خط میں نے تیرے نام لکھا

ماوراء نے کہا:
میرے سر میں درد ہے۔ ورنہ سچی سے میں نے تمھارے خط کا جواب ایسا دینا تھا نا۔ کہ یاد رکھتے۔ چلو، ہم ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہیں نا تمھاری طرح خودکلامی تو نہیں کر رہے نا۔ :lol:

ایسے موقعوں پر اکثر سر درد کی شکایت ہوتی ہے۔ سچی اور قسم سے ، ایسے الفاظ ہیں جس سے لکھنے والا دوسروں کو کم اور خود کو زیادہ یقین دلاتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے اور وہ واقعی ایسا کر سکتا ہے۔ :lol:

ایک دوسرے سے باتیں کرکے خوش ہونے میں ہی خوش رہو ورنہ تمہیں پتہ ہی ہے کہ مشکل ہوجائے گی تمہیں اور حجاب کو بھی۔ :)
 

ماوراء

محفلین
محب علوی نے کہا:
میں جواب کا منتظر ہوں ، کسی بھی خط کا کہیں سے بھی کوئی بھی جواب دے لے میں وہیں سے اسے جواب دینا شروع کر دوں گا مگر صرف باتیں بنانا اور گپیں مارنا اور ہے اور جم کر جواب دینا اور :p

ایک اور جوابی خط لکھ رہا ہوں ، اب بھی بہانے بازیاں جاری رہیں تو نتیجہ سب کے سامنے ظاہر ہے۔ :lol:
حجاب، آ جاؤ میدان میں۔ کڑا وقت آ گیا ہے۔ مجھے تو اللہ کا شکر ہے شعر و شاعری سے کوئی شغف نہیں۔ اب تم ہی جواب دو۔ :wink: :lol:
 

ماوراء

محفلین
محب علوی نے کہا:
ماوراء نے کہا:
میرے سر میں درد ہے۔ ورنہ سچی سے میں نے تمھارے خط کا جواب ایسا دینا تھا نا۔ کہ یاد رکھتے۔ چلو، ہم ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہیں نا تمھاری طرح خودکلامی تو نہیں کر رہے نا۔ :lol:

ایسے موقعوں پر اکثر سر درد کی شکایت ہوتی ہے۔ سچی اور قسم سے ، ایسے الفاظ ہیں جس سے لکھنے والا دوسروں کو کم اور خود کو زیادہ یقین دلاتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے اور وہ واقعی ایسا کر سکتا ہے۔ :lol:

ایک دوسرے سے باتیں کرکے خوش ہونے میں ہی خوش رہو ورنہ تمہیں پتہ ہی ہے کہ مشکل ہوجائے گی تمہیں اور حجاب کو بھی۔ :)
نہیں، سر درد رات سے ہے۔ ابھی تو سر درد دور ہو رہا ہے۔ :wink: ہاں اسی لیے تم اپنے خط کا جواب خود ہی دے رہے ہو۔ :lol:

اچھا۔۔ تم کچھ صبر تو کرو نا۔ اتنی جلدی تو ہمارے فرشتے بھی جواب نہیں لکھ پائیں گے۔ :p
 
حجاب نے کہا:
ماوراء محب کیا اور محب کے حملے کیا :p مزہ تو تب آئے نا جب محب اپنے اوپر کیئے گئے حملوں کے جواب بھی دیا کریں باتیں بنوا لو بس :wink: آپ انتظار تو کرتے محب پھر دیکھتے جواب اب خود ہی لکھ لیں :p

ماورا کو سنا لو جو پہلے ہی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے اور میں تو اب ہوں میدان میں اترا ہوا مگر بس باتیں ہی ہو رہی ہیں اور حملے ایک دوسرے کی آڑ‌ لے کر۔ :lol:
 

حجاب

محفلین
ماوراء محب کا یہ 1947 کا شاعرانہ محبت نامہ اُففففف اس کا جواب سوچ کے لکھا جا سکتا ہے ، محب اتنی مشکل محبت مت کریں کہ محبوب گھبرا کے صحرا میں نکل جائے :lol:
 

ماوراء

محفلین
بوچھی نے کہا:
پیاری ماورہ ،

میٹھی میٹھی دعائیں ‘

چالیس سال تک اگر کسی لڑکی کی شادی نہ ہو تو صرف دعاؤں کا ہی آسرا رہ جاتا ہے :lol: ایسے ہی جیسے اپنے ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ اب تک دعاؤں سے ہی حل ہوسکتا ہے ۔

یار ‘ مجھے حیرت ہوتی ہے تیری نا اہلی پر کہ ۔ ۔ ۔پڑھ لکھ کر وہ بھی ناروے سے :D پہننے اوڑھنے میں پٹاخا رہی تب بھی کسی کو اپنا نہ بنا سکی :D :D :p
آجکل تو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں عشق کرنے میں پرفیکٹ ہوتی ہیں اور ایک تم ہو :? یونہی نامراد رہی ۔ :p
تم اتنی بے وقوف ہوگی ‘ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی :p
اپنے گزشتہ خطوں میں بھی تم نے یہی رونا رویا ہے کہ تمھارا عاشق بھی کچا رہا کہ محبوب جھوٹا لپاڑیا نکلا :lol:
واہ ماورہ ، حیرت ہورہی تمھارے بھولے پن پر ،
منافقت کے اس دور میں بھی محبت اور یقین کی سچائیاں تلاش کرتی رہی ۔ :?
اری ‘ آج کے تو زہر میں بھی ملاوٹ ہے تو محبت اور وفا کیسے خالص ہوسکتی ہے ۔ :(
اپنی دوسرے فورم والی ف‘ کو دیکھ :D ہاں وہی توتلی فرخ کی چھوٹی بہن ، کالج میں داخلہ لیتے ہی اپنی خود ساختہ اداؤں کے طفیل‘ ان ؛ ہوگئی اور جب مجھے پتا چلا کہ موصوفہ ایک ساتھ تین تین لڑکوں سے عشق کا کھیل رچا رہی تو میں نے غصے میںآکر اسے خوب ڈانٹا اس پر وہ محترمہ کیا فرمانے لگیں کہ ‘ یہی کہ اب عشق اور وفا ۔ ۔۔خالص کہاں رہی ہے؟ اگر ایک بھاگا‘ تو دوسرا روٹھا تو کم از کم ایک تو مستقبل کی ضمانت بن سکے گا :D
کالج میں ایڈمیشن لینے کا بھلا فائدہ کہ میں اپنے مستقبل کے لئے سائبان تک نہ خرید سکوں ۔ :D :?

اگر تم برا نا مانو تو ایک مشورہ دوں ۔ تم اپنی ہی چاچی مامی کے بیٹے کا رشتہ قبول کر لو :lol: :lol: :p
یہ مت سوچو کہ چاچی مامی بڑی کٹر قسم کی ہونگیں،
اور اگر چاچی ، مامی کے بیٹے اکھڑ مزاج کے ہوئے و تو بھی فکر ناٹ کہ یہ اکھڑ مزاج‘ تند خو طبیعت رکھنے والے مرد بہت عمدہ ثابت ہوتے ہیں کہ کسی کی ہمت نہیں ہوتی ایسے لوگوں کی بیوی سے کوئی بدتمیزی کر سکے :lol: :lol:
میری دعائیں بھی تمھارے ساتھ ہیں کہ سرثاج تمھیں اپنے سر بٹھا کر رکھے بلکہ جہاں جہاں جائے تمھیں اپنے کاندھے پر بٹھا کر لے جائے بھلے پاکستان ہی سہی :lol: :lol:

امید ہے اس خط کا جواب بہت جلد دو گی۔

تمھارے خط کی منتظر
تمھاری اپنی سہیلی
میں 8)

سلام سکھی،

امید ہے کہ خیر خیریت سے ہو گی۔ ہمیشہ کی طرح کل بھی تمھارا ایک اور ورغلانے والا خط ملا۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ جس رستے پر تم چل رہی ہو اسی رستے پر مجھے کیوں چلانا چاہتی ہو۔ اور سب سے پہلے تم مجھے یہ تو بتاؤ کہ یہ کس نے تمھیں پھونک دیا کہ میری عمر عزیز چالیس سال ہے۔ خدا کی پناہ، مجھے بھی اپنی عمر کا ہی بنا ڈالا۔ وہ تو تم سے اتفاق سے دوستی ہو گئی تھی، ورنہ ابھی تو میرے کھیلنے کے دن ہیں۔ اچھا۔۔۔اب عشق وشق کے کھیل نہ سمجھ لینا۔

ویسے میں تمھارا خط ملتے ہی سمجھ جاتی ہوں، کہ کسی بے چارے کے برے آئے ہوئے ہیں۔ لیکن حیران ہوں اس بار تم نے اپنے پچھلے ناکام قصہ الفت کا رونا نہیں رویا۔ سچ پوچھو۔۔۔ تو تمھاری کہانیاں سن سن کر ہی میرا دل ان کاموں سے اتنا اچاٹ ہو چکا ہے، کہ مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ ان چکروں میں پڑوں۔

لگتا ہے آجکل سب جوبن پر ہے۔ تم اس “ف“ کی بات کرتی ہو، وہ اپنی “رضیہ“ نہیں تھی۔۔۔ہاں ہاں وہی۔۔۔وہ کھینچ تان کر کس کر بنائی ہوئی چٹیا، بھر بھر سلائیاں ڈالا سرما، ہاتھ پیر مہندی اور چوڑیوں سے بھرے، وہ بھاری بھاری جوڑے۔۔کسی لڑکے کو دیکھ کر ڈوپٹے کے گولے منہ میں ٹھونس کر ہنسی دباتے ادھر ادھر لوٹ پوٹ ہوتی رہتی تھی، شاید اپنی مسکراہٹ سے کسی کو متاثر کروانا چاہتی تھی۔۔۔اس نے تو ایسے گل کھلائے ہیں۔ توبہ توبہ۔

