شاکرالقادری

لائبریرین
خیام
آمد س۔۔۔۔۔حری ندا ز میخانہ ما
کای رن۔۔۔۔د خراباتی و دیوانہ ما
برخیز ک۔ہ پر کنیم پیمانہ ز می
زان پ۔یش کہ پر کنند پیمانہ ما
شاکرالقادری
مجھ کو میخ۔۔۔۔۔۔۔انے سے وقت صبح آئی یہ ندا
کھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ول آنکھیں اے مرے رند خراباتی ذرا
اپنے پیمانوں کو ب۔۔ھر لیں بادہ گل گوں سے ہم
ورنہ کچھ دم میں چھلک جائے گا ساغر عمر کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ہر گنج سعادت کہ خداداد بحافظ
از یمن دعائے شب و ورد سحری بود
از خواجہ حافظ شیرازی

اللہ ﴿رب العزت﴾ نے حافظ ﴿شیرازی﴾ کو سعادت کا جو بھی خزانہ عطا فرمایا
وہ ﴿محض﴾ دعائے ﴿نیم﴾ شبی اور ذکرِ صبحگاہی کی برکت سے تھا
 

محمد وارث

لائبریرین
اگرچہ زیبِ سرش افسر و کلاہے نیست
گدائے کوئے تو کم تر ز پادشاہے نیست


اگرچہ اُسکے سر پر تاج و کلاہ نہیں ہے (لیکن) تیرے کوچے کا گدا (کسی) بادشاہ سے کم نہیں ہے۔

گناہِ ما چہ نویسند کاتبانِ عمل
نصیبِ ما ز جہانِ تو جز نگاہے نیست


عمل لکھنے والے ہمارے گناہ کس لیئے لکھ رہے ہے کہ تیرے جہان میں ہمارا نصیب تو ایک نگاہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

بیا کہ دامنِ اقبال را بدست آریم
کہ اُو ز خرقہ فروشانِ خانقاہے نیست


آ کہ اقبال کے دامن کو تھام لیں کہ وہ خانقاہوں کے خرقہ فروشوں میں سے نہیں ہے۔


(اقبال لاھوری)
 

الف نظامی

لائبریرین
ان اشعار کا ترجمہ کیا ہوگا۔
01.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
نظامی صاحب ان اشعار کی جو کچھ کچھ مجھے سمجھ آئی ہے بیان کرتا ہوں۔


نسیمِ زلفِ اُو خجلت دہَد صد نافۂ چیں را
کنَد با غمزۂ چشمش بغارت ملکِ دل دیں را

اسکی زلفوں کی خوشبو چین (و تاتار) کے سینکڑوں آہوؤں کی مشکِ نافہ کو شرمندہ کر دیتی ہے، اسکی آنکھوں کا غمزہ ملکِ دل و دین (کی سلطنت) کو غارت کر دیتا ہے۔


اگرچہ عالم افروزند خورشید و قمر لیکن
رُخش شرمندہ سازد اوحدی آں را و ھم ایں را

اگرچہ خورشید و قمر عالم کو ضیا پاش کرتے ہیں لیکن اے اوحدی اس کا چہرہ اِس کو اور اُس کو (سورج اور چاند کو) بھی شرمندہ کر دیتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُوئے نِکو معالجۂ عمرِ کوتہ ست
ایں نسخہ از علاجِ مسیحا نوشتہ ایم


(نظیری نیشاپوری)

کسی نیک آدمی کا چہرہ (دیدار) عمرِ کوتاہ کا علاج ہے، یہ نسخہ میں نے مسیحا کے علاج (نسخوں) میں سے لکھا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شہیدِ چشمِ تو گشتم کہ خوش سُخَن گوے ست
ہلاکِ طرزِ لبَم شو کہ پُر خموش آمد


میں تیری آنکھوں کا شہید ہوں کہ کیسی میٹھی میٹھی باتیں کرتی ہیں، تُو میرے لبوں کے انداز پر فدا ہو کہ (تیری جفاؤں پر بھی) کس قدر خاموش ہیں۔

مَپُرس وجہ سوادِ سفینہ ہا غالب
سخن با مرگِ سخن رس سیاہ پوش آمد


غالب، میری بیاضوں کی سیاہی کا سبب مت پوچھ، (کہ میری) شاعری سخن شناس انسانوں کی موت پر سیاہ (ماتمی) لباس پہنے ہوئے ہے۔


