خند و ملاحت

ایک بار دلی میں رات گئے مشاعرے یا دعوت سے مرزا صاحب، مولانا فیض الحسن فیض سہارنپوری کے ہمراہ واپس آ رہے تھے. راستے میں ایک تنگ و تاریک گلی سے گزار رہے تھے کہ آگے وہاں ایک گدھا کھڑا تھا. مولانا فیض نے یہ دیکھ کر کہا:
"مرزا صاحب! دلی میں گدھے بہت ہیں".
مرزا صاحب نے بے ساختہ کہا؛
"نہیں، صاحب باہر سے آ جاتے ہیں"
مولانا فیض الحسن سہارنپوری جھینپ کر چپ ہو رہے.
 
آخری تدوین:
ایک بزعم خود شاعر اپنی تازہ نظمیں ایک شاعر دوست کو دکھاتے ہوئے بولے؛
"میں نے چند آزاد نظمیں کہی ہیں، ملاحظہ فرمائیں"
شاعر دوست نے نظموں کو بغور سنا اور مسکراتے ہوئے کہا؛
"پیارے یہ آزاد تو ہو سکتی ہیں لیکن نظمیں ہر گز نہیں"
 
مرزا غالب جس مکان میں رہتے تھے اس مکان میں دوازے کی چھت پر ایک کمرہ تھا، اس کے ایک جانب ایک کوٹھری تنگ و تاریک تھی جس کا در اس قدر چھوٹا تھا کہ کوٹھری میں بہت جھک کر جاناپڑتا تھا اور مرزا اکثر گرمی اور لو کے موسم میں دس بجے سے تین چار بجے تک وہاں بیٹھتے تھے ۔ ایک دن جب کہ رمضان کا مہینہ اور گرمی کا موسم تھا مولانا آزردہ ٹھیک دوپہر کے وقت مرزاسے ملنے کو چلے آئے ۔ اس وقت مرزا صاحب اسی کوٹھری میں کسی دوست کے ساتھ چوسر یا شطرنج کھیل رہے تھے ۔
مولانا بھی وہیں پہنچے اور مرزا کو رمضان کے مہینے میں چوسر کھیلتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم نے حدیث میں پڑھا تھا کہ رمضان کے مہینے میں شیطان مقید رہتا ہے مگر آج اس حدیث کی صحت میں تردّد پیدا ہوگیا ۔ مرزا نے کہا
قبلہ حدیث بالکل صحیح ہے مگر بات یہ ہے کہ وہ جگہ جہاں شیطان مقید رہتا ہے وہ یہی کوٹھری تو ہے.
 
ایک عاشق نے اپنی محبوبہ سے بڑی ناراضگی سے کہا؛
تم نے وفا شعاری کی قسمیں کھائیں تھی، زندگی بھر ساتھ نبھانے کے وعدے کئے تھے لیکن آج پتا چلا سب جھوٹ تھا، دھوکا تھا، فریب تھا،
مجھ پر بے وفائی کے اتنے سنگین الزام لگاتے تمہیں شرم نہیں آتی، محبوبہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا،
"یاد کرو کل تم نے اپنی سہیلی ناز سے کیا کہا تھا"
عاشق بولا!
"مجھے یاد نہیں آخر تمی کچھ بتاؤ"
تم نے یہ نہیں کہا تھا مجھے غالب سے عشق ہے
 
ایک محفل میں سالک نے مولانا گرامی سے پوچھا.
"حضرت! نواب سراج الدین کی شاعری کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟"
مولانا گرامی نے برجستہ جواب دیا؛
"خامیوں میں پختہ ہو گیا ہے"
 
جانتے ہو میری شاعری کو پہلے سے دوگنے لوگ پڑھنے لگے ہیں، ایک شاعر نے خوش ہو کر اپنے دوست سے کہا.
مجھے نہیں معلوم تھا تمہاری شادی ہو گئی ہے - دوست نے جل کر کہا.
 
سردار جعفری کسی ترقی پسند شاعر یا ادیب کی فلمی صنعت سے وابستگی کو پسند نہیں فرماتے تھے،
ایک دن غصے سے جعفری نے ساحر لدھیانوی سے کہا.
ساحر؛ دیکھ لینا تمہارے جنازے میں کوئی ترقی پسند شاعر نہیں ہو گا،
ساحر نے جواب دیا؛
لیکن میں ہر ترقی پسند کے جنازے میں شریک ہوتا رہوں گا.
 
ایک بار دلی میں رات گئے مشاعرے یا دعوت سے مرزا صاحب، مولانا فیض الحسن فیض سہارنپوری کے ہمراہ واپس آ رہے تھے. راستے میں ایک تنگ و تاریک گلی سے گزار رہے تھے کہ آگے وہاں ایک گدھا کھڑا تھا. مولانا فیض نے یہ دیکھ کر کہا:
"مرزا صاحب! دلی میں گدھے بہت ہیں".
مرزا صاحب نے بے ساختہ کہا؛
"نہیں، صاحب باہر سے آ جاتے ہیں"
مولانا فیض الحسن سہارنپوری جھینپ کر چپ ہو رہے.
آپی حمیرا ، وہ کتنے گدھے تھے ؟
پتا نہیں کسی نے گنے تھے بھی یا نہیں !
 
