حمیدالدین فراہی اور جمہور کے اصول تفسیر تحقیقی وتقابلی مطالعہ

شاکر

محفلین
کتاب کا نام: حمیدالدین فراہی اور جمہور کے اصول تفسیر تحقیقی وتقابلی مطالعہ(پی ایچ ڈی مقالہ)
مصنف : حافظ انس نظرمدنی
ناشر: مجلس التحقیق الاسلامی،لاہور
صفحات: 593

قرآنِ مجید وہ عظیم کتاب ہے ،جسے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رُشد و ہدایت کیلئے نازل فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور تبع تابعین سے لے کر آج تک ہر دور میں اہل علم مفسّرین اس کی مشکلات کو حل کرتے اور اس کی گتھیوں کوسلجھاتے چلے آئے ہیں۔ہر دَور میں مفسرین کرام نے خصوصی ذوق اور ماحول کے مطابق اس کی خدمت کی اور تفسیر کے مخصوص مناہج اور اصول اپنے سامنے رکھے۔ پیش نظر"حمید الدین فراہی اور جمہور کے اصول تفسیر" حافظ انس نضر مدنی کا پی ایچ ڈی کے لیے لکھا جانے والا مقالہ ہے۔ محترم حافظ صاحب امتیازی حیثیت میں فاضل مدینہ یونیورسٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ’مجلس التحقیق الاسلامی‘اور ’کتاب ونت ڈاٹ کام‘ کے انچارج ہیں۔ موصوف جہاں طلباء جامعہ لاہور الاسلامیہ کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں وہیں متنوع علمی و تحقیقی کاموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ آپ کی خداد صلاحیتوں کا ایک اظہار زیر نظر مقالہ ہے۔ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے منہجِ تفسیر اور مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی تفسیر ’تدبر قرآن ‘ پر تو کسی نہ کسی حوالے سے تحقیقی کام موجود ہے لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اُصول تفسیر اور جمہور کے اُصول تفسیر میں مناسبت اور تقابل پر مرتب تحقيقی کام پہلی بارسامنے آیا ہے۔محترم حافظ صاحب نے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اُصول تفسیر اور تفسیر پر موجود کام کا سلف صالحین کے مناہجِ تفسیر سے اس انداز میں تقابلی جائزہ پیش کیاہےکہ واضح ہو سکے کہ کیا یہ ایک شے کے دو رُخ ہیں یا ان میں آپس میں جوہری اختلاف اور فرق ہے۔

ڈاؤن لوڈ لنک
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ شاکر۔ کیا یہ وہی فراہی صاحب ہیں جن کے ساتھ امین الدین اصلاحی صاحب نے بھی کام کیا ہوا ہے۔
 

سویدا

محفلین
مولانا امین اصلاحی ، مولانا حمیدالدین فراہی کے ان شاگردوں میں سے ہیں جنہوں نے فکر فراہی کو مزید پروان چڑھایا اور استاذ سے بھی آگے نکل گئے
 
مولانا امین اصلاحی ، مولانا حمیدالدین فراہی کے ان شاگردوں میں سے ہیں جنہوں نے فکر فراہی کو مزید پروان چڑھایا اور استاذ سے بھی آگے نکل گئے
استاد سے آگے نہیں نلکے یہ مبالغہ آرائی ہے ،اس سلسلہ میں مولانا شرف الدین اصلاحی صاحب کی کتاب فکر فراہی پڑھ لیں لاہور سے غالبا چھپی ہے ادارہ کا نام فی الحال یاد نہیں آ رہا ہے ،بٹوارہ کے بعد جب اصلاحی صاحب پاکستان گئے تو ساتھ ہی ساتھ امام فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے حواشی والے قران جس میں انھوں نے حاشیہ اور تشریح وغیرہ کی تھی لیتے گئے اور بھی ڈھیر ساری کتابیں ،دائرۃ حمیدیہ والوں نے بہت مانگا کہ حاشیہ والا قران واپس بھجیں تاکہ اسے شائع کیا جا سکے لیکن مولانا آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور نہیں بھیجا بعضوں کی روایت کے مطابق اصلاحی صاحب نے اس حاشیہ سے کافی استفادہ کیا ۔ایسے بھی فراہی صاحب کے جتنے کام ہیں ان کی بنیاد پر امین احسن صاحب کو آگے نکل جانا کہنا درست نہیں استاد بہرحال استاد ہی ہوتا ہے ۔
 
