حضرت براء بن مالکؓ

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپؓ ان دو مؤاخاتی بھائیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اللہ کی خاطر زندگی گزاری اور رسول اللہﷺ سے ایسا عہد کیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتا رہا۔ ان بھائیوں میں سے ایک رسول اللہﷺ کے خادم جناب انس بن مالکؓ ہیں۔

ایک روز حضرت انسؓ کو آپؓ کی والدہ محترمہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے گئیں، اس وقت آپؓ کی عمر صرف ۱۰ سال تھی۔ والدہ محترمہ نے رسول اللہﷺ سے درخواست کی ’’یارسول اللہﷺ! یہ انس ہے، آپؐ کا بچہ ، آپﷺ کی خدمت انجام دیا کرے گا، آپﷺ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے۔‘‘ رسول اللہﷺ نے حضرت انسؓ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور آپؓ کے لیے ایسی دعا فرمائی جو تاحیات آپؓ کو خیر و برکت کی طرف لے جاتی رہی۔ رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی:

’’یا اللہ! اس کے مال و اولاد میں اضافہ فرما، اس کے لیے برکت کا سامان فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما!‘‘ جناب انس بن مالکؓ ۹۹ برس زندہ رہے اور بیٹوں اور پوتوں کی کثیر تعداد سے نوازے گئے۔ اس طرح آپؓ کو رزقِ دنیا میں سے ایک وسیع و عریض اور خوشنما و دلربا باغ بھی عطا ہوا جو سال میں دو مرتبہ پھل دیتا تھا۔
…………
ان دو مؤاخاتی بھائیوں میں سے دوسرے حضرت ’’براء بن مالکؓ‘‘ تھے جنھوں نے عظیم اور جرأت مندانہ زندگی گزاری اور ساری زندگی ان کا شعار ’’اللہ اور جنت‘‘ ہی رہا۔ عمر بھر آپ کے پیش نظر یہی دو مقاصد اور اہداف تھے۔ میدانِ جنگ کے اندر جو شخص بھی آپؓ کو راہِ خدا میں لڑتے دیکھتا، حیرت بالائے حیرت کا اظہار کرتا۔ حضرت براء ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو تلوار کے ذریعے مشرکین سے جہاد کرتے ہوئے فتح و نصرت کے متلاشی ہوتے ہیں حالانکہ اس وقت نصرت و فتح کی اشد ضرورت بھی ہوتی ہے بلکہ آپؓ اس وقت بھی شہادت کی تلاش میں ہوتے۔

آپؓ کی تمام تر خواہش و تمنا یہ تھی کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو اور میں حق و باطل کے معرکوں میں سے کسی میں اپنا نصیبہ حاصل کرسکوں۔ یہی وہ جذبہ اور داعیہ تھا جس کی وجہ سے آپؓ زندگی میں کبھی کسی غزوہ سے پیچھے نہ رہے۔ آپؓ بیمار تھے۔ دوست احباب آپؓ کی عیادت کے لیے حاضرِخدمت ہوئے تو آپؓ نے ان کے سامنے قرآن کریم کی کچھ تلاوت کی پھر فرمایا: ’’شاید تم ڈر رہے ہو کہ میں اپنے بستر پر جان دے رہا ہوں… نہیں! اللہ کی قسم میرا رب مجھے شہادت سے ہرگز محروم نہیں رکھے گا!‘‘
اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے اس یقین کو سچ کر دکھایا۔ آپؓ اپنے بستر پر فوت نہ ہوئے بلکہ اسلامی معرکوں میں سے ایک عظیم معرکے میں اعزازِشہادت سے سرفراز ہوئے۔
…………

جنگ یمامہ کے روز حضرت براء نے جس بہادری اور شجاعت کا اظہار کیا وہ آپؓ ہی کی صفت خاص تھی… ایک ایسے مردِمیدان کی صفت جس کے بارے میں حضرت عمرؓ بن خطاب کہا کرتے تھے کہ انھیں کبھی کمانڈر نہ بنایا جائے کیونکہ ان کی تمام تر جسارت و پیش قدمی اور قوت آزمائی کا مقصودشہادت ہی ہوتا ہے۔ یہ چیزیں ان کی قیادت کو دوسرے سپاہیوں کے لیے ایسے خطرے سے دوچار کر سکتی ہیں جو تباہی سے کم نہیں ہوتا۔