کل ہی مجھے بازار میں ملی تھی، بڑی خوش دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے خوشی کی وجہ دریافت کی۔۔۔تو بڑے فخر سے گوش گزار کرنے لگی۔کہ وہ “ شہلہ“ کے عاشق پر ڈورے ڈالنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اب تو بس تین بول پڑھوانے کی دیر ہے۔ خوشی کے مارے بے چاری کے منہ سے بات ہی نہیں نکل رہی تھی۔ میں تو ہکی بکی رہ گئی۔ اور سنا ہے ادھر شہلہ بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی ہے۔ آجکل کے عاشقوں نے عشق کو بدنام کر دیا ہے۔

اور یہ تمھارا مشورہ تو میں کبھی نہ مانوں۔ ساری عمر بیٹھی رہوں گی لیکن چاچی، مامی کے رشتوں کو قبول نہ کروں گی۔ اللہ جنت نصیب کرے میری ایک چاچی کو، جو میرا رشتہ مانگتے مانگتے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئی۔

اور مانا کہ منافقت اور خود غرضی کا دور ہے۔ لیکن سچ بتاؤں تو ابھی دنیا میں سچے اور مخلص لوگ ختم نہیں ہوئے۔ ویسے تو ہر نکڑ پر کوئی نہ کوئی کھڑا مل جاتا ہے۔ لیکن میں اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی بیسویں صدی کا عشق چاہتی ہوں۔ جو ملنا واقعی مشکل ہے، لیکن نا ممکن نہیں۔

تم مجھے اپنی سناؤ کہ تمھارا عشق لاحاصل کہاں تک پہنچا ہے؟ میری فکریں چھوڑو، اب تم بھی شادی کرنے کا فیصلہ کر ہی لو۔اور کتنوں کو بے وقوف بناؤ گی۔

اپنا ڈھیر سارا خیال رکھنا اور ہاں میرے لیے دعا کرنے کی زحمت نہ کیا کرو۔ اللہ کی ذات مجھ پر ویسے ہی بہت مہربان ہے۔

تمھارا اللہ ہی حافظ۔

تمھاری پیاری سہیلی۔
 

ماوراء

محفلین
حجاب نے کہا:
ماوراء محب کا یہ 1947 کا شاعرانہ محبت نامہ اُففففف اس کا جواب سوچ کے لکھا جا سکتا ہے ، محب اتنی مشکل محبت مت کریں کہ محبوب گھبرا کے صحرا میں نکل جائے :lol:
lol۔ اسی لیے تو بے چارے کو ڈھنگ کی محبت بھی نہیں ملی۔ :p
 
حجاب نے کہا:
ماوراء محب کا یہ 1947 کا شاعرانہ محبت نامہ اُففففف اس کا جواب سوچ کے لکھا جا سکتا ہے ، محب اتنی مشکل محبت مت کریں کہ محبوب گھبرا کے صحرا میں نکل جائے :lol:

سوچ کے لکھ لو میں نے کب منع کیا اور مختلف ادوار کا خیال تو رکھنا ہے نہ ویسے اکیسویں صدی کے خطوط بھی آئیں گے فکر مت کرو۔

اتنی مشکل محبت بھی تو محبت ہی ہوتی ہے اور محبوب جب صحرا میں ہو تو لیلی کہلاتی ہے اور وہیں پر مجنوں کی صدائیں بھی گونجی رہی ہوتی ہیں جو عشق میں دیوانہ کہلاتا ہے۔ :lol:

میں نے تو خطوط کو مخصوص بھی نہیں کیا ، گنجائش کافی رکھی ہے ویسے ان کے ساتھ ہی ایک دو خطوط کے اور سلسلے بھی شروع کر دوں گا تاکہ تمام طبقات کی نمائندگی ہو سکے :lol:
 

حجاب

محفلین
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
چونکہ نیا دور ہے اس لیے چیٹنگ اور ای میل سے بات چیت کا آغاز اب معمول کا حصہ ہے۔ اسی پس منظر میں اس خط کا آغاز ہوتا ہے۔


آداب ،

آپ کا شاعرانہ خلوص بذریعہ ای میل پہنچتا رہا اور میں اب اس پائے ثبوت تک پہنچ چکا ہوں جہاں میں باآسانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ذوقِ سلیم حسنِ داد کے قابل ہے اور آپ جیسی حسنِ نظر رکھنے ولی شخصیت سے شرفِ کلام نثر کی شکل میں نہ ہونا باعثِ محرومی اور خلاف ادب ہوگا۔ جب میں نے پہلی غزل بھیجی تو دل کو یہی وہم ستاتا رہا کہ جانے غزل کا نصیب کسی باذوق سے جاگے گا یا کوئی بے ہنر اس کی قسمت تاریک کر دے گا۔ ابھی اس کشمکش میں مبتلا ہی تھا کہ اس کا جواب ایک اعلی پائے کی غزل سے باخوبی مجھ تک پہنچ گیا اور سوچا کہ اس قبولیت کی گھڑی میں کچھ اور مانگ لیا ہوتا تو شاید وہ اس سے بڑھ کر نہ ہوتا کیونکہ اس سے عمدہ جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ شاعری ہم دونوں میں قدرِ مشترک ٹھہری ہے تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ میں اپنے بارے میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ تعارف کی ضرورت تو نہیں ہے کہ

آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

پھر بھی رسم دنیا نبھانے کو لکھتا چلوں کہ غمِ روزگار نے مشینوں میں الجھا دیا ہے ورنہ دل تو فنونِ لطیفہ میں ہی دھڑکتا ہے۔ دیگر پسندیدہ مشاغل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی کچھ ہے مگر کچھ آئندہ کے لیے بچا کر رکھ رہا ہوں۔

خط کے اختتام سے پہلے آپ سے کچھ آشنائی کی تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کی طرف سے ایک ذاتی ای میل باشمول چند دلچسپیوں اور مشاغل تحریر کرنے سے ہو سکتی ہے اگر خط لکھنا دشوار ٹھہرے۔

آپ کے خط (ای میل ) کا بے چینی سے منتظر

حضور بہت شکریہ ، بڑی نوازش کہ آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا اور اپنا قیمتی سرمایہ ، اپنی خوبصورت شاعری سے مجھے نوازا، بے انتہا مشکور ہوں۔
اسی لیے تو آپ سے اتنی الفت ہے کہ کوئی بات رد نہیں کرتے آپ باقی یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ شکوے شکایاتیں آپ کو ہم سے ہیں جنہیں دور کرنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ، جلد ہی آپ کے دل میں دبی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اطمینان رکھیے گا۔

اب اجازت دیجیے ، کبھی کبھار اپنے خوبصورت الفاظ سے ہمیں ضرور نواز دیا کیجیے اور ہاں اپنے شاعری کا ذخیرہ مجھے ضرور بھیجا کیجیے، کوئی اور قدر دان ہو نہ ہو ، میں ضرور ہوں ، آپ کی محنت کی ، آپ کی سوچ کی اور آپ کے جذبوں کی قدر ہے مجھے اپنا خیال رکھیے گا۔
خدا حافظ



پھر سے سلام ،

اجی شکریہ کیسا، آپ ہی کی چیز تھی آپ تک پہنچ گئی ویسے بھی عدل کا تقاضہ ہے کہ جس کی چیز ہو اس تک پہنچا دی جائے اور میں نے بھی عدل سے کام لیا۔ تمہارے (آپ سے تم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے) لیے ہی لکھتا تھا تم تک نہ پہنچے تو اس سے بڑھ کر ان جمع شدہ شعروں کی بے قدری اور کیا ہوگی۔ میرا سرمایہ تمہارا بھی تو ہے ، تمہیں خود سے الگ کہاں سمجھا ہے میں نے۔ میری چیزیں تمہاری بھی تو ہیں اور تمہاری چیزوں کو بھی اپنا ہی سمجھتا ہوں میں۔ الفت کا اظہار چاہے کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو دلی مسرت کا باعث بنتا ہے اور تمہارے مکتوب سے اس پنہاں الفت کو محسوس کرکے روح مسرور ہوگئی ، جیسے کسی نے محبت کی برسات کر دی ہو میرے پیاسے تن پر۔ تمہاری الفت مجھے بے حد عزیز ہے اور یہ الفت ہی تو جو باہمی تعلق کو محبت سے جوڑے رکھتی ہے۔ روح کو شادابی بخشنے کے لیے کچھ الفاظ بطور ہدیہ عنایت کرتی رہنا کہ اس سے دل سنبھلا رہتا ہے اور چاہت کا احساس اور توانا رہتا ہے۔ یہ پڑھ کر ایک بار تو دل و جان جھوم اٹھے کہ کچھ خواہشیں عنقریب پوری ہو جائیں گی پھر خیال آیا کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے مگر سچا کیسے ہوگا، خواہش تو بس تمہیں سننے اور تم سے مل کر ان کہی کہنے کی ہیں مگر ہر خواب کی تعبیر کہاں؟ الفاظ میں وہ قوتِ اظہار کہاں جو تمہاری کمی کو بیان کر سکیں ، تمہارے بغیر بیتے دنوں کی داستان خود سنا سکیں ، تمہیں بتا سکیں کہ وہ دن جو تم سے باتیں کیے بنا گزرتے ہیں وہ کتنے بے کیف کتنے بے سکون ہوتے ہیں ان دنوں سے جن میں تم سے باتیں ہوتی ہیں ، جن میں زندگی محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کہے پر اتنا ہی اعتبار ہے جتنا خود تم پر اور میں مطمن رہوں گا بس تم میرے ساتھ رہنا۔
کبھی کبھار ہی کیوں میرے الفاظ پر بہت حق ہے تمہارا ، جب چاہا کرو گی آ جایا کریں گے سر تسلیم خم کیے اور شاعری کے مجموعے تو ہیں ہی تمہارے۔ جانتا ہوں کہ تم جذبوں کی سچی قدردان ہو اس لیے تو دل تمہارا قدردان ہے ، تمہارا خیال خود سے جدا نہیں کرتا اور ہمہ وقت تمہیں دل میں بسائے رکھتا ہوں۔