(غالب دھلوی)
 

محمد وارث

لائبریرین
ان اشعار بیدل کا کیا مطلب ہوگا۔


نظامی صاحب جو کچھ مجھے سمجھ آئی ہے بیان کرتا ہوں۔ اور یہ رباعی لگ رہی ہے مجھے، بحر حال

چو محو عشق شدی رھنما چہ می جوئی
بہ بحر غوطہ زدی ناخدا چہ می جوئی
بہ ذوقِ دل نفسی طوفِ خویش کن بیدل
تو کعبہ در بغلی جا بجا چہ می جوئی

جب تو عشق میں محو ہو گیا تو پھر راہنما کیا ڈھونڈتا ہے، جب دریا میں غوطہ لگا لیا تو پھر ناخدا کی تلاش کس لیے، بیدل ذوق دل کے ساتھ اپنا ہی طواف کر، کعبہ تو تیری بغل میں ہے جگہ جگہ کیا ڈھونڈتا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
رباعی کا لفظ عربی کے لفظ ربع سے نکلا ہے جسکا مطلب "چار" ہوتا ہے - چارمصرعوں کی ایک رباعی ہوتی ہے اور رباعی کے چاروں مصرعوں کا موضوع ایک ہی ہوتا ہے جبکہ شعر دومصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے اور غزل میں ہر شعر کا الگ موضوع ہوتا ہے یعنی غزل میں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا ہے -
 

فاتح

لائبریرین
فرخ صاحب کی وضاحت کے بعد گنجائش تو نہیں بچتی لیکن ایک عرض کرنا چاہوں گا کہ رباعی اور غزل کے اشعار میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ رباعی کے اپنے اوزان ہیں جن میں رباعی کہی جا سکتی ہے۔ یہ صرف بحر ہزج میں لکھی جا سکتی ہے۔ اور اس کے کل چوبیس اوزان ہیں جو بحر ہزج ہی کی فروع ہیں۔ اگر ان چوبیس اوزان کے علاوہ کسی وزن میں لکھی جائے تو وہ رباعی نہیں ہو گی۔
اور رباعی میں ایک اجازت یہ بھی ہے یہ اس کے چاروں مصرعے ان چوبیس اوزان میں سے کسی ایک وزن پر بھی ہو سکتے ہیں اور اگر شاعر چاہے تو ہر مصرع انہی چوبیس اوزان کے اندر رہتے ہوئے مختلف وزن کا بھی ہو سکتا ہے۔

رباعی کو دو بیتی یا ترانہ بھی کہا جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

با مردمِ نیک بد نمی باید بود
در بادیہ دیو و دَد نمی باید بود
مفتونِ معاشِ خود نمی باید بود
مغرورِ بعقلِ خود نمی باید بود


(حافظ شیرازی)

نیک لوگوں کے ساتھ برا نہیں بننا چاہیئے، جنگل میں شیطان اور درندہ نہیں بننا چاہیئے، اپنی روزی کا دیوانہ نہیں بننا چاہیئے، (اور) اپنی عقل پر مغرور نہیں بننا چاہیئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شمع خود را می گدازَد درمیانِ انجمن
نورِ ما چوں آتشِ سنگ از نظر پنہاں خوش است


(میر رضی دانش)

شمع انجمن میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے (اور صبح تک ختم ہو جاتی ہے)، ہمارا نور آتشِ سنگ کی طرح نظر سے پنہاں ہے لیکن اچھا ہے (کہ دائمی ہے)۔

(بحوالہ 'کفر و اسلام'، بانگِ درا)
 

الف نظامی

لائبریرین
رباعی کا لفظ عربی کے لفظ ربع سے نکلا ہے جسکا مطلب "چار" ہوتا ہے - چارمصرعوں کی ایک رباعی ہوتی ہے اور رباعی کے چاروں مصرعوں کا موضوع ایک ہی ہوتا ہے جبکہ شعر دومصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے اور غزل میں ہر شعر کا الگ موضوع ہوتا ہے یعنی غزل میں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا ہے -
بہت شکریہ سخنور صاحب۔
یعنی رباعی وحدت پسند اور غزل کثرت پسند ہے۔
ایک اور سوال ہے کہ
عموما نعت کے لیے کون سی صنف سخن استمعال کی جاتی ہے ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک اور سوال ہے کہ
عموما نعت کے لیے کون سی صنف سخن استمعال کی جاتی ہے ؟