جنگ یمامہ کے روز جب اسلامی لشکر حضرت خالدؓبن ولید کی سالاری میں میدانِ جنگ میں اترنے کے لیے تیار تھا تو حضرت
براءؓ انتظار کے ان لمحات کو اس طرح بے چینی اور بے تابی کے ساتھ گزار رہے تھے گویا یہ لمحے نہیں بلکہ سال ہوں۔ اس موقع پر تیزی کے ساتھ حرکت کرتے ہوئے آپؓ کی آنکھیں میدانِ جنگ کا بغور جائزہ لیتی رہیں۔ گویا وہ اس عظیم بہادر کے لیے موزوں ترین جائے شہادت تلاش کر رہی تھیں! اللہ اکبر… آپؓ کو اس مقصد کے علاوہ دنیا کی کوئی اور چیز مشغول نہیں رکھ سکتی تھی۔

…………

حضرت خالدؓبن ولید نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا… اللہ کی کبریائی کا یہ اعلان سن کر اسلامی لشکر کی مضبوط صفیں اپنے اہداف کی طرف چل پڑیں۔ موت کے عاشق جناب براءؓ بن مالک بھی لشکر کے ہمراہ متحرک ہوگئے۔ میدانِ جنگ گرم ہوا تو آپؓ کی تلوار سے ظلم و باطل کے پجاریوں کی ایک کثیر تعداد زمین پر گرنے لگی۔ آپؓ اپنی تلوار کے ساتھ مُسَیلمہ کذاب کے پیروکاروں کو پچھاڑنے لگے۔ آپؓ کی چمکتی تلوار کے نیچے وہ موسم خزاں میں گرنے والے پتوں کی طرح گر رہے تھے۔

مُسَیلمہ کا لشکر کمزور تھا نہ قلیل، بلکہ یہ مرتدین کا خطرناک ترین لشکر تھا۔ اپنی تعداد و تیاری اور اپنے جنگجوئوں کے کٹ مرنے کے جذبے کے اعتبار سے یہ ایک سے بڑھ کر ایک خطرہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ اس لشکر نے ایسی پامردی اور سختی کے ساتھ مسلمانوں کے حملے کی مزاحمت کی کہ قریب تھا کہ جنگ کی لگام ان کے ہاتھ میں آ جاتی اور وہ مزاحمتی صورتِ حال سے نکل کر حملہ آور کی حیثیت اختیار کرلیتے۔

اس موقع پر مسلمانوں کی صفوں میں ذرا سی بے دلی کا ظہور سامنے آیا تو مسلمان کمانڈر اور مقرر اپنے اپنے گھوڑوں پر بیٹھے بیٹھے فوج کو ثابت قدم رہنے کی نصیحت کرنے اور اللہ کے وعدے کی یاددہائی کرانے لگے۔ حضرت براء بن مالکؓ بلند آہنگ تھے، سپہ سالارِلشکر جناب خالدؓ بن ولید نے آپؓ کو بلایا کہ اے براءؓ! تم بھی اعلان کرو۔
حضرت براءؓ نے پوری قوت سے جرأت مندانہ اورہادیانہ اعلان کیا:

’’اے اہلِ مدینہ!… آج کسی مدینہ کے بارے میں نہ سوچو! آج صرف اللہ اور جنت کو نظروں کے سامنے رکھو!‘‘ یہ ایسے الفاظ تھے جو کہنے والے کی روح کی بلندی اور خوبیوں کی رفعت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اللہ اکبر… کیا الفاظ ہیں: ’’آج صرف اللہ اور جنت کو نظروں کے سامنے رکھو!‘‘ واقعی اس طرح کے مواقع پر دل و دماغ اور روح و فکر اللہ اور جنت کے سوا کسی اور طرف ہرگز نہیں جانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ اسلام کے دارالحکومت مدینہ منورہ اور وہ مقام جس میں مسلمان اپنے گھربار اور ازواج و اولاد چھوڑ کر آئے تھے، ان کے بارے میں سوچنا بھی مناسب نہ تھا۔ کیونکہ آج اگر مسلمان دشمن سے شکست کھا جاتے تو مدینہ باقی رہتا نہ گردوپیشِ مدینہ بچتا!