آخری تدوین:
شکریہ شاکر۔ کیا یہ وہی فراہی صاحب ہیں جن کے ساتھ امین الدین اصلاحی صاحب نے بھی کام کیا ہوا ہے۔
کام کیا ہوا نہیں باضابطہ شاگرد تھے اصلاحی صاحب کے کلاس فیلو میں مولانا دوود اکبر اصلاحی ، مولانا اختر احسن اصلاحی تھے ۔۔۔۔۔
اس سسلسلہ میں تھوڑی بہت معلومات میرے اس مضمون میں پا سکتے ہیں ۔۔۔۔یہ رہا لنک ۔۔۔۔

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/مدرسة-الاصلاح-ایک-تحریک،-ایک-تنظیم÷-نشاة-ثانیہ-اور-کھوئے-ہوئے-وقارکی-تلاش.62222/#post-1266453
 
1425673_253327731488295_251495903_n.jpg

مولا حمید الدین فراہی علیہ الرحمۃ
 

محدثہ

محفلین
حمید الدین فراہی کے مجموعہ"رسائل فی علوم القرآن "سے "اسالیب القرآن" انٹرنیٹ پر دستیاب ہو تو ربط درکار ہے۔
 

محب اردو

محفلین
مولانا حمید الدین فراہی صاحب کا تعارف آج کل کے بعض منکرین حدیث کی کتب کے ذریعے ہوا تھا ، یہی سمجھا کہ انہیں جیسے حدیث بیزار ہوں گے لیکن آہستہ آہستہ جب دائرہ معلومات وسیع ہوا تو اپنی رائے تبدیل کرنا پڑی کہ آج کل کے غامدیوں اور فراہیوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں وہ تو ماشاء اللہ قرآن وسنت سے محبت کرنے والے عظیم عالم دین تھے (فیما أحسب )۔ کمیاں کوتاہیاں اور لغزشیں تو ہر انسان سے سرزد ہو ہی جاتی ہیں ۔
مولانا کی کچھ عربی زبان میں بھی تصانیف ہیں البتہ وہاں انہوں نے اسم گرامی ’’ معلم عبد الحمید ‘‘ اختیار فرمایا ہے ۔
@محمد علم اللہ اصلاحی بھائی سے امید ہے کہ فکر حمید الدین فراہی کے سلسلے میں معلومات سے نوازیں گے ۔
 
مولانا حمید الدین فراہی صاحب کا تعارف آج کل کے بعض منکرین حدیث کی کتب کے ذریعے ہوا تھا ، یہی سمجھا کہ انہیں جیسے حدیث بیزار ہوں گے لیکن آہستہ آہستہ جب دائرہ معلومات وسیع ہوا تو اپنی رائے تبدیل کرنا پڑی کہ آج کل کے غامدیوں اور فراہیوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں وہ تو ماشاء اللہ قرآن وسنت سے محبت کرنے والے عظیم عالم دین تھے (فیما أحسب )۔ کمیاں کوتاہیاں اور لغزشیں تو ہر انسان سے سرزد ہو ہی جاتی ہیں ۔
مولانا کی کچھ عربی زبان میں بھی تصانیف ہیں البتہ وہاں انہوں نے اسم گرامی ’’ معلم عبد الحمید ‘‘ اختیار فرمایا ہے ۔
@محمد علم اللہ اصلاحی بھائی سے امید ہے کہ فکر حمید الدین فراہی کے سلسلے میں معلومات سے نوازیں گے ۔
جناب محب اردو صاحب ضرور میں کوشش کروں گا ۔۔۔
کچھ کتابیں یا مضامین فراہم کر سکوں ۔۔
 