اخبار میں کچھ اس قسم کا اشتہار آیا
" ضرورت ہے ایک سامع کی جو ایک نئے شاعر کی غزلیں اور
تازہ کلام سنے ۔
روزانہ بیس غزلیں اور اتنے ہی تازہ کلام سننے والے سامع کو ترجیح دی جائے گی۔
تنخواہ حسب داد۔"
 
مرزا غالب جس مکان میں رہتے تھے اس مکان میں دوازے کی چھت پر ایک کمرہ تھا، اس کے ایک جانب ایک کوٹھری تنگ و تاریک تھی جس کا در اس قدر چھوٹا تھا کہ کوٹھری میں بہت جھک کر جاناپڑتا تھا اور مرزا اکثر گرمی اور لو کے موسم میں دس بجے سے تین چار بجے تک وہاں بیٹھتے تھے ۔ ایک دن جب کہ رمضان کا مہینہ اور گرمی کا موسم تھا مولانا آزردہ ٹھیک دوپہر کے وقت مرزاسے ملنے کو چلے آئے ۔ اس وقت مرزا صاحب اسی کوٹھری میں کسی دوست کے ساتھ چوسر یا شطرنج کھیل رہے تھے ۔
مولانا بھی وہیں پہنچے اور مرزا کو رمضان کے مہینے میں چوسر کھیلتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم نے حدیث میں پڑھا تھا کہ رمضان کے مہینے میں شیطان مقید رہتا ہے مگر آج اس حدیث کی صحت میں تردّد پیدا ہوگیا ۔ مرزا نے کہا
قبلہ حدیث بالکل صحیح ہے مگر بات یہ ہے کہ وہ جگہ جہاں شیطان مقید رہتا ہے وہ یہی کوٹھری تو ہے.
حالانکہ غالب چچا کتنا کماتے تھے مگر ایک ڈھنگ کا گھر بنانے کا کبھی خیال نہیں آیا ۔
اسی لیے تو میں شاعر بننا نہیں چاہتا ، قسم سے !
 
سردار جعفری کسی ترقی پسند شاعر یا ادیب کی فلمی صنعت سے وابستگی کو پسند نہیں فرماتے تھے،
ایک دن غصے سے جعفری نے ساحر لدھیانوی سے کہا.
ساحر؛ دیکھ لینا تمہارے جنازے میں کوئی ترقی پسند شاعر نہیں ہو گا،
ساحر نے جواب دیا؛
لیکن میں ہر ترقی پسند کے جنازے میں شریک ہوتا رہوں گا.
شاعر اور ترقی پسند
کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
حالانکہ غالب چچا کتنا کماتے تھے مگر ایک ڈھنگ کا گھر بنانے کا کبھی خیال نہیں آیا ۔
اسی لیے تو میں شاعر بننا نہیں چاہتا ، قسم سے !
حد ہو گئی جان صاحب، مرزا اگر گھر یا پیسہ بنانے میں لگ گئے ہوتے ، بہت سے لوگوں کی طرح، تو وہ گھر کب کا گر گیا ہوتا یا بدل چکا ہوتا اور غالب کا کہیں نام نہ ہوتا اوردوسری طرف اردو، فارسی، اردو کی تاریخ، برصغیر کی فارسی کی تاریخ، شعر، ادب، خطوط، مزاح، اور نہ جانے کہاں کہاں مرزا کا تذکرہ زریں حروف میں ہوتا ہے! ع۔فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اُوست!

اور اپنے دوسرے جملے کے لیے خاکسار کا ہدیۂ تبریک قبول فرمائیے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حد ہو گئی جان صاحب، مرزا اگر گھر یا پیسہ بنانے میں لگ گئے ہوتے ، بہت سے لوگوں کی طرح، تو وہ گھر کب کا گر گیا ہوتا یا بدل چکا ہوتا اور غالب کا کہیں نام نہ ہوتا اوردوسری طرف اردو، فارسی، اردو کی تاریخ، برصغیر کی فارسی کی تاریخ، شعر، ادب، خطوط، مزاح، اور نہ جانے کہاں کہاں مرزا کا تذکرہ زریں حروف میں ہوتا ہے! ع۔فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اُوست!

اور اپنے دوسرے جملے کے لیے خاکسار کا ہدیۂ تبریک قبول فرمائیے۔ :)

:good1::good1::good1::good1::good1::good1::good1::good1::good1:
 
حد ہو گئی جان صاحب، مرزا اگر گھر یا پیسہ بنانے میں لگ گئے ہوتے ، بہت سے لوگوں کی طرح، تو وہ گھر کب کا گر گیا ہوتا یا بدل چکا ہوتا اور غالب کا کہیں نام نہ ہوتا اوردوسری طرف اردو، فارسی، اردو کی تاریخ، برصغیر کی فارسی کی تاریخ، شعر، ادب، خطوط، مزاح، اور نہ جانے کہاں کہاں مرزا کا تذکرہ زریں حروف میں ہوتا ہے! ع۔فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اُوست!

اور اپنے دوسرے جملے کے لیے خاکسار کا ہدیۂ تبریک قبول فرمائیے۔ :)
یعنی آپ یہ کہہ رہے ہیں جن لوگوں شاعری بھی کی اور گھر بھی بنایا ان سب کا نام کالے حروف میں لکھا جاتا ہوگا۔
شراب پینے سے فرصت ملتی تو گھر بار کی فکر کرتے۔
 
Top