حضرت براءؓ کے الفاظ اسلامی افواج کے دل و دماغ میں اس طرح اتر گئے…! کس طرح…؟ اس سوال کا جواب نہیں دیا جا سکتا! کیونکہ ان الفاظ کے اثر و تاثیر سے کسی چیز کو تشبیہ دینا ظلم ہوگا۔ بس ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ جناب براءؓ کے الفاظ منہ سے نکلے اور اپنا کام دکھا گئے۔ تھوڑے ہی وقت میں معرکہ اپنی پہلی صورت حال پر لوٹ آیا یعنی مسلمان جم کر لڑنے لگے۔ اب مسلمان پیش قدمی کر رہے تھے اور اللہ کی بھرپور نصرت آگے بڑھ کر ان کا استقبال کر رہی تھی۔ مشرک بڑی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو کر زمین پر گر رہے تھے۔ حضرت براءؓ اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ تھے جو پرچم کے سائے تلے اپنی عظیم منزل کی طرف گامزن تھے۔

صلاۃ اللہ و سلامہ علی محمد و اصحابہ۔ مشرک پسپا ہو کر بھاگ اٹھے اور انھوں نے ایک بہت بڑے باغیچے میں داخل ہو کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی۔ اُدھر معرکہ مسلمانوں کے خون سے ٹھنڈا ہو رہا تھا ۔ اس بات کا امکان تھا کہ مُسَیلمہ اور اس کے سپاہی جو اس باغیچے میں جا چھپے ہیں، کہیں انجامِ جنگ پھر تبدیل نہ کردیں۔ اس وقت براءؓ ایک بلند ٹیلے پر چڑھے اور زوردار آواز سے کہنے لگے: ’’مسلمانو! مجھے اٹھائو اور اس باغ کے اندر ان دشمنوں کے اوپر پھینک دو۔‘‘

قارئین کرام! اس مضمون کے آغاز میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ حضرت براءؓ فتح و نصرت کے متلاشی و متمنی نہ تھے بلکہ شہادت کی تلاش و جستجو میں رہتے تھے۔ کیا مذکورہ واقعہ پڑھ کر ہمارے اس بیان کی تصدیق نہیں ہو جاتی! دراصل حضرت براءؓ اس منصوبے میں اپنی زندگی کا بہترین خاتمہ اور اپنی موت کی بہترین تصویر دیکھ رہے تھے اور اگر آپؓ کو اٹھا کر اس باغیچے میں پھینک دیا جاتا تو آپؓ مسلمانوں کے لیے اس کا دروازہ کھول دیتے۔ جونہی آپؓ باغیچے کے اندر گرتے اور اپنا کام انجام دینے کی کوشش کرتے تو مشرکوں کی تلواریں آپؓ پر ٹوٹ پڑتیں اور آپؓ کے جسم کی بوٹی بوٹی کرکے رکھ دیتیں۔ دوسری طرف بالکل اسی لمحے آپؓ کے لیے جنت کے دروازے آراستہ ہو رہے ہوتے اور ایک نئے اور معزز و مکرم دولھا کے استقبال کے لیے کھل جاتے۔

…………

اس موقع پر حضرت براءؓ نے اتنا انتظار بھی نہ کیا کہ لوگ آپؓ کو اٹھا کر باغیچے کی دیوار پر چڑھاتے اور اندر پھینکتے۔ آپؓ خود ہی دیوار پر چڑھے اور باغیچے کے اندر داخل ہو کر دروازہ کھول دیا۔ پھر اسلامی افواج اس کے اندر داخل ہو گئیں۔ مگر قدرت کے فیصلے دیکھیے کہ اس کے باوجود حضرت براءؓ کا خواب پورا نہ ہوا، مشرکین کی تلواریں آپؓ کو پاسکیں نہ وہ شہادت آپؓ کو مل سکی جس کی خواہش و تمنا آپؓ کے دل میں مچل رہی تھی۔

