے پار سے میں اور تم باتیں کر رہے ہیں۔ جب پردہ ہٹے گا نہ تم رہوگے نہ میں
 

محمد وارث

لائبریرین
نگویَمَت کہ ہمہ سال مے پرستی کُن
سہ ماہ مے خور و نُہ ماہ پارسا می باش


میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ سارا سال مے پرستی کرو، تین مہینے شراب پیو اور نو مہینے پارسا بن۔

چو غنچہ گرچہ فروبستگی ست کارِ جہاں
تو ہمچو بادِ بہاری گرہ کشا می باش


دنیا کا کام اگرچہ غنچے کی طرح (دلوں میں) گرہ لگانا ہے لیکن تُو موسمِ بہار کی طرح گرہ کو کھولنے والا بن۔

مریدِ طاعتِ بیگانگاں مشو حافظ
ولے معاشرِ رندانِ آشنا می باش

حافظ، غیروں کی بندگی کا طالب مت بن، لیکن دوست رندوں کا ہم صبحت (ضرور) بن۔

(حافظ شیرازی)
 

محمد وارث

لائبریرین
عمریست کہ افسانۂ منصور کُہن شُد
من از سرِ نو جلوہ دہَم دار و رسن را


(سرمد شہید)

مدت گزری کہ منصور کا قصہ پرانا ہو گیا، میں نئے سرے سے دار و رسن پر جلوہ افروز ہونگا۔
 
Top