مولانا حمید الدین فراہی صاحب کا تعارف آج کل کے بعض منکرین حدیث کی کتب کے ذریعے ہوا تھا ، یہی سمجھا کہ انہیں جیسے حدیث بیزار ہوں گے لیکن آہستہ آہستہ جب دائرہ معلومات وسیع ہوا تو اپنی رائے تبدیل کرنا پڑی کہ آج کل کے غامدیوں اور فراہیوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں ۔
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وضاحت چاہوں گا؟ اور جنھیں آپ منکرین حدیث کہہ رہے آپ کے پاس اس کے دلائل کیا ہیں ؟۔اگر آپ نعوذ باللہ غامدی صاحب کو منکر حدیث کہتے ہیں تو آپ کے علم کے لئے بتادوں کہ ان کی کتاب میزان میں ہی تقریباَ بارہ سو احادیث درج ہیں، کوئی منکرِ حدیث ہوگا تو اپنی کتاب میں بارہ سو تو دور بارہ احادیث بھی درج کیوں کرے گا؟
 

محب اردو

محفلین
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وضاحت چاہوں گا؟ اور جنھیں آپ منکرین حدیث کہہ رہے آپ کے پاس اس کے دلائل کیا ہیں ؟۔اگر آپ نعوذ باللہ غامدی صاحب کو منکر حدیث کہتے ہیں تو آپ کے علم کے لئے بتادوں کہ ان کی کتاب میزان میں ہی تقریباَ بارہ سو احادیث درج ہیں، کوئی منکرِ حدیث ہوگا تو اپنی کتاب میں بارہ سو تو دور بارہ احادیث بھی درج کیوں کرے گا؟
گوگل کی مدد سے غامدی صاحب کی کتاب میزان کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں :
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں 'حدیث' کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔
ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔
دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔
حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بنا پریہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔''

اس اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث دین میں عمل یا عقیدہ کسی بھی چیز کا فائدہ نہیں دے سکتی ۔
جبکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک حدیث اعمال و عقائد کے لیے قرآن مجید کی طرح بنیادی مصدر ہے ۔
میں تو اسی بات کو انکار حدیث سمجھتا ہوں اگر آپ کوئی مزید معلومات فراہم کرکے میری غلط فہمی درست فرمادیں تو شکر گزار رہوں گا ۔
 
گوگل کی مدد سے غامدی صاحب کی کتاب میزان کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں :
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں 'حدیث' کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔
ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔
دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔
حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بنا پریہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔''

اس اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث دین میں عمل یا عقیدہ کسی بھی چیز کا فائدہ نہیں دے سکتی ۔
جبکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک حدیث اعمال و عقائد کے لیے قرآن مجید کی طرح بنیادی مصدر ہے ۔
میں تو اسی بات کو انکار حدیث سمجھتا ہوں اگر آپ کوئی مزید معلومات فراہم کرکے میری غلط فہمی درست فرمادیں تو شکر گزار رہوں گا ۔
۔؟؟؟کتاب ۔۔۔پیراگراف ۔۔۔۔صفحہ نمبر ؟؟؟(کچھ بھی تو نہیں دیا آپ نے۔علمی دنیا میں ایسے بے سر پیر کی بات نہیں کی جاتی)
ایسے تو کوئی بھی کچھ نقل کر سکتا ہے ۔۔۔
اور یہ سن لیں کفر کا فتوی امام فراہی اور شبلی رحمہما اللہ پر بھی لگ چکا ہے ۔ایسے ہی کتر بیونت کر کے ؟؟؟ تو کیا اسقدر قران و حدیث کی خدمت انجام دینے والے بزرگوں کو کافر تصور کر لیں ؟؟
خیر آپ اپنی بات کا حوالہ دیجئے ؟؟
پھر انشاء اللہ آگے گفتگو کرتے ہیں ۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
گوگل کی مدد سے غامدی صاحب کی کتاب میزان کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں :
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں 'حدیث' کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔
ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔
دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔
حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بنا پریہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔''