حضرت ابوبکرؓ نے سچ فرمایا: ’’موت کے حریص رہو، تمھیں زندگی عطا ہوگی!‘‘ اس روز اس عظیم بہادر کے جسد نے مشرکین کی تلواروں کی ۹۰ کے قریب ضربیں سہیں جن سے آپؓ کو اتنے ہی زخم آئے۔ جنگ کے بعد پورا ایک ماہ گزر گیا، حضرت خالدؓ بن ولید بذات خود آپؓ کی تیمارداری کرتے رہے۔ حضرت براءؓ نے جس قدر زخم کھائے اور تکلیف اٹھائی، یہ سب کچھ اس خواہش و تمنا کے حصول کے لیے تھا جو اس موقع پر حاصل نہ ہو سکی۔ لیکن اس کے باوجود آپؓ مایوس نہ ہوئے کیونکہ ہر دن کوئی نیا معرکہ کھڑا کر دیتا تھا جہاں آپؓ کو اپنی خواہش کے پورا ہونے کا امکان نظر آتا تھا۔

حضرت براءؓ کو رسول اللہﷺ نے خوش خبری دی تھی کہ آپؓ ’’مُستَجَابُ الدَّعْوَۃ‘‘ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ آپؓ کی دعا قبول کر لیتا ہے۔ اس لیے آپؓ ہمیشہ اپنے رب سے یہی دعا کرتے تھے کہ اللہ آپؓ کو شہادت عطا فرمائے۔ پھر آپؓ پر یہ بھی واجب تھا کہ آپؓ جلدبازی سے کام نہ لیں کیونکہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے! حضرت براءؓ اپنے زخموں سے شفایاب ہو گئے اور پھر ان اسلامی لشکروں کے ہمراہ چل پڑے جو ضلالت و گمراہی کی قوتوں کو انجام تک پہنچانے کے درپے تھیں۔ یہ قوتیں روم اور ایران کی عارضی اور فانی حکومتیں تھیں جو اپنی باغی و سرکش افواج کے ذریعے اللہ کی زمین پر قابض اور اس کے بندوں کو غلام بنائے ہوئے تھیں۔

اُدھر حضرت براءؓ کفر و اسلام کے ان معرکوں میں اپنی تلوار سے ضرب لگا رہے تھے، تلوار کی ہر ضرب کی جگہ جہانِ نو کی ایک بلند ترین دیوار بن رہی تھی جو جہان روشن ہوتے دن کی طرح واضح ہو رہا تھا۔

…………

عراق کے ساتھ مسلمانوں کی ایک جنگ کے دوران ایرانیوں نے اس بہیمیت و درندگی کا مظاہرہ کیا جو وہ کر سکتے تھے۔ ان کی افواج نے آگ سے تپی ہوئی زنجیروں کے ساتھ کُنڈے لگا رکھے تھے جنھیں یہ لوگ اپنے قلعوں کے اندر سے باہر پھینکتے تھے۔ جو بھی مسلمان ان زنجیروں کی زد میں آتا وہ ان سے خلاصی نہ پا سکتا اور یہ اس کو جلا کر رکھ دیتیں۔

حضرت براءؓ اور آپؓ کے مؤاخاتی بھائی جناب انسؓ بن مالک کو مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان قلعوں کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اسی دوران ان کُنڈوں والی زنجیروں میں سے ایک زنجیر اچانک حضرت انسؓ بن مالک پر آ پڑی۔ حضرت انسؓ اس زنجیر کو ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے جسم سے الگ نہ کرسکے کیونکہ وہ دہکتے ہوئے شعلے اگل رہی تھی۔