میری طرف سے اپنا بہت خیال رکھنا اور جلد لکھنا مجھے۔
الوداع

تمہارا خط اب کی بار کیا ملا سمجھو قیامت آ گئی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اب ساز و آواز بن گئی، تم خط پھینکتے ہوئے خط کے ساتھ چھوٹا سا پتھر باندھا کرو اس بار تمہارا خط امّاں کے سر پر لگا وہ تو شُکر تھا کہ امّاں اپنی چیخ و پکار میں یہ بھول گئیں کہ کیا چیز لگی ہے سر پر ورنہ دن میں تارے نظر آ جاتے مجھے :roll:
میں تمہاری شاعری سمجھنے کی کوشش کروں ، تمہارے خط سنبھالوں یا تمہاری حرکتوں پر پردے ڈالوں ایک ننھی سی معصوم میری جان اور اُس پر اتنے ظلم
:cry:

اور غزل ہی بھیجنا تم کبھی تحفے بھی بھیج دیا کرو ایسے تو کافی خبریں ملتی ہیں اڑتی اڑتی انار کلی میں گھوم رہے ہوتے ہو وہ تو شکر کرو اکیلے ہوتے ہو اس لیئے کبھی پوچھا نہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی اکیلے گھومنا ورنہ وہ غزل ابّا کو بھجواؤں گی تمہارے جو تم نے مجھے لکھی ہے پھر تم پر دیوان لکھیں گے ابّا تمہارے :wink:

اور ہاں یہ تمہارے خط لکھنے کا شوق اور اُس سے زیادہ جواب مانگنے کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کہیں منشی لگنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اگر ایسا ہے تو ذرا قلم کو قابو میں رکھنا میں تمہارے مزاج سے خوب واقف ہوں :twisted:
اچھا اب اجازت دو تمہاری نئی رپورٹ ملے گی تو خط لکھوں گی۔
 

تیشہ

محفلین
ماوراء نے کہا:
بوچھی نے کہا:
پیاری ماورہ ،

میٹھی میٹھی دعائیں ‘

چالیس سال تک اگر کسی لڑکی کی شادی نہ ہو تو صرف دعاؤں کا ہی آسرا رہ جاتا ہے :lol: ایسے ہی جیسے اپنے ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ اب تک دعاؤں سے ہی حل ہوسکتا ہے ۔

یار ‘ مجھے حیرت ہوتی ہے تیری نا اہلی پر کہ ۔ ۔ ۔پڑھ لکھ کر وہ بھی ناروے سے :D پہننے اوڑھنے میں پٹاخا رہی تب بھی کسی کو اپنا نہ بنا سکی :D :D :p
آجکل تو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں عشق کرنے میں پرفیکٹ ہوتی ہیں اور ایک تم ہو :? یونہی نامراد رہی ۔ :p
تم اتنی بے وقوف ہوگی ‘ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی :p
اپنے گزشتہ خطوں میں بھی تم نے یہی رونا رویا ہے کہ تمھارا عاشق بھی کچا رہا کہ محبوب جھوٹا لپاڑیا نکلا :lol:
واہ ماورہ ، حیرت ہورہی تمھارے بھولے پن پر ،
منافقت کے اس دور میں بھی محبت اور یقین کی سچائیاں تلاش کرتی رہی ۔ :?
اری ‘ آج کے تو زہر میں بھی ملاوٹ ہے تو محبت اور وفا کیسے خالص ہوسکتی ہے ۔ :(
اپنی دوسرے فورم والی ف‘ کو دیکھ :D ہاں وہی توتلی فرخ کی چھوٹی بہن ، کالج میں داخلہ لیتے ہی اپنی خود ساختہ اداؤں کے طفیل‘ ان ؛ ہوگئی اور جب مجھے پتا چلا کہ موصوفہ ایک ساتھ تین تین لڑکوں سے عشق کا کھیل رچا رہی تو میں نے غصے میںآکر اسے خوب ڈانٹا اس پر وہ محترمہ کیا فرمانے لگیں کہ ‘ یہی کہ اب عشق اور وفا ۔ ۔۔خالص کہاں رہی ہے؟ اگر ایک بھاگا‘ تو دوسرا روٹھا تو کم از کم ایک تو مستقبل کی ضمانت بن سکے گا :D
کالج میں ایڈمیشن لینے کا بھلا فائدہ کہ میں اپنے مستقبل کے لئے سائبان تک نہ خرید سکوں ۔ :D :?

اگر تم برا نا مانو تو ایک مشورہ دوں ۔ تم اپنی ہی چاچی مامی کے بیٹے کا رشتہ قبول کر لو :lol: :lol: :p
یہ مت سوچو کہ چاچی مامی بڑی کٹر قسم کی ہونگیں،
اور اگر چاچی ، مامی کے بیٹے اکھڑ مزاج کے ہوئے و تو بھی فکر ناٹ کہ یہ اکھڑ مزاج‘ تند خو طبیعت رکھنے والے مرد بہت عمدہ ثابت ہوتے ہیں کہ کسی کی ہمت نہیں ہوتی ایسے لوگوں کی بیوی سے کوئی بدتمیزی کر سکے :lol: :lol:
میری دعائیں بھی تمھارے ساتھ ہیں کہ سرثاج تمھیں اپنے سر بٹھا کر رکھے بلکہ جہاں جہاں جائے تمھیں اپنے کاندھے پر بٹھا کر لے جائے بھلے پاکستان ہی سہی :lol: :lol:

امید ہے اس خط کا جواب بہت جلد دو گی۔

تمھارے خط کی منتظر
تمھاری اپنی سہیلی
میں 8)

سلام سکھی،

امید ہے کہ خیر خیریت سے ہو گی۔ ہمیشہ کی طرح کل بھی تمھارا ایک اور ورغلانے والا خط ملا۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ جس رستے پر تم چل رہی ہو اسی رستے پر مجھے کیوں چلانا چاہتی ہو۔ اور سب سے پہلے تم مجھے یہ تو بتاؤ کہ یہ کس نے تمھیں پھونک دیا کہ میری عمر عزیز چالیس سال ہے۔ خدا کی پناہ، مجھے بھی اپنی عمر کا ہی بنا ڈالا۔ وہ تو تم سے اتفاق سے دوستی ہو گئی تھی، ورنہ ابھی تو میرے کھیلنے کے دن ہیں۔ اچھا۔۔۔اب عشق وشق کے کھیل نہ سمجھ لینا۔

ویسے میں تمھارا خط ملتے ہی سمجھ جاتی ہوں، کہ کسی بے چارے کے برے آئے ہوئے ہیں۔ لیکن حیران ہوں اس بار تم نے اپنے پچھلے ناکام قصہ الفت کا رونا نہیں رویا۔ سچ پوچھو۔۔۔ تو تمھاری کہانیاں سن سن کر ہی میرا دل ان کاموں سے اتنا اچاٹ ہو چکا ہے، کہ مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ ان چکروں میں پڑوں۔

لگتا ہے آجکل سب جوبن پر ہے۔ تم اس “ف“ کی بات کرتی ہو، وہ اپنی “رضیہ“ نہیں تھی۔۔۔ہاں ہاں وہی۔۔۔وہ کھینچ تان کر کس کر بنائی ہوئی چٹیا، بھر بھر سلائیاں ڈالا سرما، ہاتھ پیر مہندی اور چوڑیوں سے بھرے، وہ بھاری بھاری جوڑے۔۔کسی لڑکے کو دیکھ کر ڈوپٹے کے گولے منہ میں ٹھونس کر ہنسی دباتے ادھر ادھر لوٹ پوٹ ہوتی رہتی تھی، شاید اپنی مسکراہٹ سے کسی کو متاثر کروانا چاہتی تھی۔۔۔اس نے تو ایسے گل کھلائے ہیں۔ توبہ توبہ۔

کل ہی مجھے بازار میں ملی تھی، بڑی خوش دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے خوشی کی وجہ دریافت کی۔۔۔تو بڑے فخر سے گوش گزار کرنے لگی۔کہ وہ “ شہلہ“ کے عاشق پر ڈورے ڈالنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اب تو بس تین بول پڑھوانے کی دیر ہے۔ خوشی کے مارے بے چاری کے منہ سے بات ہی نہیں نکل رہی تھی۔ میں تو ہکی بکی رہ گئی۔ اور سنا ہے ادھر شہلہ بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی ہے۔ آجکل کے عاشقوں نے عشق کو بدنام کر دیا ہے۔

اور یہ تمھارا مشورہ تو میں کبھی نہ مانوں۔ ساری عمر بیٹھی رہوں گی لیکن چاچی، مامی کے رشتوں کو قبول نہ کروں گی۔ اللہ جنت نصیب کرے میری ایک چاچی کو، جو میرا رشتہ مانگتے مانگتے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئی۔

اور مانا کہ منافقت اور خود غرضی کا دور ہے۔ لیکن سچ بتاؤں تو ابھی دنیا میں سچے اور مخلص لوگ ختم نہیں ہوئے۔ ویسے تو ہر نکڑ پر کوئی نہ کوئی کھڑا مل جاتا ہے۔ لیکن میں اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی بیسویں صدی کا عشق چاہتی ہوں۔ جو ملنا واقعی مشکل ہے، لیکن نا ممکن نہیں۔

تم مجھے اپنی سناؤ کہ تمھارا عشق لاحاصل کہاں تک پہنچا ہے؟ میری فکریں چھوڑو، اب تم بھی شادی کرنے کا فیصلہ کر ہی لو۔اور کتنوں کو بے وقوف بناؤ گی۔

