حمد: خالقِ کن فکاں، مالکِ دو جہاں ٭ تابش

خالقِ کن فکاں، مالکِ دو جہاں
کوئی کیسے کرے حمدِ کامل بیاں

یہ زمین و زماں، یہ مکاں لامکاں
تیرے جلووں کی پیہم نمائش یہاں

رنگ تیرے ہی بکھرے کراں تا کراں
برگ و بار و حجر، ریگ و آبِ رواں

تیری ہی کبریائی کا اعلان اذاں
ہے ترا ذکر ہی ہر گھڑی، ہر زماں

چاند، سورج، ستاروں بھری کہکشاں
ہے تری آیتوں سے بھرا آسماں

ہے خدائی تری موسموں سے عیاں
ہو وہ گرما و سرما، بہار و خزاں

تو جو چاہے، برسنے لگیں بدلیاں
تو نہ چاہے تو پیاسا رہے ہر کنواں


تیری رحمت سے وہ ہو گئے بے نشاں
آئے رستے میں جو سنگ ہائے گراں

ہے سبق یہ ہی قرآن میں بے گماں
صرف تیری رضا ہے کلیدِ جناں

کامیابی اِسی میں ہے تابشؔ نہاں
ذکر ہر دم اُسی کا ہو وردِ زباں

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 

La Alma

لائبریرین
بہت خوب حمدیہ کلام ہے۔ ما شاء اللہ!!
تیری ہی کبریائی کا اعلان اذاں
کیا “اعلان” اور “اذاں “ میں اس طرح نون اور الف کا اتصال درست ہے؟ یا پھر یہ “اعلاں “ ہے۔

کامیابی اِسی میں ہے تابشؔ نہاں
ذکر ہر دم اُسی کا ہو وردِ زباں

بے شک!!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اتنی اچھی حمد میں از اور تا کے ساتھ یہاں اور وہاں مناسب نہیں لگتے اس کے لیے خالص فارسی الفاظ آنے چاہیئں ۔ جیسے این و آں وغیرہ ۔ کیوں کہ یہ اردو محاورے کا حصہ نہیں ماخوذ تراکیب کا حصہ ہیں ۔
سنگ گراں کے ساتھ "جتنے" بھی کچھ موافق نہیں ۔ "جو سنگ ہائے گراں" لایا جاسکتا ہے ۔ یا پھر مفرد کے لحاظ سے بیان اپنایا جائے ۔
بحر کے ساتھ بھی رواں مجھے مناسب نہیں لگا ۔ روانی اصلاََ دریاؤں، ندیوں کی بین صفت ہے اس کا خیال رکھا جائے تو بہتر ہو ۔
وویسے بہت عمدہ حمد ہے ماشاءاللہ ۔مجھے بہت پسند آئی ۔
اعلان اور اذاں کا اتصال نامناسب نہیں ۔ (میری رائے میں) ۔
 
بہت خوب حمدیہ کلام ہے۔ ما شاء اللہ!!
جزاک اللہ خیر
کیا “اعلان” اور “اذاں “ میں اس طرح نون اور الف کا اتصال درست ہے؟ یا پھر یہ “اعلاں “ ہے۔
جیسا کہ عاطف بھائی نے بھی بتایا کہ نون اور الف کا اتصال درست ہے۔ اور چونکہ مجھے اس طرح زیادہ رواں لگتا ہے، اس لیے یہی اختیار کیا۔ ویسے بھی اعلان کے نون کا اعلان ہی بہتر ہے۔ :)
 
وویسے بہت عمدہ حمد ہے ماشاءاللہ ۔مجھے بہت پسند آئی ۔
جزاک اللہ خیر عاطف بھائی۔
آپ کی تنقیدی آرا میرے لیے بہت اہم ہیں۔
اتنی اچھی حمد میں از اور تا کے ساتھ یہاں اور وہاں مناسب نہیں لگتے اس کے لیے خالص فارسی الفاظ آنے چاہیئں ۔ جیسے این و آں وغیرہ ۔ کیوں کہ یہ اردو محاورے کا حصہ نہیں ماخوذ تراکیب کا حصہ ہیں ۔
میں ذاتی طور پر اس معاملے میں کچھ آزادی کا قائل ہوں۔ البتہ حمد و نعت جتنی خوبصورت ہو سکیں اتنا بہتر ہے۔ لہٰذا اس میں بہتری لانے کی کوشش کروں گا۔
بحر کے ساتھ بھی رواں مجھے مناسب نہیں لگا ۔ روانی اصلاََ دریاؤں، ندیوں کی بین صفت ہے اس کا خیال رکھا جائے تو بہتر ہو ۔
بہت بہتر۔
اس پورے شعر کو دیکھتا ہوں۔
سنگ گراں کے ساتھ "جتنے" بھی کچھ موافق نہیں ۔ "جو سنگ ہائے گراں" لایا جاسکتا ہے ۔ یا پھر مفرد کے لحاظ سے بیان اپنایا جائے
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے اولین طور پر اس مصرع میں سنگ ہائے گراں کی ترکیب ہی استعمال کی تھی، البتہ مصرع کی بنت مختلف تھی جو سمجھ نہ آئی، آپ کی تجویز معقول ہے، من و عن قبول کرتا ہوں۔

ایک بار پھر ان قیمتی آرا کے لیے شکرگزار ہوں۔ :)
 

فاخر رضا

محفلین
زبردست حمد
بہت رواں ہے کہ انسان ایک ہی سانس میں پڑھتا چلا جائے
سب مطالب بہترین ہے
بس ایک چیز مجھے سمجھ نہیں آئی
تیری قدرت کہ پیدا کیے انس و جاں
آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے یاں
آگ اور ہوا کہاں سے آئی انسان کی تخلیق میں.
 

