محمد وارث

لائبریرین
آناں کہ وصفِ حُسنِ تو تفسیر می کُنند
خوابِ ندیدہ را ہمہ تعبیر می کنند


عرفی شیرازی

وہ لوگ کہ جو تیرے حُسن کے اوصاف کی تفیسر بیان کرتے ہیں، وہ سارے ایسے ہی کہ جیسے ایک اَن دیکھے خواب کی تعبیریں بیان کرتے ہوں۔
 

سارہ خان

محفلین
دوا اگرچہ موافق بود بطبعِ مریض
موافقت نہ کند گر طبیب مشفق نیست


طالب آملی

اگرچہ دوا مریض کی طبیعت کے موافق ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر طبیب مُشفِق و مہربان و خیر خواہ نہیں ہے تو وہ دوا مریض کے لیے موافق اور سود مند نہیں ہے۔
زبردست شعر ہے ۔۔ :applause:
 

حسان خان

لائبریرین
هیچ کس نیست زبان‌دانِ خیالم بیدل
نغمهٔ پردهٔ دل از همه آهنگ جداست
(بیدل دهلوی)

اے بیدل، کوئی شخص بھی میرے خیال و تخیل کا زبان داں نہیں ہے۔۔۔ (میرے) دل کے پردے کا نغمہ تمام آہنگوں سے جدا ہے۔
 

یوسف سلطان

محفلین
سینہ را کارگاہ کینہ مساز
سرکہ در انگبین خویش مریز

(اقبال)
سینے کو کینے کا گھر مت بنا۔
اپنے شہد میں سرکہ مت ڈال
 

محمد وارث

لائبریرین
سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ہر درخت جو کرتا ہے درست کرتا ہے۔ جیسا کہ زکات وغیرہ بھی اپنے عزیز رشتہ داروں میں پہلے دینے کا حکم ہے، وہ اہل نہ ہوں تو پڑوسیوں پھر اہل شہر پھر ملک وغیرہ وغیرہ،اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن شعر میں دل چھو لینے والی خوبی موجود ہے، وہ اپنی بات دلیل کے ساتھ کر رہے ہیں، اس لیے لطف آیا،
یہی ایک اچھے شاعر کا اعجاز ہے کہ ہم اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس کو داد دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
 

ندیم مراد

محفلین
یہی ایک اچھے شاعر کا اعجاز ہے کہ ہم اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس کو داد دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
وارث بھائی اختلاف کا مطلب ڈنڈا لےکر سرپھوڑنا تھوڑا ہی ہوتا ہے، اسی لئے شریعت میں درست اجتہاد کرنے والے کو دگنا اور غلط اجتہاد کرنے پر ایک ثواب ملتا ہے، جیسے شعر میں شاعر اپنی محبوبہ کی تعریف کرتا ہے اور سب داد دیتے ہیں سب کواس کی محبوبہ سے کیا لینا دینا، اور وہ سامنے بھی آجائے تو ہم یہی کہیں گے سلام بھابھی بچے خیریت سے ہیں،
 

ندیم مراد

محفلین
روزی به دلبری نظری کرد چشمِ من
زان یک نظر مرا دو جهان از نظر فتاد
(سعدی شیرازی)

ایک روز میری آنکھ نے ایک دلبر پر ایک نظر کی۔۔۔ اُس ایک نظر سے دو جہاں میری نظر سے گر گئے۔
اک روز میری آنکھ نے دلبر پہ کی نظر
اس دن سے دو جہاں مری نظروں میں کچھ نہں
 

سارہ خان

محفلین
هیچ کس نیست زبان‌دانِ خیالم بیدل
نغمهٔ پردهٔ دل از همه آهنگ جداست
(بیدل دهلوی)

اے بیدل، کوئی شخص بھی میرے خیال و تخیل کا زبان داں نہیں ہے۔۔۔ (میرے) دل کے پردے کا نغمہ تمام آہنگوں سے جدا ہے۔
زبردست ۔۔ :thumbsup2:
 

حسان خان

لائبریرین
صبا! اگر بگذری به کویش، بگوی چون محرمی به گوشش
که تابِ دوریِ یک نفس را از آن بتِ سیم‌تن ندارم
(رئیس احمد نعمانی)