اپنا ڈھیر سارا خیال رکھنا اور ہاں میرے لیے دعا کرنے کی زحمت نہ کیا کرو۔ اللہ کی ذات مجھ پر ویسے ہی بہت مہربان ہے۔

تمھارا اللہ ہی حافظ۔

تمھاری پیاری سہیلی۔




:laugh: بہت خوب ۔ مطلب اچھے جواب لکھ لیتی ہو ۔ پسند آیا ۔

لگتا ہے آج سارا دن یہی سوچتی رہی ہو ۔ :p
 

ماوراء

محفلین
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
چونکہ نیا دور ہے اس لیے چیٹنگ اور ای میل سے بات چیت کا آغاز اب معمول کا حصہ ہے۔ اسی پس منظر میں اس خط کا آغاز ہوتا ہے۔


آداب ،

آپ کا شاعرانہ خلوص بذریعہ ای میل پہنچتا رہا اور میں اب اس پائے ثبوت تک پہنچ چکا ہوں جہاں میں باآسانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ذوقِ سلیم حسنِ داد کے قابل ہے اور آپ جیسی حسنِ نظر رکھنے ولی شخصیت سے شرفِ کلام نثر کی شکل میں نہ ہونا باعثِ محرومی اور خلاف ادب ہوگا۔ جب میں نے پہلی غزل بھیجی تو دل کو یہی وہم ستاتا رہا کہ جانے غزل کا نصیب کسی باذوق سے جاگے گا یا کوئی بے ہنر اس کی قسمت تاریک کر دے گا۔ ابھی اس کشمکش میں مبتلا ہی تھا کہ اس کا جواب ایک اعلی پائے کی غزل سے باخوبی مجھ تک پہنچ گیا اور سوچا کہ اس قبولیت کی گھڑی میں کچھ اور مانگ لیا ہوتا تو شاید وہ اس سے بڑھ کر نہ ہوتا کیونکہ اس سے عمدہ جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ شاعری ہم دونوں میں قدرِ مشترک ٹھہری ہے تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ میں اپنے بارے میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ تعارف کی ضرورت تو نہیں ہے کہ

آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

پھر بھی رسم دنیا نبھانے کو لکھتا چلوں کہ غمِ روزگار نے مشینوں میں الجھا دیا ہے ورنہ دل تو فنونِ لطیفہ میں ہی دھڑکتا ہے۔ دیگر پسندیدہ مشاغل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی کچھ ہے مگر کچھ آئندہ کے لیے بچا کر رکھ رہا ہوں۔

خط کے اختتام سے پہلے آپ سے کچھ آشنائی کی تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کی طرف سے ایک ذاتی ای میل باشمول چند دلچسپیوں اور مشاغل تحریر کرنے سے ہو سکتی ہے اگر خط لکھنا دشوار ٹھہرے۔

آپ کے خط (ای میل ) کا بے چینی سے منتظر

حضور بہت شکریہ ، بڑی نوازش کہ آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا اور اپنا قیمتی سرمایہ ، اپنی خوبصورت شاعری سے مجھے نوازا، بے انتہا مشکور ہوں۔
اسی لیے تو آپ سے اتنی الفت ہے کہ کوئی بات رد نہیں کرتے آپ باقی یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ شکوے شکایاتیں آپ کو ہم سے ہیں جنہیں دور کرنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ، جلد ہی آپ کے دل میں دبی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اطمینان رکھیے گا۔

اب اجازت دیجیے ، کبھی کبھار اپنے خوبصورت الفاظ سے ہمیں ضرور نواز دیا کیجیے اور ہاں اپنے شاعری کا ذخیرہ مجھے ضرور بھیجا کیجیے، کوئی اور قدر دان ہو نہ ہو ، میں ضرور ہوں ، آپ کی محنت کی ، آپ کی سوچ کی اور آپ کے جذبوں کی قدر ہے مجھے اپنا خیال رکھیے گا۔
خدا حافظ



پھر سے سلام ،

اجی شکریہ کیسا، آپ ہی کی چیز تھی آپ تک پہنچ گئی ویسے بھی عدل کا تقاضہ ہے کہ جس کی چیز ہو اس تک پہنچا دی جائے اور میں نے بھی عدل سے کام لیا۔ تمہارے (آپ سے تم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے) لیے ہی لکھتا تھا تم تک نہ پہنچے تو اس سے بڑھ کر ان جمع شدہ شعروں کی بے قدری اور کیا ہوگی۔ میرا سرمایہ تمہارا بھی تو ہے ، تمہیں خود سے الگ کہاں سمجھا ہے میں نے۔ میری چیزیں تمہاری بھی تو ہیں اور تمہاری چیزوں کو بھی اپنا ہی سمجھتا ہوں میں۔ الفت کا اظہار چاہے کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو دلی مسرت کا باعث بنتا ہے اور تمہارے مکتوب سے اس پنہاں الفت کو محسوس کرکے روح مسرور ہوگئی ، جیسے کسی نے محبت کی برسات کر دی ہو میرے پیاسے تن پر۔ تمہاری الفت مجھے بے حد عزیز ہے اور یہ الفت ہی تو جو باہمی تعلق کو محبت سے جوڑے رکھتی ہے۔ روح کو شادابی بخشنے کے لیے کچھ الفاظ بطور ہدیہ عنایت کرتی رہنا کہ اس سے دل سنبھلا رہتا ہے اور چاہت کا احساس اور توانا رہتا ہے۔ یہ پڑھ کر ایک بار تو دل و جان جھوم اٹھے کہ کچھ خواہشیں عنقریب پوری ہو جائیں گی پھر خیال آیا کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے مگر سچا کیسے ہوگا، خواہش تو بس تمہیں سننے اور تم سے مل کر ان کہی کہنے کی ہیں مگر ہر خواب کی تعبیر کہاں؟ الفاظ میں وہ قوتِ اظہار کہاں جو تمہاری کمی کو بیان کر سکیں ، تمہارے بغیر بیتے دنوں کی داستان خود سنا سکیں ، تمہیں بتا سکیں کہ وہ دن جو تم سے باتیں کیے بنا گزرتے ہیں وہ کتنے بے کیف کتنے بے سکون ہوتے ہیں ان دنوں سے جن میں تم سے باتیں ہوتی ہیں ، جن میں زندگی محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کہے پر اتنا ہی اعتبار ہے جتنا خود تم پر اور میں مطمن رہوں گا بس تم میرے ساتھ رہنا۔
کبھی کبھار ہی کیوں میرے الفاظ پر بہت حق ہے تمہارا ، جب چاہا کرو گی آ جایا کریں گے سر تسلیم خم کیے اور شاعری کے مجموعے تو ہیں ہی تمہارے۔ جانتا ہوں کہ تم جذبوں کی سچی قدردان ہو اس لیے تو دل تمہارا قدردان ہے ، تمہارا خیال خود سے جدا نہیں کرتا اور ہمہ وقت تمہیں دل میں بسائے رکھتا ہوں۔

میری طرف سے اپنا بہت خیال رکھنا اور جلد لکھنا مجھے۔
الوداع

تمہارا خط اب کی بار کیا ملا سمجھو قیامت آ گئی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اب ساز و آواز بن گئی، تم خط پھینکتے ہوئے خط کے ساتھ چھوٹا سا پتھر باندھا کرو اس بار تمہارا خط امّاں کے سر پر لگا وہ تو شُکر تھا کہ امّاں اپنی چیخ و پکار میں یہ بھول گئیں کہ کیا چیز لگی ہے سر پر ورنہ دن میں تارے نظر آ جاتے مجھے :roll:
میں تمہاری شاعری سمجھنے کی کوشش کروں ، تمہارے خط سنبھالوں یا تمہاری حرکتوں پر پردے ڈالوں ایک ننھی سی معصوم میری جان اور اُس پر اتنے ظلم
:cry:

اور غزل ہی بھیجنا تم کبھی تحفے بھی بھیج دیا کرو ایسے تو کافی خبریں ملتی ہیں اڑتی اڑتی انار کلی میں گھوم رہے ہوتے ہو وہ تو شکر کرو اکیلے ہوتے ہو اس لیئے کبھی پوچھا نہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی اکیلے گھومنا ورنہ وہ غزل ابّا کو بھجواؤں گی تمہارے جو تم نے مجھے لکھی ہے پھر تم پر دیوان لکھیں گے ابّا تمہارے :wink:

اور ہاں یہ تمہارے خط لکھنے کا شوق اور اُس سے زیادہ جواب مانگنے کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کہیں منشی لگنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اگر ایسا ہے تو ذرا قلم کو قابو میں رکھنا میں تمہارے مزاج سے خوب واقف ہوں :twisted:
اچھا اب اجازت دو تمہاری نئی رپورٹ ملے گی تو خط لکھوں گی۔
زبردست حجاب۔ :D

خط اماں کے ہاتھ لگنے والی بات سے تو ایک بات یاد آ گئی۔ یقیناً محب کو بھی یاد آ گئی ہو گی۔ ہاہاہاہا۔ (حجاب تمھیں بعد میں بتاؤں گی۔)

اور محب انار کلی میں اکیلا نہیں جوتیاں گھیسٹتا رہتا۔ پکے ثبوت ہیں میرے پاس۔ :wink:

چلو، اس خط و کتابت میں میں تمھاری اس سہیلی کا کردار ادا کرتی ہوں جو اکثر ساری رپورٹس آ کر دیتی ہے۔ لیکن قسم سے آخر میں اسے اڑا نہیں لے جاؤں گی۔ :p :lol:
 