اس اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث دین میں عمل یا عقیدہ کسی بھی چیز کا فائدہ نہیں دے سکتی ۔
جبکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک حدیث اعمال و عقائد کے لیے قرآن مجید کی طرح بنیادی مصدر ہے ۔
میں تو اسی بات کو انکار حدیث سمجھتا ہوں اگر آپ کوئی مزید معلومات فراہم کرکے میری غلط فہمی درست فرمادیں تو شکر گزار رہوں گا ۔
ایک سوال۔ آپ کوئی چند ایسی احادیث دکھا سکتے ہیں جس پر ہر ایک فقہ متفق ہو؟
پسِ نوشت: قرآن پاک کے لکھنے کے بارے ہمیں قرآن پاک سے ثبوت ملتا ہے کہ اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ احادیث کے بارے بھی بتا دیجئے اور یہ بھی کہ قرآن پاک ہمیں براہ راست شروع سے اب تک تحریری شکل میں تو ملتا ہے احادیث کیوں اتنی بعد جا کر تحریری شکل میں آئیں؟
یہ محض علمی سوالات ہیں۔ تاہم آپ میرے ایمان کے بارے بھی تبصرہ کرنے پر آزاد ہیں :)
 

سید ذیشان

محفلین
گوگل کی مدد سے غامدی صاحب کی کتاب میزان کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں :
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں 'حدیث' کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔
ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔
دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔
حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بنا پریہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔''

اس اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث دین میں عمل یا عقیدہ کسی بھی چیز کا فائدہ نہیں دے سکتی ۔
جبکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک حدیث اعمال و عقائد کے لیے قرآن مجید کی طرح بنیادی مصدر ہے ۔
میں تو اسی بات کو انکار حدیث سمجھتا ہوں اگر آپ کوئی مزید معلومات فراہم کرکے میری غلط فہمی درست فرمادیں تو شکر گزار رہوں گا ۔

غامدی صاحب نے تو بڑی منطقی بات کی ہے۔ آپ غور کریں یہاں پر اخبارِ واحد کی بات ہو رہی ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ علم الیقین کے درجے پر بہرحال فائز نہیں ہیں۔ ظاہری بات ہے متواتر احادیث کے بابت یہ نہیں کہا گیا۔ تو ان کو اس اقتباس کی بنا پر تو منکر حدیث کسی صورت میں نہیں کہا جا سکتا۔
 

محب اردو

محفلین
۔؟؟؟کتاب ۔۔۔ پیراگراف ۔۔۔ ۔صفحہ نمبر ؟؟؟(کچھ بھی تو نہیں دیا آپ نے۔علمی دنیا میں ایسے بے سر پیر کی بات نہیں کی جاتی)
ایسے تو کوئی بھی کچھ نقل کر سکتا ہے ۔۔۔
اوپر جو میں نے اقتباس نقل کیا تھا وہ یہاں سے لیا تھا ۔ غلطی سے دھاگہ مندرج کرنا بھول گیا ۔ معذرت قبول فرمائیے ۔
البتہ غامدی صاحب کی کتاب سے براہ راست میں ایک اقتباس نقل کردیتا ہوں اگر آپ چاہیں گے تو تصویر کی بھی کوشش کرلوں گا ۔ ملاحظہ فرمائیں :
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنھیں اصطلاح میں ’’ حدیث ‘‘ کہا جاتا ہے ، ان کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا ‘‘ ( میزان از جاوید غامدی ص 61 ط 2009)
اور یہ سن لیں کفر کا فتوی امام فراہی اور شبلی رحمہما اللہ پر بھی لگ چکا ہے ۔ایسے ہی کتر بیونت کر کے ؟؟؟ تو کیا اسقدر قران و حدیث کی خدمت انجام دینے والے بزرگوں کو کافر تصور کر لیں ؟؟
خیر آپ اپنی بات کا حوالہ دیجئے ؟؟
پھر انشاء اللہ آگے گفتگو کرتے ہیں ۔۔۔
اصلاحی بھائی آپ کو کہیں لگا کہ میں نے کسی پر کفر کا فتوی لگایا ہے ؟
 