فاخر رضا

محفلین
زبردست حمد
بہت رواں ہے کہ انسان ایک ہی سانس میں پڑھتا چلا جائے
سب مطالب بہترین ہے
بس ایک چیز مجھے سمجھ نہیں آئی

آگ اور ہوا کہاں سے آئی انسان کی تخلیق میں.
اور وہ بھی پہلا انسان
اس کے بعد تو نطفے سے پیدائش کا ذکر ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
زبردست حمد
بہت رواں ہے کہ انسان ایک ہی سانس میں پڑھتا چلا جائے
سب مطالب بہترین ہے
بس ایک چیز مجھے سمجھ نہیں آئی

آگ اور ہوا کہاں سے آئی انسان کی تخلیق میں.
آگ سے مراد حرارت اور ہوا سے مراد آکسیجن ہو سکتی ہی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زبردست حمد
بہت رواں ہے کہ انسان ایک ہی سانس میں پڑھتا چلا جائے
سب مطالب بہترین ہے
بس ایک چیز مجھے سمجھ نہیں آئی
تیری قدرت کہ پیدا کیے انس و جاں
آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے یاں
آگ اور ہوا کہاں سے آئی انسان کی تخلیق میں.
فاخر بھائی ، جن آگ سے تخلیق کئے ہیں اللہ نے ۔ اور آدم کو مٹی اور پانی سے گوندھ کر بنایا ۔ ہاں البتہ ہوا کے بارے میں آپ کا اعتراض درست معلوم ہوتا ہے ۔ اس کی وضاحت تابش بھائی بہتر طور پر کرسکیں گے۔
جان (جن کی جمع) کو جاں باندھنے سے ابہام پیدا ہوگیا ہے۔ اس مصرع کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
 
زبردست حمد
بہت رواں ہے کہ انسان ایک ہی سانس میں پڑھتا چلا جائے
سب مطالب بہترین ہے
جزاک اللہ خیر
بس ایک چیز مجھے سمجھ نہیں آئی
آگ اور ہوا کہاں سے آئی انسان کی تخلیق میں.

آگ سے مراد حرارت اور ہوا سے مراد آکسیجن ہو سکتی ہی۔

فاخر بھائی ، جن آگ سے تخلیق کئے ہیں اللہ نے ۔ اور آدم کو مٹی اور پانی سے گوندھ کر بنایا ۔ ہاں البتہ ہوا کے بارے میں آپ کا اعتراض درست معلوم ہوتا ہے ۔ اس کی وضاحت تابش بھائی بہتر طور پر کرسکیں گے۔
جان (جن کی جمع) کو جاں باندھنے سے ابہام پیدا ہوگیا ہے۔ اس مصرع کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
بہتر یہی ہے کہ اس شعر کو نکال دیا جائے۔ :)
 

فاخر رضا

محفلین
جزاک اللہ خیر





بہتر یہی ہے کہ اس شعر کو نکال دیا جائے۔ :)
جیسے آپ کی مرضی
میرا اصل نکتہ یہ تھا کہ صرف اور صرف پہلا انسان اس مٹی اور پانی سے خلق ہوا یا پہلے چند
مگر اس کے بعد مٹی کا چکر ختم
ہم لوگ مٹی سے نہیں بنے ہیں
میں اس لئے بھی زور دے رہا ہوں کہ بہت سے سمجھدار مٹی لگا رہے ہوتے ہیں زخم پر
خیر یہ اس حمد سے متعلق موضوع نہیں اس لیے نظرانداز کردیجیے، خدانخواستہ کوئی فتویٰ نہ لگ جائے مجھ پر
 
جیسے آپ کی مرضی
میرا اصل نکتہ یہ تھا کہ صرف اور صرف پہلا انسان اس مٹی اور پانی سے خلق ہوا یا پہلے چند
مگر اس کے بعد مٹی کا چکر ختم
ہم لوگ مٹی سے نہیں بنے ہیں
میں اس لئے بھی زور دے رہا ہوں کہ بہت سے سمجھدار مٹی لگا رہے ہوتے ہیں زخم پر
خیر یہ اس حمد سے متعلق موضوع نہیں قس لیے نظرانداز کردیجیے، خدانخواستہ کوئی فتویٰ نہ لگ جائے مجھ پر
میرے بغیر کسی اگر مگر کے شعر حذف کرنے کے پیچھے یہی وجہ ہے کہ حمدیہ اشعار اتنے مکمل ہونے چاہئیں کہ اختلاف کی گنجائش نہ نکلے۔ :)
 
Top