ماوراء

محفلین
بوچھی نے کہا:
ماوراء نے کہا:
بوچھی نے کہا:
پیاری ماورہ ،

میٹھی میٹھی دعائیں ‘

چالیس سال تک اگر کسی لڑکی کی شادی نہ ہو تو صرف دعاؤں کا ہی آسرا رہ جاتا ہے :lol: ایسے ہی جیسے اپنے ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ اب تک دعاؤں سے ہی حل ہوسکتا ہے ۔

یار ‘ مجھے حیرت ہوتی ہے تیری نا اہلی پر کہ ۔ ۔ ۔پڑھ لکھ کر وہ بھی ناروے سے :D پہننے اوڑھنے میں پٹاخا رہی تب بھی کسی کو اپنا نہ بنا سکی :D :D :p
آجکل تو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں عشق کرنے میں پرفیکٹ ہوتی ہیں اور ایک تم ہو :? یونہی نامراد رہی ۔ :p
تم اتنی بے وقوف ہوگی ‘ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی :p
اپنے گزشتہ خطوں میں بھی تم نے یہی رونا رویا ہے کہ تمھارا عاشق بھی کچا رہا کہ محبوب جھوٹا لپاڑیا نکلا :lol:
واہ ماورہ ، حیرت ہورہی تمھارے بھولے پن پر ،
منافقت کے اس دور میں بھی محبت اور یقین کی سچائیاں تلاش کرتی رہی ۔ :?
اری ‘ آج کے تو زہر میں بھی ملاوٹ ہے تو محبت اور وفا کیسے خالص ہوسکتی ہے ۔ :(
اپنی دوسرے فورم والی ف‘ کو دیکھ :D ہاں وہی توتلی فرخ کی چھوٹی بہن ، کالج میں داخلہ لیتے ہی اپنی خود ساختہ اداؤں کے طفیل‘ ان ؛ ہوگئی اور جب مجھے پتا چلا کہ موصوفہ ایک ساتھ تین تین لڑکوں سے عشق کا کھیل رچا رہی تو میں نے غصے میںآکر اسے خوب ڈانٹا اس پر وہ محترمہ کیا فرمانے لگیں کہ ‘ یہی کہ اب عشق اور وفا ۔ ۔۔خالص کہاں رہی ہے؟ اگر ایک بھاگا‘ تو دوسرا روٹھا تو کم از کم ایک تو مستقبل کی ضمانت بن سکے گا :D
کالج میں ایڈمیشن لینے کا بھلا فائدہ کہ میں اپنے مستقبل کے لئے سائبان تک نہ خرید سکوں ۔ :D :?

اگر تم برا نا مانو تو ایک مشورہ دوں ۔ تم اپنی ہی چاچی مامی کے بیٹے کا رشتہ قبول کر لو :lol: :lol: :p
یہ مت سوچو کہ چاچی مامی بڑی کٹر قسم کی ہونگیں،
اور اگر چاچی ، مامی کے بیٹے اکھڑ مزاج کے ہوئے و تو بھی فکر ناٹ کہ یہ اکھڑ مزاج‘ تند خو طبیعت رکھنے والے مرد بہت عمدہ ثابت ہوتے ہیں کہ کسی کی ہمت نہیں ہوتی ایسے لوگوں کی بیوی سے کوئی بدتمیزی کر سکے :lol: :lol:
میری دعائیں بھی تمھارے ساتھ ہیں کہ سرثاج تمھیں اپنے سر بٹھا کر رکھے بلکہ جہاں جہاں جائے تمھیں اپنے کاندھے پر بٹھا کر لے جائے بھلے پاکستان ہی سہی :lol: :lol:

امید ہے اس خط کا جواب بہت جلد دو گی۔

تمھارے خط کی منتظر
تمھاری اپنی سہیلی
میں 8)

سلام سکھی،

امید ہے کہ خیر خیریت سے ہو گی۔ ہمیشہ کی طرح کل بھی تمھارا ایک اور ورغلانے والا خط ملا۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ جس رستے پر تم چل رہی ہو اسی رستے پر مجھے کیوں چلانا چاہتی ہو۔ اور سب سے پہلے تم مجھے یہ تو بتاؤ کہ یہ کس نے تمھیں پھونک دیا کہ میری عمر عزیز چالیس سال ہے۔ خدا کی پناہ، مجھے بھی اپنی عمر کا ہی بنا ڈالا۔ وہ تو تم سے اتفاق سے دوستی ہو گئی تھی، ورنہ ابھی تو میرے کھیلنے کے دن ہیں۔ اچھا۔۔۔اب عشق وشق کے کھیل نہ سمجھ لینا۔

ویسے میں تمھارا خط ملتے ہی سمجھ جاتی ہوں، کہ کسی بے چارے کے برے آئے ہوئے ہیں۔ لیکن حیران ہوں اس بار تم نے اپنے پچھلے ناکام قصہ الفت کا رونا نہیں رویا۔ سچ پوچھو۔۔۔ تو تمھاری کہانیاں سن سن کر ہی میرا دل ان کاموں سے اتنا اچاٹ ہو چکا ہے، کہ مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ ان چکروں میں پڑوں۔

لگتا ہے آجکل سب جوبن پر ہے۔ تم اس “ف“ کی بات کرتی ہو، وہ اپنی “رضیہ“ نہیں تھی۔۔۔ہاں ہاں وہی۔۔۔وہ کھینچ تان کر کس کر بنائی ہوئی چٹیا، بھر بھر سلائیاں ڈالا سرما، ہاتھ پیر مہندی اور چوڑیوں سے بھرے، وہ بھاری بھاری جوڑے۔۔کسی لڑکے کو دیکھ کر ڈوپٹے کے گولے منہ میں ٹھونس کر ہنسی دباتے ادھر ادھر لوٹ پوٹ ہوتی رہتی تھی، شاید اپنی مسکراہٹ سے کسی کو متاثر کروانا چاہتی تھی۔۔۔اس نے تو ایسے گل کھلائے ہیں۔ توبہ توبہ۔

کل ہی مجھے بازار میں ملی تھی، بڑی خوش دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے خوشی کی وجہ دریافت کی۔۔۔تو بڑے فخر سے گوش گزار کرنے لگی۔کہ وہ “ شہلہ“ کے عاشق پر ڈورے ڈالنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اب تو بس تین بول پڑھوانے کی دیر ہے۔ خوشی کے مارے بے چاری کے منہ سے بات ہی نہیں نکل رہی تھی۔ میں تو ہکی بکی رہ گئی۔ اور سنا ہے ادھر شہلہ بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی ہے۔ آجکل کے عاشقوں نے عشق کو بدنام کر دیا ہے۔

اور یہ تمھارا مشورہ تو میں کبھی نہ مانوں۔ ساری عمر بیٹھی رہوں گی لیکن چاچی، مامی کے رشتوں کو قبول نہ کروں گی۔ اللہ جنت نصیب کرے میری ایک چاچی کو، جو میرا رشتہ مانگتے مانگتے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئی۔

اور مانا کہ منافقت اور خود غرضی کا دور ہے۔ لیکن سچ بتاؤں تو ابھی دنیا میں سچے اور مخلص لوگ ختم نہیں ہوئے۔ ویسے تو ہر نکڑ پر کوئی نہ کوئی کھڑا مل جاتا ہے۔ لیکن میں اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی بیسویں صدی کا عشق چاہتی ہوں۔ جو ملنا واقعی مشکل ہے، لیکن نا ممکن نہیں۔

تم مجھے اپنی سناؤ کہ تمھارا عشق لاحاصل کہاں تک پہنچا ہے؟ میری فکریں چھوڑو، اب تم بھی شادی کرنے کا فیصلہ کر ہی لو۔اور کتنوں کو بے وقوف بناؤ گی۔

اپنا ڈھیر سارا خیال رکھنا اور ہاں میرے لیے دعا کرنے کی زحمت نہ کیا کرو۔ اللہ کی ذات مجھ پر ویسے ہی بہت مہربان ہے۔

تمھارا اللہ ہی حافظ۔

تمھاری پیاری سہیلی۔




:laugh: بہت خوب ۔ مطلب اچھے جواب لکھ لیتی ہو ۔ پسند آیا ۔

لگتا ہے آج سارا دن یہی سوچتی رہی ہو ۔ :p
نہیں، اس خط میں سوچنا نہیں پڑا۔ یہ بس لکھتی گئی۔ :D
 
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
چونکہ نیا دور ہے اس لیے چیٹنگ اور ای میل سے بات چیت کا آغاز اب معمول کا حصہ ہے۔ اسی پس منظر میں اس خط کا آغاز ہوتا ہے۔


آداب ،

آپ کا شاعرانہ خلوص بذریعہ ای میل پہنچتا رہا اور میں اب اس پائے ثبوت تک پہنچ چکا ہوں جہاں میں باآسانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ذوقِ سلیم حسنِ داد کے قابل ہے اور آپ جیسی حسنِ نظر رکھنے ولی شخصیت سے شرفِ کلام نثر کی شکل میں نہ ہونا باعثِ محرومی اور خلاف ادب ہوگا۔ جب میں نے پہلی غزل بھیجی تو دل کو یہی وہم ستاتا رہا کہ جانے غزل کا نصیب کسی باذوق سے جاگے گا یا کوئی بے ہنر اس کی قسمت تاریک کر دے گا۔ ابھی اس کشمکش میں مبتلا ہی تھا کہ اس کا جواب ایک اعلی پائے کی غزل سے باخوبی مجھ تک پہنچ گیا اور سوچا کہ اس قبولیت کی گھڑی میں کچھ اور مانگ لیا ہوتا تو شاید وہ اس سے بڑھ کر نہ ہوتا کیونکہ اس سے عمدہ جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ شاعری ہم دونوں میں قدرِ مشترک ٹھہری ہے تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ میں اپنے بارے میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ تعارف کی ضرورت تو نہیں ہے کہ

آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

پھر بھی رسم دنیا نبھانے کو لکھتا چلوں کہ غمِ روزگار نے مشینوں میں الجھا دیا ہے ورنہ دل تو فنونِ لطیفہ میں ہی دھڑکتا ہے۔ دیگر پسندیدہ مشاغل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی کچھ ہے مگر کچھ آئندہ کے لیے بچا کر رکھ رہا ہوں۔

خط کے اختتام سے پہلے آپ سے کچھ آشنائی کی تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کی طرف سے ایک ذاتی ای میل باشمول چند دلچسپیوں اور مشاغل تحریر کرنے سے ہو سکتی ہے اگر خط لکھنا دشوار ٹھہرے۔

آپ کے خط (ای میل ) کا بے چینی سے منتظر

حضور بہت شکریہ ، بڑی نوازش کہ آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا اور اپنا قیمتی سرمایہ ، اپنی خوبصورت شاعری سے مجھے نوازا، بے انتہا مشکور ہوں۔
اسی لیے تو آپ سے اتنی الفت ہے کہ کوئی بات رد نہیں کرتے آپ باقی یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ شکوے شکایاتیں آپ کو ہم سے ہیں جنہیں دور کرنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ، جلد ہی آپ کے دل میں دبی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اطمینان رکھیے گا۔

اب اجازت دیجیے ، کبھی کبھار اپنے خوبصورت الفاظ سے ہمیں ضرور نواز دیا کیجیے اور ہاں اپنے شاعری کا ذخیرہ مجھے ضرور بھیجا کیجیے، کوئی اور قدر دان ہو نہ ہو ، میں ضرور ہوں ، آپ کی محنت کی ، آپ کی سوچ کی اور آپ کے جذبوں کی قدر ہے مجھے اپنا خیال رکھیے گا۔
خدا حافظ



پھر سے سلام ،

اجی شکریہ کیسا، آپ ہی کی چیز تھی آپ تک پہنچ گئی ویسے بھی عدل کا تقاضہ ہے کہ جس کی چیز ہو اس تک پہنچا دی جائے اور میں نے بھی عدل سے کام لیا۔ تمہارے (آپ سے تم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے) لیے ہی لکھتا تھا تم تک نہ پہنچے تو اس سے بڑھ کر ان جمع شدہ شعروں کی بے قدری اور کیا ہوگی۔ میرا سرمایہ تمہارا بھی تو ہے ، تمہیں خود سے الگ کہاں سمجھا ہے میں نے۔ میری چیزیں تمہاری بھی تو ہیں اور تمہاری چیزوں کو بھی اپنا ہی سمجھتا ہوں میں۔ الفت کا اظہار چاہے کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو دلی مسرت کا باعث بنتا ہے اور تمہارے مکتوب سے اس پنہاں الفت کو محسوس کرکے روح مسرور ہوگئی ، جیسے کسی نے محبت کی برسات کر دی ہو میرے پیاسے تن پر۔ تمہاری الفت مجھے بے حد عزیز ہے اور یہ الفت ہی تو جو باہمی تعلق کو محبت سے جوڑے رکھتی ہے۔ روح کو شادابی بخشنے کے لیے کچھ الفاظ بطور ہدیہ عنایت کرتی رہنا کہ اس سے دل سنبھلا رہتا ہے اور چاہت کا احساس اور توانا رہتا ہے۔ یہ پڑھ کر ایک بار تو دل و جان جھوم اٹھے کہ کچھ خواہشیں عنقریب پوری ہو جائیں گی پھر خیال آیا کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے مگر سچا کیسے ہوگا، خواہش تو بس تمہیں سننے اور تم سے مل کر ان کہی کہنے کی ہیں مگر ہر خواب کی تعبیر کہاں؟ الفاظ میں وہ قوتِ اظہار کہاں جو تمہاری کمی کو بیان کر سکیں ، تمہارے بغیر بیتے دنوں کی داستان خود سنا سکیں ، تمہیں بتا سکیں کہ وہ دن جو تم سے باتیں کیے بنا گزرتے ہیں وہ کتنے بے کیف کتنے بے سکون ہوتے ہیں ان دنوں سے جن میں تم سے باتیں ہوتی ہیں ، جن میں زندگی محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کہے پر اتنا ہی اعتبار ہے جتنا خود تم پر اور میں مطمن رہوں گا بس تم میرے ساتھ رہنا۔
کبھی کبھار ہی کیوں میرے الفاظ پر بہت حق ہے تمہارا ، جب چاہا کرو گی آ جایا کریں گے سر تسلیم خم کیے اور شاعری کے مجموعے تو ہیں ہی تمہارے۔ جانتا ہوں کہ تم جذبوں کی سچی قدردان ہو اس لیے تو دل تمہارا قدردان ہے ، تمہارا خیال خود سے جدا نہیں کرتا اور ہمہ وقت تمہیں دل میں بسائے رکھتا ہوں۔

میری طرف سے اپنا بہت خیال رکھنا اور جلد لکھنا مجھے۔
الوداع

تمہارا خط اب کی بار کیا ملا سمجھو قیامت آ گئی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اب ساز و آواز بن گئی، تم خط پھینکتے ہوئے خط کے ساتھ چھوٹا سا پتھر باندھا کرو اس بار تمہارا خط امّاں کے سر پر لگا وہ تو شُکر تھا کہ امّاں اپنی چیخ و پکار میں یہ بھول گئیں کہ کیا چیز لگی ہے سر پر ورنہ دن میں تارے نظر آ جاتے مجھے :roll:
میں تمہاری شاعری سمجھنے کی کوشش کروں ، تمہارے خط سنبھالوں یا تمہاری حرکتوں پر پردے ڈالوں ایک ننھی سی معصوم میری جان اور اُس پر اتنے ظلم
:cry:

اور غزل ہی بھیجنا تم کبھی تحفے بھی بھیج دیا کرو ایسے تو کافی خبریں ملتی ہیں اڑتی اڑتی انار کلی میں گھوم رہے ہوتے ہو وہ تو شکر کرو اکیلے ہوتے ہو اس لیئے کبھی پوچھا نہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی اکیلے گھومنا ورنہ وہ غزل ابّا کو بھجواؤں گی تمہارے جو تم نے مجھے لکھی ہے پھر تم پر دیوان لکھیں گے ابّا تمہارے :wink:

اور ہاں یہ تمہارے خط لکھنے کا شوق اور اُس سے زیادہ جواب مانگنے کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کہیں منشی لگنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اگر ایسا ہے تو ذرا قلم کو قابو میں رکھنا میں تمہارے مزاج سے خوب واقف ہوں :twisted:
اچھا اب اجازت دو تمہاری نئی رپورٹ ملے گی تو خط لکھوں گی۔


کیا زمانہ آ گیا کہ خط کا ملنا قیامت ٹھہرا اور طبیعت ناساز سے آہ و فریاد بن گئی۔ پہلے خط آنے پر بہار چھا جایا کرتی تھی جلترنگ سے بجنے لگتے تھے ، ہوائیں گنگنانے لگتی تھیں اور طبیعت پر نکھار آ جایا کرتا تھا اور اب قیامت ، ساری نا شکری کی بات ہیں ، گھر بیٹھے خط جو مل جاتے ہیں خود لکھ کر اس طرح پھینکنے پڑیں تو قدر بھی ہو۔ خط کے ساتھ چھوٹا پتھر باندھا کروں ، کیا خط لکھوانے کے ساتھ ساتھ پتھر مارنے کا کام بھی مجھ سے لیا کرو گی۔ گھر والوں سے نہیں بنتی تو یہ غضب تو نہ ڈھاؤ ، کچھ تو خیال کرو ان کا آخر تمہارے گھر والے ہیں ، میں اتنا خیال رکھتا ہوں کہ صرف آدھ پاؤ کے ٹماٹر میں لپیٹ کر خط پھینکتا ہوں اس پر بھی تمہاری اماں کا واویلا آدھا شہر سنتا ہے۔ ویسے تمہیں دن میں تارے نظر آنے بھی چاہیے رات بھر جو تارے گنواتی رہتی ہو مجھے۔
شاعری سمجھنے کی کوشش نہ کیا کرو بس پڑھا کرو ، سمجھ لی تو خود بھی لکھنے لگو گی اور پھر تمہارے لکھے کو کون پڑھے گا ، خط سنبھالنے کے لیے نہیں پڑھنے کے لیے بھیجتا ہوں اور حرکتیں تمہارے گھر سے باہر ہوتی ہیں تم ان سے آنکھیں بند رکھا کرو اور جتنی معصوم تمہاری جان ہے وہ میں جانتا ہوں یا تمہاری اماں۔

غزل تو خط کو سجانے کے لیے بھیجتا ہوں اور تحفے کی خوب کہی ، ابھی پچھلے ماہ ہی تو نقلی چاندی کی قیمتی انگوٹھی بھیجی تھی تمہیں۔ اب میں نواب تو ہوں نہیں کہ ہر خط کے ساتھ ایک عدد جڑاؤ ہار بھی بھیجا کروں اور بالفرض نواب ہوتا تو پھر ان عشق کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، اب میں تو خدا لگتی کہتا ہوں چاہے کسی کے دل پر جا کر لگے۔
انار کلی میں گھومتا ہوں مگر انار اور کلی دونوں سے دور دور ہی رہتا ہوں گو کھینچتے دونوں ہیں مگر تمہارا خیال ہے وگرنہ کب کا اکیلا پن ختم ہو چکا ہوتا۔ دھمکیاں مت دو غزلوں اور ابا کی اور دینی ہے تو ایک ایک کرکے دو ، اکھٹی دونوں تو نہ دو ویسے غزل میں نے وزن میں لکھی تھی اس لیے تمہارے ابا نہیں مانیں گے کہ میری ہے اور تمہارے لیے تو قطعا نہیں مانیں گے جتنے استعارے اور تشبہیات اس غزل میں ہیں اس کے بعد کسی کا خیال کسی الپسرا سے کم پر نہیں ٹھہرے گا، بھولے سے بھی تمہارا خیال نہیں آئے گا انہیں ، اک عمر گزری ہے ان کی اس دشت میں ، سمجھ جائیں گے کہ کسی نے کسی کو فردوسِ بریں دکھائی ہے۔