حضرت براءؓ بن مالک نے اس موقع کو بھی شہادت کا موقع خیال کیا، جلدی سے اپنے بھائی انسؓ کی طرف بڑھے، دونوں ہاتھوں سے زنجیر کو پکڑا اور پوری قوت کے ساتھ اس سے زور آزمائی کرتے ہوئے اسے توڑ ڈالا۔ حضرت انسؓ زنجیر سے خلاصی پا گئے لیکن حضرت براءؓ نے اپنے ہاتھوں پر نظر ڈالی تو وہ دکھائی نہ دیئے… ان کا سارا گوشت اتر چکا تھا اور جلی ہڈیوں کا صرف ڈھانچا رہ گیا تھا! لیکن قدرت کی شان دیکھیے کہ اللہ کی راہ کا یہ مجاہد علاج کے لیے کچھ وقت گزارنے کے بعد شفایاب ہو جاتا اور موت کا یہ عاشق ازسرِنو موت کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا۔
کیا اب ان کی تمنا پوری ہونے کا وقت آگیا ہے؟
یقینا… کیوں نہیں!
یہ ٹوسٹر کا مقام ہے۔ مسلمان اس مقام پر ایران کے مقابل ہیں اور حضرت براءؓ کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا موقع کون سا ہو سکتا تھا؟
اہوازی اور فارسی بہت بڑی تعداد میں اکٹھے ہو گئے تاکہ مسلمانوں کو نابود کردیں۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ بن خطاب نے کوفہ میں موجود اسلامی کمانڈر، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کو خط لکھا کہ اہواز کی طرف فوج بھیجو، بصرہ میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو بھی اہواز کی طرف فوج بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے کہا: ’’سہیلؓ بن عدی کو لشکر کا کمانڈر بنا کر بھیجو اوربراءؓ بن مالک کو ان کے ساتھ ہونا چاہیے!‘‘
پھر کوفہ اور بصرہ سے آنے والے دونوں لشکر اکٹھے ہو گئے۔ حضرت انسؓ بن مالک اور حضرت براءؓ بن مالک، دونوں عظیم بھائی اسلامی لشکر میں موجود تھے۔ جب دعوتِ مبارزت کے ساتھ جنگ کا آغاز ہوا تو تنہا حضرت براءؓ نے ایک سو ایرانیوں کو موت کی نیند سلایا۔ پھر لشکر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے اور دونوں اطراف سے کثیر تعداد میں مقتولین گرنے لگے۔
جنگ جاری تھی کہ کچھ صحابہ حضرت براءؓ کے قریب گئے اور آپؓ کو مخاطب کرکے کہا:
’’اے براءؓ! کیا تمھیں اپنے بارے میں رسول اللہﷺ کا یہ قول یاد ہے کہ ’’کچھ پراگندہ حال اور غبارآلود ایسے بھی ہیں جو دو بوسیدہ کپڑوں کے مالک ہیں اور ان کو کوئی مقام و مرتبہ نہیں دیا جاتا (لیکن) یہ اگر اللہ تعالیٰ کو کوئی قسم دے دیں تو اللہ ان کی بات رد نہ کرے گا، براءؓ بن مالک انہی میں سے ہیں۔‘‘
اے براءؓ! اللہ کو قسم دو کہ اللہ دشمنوں کو شکست دے اور ہمیں فتح یاب کرے!‘‘
ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوئے
’’یا اللہ! ان کی گردنیں ہمارے قبضے میں کر دے۔
یا اللہ! انھیں شکست دے دیجئے۔
اور ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما۔
اور مجھے آج اپنے نبیﷺ سے ملا دے!‘‘
اس کے بعد حضرت براءؓ نے اپنے مؤاخاتی بھائی حضرت انسؓ پر نظر ڈالی جو قریب ہی لڑائی میں مصروف تھے… ایک ایسی طویل نظر گویا اپنے بھائی کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ اس کے بعد مسلمانوں کے اندر جرأت و بہادری کی روح پڑ گئی۔ دشمن ان کے سامنے مجتمع نہ رہ سکا اور انھیں فتح مبین نصیب ہوئی۔

لیکن جنگ کے اختتام پر ایک مشرک ہاتھ کی ضرب آپؓ کو لگتی ہے۔ آپؓ کا جسم زمین کی طرف لڑکھڑا جاتا ہے۔ اسی دوران آپؓ کی روح ملأاعلیٰ کی طرف شہداء کی تقریبِ ازدواج اور بابرکت لوگوں کی تقریبِ عید میں شمولیت کے لیے محوِپرواز ہو جاتی ہے! دُور شہدائے جنگ کے درمیان حضرت براءؓ ضوئِ فجر کی مانند مسکراتا ہوا اپنا روئے مبارک بلند کیے، اپنے ہی پاکیزہ خون سے تر مٹی کی ایک مٹھی دائیں ہاتھ میں پکڑے دکھائی دے رہے تھے اور آپؓ کی تلوار آپؓ کے پہلو میں پڑی تھی۔ رضی اللہ عنہ