نظامی صاحب، نعت کیلیئے کوئی صنفِ سخن مخصوص نہیں ہے یہ تو عقیدت کی بات اور اسکا اظہار ہے۔ غزلیں، قصیدے، رباعیاں، قطعے، پابند اور آزاد نظمیں، قریب قریب سبھی اصنافِ سخن میں شعراء کرام نے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور عقیدت کے نذرانے پیش کیے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت شکریہ محمد وارث۔
نعت بارے کچھ :
اقتباس:
"نعت اپنے عمومی مفہوم کے لحاظ سے نثر میں بھی ہوسکتی ہے لیکن اصطلاح میں نعت اس کلام کو کہتے ہیں، جو منظوم ہو۔ بیانی طور غزل اور دیگر اصناف سخن ، مجاز یا حقیقت یا ہردو کے حامل ہوسکتے ہیں لیکن صحیح نعت صرف حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ دوسرے اصناف سخن اپنے موضوعات کے لحاظ سے کثرت پسند ہوتے ہیں لیکن نعت توحید پرست واقع ہوئی ہے ۔ کیونکہ اس کا محور و مطاف ، محبت اور صرف محبت ہے۔ غزل بعض اوقات نعت کے حرم پاک میں بار پانے کی بے پناہ تمنا لے کر آگے بڑھتی ہے۔ ایسی صورت میں غزل اور نعت میں کوئی زیادہ مغائرت نہیں ہوتی۔ غزل جب باوضو ہوجاتی ہے تو نعت بن جاتی ہے۔"یہ متن یہاں سے لیا گیا
 

محمد وارث

لائبریرین
نظامی صاحب دراصل اصنافِ سخن کی دو قسمیں ہیں، ایک موضوع کے یا نفسِ مضمون کے لحاظ سے اور دوسری ہیت یا فارم (شکل) کے لحاظ سے۔

موضوع کے لحاظ سے مشہور اصنافِ سخن میں حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام، سہرا، شہر آشوب وغیرہ وغیرہ شامل ہیں یعنی قریب قریب ان میں ایک ہی خیال ہوتا ہے۔

جب کہ ہیت کے لحاظ سے اصنافِ سخن میں غزل، قصیدہ، رباعی، مثنوی، پابند نظم (مسدس، مخمس، ترجیع بند، قطع بند وغیرہ وغیرہ) آزاد نظم، ہائیکو وغیرہ شامل ہیں۔

اب جتنی بھی موضوعات کے لحاظ سے اصناف ہیں انکا کسی نہ کسی ہیت یا فارم میں تو ہونا لازم ہے، اس لیئے نعت بھی کسی نہ کسی فارم میں ہوگی، اور یہ تقریباً سبھی فارم میں کہی جا سکتی ہے اور کہی جاتی ہے۔

یہ جو آپ نے اقتباس دیا کہ "غزل جب با وضو ہو جاتی ہے تو نعت بن جاتی ہے" تو شاید مصنف نے یہ اس لیے لکھا کہ کبھی غزل بھی ایک موضوع تھا اور مخصوص تھا صرف عشقیہ شاعری کیلیئے لیکن اب غزل کی یہ تخصیص نہیں رہی اور غزل میں حمد، نعت، منقبت، سلام، عشق، فلسفہ اور سیاسی، معاشرتی و معاشی مسائل بلکہ دنیا جہان کے موضوعات ملتے ہیں اور غزل کا دامن جتنا وسیع ہے شاید ہی کسی اور صنفِ سخن کا ہو اور یہی وجہ ہے کہ مرورِ زمانہ سے قصیدہ قریب قریب ناپید ہو چکا ہے، رباعی خال خال ہے، پابند نظمیں بھی بہت کم کہی جاتیں لیکن غزل کے عشاق ہیں کہ مرتے جاتے ہیں لیکن کم نہیں ہوتے اور انہی میں یہ خاکسار بھی شامل ہے۔ :)
 
Top