اے صبا! اگر تم اُس کے کوچے کی طرف گذرو تو کسی محرم کی طرح اُس کے کان میں کہنا کہ میں اُس صنمِ سیم تن سے ایک لمحے کی دوری کی تاب بھی نہیں رکھتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به صد جا کرده سعیِ نارسا منزل‌تراشی‌ها
وگرنه جادهٔ دشتِ طلب کَی انتها دارد
(بیدل دهلوی)

سعیِ نارسا نے سینکڑوں جگہوں پر منزلیں تراش لی ہیں ورنہ دشتِ طلب کی شاہراہ کب انتہا رکھتی ہے؟
یہ شعر پڑھ کر مرزا غالب کا یہ مصرع ذہن میں آیا ہے:
"واماندگیِ شوق تراشے ہے پناہیں"
 

محمد وارث

لائبریرین
کینہ در طبعِ ملایم نکنَد نشو و نما
فارغ از جوشِ غبار است زمینے کہ نم است


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

نرم و حلیم و سلیم طبعیت کے مالک لوگوں کے دِلوں میں کینہ نشو و نما نہیں پاتا، جیسے کہ جو زمین نم ہوتی ہے وہ گرد و غبار کے ہیجان اور تندی سے فارغ اور صاف ہوتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
دل می‌رود از دست ز دردِ دوری
در جُستنِ باده می‌طپد مخموری
در آمدن، ای شوخ مکن دیر دگر
جان بر لبِ ما رسیده از مهجوری
(میر قمرالدین نواب نظام‌الملک آصف‌جاه)

دوری کے درد کے سبب ہاتھ سے دل نکلا جا رہا ہے؛ شراب کی تلاش میں مخموری تڑپ رہی ہے؛ اے شوخ، آنے میں مزید دیر مت کرو؛ جدائی کے سبب جان ہمارے لب پر آ گئی ہے۔
 

یوسف سلطان

محفلین
غافل تری ز مرد مسلمان ندیده ام
دل در میان سینہ و بیگانۂ دل است
(اقبال)
میں نے کسی کو مردِمسلمان سے زیادہ غافل نہیں دیکھا ، سینے میں دل رکھتا ہے مگر اس سے بے خبر ہے ۔

 

محمد وارث

لائبریرین
تمعتیِ نبرند اغنیا ز نعمتِ خویش
کہ باغباں نشناسد کہ سیرِ گلشن چیست


ابوطالب کلیم کاشانی

غنی لوگ اپنی ملی ہوئی نعمتوں سے (فقط خود ہی) فائدہ نہیں اٹھاتے (بلکہ دوسروں کو بھی عطا کرتے ہیں) جیسے کہ باغبان (روزانہ باغ میں جانے کے باوجود) یہ نہیں جانتا کہ گلشن کی سیر کیا چیز ہے (بلکہ وہ پھل پھولوں کی دیکھ بھال کرتا ہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
تمعتیِ نبرند اغنیا ز نعمتِ خویش
کہ باغباں نشناسد کہ سیرِ گلشن چیست