محب اردو

محفلین
ایک سوال۔ آپ کوئی چند ایسی احادیث دکھا سکتے ہیں جس پر ہر ایک فقہ متفق ہو؟
احادیث مبارکہ کی ایک کثیر تعداد ہے جن پر تمام علماء کا اتفاق ہے ۔ مثلا پانچ نمازیں فرض ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک تم ان کو تھامے رکھو گے گمراہی سے بچے رہو گے ، قرآن مجید اور میری سنت ۔
ایک لمبا موضوع ہےجس پر مستقل کتب موجود ہیں ۔
اص مسئلہ یہ ہے کہ حدیث قابل عمل ہونےکے لیے یہی کافی ہے کہ یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اتفاق کرنےوالے خوش نصیب ہیں اور اختلاف کرنے والے اگر جان بوجھ کے کریں گے تو بہت بڑی بد نصیبی ہے ۔ اس اختلاف و اتفاق سے حدیث کی حجیت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ۔
اختلاف کرنے والوں نے تو قرآن مجید میں بھی اختلاف کرلیا ہے ۔
پسِ نوشت: قرآن پاک کے لکھنے کے بارے ہمیں قرآن پاک سے ثبوت ملتا ہے کہ اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ احادیث کے بارے بھی بتا دیجئے اور یہ بھی کہ قرآن پاک ہمیں براہ راست شروع سے اب تک تحریری شکل میں تو ملتا ہے احادیث کیوں اتنی بعد جا کر تحریری شکل میں آئیں؟
شروع شروع میں لوگوں کے حافظے بہت زیادہ قوی تھے اس لیے لکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی البتہ جو پیچیدہ اور حساب وغیرہ سے تعلق سے چیزیں تھیں وہ شروع سے ہی لکھی ہوئی موجود تھیں ۔
اسی طرح اس کے علاوہ بھی کئی کتب ملتی ہیں جو خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے ہاتھ سے لکھیں تھیں اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا صحیفہ ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص کا صحیفہ بہت مشہور ہیں ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک یمنی صحابی تھے ابو شاہ رضی اللہ عنہ تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو کہا تھا کہ اس کو احادیث لکھ کردیں ۔
قرآن مجید بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مکمل تحریری شکل میں آیا تھا (فیما أعلم )
قرآن مجید کلام اللہ تھا اس لیے اس کی حفاظت میں زیادہ احتیاط کی گئی کیونکہ اس کے بعینہ الفاظ کی حفاظت مطلوب تھی ۔ جبکہ حدیث کلام رسول اللہ تھا اور حضور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے لب و لہجہ میں بیان کرتے تھے صحابہ بالکل آسانی سے سمجھتے تھے اور ویسے بھی حدیث کے الفاظ کی حفاظت مطلوب نہیں تھی بلکہ مترادف یا ہم معنی الفاظ استعمال کرنے کی بھی گنجائش تھی اس لیے اسی وقت مکمل کتابی شکل میں لانے کی ضرورت نہین سمجھی گئی ۔
اصل بات یہ ہے کہ اللہ نے جس طرح قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا تو قرآن کی تشریح و تفسیر ( جو کہ حدیث ہے ) بھی اس میں شامل ہے ۔ اللہ نے اپنی حکمت کے مطابق دونوں کو محفوظ اور باقی رکھا اور قیامت تک باقی رکھے گا ۔ جس طرح اللہ نے چاہا کیا ، جیسے چاہے گا کرے گا ۔
 
Top