خط لکھے تھے جو ترے نام ذرا لوٹا دو ----- غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلن
بحرِرمل مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام بالخصوص
محترم جناب الف عین صاحب
دیگر اساتذہ اور احباب محفل سے توجہ اور اصلاح کی درخواست ہے۔
-------------------------------------
خط لکھے تھے جو ترے نام ذرا لوٹا دو
روح کے گھاؤ ، وہ آلام ذرا لوٹا دو

جس کی دھڑکن بھی تری مرضی کے تابع تھی کبھی
لکھ کے اُس دل پہ مرا نام، ذرا لوٹا دو

جس پہ، "یہ عمر ترے نام"، لکھا تھا میں نے
ہاں وہی نامہءِ انعام ، ذرا لوٹا دو

تارا یہ صبح کا، اعلان شکستِ شب ہے
میری اندیشوں بھری شام ذرا لوٹا دو

تم کو رنجش کے برتنے کا سلیقہ ہی نہیں
تم شب و روز کے ہنگام ذرا لوٹا دو

اُس کو تا عمر میں سینے سے لگا کر رکھّوں
درد میں بھیگی ہوئی شام ذرا لوٹا دو

راہِ منزل میں نکل جاؤنگا میں پھر آگے
تم جو گزرے ہوئے ایّام ذرا لوٹا دو

دیکھ!، ہے میرا گماں تیرے یقیں سے بہتر؟
اب وہ اندازہ و الہام ذرا لوٹا دو

سیّد کاشف
-----------------------
شکریہ- جزاک اللہ
 
صحیح کہا عاطف بھائی۔
یہ قباحت تو کہیں کہیں مجھے بھی محسوس ہوئی تھی۔ لیکن ابھی کچھ متبادل ملا نہیں۔
شکریہ۔ جزاک اللہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
رنجش برتنا بھی کوئی معنوی طور پر ٹھیک نہیں ۔ شعر کا مطلوب مضمون اور انداز بھی واضح نہیں ۔
راہ منزل کی ترکیب بھی مجرد منزل کے ساتھ اچھی نہین لگ رہی ۔راہ تو ہوتی ہی کسی منزل کی ہے۔ یہاں منزل کی تخصیص کے بغیر یہ ترکیب لطیف نہیں لگے گی۔
اندازہ و یقین والے شعر میں مصرعے ربط میں ہی نہیں اس پہ طرہ یہ کہ ردیف والا مسئلہ۔شعر بکھر گیا ۔
 
آخری تدوین:
رنجش برتنا بھی کوئی معنوی طور پر ٹھیک نہیں ۔ شعر کا مطلوب مضمون اور انداز بھی واضح نہیں ۔
راہ منزل کی ترکیب بھی مجرد منزل کے ساتھ اچھی نہین لگ رہی ۔راہ تو ہوتی ہی کسی منزل کی ہے۔ یہاں منزل کی تخصیص کے بغیر یہ ترکیب لطیف نہیں لگے گی۔
اندازہ و یقین والے شعر میں مصرعے ربط میں ہی نہیں اس پہ طرہ یہ کہ ردیف والا مسئلہ۔شعر بکھر گیا ۔
رنجش والے شعر میں عبید سر کی رائے اور لے لیتے ہیں۔ مجھے ایسی بری نہیں لگی یہ ترکیب۔
راہ منزل والا شعر پر غور کرتا ہوں
اندازہ و الہام والا شعر تو واقعی دو لخت سا لگ رہا ہے۔ اس پر بھی کام کرتا ہوں۔ ان شا اللہ۔
شکریہ۔ اللہ آپ کا بھلا کرے ۔۔۔
 
کچھ تبدیلیوں کی ہیں۔بالخصوص الف عین سر کی توجہ چاہونگا،
عاطف بھائی آپ بھی توجہ بھی درکار ہے:

خط لکھے تھے جو ترے نام ذرا لوٹا دو
روح کے گھاؤ ، وہ آلام ذرا لوٹا دو

جس کی دھڑکن بھی تری مرضی کے تابع تھی کبھی
لکھ کے اُس دل پہ مرا نام، ذرا لوٹا دو

جس پہ، "یہ عمر ترے نام"، لکھا تھا میں نے
ہاں وہی نامہءِ انعام ، ذرا لوٹا دو

تارا یہ صبح کا، اعلان شکستِ شب ہے
میری اندیشوں بھری شام ذرا لوٹا دو

تم میں رنجش کو نبھانے کا سلیقہ ہی نہیں
تم شب و روز کے ہنگام ذرا لوٹا دو

اُس کو تا عمر میں سینے سے لگا کر رکھّوں
درد میں بھیگی ہوئی شام ذرا لوٹا دو

وقت کی رَہ پہ نکل جاؤنگا میں دور بہت
بس وہ
گزرے ہوئے ایّام ذرا لوٹا دو

دیکھ!، نکلایہ گماں تیرے یقیں سے بہتر!
اب یہ اندازہ و الہام ذرا لوٹا دو

سیّد کاشف
---------------------------
شکریہ
 

شوکت پرویز

محفلین
"تیرے" اور ردیف کے "لوٹادو" میں اسالیب موافق نہیں ۔اس طرح اکثر اشعار ناہموار سے لگ رہے ہیں۔
صحیح کہا عاطف بھائی۔
یہ قباحت تو کہیں کہیں مجھے بھی محسوس ہوئی تھی۔ لیکن ابھی کچھ متبادل ملا نہیں۔
شکریہ۔ جزاک اللہ
تمام "تم" کو "تجھ یا تُو" کردیں۔ اور ردیف "لوٹا دے" کر دیں۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عزیم شوکت کا مشورہ صائب ہے۔لیکن ذرا لوٹا دے کی بہ نسبت مجھے ’مجھے لوٹا دے‘ زیاہ بہتر لگ رہا ہے۔
رنجش برتنا بھی قابل قبول تھا، ور راہ منزل بھی۔ لیکن تبدیل شدہ صورت بھی اچھی ہے۔ اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
اندازہ و الہام الے شعر میں یہ سقم بھی ہے کہ اندازہ خود کیا جاتا ہے، الہام نہیں کیا جاتا، وہ خود آپ پر القا کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ’تارہ صبح کا‘ شعر کی عمومی زبان و لہجے سے میل نہیں کھاتا۔ ستارہء صبح کے ساتھ کچھ سوچو!!
 
عزیم شوکت کا مشورہ صائب ہے۔لیکن ذرا لوٹا دے کی بہ نسبت مجھے ’مجھے لوٹا دے‘ زیاہ بہتر لگ رہا ہے۔
رنجش برتنا بھی قابل قبول تھا، ور راہ منزل بھی۔ لیکن تبدیل شدہ صورت بھی اچھی ہے۔ اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
اندازہ و الہام الے شعر میں یہ سقم بھی ہے کہ اندازہ خود کیا جاتا ہے، الہام نہیں کیا جاتا، وہ خود آپ پر القا کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ’تارہ صبح کا‘ شعر کی عمومی زبان و لہجے سے میل نہیں کھاتا۔ ستارہء صبح کے ساتھ کچھ سوچو!!
بہت بہت شکریہ عبید سر۔
میں ترمیم کے بعد حاضر ہوتا ہوں۔ ان شا اللہ۔
جزاک اللہ
 
تبدیلیوں کے بعد غزل حاضر ہے ۔ الہام والا شعر فی الحال شامل نہیں کیا ہے۔
"تارا" والے شعر جوں کا توں ہے۔ درستی کے بعد تبدیل کر دونگا۔ ان شا اللہ۔


خط لکھے تھے جو ترے نام ،مجھے لوٹا دے
روح کے گھاؤ ، وہ آلام ،مجھے لوٹا دے

جس کی دھڑکن بھی تری مرضی کے تابع تھی کبھی
لکھ کے اُس دل پہ مرا نام،مجھے لوٹا دے

جس پہ، "یہ عمر ترے نام"، لکھا تھا میں نے
ہاں وہی نامہءِ انعام ،مجھے لوٹا دے

تارا یہ صبح کا، اعلان شکستِ شب ہے
میری اندیشوں بھری شام ،مجھے لوٹا دے

تجھ میں رنجش کو نبھانے کا سلیقہ ہی نہیں
تُو شب و روز کے ہنگام مجھے لوٹا دے

اُس کو تا عمر میں سینے سے لگا کر رکھّوں
درد میں بھیگی ہوئی شام ،مجھے لوٹا دے

وقت کی رَہ پہ نکل جاؤنگا میں دور بہت
بس وہ
گزرے ہوئے ایّام ،مجھے لوٹا دے

سیّد کاشف
 
Top