حرامخور

حرامخور

حرامخور شہر میں داخل ہو چکا تھا۔

کب اور کیسے ہُوا، اِس بارے میں کوئی اتفاق نہیں تھا۔

اتفاق اِس بارے میں بھی نہیں تھا کہ اُس کی اصل شکل و ہیئت کیا ہے۔

کہ وہ شہر میں داخل ہو چکا تھا اِس کی پہلی واضح خبر تب ملی جب بخار کی دوا پینے والے بہت سے بچے جاں بحق ہو گئے اور تفتیشی ٹیم نے بتایا کہ حرامخور نے دوا میں ملاوٹ کر دی تھی۔

اس کے بعد کے پے در پے واقعات نے لوگوں کو خرامخور کی موجودگی کا مکمل یقین دلا دیا۔

چند ہی روز میں شہر کا نیا پُل زمین پر آ گرا۔ کسی نے کہا کہ حرامخور نے سمینٹ میں ملاوٹ کر دی ہے، اور کسی نے کہا کہ اُس نے پُل سے سریا چوری کر لیا ہے۔ دونوں صورتوں میں سب کو یقین تھا کہ یہ کام حرامخور کا ہی ہے۔

تیسرا بڑا واقعہ تب پیش آیا جب طوفانی بارشوں نے قریبی علاقوں میں گندم کی کھڑی فصلیں تباہ کر دیں۔ حرامخور نے راتوں رات فلور ملوں اور دکانوں سے آٹے کی زیادہ تر بوریاں غائب کر دیں۔ جو چند بچیں وہ لوگوں کو بڑی مشکل سے دگنی تگنی قیمت پر ہاتھ آئیں۔

اِس کے بعد تو شہر میں کہرام مچ گیا۔ حرامخور شہر کے چپے چپے میں اپنے آسیبی وجود کے ساتھ سرایت کر گیا۔ تھانوں میں مجرموں کی جگہ معصوموں کے نام ظاہر ہونے لگے اور بڑے بڑٰے سرکاری دفاتر، ہسپتالوں اور سکولوں میں افسروں ڈاکٹروں اور اساتذہ کو حرامخور نے کام سے روک دیا۔

لوگ تنگ آ کر شہر کی جامع مسجد کی جانب دوڑے اور بحث مباحثہ کرنے لگے۔ ایک انتہائی ضعیف بزرگ بمشکل اٹھے اور اٹھ کر محراب کی دائیں جانب ٹنگی آیت کی طرف اشارہ کیا

وَلَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِل

اشارہ دیکھ کر جن کو بات پہلے سمجھ آئی وہ پہلے اور جن کو بعد میں سمجھ آئی وہ بعد میں باہر کی جانب دوڑے اور آیت کے بیسیوں چھوٹے بڑے تعویذ بنوا کر اپنے گھروں دکانوں اور بچوں کے گلوں میں لٹکا دیے۔ کسی کے ذہن میں نہ آیا کہ بزرگ کا اشارہ آیت کے پیغام کی طرف تھا۔

“اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ”

تحریر: نوید رزاق بٹ
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے معاشرے کا المیہ جسے خوبصورت طریقے پر اجاگر کیا گیا۔

بہت اچھی تحریر ہے۔ بہت داد قبول فرمائیں۔
 
Top