ابوطالب کلیم کاشانی

غنی لوگ اپنی ملی ہوئی نعمتوں سے (فقط خود ہی) فائدہ نہیں اٹھاتے (بلکہ دوسروں کو بھی عطا کرتے ہیں) جیسے کہ باغبان (روزانہ باغ میں جانے کے باوجود) یہ نہیں جانتا کہ گلشن کی سیر کیا چیز ہے (بلکہ وہ پھل پھولوں کی دیکھ بھال کرتا ہے)۔
چہ خوب! ہمیشہ کی طرح عالی انتخاب!(y)
وارث بھائی، مصرعِ اول کا پہلا لفظ 'تمتّعی' (با یائے نکرہ) ہے۔ اس کتابت کے سہو کو درست کر لیجیے۔ :)
علاوہ بریں، اگر شعر کے ترجمے کو ذرا سا تبدیل کر کے یوں کر دیا جائے تو شاید بہتر ہو گا کیونکہ مجھے یہاں دوسروں کو بھی عطا کرنے کے مفہوم کا احساس نہیں ہو رہا:
غنی لوگ اپنی ملی ہوئی نعمتوں سے کوئی حظ نہیں اٹھاتے جیسے کہ باغبان (روزانہ باغ میں جانے کے باوجود) یہ نہیں جانتا کہ گلشن کی سیر کیا چیز ہے (کیونکہ وہ پھل پھولوں کی دیکھ بھال ہی میں لگا رہتا ہے)۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
چہ خوب! ہمیشہ کی طرح عالی انتخاب!(y)
وارث بھائی، مصرعِ اول کا پہلا لفظ 'تمتّعی' (با یائےنکرہ) ہے۔ اس کتابت کے سہو کو درست کر لیجیے۔ :)
علاوہ بریں، اگر شعر کے ترجمے کو ذرا سا تبدیل کر کے یوں کر دیا جائے تو شاید بہتر ہو گا کیونکہ مجھے یہاں دوسروں کو بھی عطا کرنے کے مفہوم کا احساس نہیں ہو رہا:
غنی لوگ اپنی ملی ہوئی نعمتوں سے کوئی حظ نہیں اٹھاتے جیسے کہ باغبان (روزانہ باغ میں جانے کے باوجود) یہ نہیں جانتا کہ گلشن کی سیر کیا چیز ہے (کیونکہ وہ پھل پھولوں کی دیکھ بھال ہی میں لگا رہتا ہے)۔
خوب ہے خان صاحب، اور شکریہ تمعتی کی طرف توجہ دلانے کے لیے۔ اس شعر کے بارے میں میں یہی سوچتا رہا تھا کہ "ملی ہوئی نعمتوں سے خود کوئی بھی حظ نہ اٹھانا" کچھ خلافِ واقع لگ رہا تھا گو دوسرے مصرعے میں دلیل قوی ہے، اس لیے بہت زیادہ قوسین کا استعمال کرنا پڑا تھا، خیر، آپ نے خوب لکھا :)
 

حسان خان

لائبریرین
گمان مبر که تو چون بگذری جهان بگذشت
هزار شمع بکشتند و انجمن باقی‌ست
(عرفی شیرازی)

یہ گمان مت رکھو کہ جب تم (اِس دنیا سے) گذر جاؤ گے تو دنیا بھی گذر جائے گی کیونکہ ہزاروں شمعیں بجھا دی گئیں لیکن انجمن باقی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گمان مبر که تو چون بگذری جهان بگذشت
هزار شمع بکشتند و انجمن باقی‌ست
(عرفی شیرازی)

یہ گمان مت رکھو کہ جب تم (اِس دنیا سے) گذر جاؤ گے تو دنیا بھی گذر جائے گی کیونکہ ہزاروں شمعیں بجھا دی گئیں لیکن انجمن باقی ہے۔
لاجواب۔ عرفی کی یہ غزل اس خاکسار کی بھی پسندیدہ ہے اور میں ہی کیا ایک عالم اس کا قتیل ہے، ۔۔۔۔۔۔۔بوئے یاسمن باقیست :)
 

حسان خان

لائبریرین
لاجواب۔ عرفی کی یہ غزل اس خاکسار کی بھی پسندیدہ ہے اور میں ہی کیا ایک عالم اس کا قتیل ہے، ۔۔۔۔۔۔۔بوئے یاسمن باقیست :)
میں دو دن پہلے اِس دھاگے کے پرانے مراسلے دیکھ رہا تھا۔ ایک مراسلے میں محمد یعقوب آسی صاحب نے اِس غزل کی درخواست کی تھی، جس کے جواب میں آپ نے یہ غزل پیش کی تھی۔ آپ کا وہی مراسلہ اِس شعر کا ترجمہ کرنے کا محرّک بنا ہے۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں
ہزار بادہء ناخوردہ در رگ تاک است
اقبال۔
یہ نہ سمجھ لو کہ پیر مغاں کا کام اب انجام کو پہنچ چکا ہے۔
ابھی تو بہت شراب انگور کی رگوں میں (سے کشید کی جانی) ہے۔
 
Top