بھولے سے خط کا جواب دیتی ہو اور پھر یہ تاکید کہ میں جواب کا اصرار بھی نہ کروں ، منشی لگ جاتا کہیں تو تم خود پہروں بیٹھ کر خط لکھا کرتی مجھے ، تمہاری طبیعت سے اتنی واقفیت تو مجھے بھی ہے ۔

اجازت کی کتنی جلدی ہے اور جیسے سب کام میری اجازت سے کرتی ہو ، نئی رپورٹ سے پہلے ذرا اپنے گھر کی رپورٹ لکھ بھیجنا اور ہاں خط کے لیے کسی قاصد کا بندوبست کرلو اب مجھے سے ہر بار خط پھینکا نہیں جاتا۔
 
ماوراء نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
چونکہ نیا دور ہے اس لیے چیٹنگ اور ای میل سے بات چیت کا آغاز اب معمول کا حصہ ہے۔ اسی پس منظر میں اس خط کا آغاز ہوتا ہے۔


آداب ،

آپ کا شاعرانہ خلوص بذریعہ ای میل پہنچتا رہا اور میں اب اس پائے ثبوت تک پہنچ چکا ہوں جہاں میں باآسانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ذوقِ سلیم حسنِ داد کے قابل ہے اور آپ جیسی حسنِ نظر رکھنے ولی شخصیت سے شرفِ کلام نثر کی شکل میں نہ ہونا باعثِ محرومی اور خلاف ادب ہوگا۔ جب میں نے پہلی غزل بھیجی تو دل کو یہی وہم ستاتا رہا کہ جانے غزل کا نصیب کسی باذوق سے جاگے گا یا کوئی بے ہنر اس کی قسمت تاریک کر دے گا۔ ابھی اس کشمکش میں مبتلا ہی تھا کہ اس کا جواب ایک اعلی پائے کی غزل سے باخوبی مجھ تک پہنچ گیا اور سوچا کہ اس قبولیت کی گھڑی میں کچھ اور مانگ لیا ہوتا تو شاید وہ اس سے بڑھ کر نہ ہوتا کیونکہ اس سے عمدہ جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ شاعری ہم دونوں میں قدرِ مشترک ٹھہری ہے تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ میں اپنے بارے میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ تعارف کی ضرورت تو نہیں ہے کہ

آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

پھر بھی رسم دنیا نبھانے کو لکھتا چلوں کہ غمِ روزگار نے مشینوں میں الجھا دیا ہے ورنہ دل تو فنونِ لطیفہ میں ہی دھڑکتا ہے۔ دیگر پسندیدہ مشاغل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی کچھ ہے مگر کچھ آئندہ کے لیے بچا کر رکھ رہا ہوں۔

خط کے اختتام سے پہلے آپ سے کچھ آشنائی کی تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کی طرف سے ایک ذاتی ای میل باشمول چند دلچسپیوں اور مشاغل تحریر کرنے سے ہو سکتی ہے اگر خط لکھنا دشوار ٹھہرے۔

آپ کے خط (ای میل ) کا بے چینی سے منتظر

حضور بہت شکریہ ، بڑی نوازش کہ آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا اور اپنا قیمتی سرمایہ ، اپنی خوبصورت شاعری سے مجھے نوازا، بے انتہا مشکور ہوں۔
اسی لیے تو آپ سے اتنی الفت ہے کہ کوئی بات رد نہیں کرتے آپ باقی یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ شکوے شکایاتیں آپ کو ہم سے ہیں جنہیں دور کرنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ، جلد ہی آپ کے دل میں دبی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اطمینان رکھیے گا۔

اب اجازت دیجیے ، کبھی کبھار اپنے خوبصورت الفاظ سے ہمیں ضرور نواز دیا کیجیے اور ہاں اپنے شاعری کا ذخیرہ مجھے ضرور بھیجا کیجیے، کوئی اور قدر دان ہو نہ ہو ، میں ضرور ہوں ، آپ کی محنت کی ، آپ کی سوچ کی اور آپ کے جذبوں کی قدر ہے مجھے اپنا خیال رکھیے گا۔
خدا حافظ



پھر سے سلام ،

اجی شکریہ کیسا، آپ ہی کی چیز تھی آپ تک پہنچ گئی ویسے بھی عدل کا تقاضہ ہے کہ جس کی چیز ہو اس تک پہنچا دی جائے اور میں نے بھی عدل سے کام لیا۔ تمہارے (آپ سے تم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے) لیے ہی لکھتا تھا تم تک نہ پہنچے تو اس سے بڑھ کر ان جمع شدہ شعروں کی بے قدری اور کیا ہوگی۔ میرا سرمایہ تمہارا بھی تو ہے ، تمہیں خود سے الگ کہاں سمجھا ہے میں نے۔ میری چیزیں تمہاری بھی تو ہیں اور تمہاری چیزوں کو بھی اپنا ہی سمجھتا ہوں میں۔ الفت کا اظہار چاہے کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو دلی مسرت کا باعث بنتا ہے اور تمہارے مکتوب سے اس پنہاں الفت کو محسوس کرکے روح مسرور ہوگئی ، جیسے کسی نے محبت کی برسات کر دی ہو میرے پیاسے تن پر۔ تمہاری الفت مجھے بے حد عزیز ہے اور یہ الفت ہی تو جو باہمی تعلق کو محبت سے جوڑے رکھتی ہے۔ روح کو شادابی بخشنے کے لیے کچھ الفاظ بطور ہدیہ عنایت کرتی رہنا کہ اس سے دل سنبھلا رہتا ہے اور چاہت کا احساس اور توانا رہتا ہے۔ یہ پڑھ کر ایک بار تو دل و جان جھوم اٹھے کہ کچھ خواہشیں عنقریب پوری ہو جائیں گی پھر خیال آیا کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے مگر سچا کیسے ہوگا، خواہش تو بس تمہیں سننے اور تم سے مل کر ان کہی کہنے کی ہیں مگر ہر خواب کی تعبیر کہاں؟ الفاظ میں وہ قوتِ اظہار کہاں جو تمہاری کمی کو بیان کر سکیں ، تمہارے بغیر بیتے دنوں کی داستان خود سنا سکیں ، تمہیں بتا سکیں کہ وہ دن جو تم سے باتیں کیے بنا گزرتے ہیں وہ کتنے بے کیف کتنے بے سکون ہوتے ہیں ان دنوں سے جن میں تم سے باتیں ہوتی ہیں ، جن میں زندگی محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کہے پر اتنا ہی اعتبار ہے جتنا خود تم پر اور میں مطمن رہوں گا بس تم میرے ساتھ رہنا۔
کبھی کبھار ہی کیوں میرے الفاظ پر بہت حق ہے تمہارا ، جب چاہا کرو گی آ جایا کریں گے سر تسلیم خم کیے اور شاعری کے مجموعے تو ہیں ہی تمہارے۔ جانتا ہوں کہ تم جذبوں کی سچی قدردان ہو اس لیے تو دل تمہارا قدردان ہے ، تمہارا خیال خود سے جدا نہیں کرتا اور ہمہ وقت تمہیں دل میں بسائے رکھتا ہوں۔

میری طرف سے اپنا بہت خیال رکھنا اور جلد لکھنا مجھے۔
الوداع

تمہارا خط اب کی بار کیا ملا سمجھو قیامت آ گئی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اب ساز و آواز بن گئی، تم خط پھینکتے ہوئے خط کے ساتھ چھوٹا سا پتھر باندھا کرو اس بار تمہارا خط امّاں کے سر پر لگا وہ تو شُکر تھا کہ امّاں اپنی چیخ و پکار میں یہ بھول گئیں کہ کیا چیز لگی ہے سر پر ورنہ دن میں تارے نظر آ جاتے مجھے :roll:
میں تمہاری شاعری سمجھنے کی کوشش کروں ، تمہارے خط سنبھالوں یا تمہاری حرکتوں پر پردے ڈالوں ایک ننھی سی معصوم میری جان اور اُس پر اتنے ظلم
:cry:

اور غزل ہی بھیجنا تم کبھی تحفے بھی بھیج دیا کرو ایسے تو کافی خبریں ملتی ہیں اڑتی اڑتی انار کلی میں گھوم رہے ہوتے ہو وہ تو شکر کرو اکیلے ہوتے ہو اس لیئے کبھی پوچھا نہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی اکیلے گھومنا ورنہ وہ غزل ابّا کو بھجواؤں گی تمہارے جو تم نے مجھے لکھی ہے پھر تم پر دیوان لکھیں گے ابّا تمہارے :wink:

اور ہاں یہ تمہارے خط لکھنے کا شوق اور اُس سے زیادہ جواب مانگنے کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کہیں منشی لگنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اگر ایسا ہے تو ذرا قلم کو قابو میں رکھنا میں تمہارے مزاج سے خوب واقف ہوں :twisted:
اچھا اب اجازت دو تمہاری نئی رپورٹ ملے گی تو خط لکھوں گی۔
زبردست حجاب۔ :D

خط اماں کے ہاتھ لگنے والی بات سے تو ایک بات یاد آ گئی۔ یقیناً محب کو بھی یاد آ گئی ہو گی۔ ہاہاہاہا۔ (حجاب تمھیں بعد میں بتاؤں گی۔)

اور محب انار کلی میں اکیلا نہیں جوتیاں گھیسٹتا رہتا۔ پکے ثبوت ہیں میرے پاس۔ :wink:

چلو، اس خط و کتابت میں میں تمھاری اس سہیلی کا کردار ادا کرتی ہوں جو اکثر ساری رپورٹس آ کر دیتی ہے۔ لیکن قسم سے آخر میں اسے اڑا نہیں لے جاؤں گی۔ :p :lol:

اف آگئی ماورا ، پھوٹ ڈلوانے والی ، مائی بگو :wink:

ایک دو بار کسی کو بنارسی ساڑھی ہاؤس تک کیا چھوڑ دیا ، بات ہی پکڑ‌ لی ، اب اتنا تو آدمی کا اخلاقی فرض بنتا ہے پر یہ حاسد کیا جانیں اور کسی کو ہنستا بستا کہاں دیکھا جاتا ہے لوگوں سے۔
 

ماوراء

محفلین
محب علوی نے کہا:
ماوراء نے کہا:
:wink: :lol: زبردست حجاب۔ :D

خط اماں کے ہاتھ لگنے والی بات سے تو ایک بات یاد آ گئی۔ یقیناً محب کو بھی یاد آ گئی ہو گی۔ ہاہاہاہا۔ (حجاب تمھیں بعد میں بتاؤں گی۔)

اور محب انار کلی میں اکیلا نہیں جوتیاں گھیسٹتا رہتا۔ پکے ثبوت ہیں میرے پاس۔ :wink:

چلو، اس خط و کتابت میں میں تمھاری اس سہیلی کا کردار ادا کرتی ہوں جو اکثر ساری رپورٹس آ کر دیتی ہے۔ لیکن قسم سے آخر میں اسے اڑا نہیں لے جاؤں گی۔ :p :lol:

اف آگئی ماورا ، پھوٹ ڈلوانے والی ، مائی بگو :wink:

ایک دو بار کسی کو بنارسی ساڑھی ہاؤس تک کیا چھوڑ دیا ، بات ہی پکڑ‌ لی ، اب اتنا تو آدمی کا اخلاقی فرض بنتا ہے پر یہ حاسد کیا جانیں اور کسی کو ہنستا بستا کہاں دیکھا جاتا ہے لوگوں سے۔
کسی دوسرے کی کہانی میں کوئی ولن نہ ہو تو مزہ نہیں آتا۔ ہاں البتہ اپنی کہانیوں میں ولن کے بغیر ہی مزہ آتا ہے۔

ویسے کہتے ہو تو تمھاری وہ تصویر لگا دیتی ہوں، جس میں تم آئس کریم کھلانے کسی کو لے گئے تھے۔ اور وہ جیولری کی دکان پر بھی گئے تھے۔ :wink: :lol:
 
کتنا شوق ہے لڑائی کروانے کا ، پر جلنے سے کیا ہوگا اپنا ہی خون کم ہو گا تمہارا

آئسکریم کی دکان پر کب وہ تو جوس کی دکان تھی اور جیولر کی دکان تو ساتھ ہی تھی اس پر کب لے کر گیا تھا جھوٹی۔

اب خط لکھنے دو ، ذہنی انتشار نہ پھیلاؤ۔
 

شمشاد

لائبریرین
پُتر ظفری

خوش رہو۔ کافی دن ہو گئے نیں تمہارا کوئی خط نہیں آیا۔ میں پرانے محلے وی گیا سی پتہ کرن لئی۔

پتر اے خط میں تمہیں بہت ہولی ہولی لکھ ریا واں کیونکہ مینوں پتہ ہے تون تیز تیز نئیں پڑھ سکدا۔ اور ہاں توں ہلے جہیڑا وی خط لکھیں گا او اپنے تائے رجوان دے پتے تے پاویں۔ ایسی نواں گھر خریدا اے۔ پر ایدا اجے پتہ نہیں ہے۔ کیونکہ پرانے مالک ایدا پتہ اپنے نال ای لے گئے ہیں۔

پچھلے ہفتے تمہارا محب چاچا وی ولائتوں آیا تھا۔ پر حرام اے جے ہمارے گھر آیا ہووے کہ کتے کوئی تحفہ شحفہ ای نہ دینا پڑ جائے۔ اور اپنے تائے رجوان کا تو تمہں پتہ ای ہے کہ اس نے تے کدی آنا ہی نہیں۔ آہو جی وڈے لوک ہو گئے نے۔ اسلام آباد کوٹھی جو بنا لئی ہے۔

اور ہاں ہم نے تمہارے لئی اک رشتہ وی پسند کیتا اے۔ تم کہیں آتے ہوئے اپنے ساتھ کوئی میم نہ لے آنا۔ ہم نے جو لڑکی تمارے واسطے پسند کی ہے۔ وہ بہت اچھی ہے۔ جب کبھی وہ ہماری گلی سے سر پر ٹوکرا اٹھا کر گزرتی ہے تو بالکل ایسے لگتا ہے جیسے سر پر بڑا سا تاج پہنا ہوا ہے۔ ملکہ لگتی ہے ملکہ۔ کیا ہوا جو اس کی عمر تھوڑی زیادہ ہے۔ ہے تو برسر روزگار۔ چنگا کما لیتی ہے۔

اچھا پتر ہلے بس ایناں ای۔

تیرے نال جو حوریں ہیں اوندا کی حال اے؟

ٕتمہاری بھرجائی وی تمہیں دعائیں لکھوا رہی ہے۔
دعا گو
تیرا وڈا بھائی
 

سیفی

محفلین
اعجاز اختر نے کہا:
یار سیفی۔ تم احمد ندیم قاسمی کی جگہ پر کر سکتے ہو۔ پنجابی دیہاتوں کا ماحول تمھاری تحریر میں انیہں کی طرح رچ بس گیا ہے۔ سنجیدگی سے افسدانہ نگاری کے بارے میں سوچو۔

اعجاز صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چہ نسبت خاک را عالمِ بے باک :lol:
کہاں احمد ندیم قاسمی اور کہاں ہم۔۔۔۔۔۔۔


محب علوی نے کہا:
سیفی کمال کا لکھ رہے ہو بھئی اور چاہو تو ایک عدد خط مجھے بھی لکھ ڈالو :lol:

نبیل خوب جواب لکھا ہے اور لکھتے رہنا یہ اچھا سلسلہ ہے۔

باجو، آپ نے تو حیران کر دیا اتنے عمدہ خطوط لکھ کر مخصوص زنانہ انداز میں۔

ماورا، بہت اعلی ، زبردست لکھا ہے۔

اب میرا دل تو بہت کر رہا ہے کہ میں بھی لکھوں مگر میں لکھنا چاہ رہا ذرا روایتی رومانوی خط جس کے چرچے اور جس کے پکڑے جانے کا ڈر بھی ہوتا ہے۔ :lol:

محب! بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت عرصہ مشینوں سے مغز آزمائی کے بعد مہلت ملی تو کچھ دل مچل رہا تھا۔۔۔۔

خطوط لکھنے والوں سے درخواست ہے کہ اپنے خط میں وصول کنندہ کا اور خط لکھنے والے کا فرضی یا اصلی نام ضرور لکھیں تاکہ (سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے :) ۔۔۔) بعد میں کسی خط میں‌ حوالہ دینا ہو تو آسانی ہو۔۔۔۔۔اب میں نے محب اور ماوراء اور حجاب کے لکھے خطوط کے حوالے سے خط لکھنا تھا تو پتہ ہی نہیں‌ کہ جناب کس کو کون خط لکھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔چلو میں‌ اصلی نام سے ہی لکھ دیتا ہوں اگر اچھا نہ لگے تو بتا دیں تبدیلی کر دوں‌گا۔۔۔۔۔

شمشاد نے کہا:
پُتر ظفری

خوش رہو۔ کافی دن ہو گئے نیں تمہارا کوئی خط نہیں آیا۔ میں پرانے محلے وی گیا سی پتہ کرن لئی۔

پتر اے خط میں تمہیں بہت ہولی ہولی لکھ ریا واں کیونکہ مینوں پتہ ہے تون تیز تیز نئیں پڑھ سکدا۔ اور ہاں توں ہلے جہیڑا وی خط لکھیں گا او اپنے تائے رجوان دے پتے تے پاویں۔ ایسی نواں گھر خریدا اے۔ پر ایدا اجے پتہ نہیں ہے۔ کیونکہ پرانے مالک ایدا پتہ اپنے نال ای لے گئے ہیں۔

پچھلے ہفتے تمہارا محب چاچا وی ولائتوں آیا تھا۔ پر حرام اے جے ہمارے گھر آیا ہووے کہ کتے کوئی تحفہ شحفہ ای نہ دینا پڑ جائے۔ اور اپنے تائے رجوان کا تو تمہں پتہ ای ہے کہ اس نے تے کدی آنا ہی نہیں۔ آہو جی وڈے لوک ہو گئے نے۔ اسلام آباد کوٹھی جو بنا لئی ہے۔

اور ہاں ہم نے تمہارے لئی اک رشتہ وی پسند کیتا اے۔ تم کہیں آتے ہوئے اپنے ساتھ کوئی میم نہ لے آنا۔ ہم نے جو لڑکی تمارے واسطے پسند کی ہے۔ وہ بہت اچھی ہے۔ جب کبھی وہ ہماری گلی سے سر پر ٹوکرا اٹھا کر گزرتی ہے تو بالکل ایسے لگتا ہے جیسے سر پر بڑا سا تاج پہنا ہوا ہے۔ ملکہ لگتی ہے ملکہ۔ کیا ہوا جو اس کی عمر تھوڑی زیادہ ہے۔ ہے تو برسر روزگار۔ چنگا کما لیتی ہے۔

اچھا پتر ہلے بس ایناں ای۔

تیرے نال جو حوریں ہیں اوندا کی حال اے؟

ٕتمہاری بھرجائی وی تمہیں دعائیں لکھوا رہی ہے۔
دعا گو
تیرا وڈا بھائی

شمشاد آپ تو چھپے رستم نکلے۔۔۔۔۔بہت اچھا لکھا ہے
 
Top