حوالہ: اردو ڈائجسٹ شمارہ فروری 2013 سے لیا گیا۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
بالکل نایاب بھائی۔۔۔ بچپن میں امی سونے سے پہلے روز اک صحابی کے ایمان لانے کا واقعہ سنایا کرتی تھیں۔۔۔ اب تو خواب و خیال ہوگئے وہ دن۔۔ میں سوچ رہا ہوں روز محفل میں کسی صحابی کا قصہ پیش کرنے کا۔۔ :)
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت خوب۔ اس طرح کے واقعات ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو سنانے اور پڑھانے چاہئیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ انہوں نے زندگی کیسے گزارنی ہے اور کن لوگوں سے زندگی گزارنے کے لئے راہنمائی لینی ہے۔
جزاک اللہ خیراً نین بھائی
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب۔ اس طرح کے واقعات ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو سنانے اور پڑھانے چاہئیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ انہوں نے زندگی کیسے گزارنی ہے اور کن لوگوں سے زندگی گزارنے کے لئے راہنمائی لینی ہے۔
جزاک اللہ خیراً نین بھائی
بالکل عاطف بھائی یہ بات ہے۔۔ میں آج دفتر میں اک ساتھی سے بات کر رہا تھا۔۔۔ تو یقین مانیے کہ وہ حضرت براء بن مالک کے نام سے بھی ناواقف تھا۔۔۔ :cry:
 

مہ جبین

محفلین
بے شک تمام صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روشن ستارے قرار دیا ہے ، ان ہی میں سے ایک روشن ستارہ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ بھی ہیں
سبحان اللہ
ایسے بہادر اور اولو العزم ہستیوں کے کارناموں سے ایمانی حرارت جوش میں آتی ہے
حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ جیسی بے شمار نادر و نایاب اور قابلِ فخرہستیاں ہی تھیں جن کے طفیل اسلام پوری دنیا میں پھلا پھولا

بے شک اللہ کے مقرب بندوں کے ذکر سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے
جزاک اللہ نیرنگ خیال
 
سبحان اللہ ،جزاک اللہ۔ اللہ پاک آپ کو بہت اچھی جزاء عطا کریں۔ دل خوش ہو گیا اور روح سرشار۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے اہلبیت اور صحابہ کرام ان مقدس ہستیوں کا ذکر ہمیشہ ہی ایمان کی تازگی اور قلب و روح کی سرشاری کا سبب بنتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بے شک تمام صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روشن ستارے قرار دیا ہے ، ان ہی میں سے ایک روشن ستارہ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ بھی ہیں
سبحان اللہ
ایسے بہادر اور اولو العزم ہستیوں کے کارناموں سے ایمانی حرارت جوش میں آتی ہے
حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ جیسی بے شمار نادر و نایاب اور قابلِ فخرہستیاں ہی تھیں جن کے طفیل اسلام پوری دنیا میں پھلا پھولا

بے شک اللہ کے مقرب بندوں کے ذکر سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے
جزاک اللہ نیرنگ خیال
بالکل اپیا۔۔۔ :)

سبحان اللہ ،جزاک اللہ۔ اللہ پاک آپ کو بہت اچھی جزاء عطا کریں۔ دل خوش ہو گیا اور روح سرشار۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے اہلبیت اور صحابہ کرام ان مقدس ہستیوں کا ذکر ہمیشہ ہی ایمان کی تازگی اور قلب و روح کی سرشاری کا سبب بنتا ہے۔
صد ہزار متفق :)
 

الشفاء

لائبریرین
سبحان اللہ۔۔۔
گلشن نبوی میں نمو پائے ہوئے ان پھولوں کی خوشبو کبھی باسی نہیں ہوتی۔اور ہمیشہ ان کا ذکر خیر ماحول کو پر کیف کر دیتا ہے۔۔۔ اللہ عزوجل ان کے صدقے ہم سیاہ کاروں کو بھی ان جیسا شوق لقاء عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔

سراسر پھول ہیں باغ محمد میں ہر اک جانب
صبا یہ سوچ کر خوش ہے یہاں خاروں میں ہم بھی ہیں۔
 
Top